عکس — قسط نمبر ۷

تالیوں کی تھمتی گونج میں ایبک نے فاطمہ کو تقریر کا دوبارہ آغاز کرتے سنا۔ وہ پھر شروع سے تقریر کر رہی تھی بجائے اسی جملے سے شروع کرنے کے جہاں سے وہ بھولی تھی۔ جس کا مطلب تھا اس کی تین منٹ کی تقریر اب چند سیکنڈز کے ضائع ہونے سے تین منٹ سے اوپر ہی جانے والی تھی، اگر وہ درمیان میں کہیں بے حد شاندار پرفارم کرتے ہوئے تیز رفتاری سے ان چند سیکنڈز کو کور نہ کر لیتی تو… کنیئرڈ کی ٹیم یک دم ٹینس نظر آنے لگی تھی۔ ان کی ٹیم پرفارمنس کا آغاز کیپٹن کی غیر متوقع بری پرفارمنس سے ہوا تھا۔ 30 سیکنڈ کے بعد ان کی کیپٹن ایک بار پھر پہلے کی طرح اٹکی تھی، پھر دوبارہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئی۔ ایبک نے بے حد ریلیکس انداز میں اپنی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگالی… ویسا ہی اطمینان وہاں بیٹھے تمام شرکا کی باڈی لینگویج میں چھلکنے لگا تھا۔ اس لیول کے مقابلے میں تقریر کے دوران دو بار بھولنا، ایک بار اٹکنا آپ کو ٹاپ تھری پوزیشنز سے باہر کرنے کے لیے بہت کافی تھا… اور فاطمہ اب پوزیشنز کی دوڑ سے باہر تھی۔




تقریر کے اختتام تک وہ دو اور غلطیاں بھی کر چکی تھی اور ہر غلطی کے بعد اس کی نروس نیس بڑھتی گئی تھی۔ ایبک نے اس کی باقی کی تقریر زیادہ دلچسپی کے بغیر سنی تھی۔ اسے اب کنیئرڈ کی دوسری ڈبیٹر کا انتظار تھا۔ فاطمہ جس شاندار استقبال کے ساتھ اسٹیج پر آئی تھی اتنی ہی خاموشی کے ساتھ وہ اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد اسٹیج سے ہٹی تھی۔ وہ پن ڈراپ سائلنس جو ایک چیمپئن ڈبیٹر کو پروٹوکول کے طور پر دی گئی تھی وہ اب اس کی غیر متوقع خراب پرفارمنس پر بے یقینی کی کیفیت اختیار کر گئی تھی۔ فاطمہ جھکے کندھوں اور سرکے ساتھ بے حد خاموشی کے ساتھ اسٹیج سے اتر رہی تھی۔ اس وقت دوسری بار ایبک کو لگا وہ اس چہرے کو پہلے کہیں دیکھ چکا تھا… کہاں؟ ایک لمحے کے لیے اپنے ذہن پر زور ڈاتے ہوئے وہ الجھا۔ اسے یاد نہیں آیا… شاید کہیں… ایسی ہی کسی debate یا declamation مقابلہ خطابت میں کہیں۔ اس نے خود ہی اپنے آپ کو جواب دینے کی کوشش کی۔ کسی مقابلے کے علاوہ وہ کنیئرڈ کی کسی لڑکی سے کہاں مل سکتا تھا، لیکن مسئلہ صرف یہ تھا کہ ایبک نے بہت کم تقریری مقابلوں میں کسی تماشائی کے طور پر شرکت کی تھی اگر اس نے فاطمہ کو کسی جگہ ایک مقرر کے طور پر دیکھا ہوتا تو وہ اسے کسی نہ کسی حد تک یاد ہوتی… اور اس سب کے باوجود اس لڑکی کا چہرہ اسے بہت شناسا لگا تھا۔
”کیا ہو گیا تم کو آج؟” اپنی سیٹ سنبھالتے ہی اس نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی نوین کو کہتے سنا۔ فاطمہ جواب نہیں دے سکی۔ اسٹیج پر اب نوین کا نام لیا جارہا تھا۔ وہ اس کا کندھا تھپک کر وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔ فاطمہ گم صم اس کو اسٹیج پر چڑھتا دیکھتی رہی۔
”کیا ہوا؟” مسز انیلا غفران اس کے پاس آکر چند لمحوں کے لیے بیٹھ گئی تھیں۔ ان کے لہجے میں مایوسی کے ساتھ ساتھ تشویش بھی تھی۔ انہوں نے کبھی فاطمہ کو اس سے پہلے اسٹیج پر آج جیسی حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ فاطمہ کے پاس اپنی اس خراب کارکردگی کے لیے کوئی ایکسکیوز نہیں تھا۔ وہ سرجھکائے بیٹھی رہی تھی۔
وہ نوین صلاح الدین کا دن تھا۔ اس نے اسٹیج پر وہ کسر پوری کر دی تھی جو فاطمہ نے چھوڑی تھی۔ کنیئرڈ ٹرافی ایبک اور اکبر کی ٹیم کے ہاتھوں ہارا تھا لیکن پہلی پوزیشن نوین نے لی تھی۔
فاطمہ نے ایبک کو دوسری پوزیشن لیے اکبر کے ساتھ شیلڈ اور ٹرافی لینے کے لیے دو بار اسٹیج پر آتے دیکھا تھا۔ ہر بار اسے دیکھتے ہوئے وہ درد کے ایک سمندر سے گزر رہی تھی۔ وہ مقابلہ، وہ ٹرافی، وہ تقریر… کچھ معنی نہیں رکھتی تھی اس کے لیے۔ اس کے نزدیک اہم صرف ایک شے تھی اسے پہچانا نہ جائے… وہ اسے شناخت نہ کرے۔ اس نے تین منٹ کی وہ تقریر جیسے ایک شناخت پریڈ کے دوران ایک خواہش کے ساتھ ایڑیاں رگڑتے گزارے تھے۔ وہ فاطمہ کی زندگی کی آخری انٹرکالجیٹ ڈیبیٹ تھی۔
……٭……




