عکس — قسط نمبر ۴

نیند میں وہ ہڑبڑا کر کسی کی چیخوں اور رونے کی آواز سے اٹھا تھا۔ چند سیکنڈز میں اس نے وہ آواز پہچانی تھی۔ وہ چڑیا کی آواز تھی۔ ایبک نیم خوابیدگی کے عالم میں جیسے بستر سے نکل کر باہر بھاگا تھا۔ وہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا۔ نیم خوابیدہ آنکھوں کے ساتھ اپنے کمرے کے دروازے سے باہر نکلنے پر اس نے وہ منظر دیکھا تھا جو اگلے کئی سال اس کے ذہن کے ساتھ ایک آسیب کی صورت میں چپکا رہا تھا۔ وہ اوپر والی منزل پر اپنے کمرے کے دروازے سے آگے نہیں جا سکا تھا۔ ہذیانی انداز میں چیخیں مارتی ہوئی چڑیا بھاگتے ہوئے ناہموار قدموں سے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
”نانا… نانا۔” وہ چلا تے ہوئے خیر دین کو آوازیں دے رہی تھی۔




وہ سیڑھیوں کے وسط میں تھی اور سیڑھیوں کے بالکل اوپر اس نے اپنے انکل کو بے حد تیز رفتاری کے عالم میں اس کے پیچھے بھاگتے اور سیڑھیاں اترتے دیکھا تھا۔ ریلنگ کے پاس کھڑا ایبک لرز نے لگا تھا، اس نے زندگی میں اس سے زیادہ خوف کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یہ چڑیا کی ہذیانی چیخیں نہیں تھیں جس نے اس کے جسم میں خوف کی لہر دوڑائی تھی۔ یہ اس کا برہنہ جسم تھا جس نے ایبک کو دہشت زدہ کیا تھا۔ ریلنگ کو پکڑے وہ تھر تھر کانپتے ہوئے کسی مجسمے کی طرح کھڑا رہا۔ اس کے انکل نے چند جستوں میں نیچے زینوں پر پہنچ جانے والی چڑیا کو پکڑ لیا تھا۔ وہ پہلے سے زیادہ بلند آواز میں چلاتے ہوئے خیردین کو پکار رہی تھی۔ پھر ایبک نے اپنے انکل کو یکے بعد دیگرے چڑیا کے چہرے پر تھپڑ مارتے دیکھا پھر اس نے اپنے انکل کو دونوں ہاتھوں سے چڑیا کا منہ اور گلا دباتے ہوئے دیکھا۔ وہ اب زمین پر گری ہوئی تڑپ رہی تھی۔ اس کی وہ ہذیانی چیخیں بند ہو چکی تھیں۔ اس کے انکل فرش پر چڑیا کے اوپر جھکے اپنا ایک ہاتھ چڑیا کے منہ پر سختی سے جمائے دوسرے ہاتھ سے اس کا گلا دبا رہے تھے۔ ڈی سی ہاؤس میں اب ایک بار پھر وہی سناٹا تھا جو ہمیشہ رات کے اس پہر میں ہوتا تھا اور جسے یا تو باہر درختوں سے ا لّوؤں کی آواز توڑتی یا جینگروں کی… یا باہر رات کو لان میں کھلے چھوڑے جانے والے گارڈز کے کتوں کی۔
ریلنگ کو دونوں ہاتھوں سے تھامے پتے کی طرح کانپتے ایبک نے سب کچھ نیم خوابیدہ ذہن کے ساتھ کھلی آنکھوں اور پلکیں جھپکائے اور سانس لیے بغیر دیکھا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ فرش پر گری چڑیا کا تڑپتا ہوا وجود آہستہ آہستہ ہلنا بند ہوتا جا رہا تھا۔ وہاں اس کی آنکھوں کے سامنے جو کچھ ہو رہا تھا ایبک اسے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، اپنے ماؤف نیم خوابیدہ ذہن اور کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ۔ چڑیا رات کے وقت وہاں کیوں آئی تھی؟ ایبک کو یاد آ گیا۔
”Magnetic chess boardدیکھا ہے کبھی؟” اس نے تین دن پہلے لان میں ایک خرگوش کو پکڑنے کی کوشش میں اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے یک دم پلٹ کر چڑیا سے کہا۔ جو اسی کی طرح اس خرگوش کو پکڑنے کی کوشش میں بے حال ہو رہی تھی۔
