اس دن ایبک سارا دن کسی نہ کسی بات پر اپنی ممی سے ضد کرتا رہا، اس نے کھانا ٹھیک سے نہیں کھایا تھا۔ ہوم ورک بہت خراب کیا تھا۔ اپنی ممی کے سمجھانے کے باوجود اس نے ایک بار چھوٹی بہن پر ہاتھ اٹھایا، ایک بار بھائی پر…اس کی ممی اس کے اس خراب موڈ کی و جہ سمجھنے سے قاصر تھیں اور ایبک خود بھی کسی کو یہ سمجھا نہیں سکتا تھا کہ مسئلہ تھا کیا۔ پہلے وہ چڑیا کو اگنور کر رہا تھا اور وہ ٹھیک تھا اور اب چڑیا اسے اگنور کرنے لگی تھی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا تھا۔
……٭……
شہربانو نے اپنی ممی کو وہ تیسری کال کی تھی جو دوسری طرف سے ریسیو نہیں کی گئی تھی۔ وہ یقینا فون کے قریب نہیں تھیں یا پھر کسی کام میں مصروف تھیں، اس نے انہیں دوبارہ کال کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا تھا۔ اس بار وہ انہیں تقریباً چھ مہینے کے بعد کال کر رہی تھی اور وہ بھی کسی فارمیلٹی سے زیادہ بڑی چیز نہیں تھی۔ ان کے درمیان فون کالز کا سلسلہ اس کی شادی اور پاکستان سیٹل ہونے کے بعد آہستہ آہستہ اسی طرح کم ہوتا گیا تھا۔ پہلے وہ ہفتے میں کم سے کم ایک بار ضرور بات کر لیتی تھیں، آہستہ آہستہ وہ مدت بڑھنے لگی۔ مثال کی پیدائش کے بعد تو یہ وقت اور بھی زیادہ ہو گیا… اور ہر دفعہ فون پر بات ہونے پر دونوں کے درمیان کسی جذباتی گرم جوشی کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ وہ حال احوال دریافت کرتیں، پندرہ بیس منٹ ایک دوسرے کو اپنی نجی اور پروفیشنل مصروفیات کے بارے میں بتاتیں۔ شہر بانو ان سے پاکستان آنے کا پوچھتی وہ اس سے امریکا… اور دونوں ایک جھوٹے ایکسکیوز کے ساتھ گفتگو ختم کر دیتیں۔ پھر اگلے کئی مہینے دونوں کے درمیان کسی رابطے کے بغیر گزر جاتے اور پھر دوبارہ اچانک ایک دن یا تو ا س کی ممی فون کر لیتیں یا شہربانو کو بیٹھے بٹھائے فون کی فارمیلٹی نبھانا یاد آ جاتا۔
وہ کبھی بھی اپنی ممی سے زیادہ کلوز نہیں رہی تھی۔ بچپن میں اس کی کل کائنات اس کا باپ ہی تھا۔ ماں ہمیشہ اس کے لیے ایک سیکنڈری فگر تھی۔ زندگی میں صرف ایک وقت ایسا آیا تھا جب وہ اپنی ماں کے بہت قریب ہوئی تھی اور وہ ان کی بیماری کا زمانہ تھا۔ انہیں بریسٹ کینسر ہو گیا تھا اور زندگی میں پہلی بار شہربانو نے ان کے علاج کے دوران تحمل سے ان کا خیال رکھنے اور ان کے پاس رہ کر ان کی دیکھ بھال کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کی ماں اس کے لیے بہت عرصہ شکر گزار رہی تھی۔ وہ واحد وقت تھا جب ان کے درمیان موجود کئی سال پرانی تلخی کچھ عرصے کے لیے غائب ہو گئی تھی اور شکوے، شکایات اور الزامات کی وہ بوچھاڑ جس کا وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو نشانہ بناتی تھیں رک گئی تھیں۔
دس سال کی عمر میں اپنے باپ کی پراسرار حالات میں ہونے والی موت کے بعد شہربانو کبھی پاکستان نہیں آ سکی تھی اور امریکا شفٹ ہو جانے کے بعد ایک لمبا عرصہ وہ ذہنی طور پراپ سیٹ رہی تھی۔ وہ ایک گھر سے یکدم جیسے کسی جنگل میں آ گئی تھی۔ مزید خرابی شرمین کی دوسری شادی نے کی تھی۔ وہ ماں سے پہلے ہی زیادہ اٹیچ نہیں تھی اور رہی سہی کسر اس احساس نے پوری کر دی تھی کہ اس کی ممی نے اس کے پاپا کی جگہ کسی اور کو دے دی تھی۔ وہ دو تین سال اس کی زندگی کے بدترین سالوں میں سے تھے۔ اس نے کبھی اپنے باپ کی کمی کواس طرح محسوس نہیں کیا تھا جس طرح وہ اب کرتی تھی۔ شرمین، شہباز کی کوئی چیز اپنے ساتھ امریکا نہیں لائی تھی حتیٰ کہ اس کی کوئی تصویر تک۔ وہ جیسے دانستہ یہ کوشش کر رہی تھی کہ شہربانو کے ذہن سے اس کے باپ کا تصور تک ختم کر دے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ تصور اس کے ذہن کے پردوں پر کچھ اور پکا ہو گیا تھا۔ دو تین سال ایک بچے کے طور پر وہ ہر جگہ اپنے باپ کو ڈھونڈتی پھرتی تھی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ مر چکا تھا وہ کبھی کسی پارک کسی سڑک کسی شاپنگ مال میں اپنے پاس سے گزرتے ہر مرد کے چہرے میں ایک ہی چہرہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی۔ وہ چہرہ جو اسے یکدم اس کی بے خبری میں اٹھا کر اپنی بانہوں کے گھیرے میں اپنے سینے میں چھپا لیتا تھا۔ وہ ہاتھ جو اسے ہوا میں اچھا لتے تھے اور اس کی کھلکھلاہٹوں پر اسی کی طرح کھلکھلا کر ہنس دینے والا چہرہ۔ وہ انگلی جسے پکڑ کر چلتے ہوئے وہ جیسے دنیا بھر عبور کر سکتی تھی۔ وہ جس کے سامنے وہ فرمائشوں کا انبار لگا دیتی تھی۔ شہر بانو کئی سال لوگوں کے چہروں میں اپنے پاپا کا چہرہ تلاش کرتی رہی تھی اور اس ساریeffort نے شرمین سے اس کی نفرت اور بیزاری میں اضافہ کیا تھا۔
سوتیلا باپ برا آدمی نہیں تھا۔ اس کے اور شرمین کے درمیان شادی کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ شرمین شہر بانو کو اپنے ساتھ رکھے گی۔ شادی کے بعد بھی اگر چہ شہر بانو نے پوری کوشش کی تھی کہ شرمین اسے نانا کے گھر پر ہی چھوڑ دے جہاں رہنے کی وہ اب عادی ہو چکی تھی لیکن شرمین اس پر تیار نہیں ہوئی تھی۔
فاروق ایک چھا انسان تھا اور اس نے شہر بانو کے ساتھ بہت محبت اور شفقت دکھائی۔ شہر بانو پر ایک خاص حد تک اس محبت اور شفقت کا اثر بھی ہوا تھا۔ ماں سے اس کی ناراضی اور رنجشیں تو ختم نہیں ہوئی تھیں لیکن وہ باپ سے قریب ہو گئی تھی لیکن اس قربت کو فاروق اور شرمین کی پیدا ہونے والی بیٹی نے ختم کر دیا تھا۔ فاروق کی اپنی پہلی وائف سے دو بیٹے تھے۔ شرمین سے اس کی بیٹی ہو گئی تھی۔ شہر بانو کی اہمیت یک دم ایک بار پھر ختم ہو گئی تھی۔ یہ خیال شہر بانو کا تھا اور شرمین کی بے ا نتہا کوشش کے باوجود وہ یہ خیال ترک کرنے پر تیار نہیں تھی۔ ڈیڑھ سال بعد اس بچی کا انتقال ہو گیا تھا۔ شرمین اور فاروق نے اس کے بعد کوئی اور بچہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ ایک اور سال تھا جب شرمین نے اپنے اور شہر بانو کے ریلیشن شپ کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔ اگلے چند سال اس کے اور شہربانو کے اچھے سالوں میں سے تھے۔ شہر بانو باپ کواب بھی اپنی زندگی اور ذہن سے الگ نہیں کر پائی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ تلخی اور رنجیدگی اس کے اندر سے کم ہونے لگی تھی۔ جو پورے لڑکپن میں اس کا حصہ رہی تھی۔ شہربانو کے یونیورسٹی جانے کے بعد یہ تعلقات کچھ اوربھی بہتر ہو گئے تھے لیکن شرمین کی بیماری وہ واحدٹائم پیریڈ تھا جس میں شہربانو کی طرف سے شہباز کی موت کے بعد سے پہلی بار شرمین کے لیے کسی قسم کی جینینئن ایموشنل وابستگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ وہ ماں کے لیے متفکر تھی۔ شرمین کی صحت یابی اس وقت اس کی سب سے بڑی ترجیح تھی، شرمین کو صحت یاب ہوتے ہوئے تقریباً دو سال لگ گئے تھے لیکن ان دو سالوں میں شہربانو اور شرمین کی جیسے نئے سرے سےbonding ہوئی تھی اور اسbonding کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت پہنچا تھا جب شہر بانو نے پہلی بار شرمین کو شیر دل میں اپنی دلچسپی اور اس کے پروپوزل کے بارے میں بتایا تھا۔ شرمین نے شیر دل کے آدھے تعارف کے بعد ہی اسے روک دیا تھا اور بے حد سرد مہری سے کہا تھا۔