”تم کیوں چاہتے ہو کہ چڑیا اسکول چھوڑ دے؟” سوال اتنا اچانک اور ڈائریکٹ تھا کہ کچھ د یر کے لیے وہ جواب ہی نہیں دے سکا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی ڈنر کے بعد اپنے بیڈ روم میں سونے کے لیے آئے تھے۔ جب اس نے اپنی بیوی کے منہ سے یہ بات سنی۔ کوئی تردید یا جھوٹ فی الحال خطرناک ثابت ہوتا خاص طور پر جب اسے یہ پتا نہیں تھا کہ اس کی بیوی کو یہ بات کس سے پتا چلی ہے اور وہ کس حد تک ”کیا” جانتی تھی۔ پہلا شک اسے باربی ڈول پر ہوا تھا اور اگر وہ اس کی بیوی کی source of information تھی تو پھر معاملہ خطرناک نہیں ہوا تھا۔
”میں نہیں چاہتا کہ وہ اس اسکول میں پڑھے جہاں میری بیٹی پڑھتی ہے۔” اس نے کسی سوال جواب کے بغیر اپنی بیوی سے کہا تھا۔ اس کی بیوی کے لیے اس کا جہاں اتنی آسانی سے اسے سوال کا سیدھا جواب دے دینا غیر متوقع تھا وہاں جواب اس سے زیادہ شاکنگ تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے بے یقینی سے اپنے شوہر کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ چند مہینے پہلے تک یہی شخص خیردین کو ڈیوٹی آورز کے دوران اپنی نواسی کو اسکول سے لانے، لے جانے کی اجازت دیے ہوئے تھا اور اب یک دم یہ…
”کیوں؟” اس نے اس شاک سے جیسے باہر نکلتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”میں نہیں چاہتا وہ میری بیٹی سے ملے۔” جواب اب بھی اتنا ہی احمقانہ تھا۔
”تم اگر یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیٹی اس سے نہ ملے تو تمہیں یہ بات اپنی بیٹی کو سمجھانی چاہیے چڑیا کو اس کے لیے اسکول سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے میں اس پر غور کروں گا۔”
اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اپنے شوہر سے کیا کہے۔ وہ آج زندگی میں دوسری بار اسے بے تکی اور احمقانہ باتیں کرتا نظر آیا تھا۔ پہلے بھی یہ خیردین کا معاملہ تھا جس پر اس نے اپنے شوہر کو بدحواس پایا تھا اور آج پھر یہ اس کی نواسی کا مسئلہ تھا جس پر اسے اپنا شوہر کچھ عجیب بوکھلایا نظر آیا تھا۔
”تم مجھ سے اپنا پرابلم شیئر کیوں نہیں کر رہے؟” وہ بالآخر جیسے اس بلی چوہے کے کھیل سے تنگ آگئی تھی یا پھر اس معمے کو خود حل کرتے کرتے اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔
”کیا شیئر کروں تم سے؟” وہ اس کے سوال نما اعتراض پر عجیب سے انداز میں ٹھٹکا تھا۔