”نہیں تو… تمہارے پاس ہے کیا؟” چڑیا بھاگتے بھاگتے رک گئی۔ وہ بری طرح ہانپ رہی تھی، اس نے رک کر جیسے اپنی بے قابو ہوتی ہوئی سانس کو بحال کرنے کی کوشش کی۔
”میرے پاس نہیں ہے، انکل کے پاس ہے۔ اتنا بڑا اور بہت خوب صورت۔” ایبک نے ہاتھوں کے ا شارے سے اس کا سائز بتایا۔ چڑیا بے اختیار امپریس ہوئی۔
”کہاں ہے؟”
”وہ جو اوپر ان کی لائبریری ہے نا، اس میں رکھا ہے۔” ایبک نے لوکیش بتائی۔
”مجھے لا کر دکھاؤ نا۔” چڑیا نے بے ساختہ فرمائش کی۔ ایبک چند لمحے سوچ میں پڑ گیا۔ یہ ذرا مشکل اور ناممکن سا کام تھا۔ وہ بہت وزنی چیس بورڈ تھا اور اس کا سائز اتنا تھا کہ وہ اس کو کسی طرح بھی چھپا کر اوپر والی منزل سے نیچے والی منزل پر گھر میں موجود نوکروں اور دوسرے افراد کو دھوکا دے کر نہیں لا سکتا تھا۔ سر کھجاتے ہوئے اس نے چڑیا کو یہ بتایا۔ چڑیا کا چہرہ بجھ گیا۔
”اوکے۔” اور اس بجھے چہرے اور او کے نے ایبک کو بے چین کر دیا۔
”اچھا میں کوئی راستہ تلاش کرتا ہوں۔” اور وہ راستہ اس نے بالآخر دو دن کے بعد تلاش کر لیا تھا۔ اس کی ممی اور آنٹی ویک اینڈ پر کسی فیملی فنگشن میں شرکت کے لیے لاہور چلی گئی تھیں۔ اس کے انکل ساتھ نہیں گئے تھے اور ایبک بھی ماں کے اصرار اور خفگی کے باوجود ساتھ نہیں گیا تھا۔ وہ ماں کو کیسے یہ بتا دیتا کہ اس کے پاس چڑیا کو Magnetic boardدکھانے کا ایک سنہری موقع آیا تھا اور وہ اسے کسی قیمت پر ضائع نہیں کر سکتا تھا۔
ویک اینڈ پر دونوں فیملیز کے گھر سے چلے جانے کے بعد گھر پر صرف ایبک اور اس کے انکل تھے۔ وہ دونوں بہت دیر تک ان کے گھر سے چلے جانے کا انتظار کرتے رہے اور پھر بالآخر مایوس ہو گئے۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ہال کمرے میں بیٹھے تھے جہاں سے گزر کر ہی وہ اوپر والی منزل پر جاسکتے تھے۔ شام ہو جانے پر بھی جب اس کے انکل گھر پر ہی رہے تو ایبک نے جیسے ایک اور منصوبہ بتایا۔ ان دونوں نے طے کیا تھا کہ ایبک کچن کا عقبی دروازہ جو نوکروں کے جانے کے بعد بند ہوجاتا تھا وہ رات کو کھول دے گا۔ چڑیا، خیردین اورحلیمہ کے سونے کے بعد اپنے کوارٹر سے نکل کر کچن میں آ جائے گی اور پھر وہ دونوں اوپر لائبریری میں جا کر نہ صرف وہ Magnetic chess دیکھیں گے بلکہ چیس کھیلیں گے بھی۔ وہ یہ پلان بنانے کے بعد شام کو ایک دوسرے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ایبک نے نوکروں کے جانے کے بعد دروازہ کھول دیا تھا اور بہت دیر وہ چڑیا کے انتظار میں نیچے ٹہلتا بھی ر ہا پھر وہ اوپر جاکر ویڈیو گیم کھیلنے لگا اور اسے نہیں پتا وہ گیم کھیلتے کھیلتے کب سویا تھا۔
”ہم نے تو چیس کھیلنی تھی۔” ایبک کو جیسے کرنٹ لگا۔ ”اور چڑیا چیس کھیلنے آئی تھی… تو پھر… انکل… اور چڑیا کے کپڑے… اور چڑیا کی چیخیں… وہ اس کو کیوں مار رہے تھے؟” ایبک نے ریلنگ کو پکڑے پکڑے کچھ آگے جھک کر دہشت زدہ ذہن کے ساتھ چڑیا کے تڑپتے ہوئے جسم کو دیکھنے کی کوشش کی ۔ چڑیا کا جسم اب آہستہ آہستہ حرکت کرنا چھوڑ رہا تھا… ایبک اس لمحے بھی کچھ اور نہیں سمجھ پایا تھا… ایک چیز کے سوا… چڑیا مر رہی تھی یا شاید مر گئی تھی۔
……٭……




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۳

Read Next

عکس — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!