”میں جانتی ہوں اسے اور میں مر کر بھی تمہاری شادی اس سے نہیں ہونے دوں گی۔”
……٭……
وہ سبق جو خیر دین اسے ہمیشہ دیتا تھا اور وہ سمجھ نہیں پاتی تھی وہ ایبک کی ایک چھوٹی سی حرکت نے اسے سمجھا دیا تھا۔ چڑیا جان گئی تھی کہ صاحب لوگ اس لیے ان جیسے نہیں تھے کیونکہ وہ کوئی بھی چیز خرید کر استعمال کرتے تھے مانگ کر نہیں اور وہ چیز جو مانگ کر لی جاتی ہے وہ کبھی بھی کوئی چھین سکتا ہے۔ اس نے اس ریکٹ کو چھونے اور ٹینس کھیلنے کا شوق پورا کر لیاتھا اور اس لیے بس اتنی ہی کافی تھا۔
وہ چند ہفتوں میں کھیل میں ماہر نہیں ہو سکتی تھی اور کھیل سیکھ لینے کے بعد بھی وہ دوبارہ اس کھیل کو کھیلنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھی۔ اسکول میں ٹینس کی سہولیات نہیں تھیں اور ڈی سی ہاؤس میں اب کوئی ایبک نہیں ہوتا جو اسے اپنا ریکٹ بھی دیتا، کوچنگ بھی کرتا اور اس کے ساتھ کھیلتا بھی… وہ بڑے لوگوں کا کھیل تھا… صاحب لوگوں کا… وہ چڑیا کا کھیل نہیں تھا۔ یہ سب اسے خیردین نے پیار سے سمجھایا تھا اور اس بار چڑیا کو پہلی بار تکلیف سے ہی سہی لیکن اپنی سوشلstanding سمجھ آ گئی تھی۔
لیکن ایبک سے وہ دور نہیں رہ سکتی تھی۔ خاص طور پر اب جب وہ ایک بار پھر سے چڑیا کو اپنا دوست بنانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ اسے نہ یہ پرواہ تھی کہ ممی ناراض ہوں گی نہ اس بات کی پروا کہ چڑیا کی و جہ سے کئی بار اپنا ہوم ورک بھی چھوڑ رہا تھا اور کچھ ایسا ہی حال چڑیا کا بھی تھا۔ ایک آدھ بار خیر دین کی نصیحتوں کے زیرِ اثر رہنے کے بعد ایک بار پھر ایبک کی گرویدہ تھی۔ چڑیا نے ٹینس کھیلنا بند کیا تھا تو ایبک کی دلچسپی بھی ٹینس میں یک دم ختم ہو گئی تھی۔ وہ انکل اور ممی کے کہنے کے باوجود ٹینس کی پریکٹس کے لیے نکلنے سے کتراتا لیکن ٹینس نہ کھیلنے کے باوجود وہ دونوں دن میں کئی بار ایک دوسرے سے ملتے۔ فریزبی کھیلتے، شطرنج کھیلتے۔ ایبک کی پھینکی ہوئی ڈسک آہستہ آہستہ چڑیا کے ہاتھ میں آنے لگی تھی۔ صرف پہلی بار فریزبی کھیلتے ہوئے ایسا ہوا تھا کہ ڈسک پکڑنے کی کوشش میں ڈسک چڑیا کے ہاتھ میں تو آ گئی تھی لیکن اس کے ہاتھ کوبری طرخ زخمی بھی کر گئی تھی۔ چڑیا نے شدید تکلیف کے باوجود منہ سے آواز نہیں نکالی تھی۔ وہ ایبک پر کمزوری کا اظہار نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ کہتا وہ ایک ڈسک بھی کیچ نہیں کر سکتی۔ شدید تکلیف کے ساتھ اس نے ہاتھ میں پکڑی ڈسک دوبارہ ایبک کی طرف پھینکنے کی کوشش کی تھی لیکن ٹھیک سے پھینک نہیں سکی تھی اور اس وقت ایبک نے بہت دور کھڑے بھی اس کی تکلیف کا اندازہ کر لیا تھا۔
”تمہیں ہاتھ پر چوٹ لگی ہے کیا؟” ایبک نے دور سے ہی آواز دے کر پوچھا۔
”نہیں تو…” چڑیا نے بے ساختہ کہا لیکن ایبک اس کی طرف بھاگتا آیا تھا۔ اس نے پاس آ کر چڑیا کا ہاتھ دیکھا جو صحیح طرح سیدھا بھی نہیں ہو رہاتھا اور ہلکی سی پیلاہٹ اور سوجن نظر آنے لگی تھی۔
”تم کو چوٹ لگ گئی اور تم نے بتایا بھی نہیں۔” ایبک اس کا ہاتھ پکڑے پکڑے افسوس سے بولا۔
”تم نے بہت زور سے ڈسک پھینکی تھی۔” چڑیا نے ہلکی سی آواز میں کہا۔