”وہ صرف تم جانتے ہو کہ تم کیا شیئر نہیں کر رہے مجھ سے… لیکن معاملہ صرف خیر دین کا چور ہونا اور چڑیا کا اس کی نواسی ہونا نہیں ہے۔” وہ چند لمحے جیسے ہونقوں کی طرح اپنی بیوی کا چہرہ دیکھتا رہا۔ یوں جیسے اسے اپنی بیوی کی بات سمجھ ہی نہ آپائی ہو… یا سمجھ میں آنے کے بعد بھی وہ یہ تسلیم نہ کر پارہا ہو کہ اس کی بیوی اتنے واضح الفاظ میں اس پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کرے گی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا کہنا چاہ رہی ہو تم؟” ایک typical مرد کی طرح اس نے جواب نہ دے پانے پر بلند آواز میں اس پر چلا کر اسے خائف کرنے اور موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی۔ چند لمحوں کے لیے اس کی بیوی کی آواز ہی نہیں نکل سکی۔ وہ زندگی میں پہلی بار اس پر چلایا تھا اور کس بات پر چلایا تھا۔ اس نے شدید بے عزتی محسوس کی تھی۔
”میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم مجھ سے سچ بولو۔” وہ اس بار اور ڈائریکٹ ہو گئی تھی۔ اس کے شوہر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”سچ؟… کیا جھوٹ بول رہا ہوں میں تم سے؟” اس نے اب بھی چلاتے ہوئے ہی کہا تھا۔
”یہ میں تم سے جاننا چاہ رہی ہوں کہ تم کیا جھوٹ بول رہے ہو مجھ سے؟” اس نے بھی اسی انداز میں چلاتے ہوئے شوہر کو جواب دیا۔ شادی کے اتنے سالوں میں آج پہلی بار وہ ایک دوسرے پر یوں چلا رہے تھے۔
”مجھے پورا حق ہے کہ میں ایسے کسی شخص کی اولاد کو اپنی بیٹی سے دور رکھوں جس سے مجھے نقصان پہنچا ہو۔” اس کے شوہر نے ایک بار پھر اپنی اسی بات کو ترمیم شدہ الفاظ میں دہراتے ہوئے کہا۔
”تم نے ممی کو کہا ہے کہ وہ پاپا سے کہہ کر تمہاری ٹرانسفر یہاں سے کروا دیں کیونکہ میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔” وہ بول نہیں سکا۔ یہ ایک غیر متوقع وار تھا اس کی بیوی کی طرف سے۔
”میں نے تم سے کب کہا کہ پاپا کو کہہ کر یہاں سے اپنی ٹرانسفر کرواؤ؟” وہ اب بھی اسی انداز میں بول رہی تھی اور اپنے شوہر کے بدلتے تیور اسے بری طرح خفا کر رہے تھے۔
”تم سے کس نے کہا؟” اس کے شوہر کی آواز یک دم کمزور ہوئی۔ جواب معلوم ہونے کے باوجود اس نے پتا نہیں کیا سوچ کر اپنی بیوی سے پوچھا تھا۔ چیزیں اگر کھلنے پر آتی ہیں تو کھلتی ہی کیوں چلی جاتی ہیں؟ اس نے ایک جھنجلاہٹ کے ساتھ سوچا تھا۔
”ممی نے بتایا ہے مجھے اورکون بتائے گا۔”
”میں نے پاپا سے بہت پہلے بات کی تھی ٹرانسفر کی… اب نہیں کی۔” اس کے شوہر نے کہا وہ اب اپنے بیڈ سائڈ ٹیبل کی دراز میں کچھ ڈھونڈنے بیٹھ گیا تھا۔ جھوٹ کا سارا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ جاتا ہے۔ بڑے جھوٹ چھوٹے جھوٹ… پھر ان سے چھوٹے۔ اس خاندان کا کوئی ایک فرد بھی مس ہو جائے تو پورا خاندان جھوٹ جھوٹ پکارنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی آج یہی ہورہا تھا ایک جھوٹ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے بعد اب اسے اس کے پورے خاندان کی ضرورت پڑ گئی تھی… جھوٹ جھوٹ کی اس پکار کو دبانے کے لیے۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۶

Read Next

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!