پچھلے پانچ چھ سالوں میں ان کی بہت کم ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ خاص طور پر شیر دل کی شادی کے بعد تو تقریباً نہ ہونے کے برابر۔ اس کے باوجود شیر دل کو اس کے بارے میں سب کچھ پتا چلتا رہتا تھا یا پھر وہ خبر رکھتا تھا۔
شہر بانو سے منگنی کے چند مہینوں بعد ہی اسے عکس کی اسلام آباد میں پوسٹنگ کے بارے میں پتا چلا تھا۔ شیر دل بوسٹن میں بیٹھا تین دن اس اطلاع کو ہضم کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ وہ اس سے پہلے پشاور میں تھی۔ پشاور سے سیدھا اسلام آباد جیسی Coveted position پر جہاں تمام Political اور ملٹری Big wigs اپنے بچوں اور بھانجے بھتیجوں کو پوسٹ کروانے کے لیے جوڑ توڑ کرتے پھر تے تھے وہاں ایک خاتون آفیسر اور وہ بھی عکس مراد علی کی تعیناتی حیران کن تھی اور شیر دل سے یہ کیسے ہضم ہو سکتی تھی جب وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر وہ فل برائٹ اسکالر کے طور پر ہارورڈ میں نہ ہوتا تو اس وقت اسلام آباد کی اس سیٹ پر اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر وہ تعینات ہوتا۔ ایک سیکرٹری کے بیٹے کے طور پر وہ جیسے اپنا حق سمجھتا تھا، کسی امتحان کو ٹاپ کر کے سول سروس میں آنا اور بات تھی لیکن عملی میدان میں اچھی پوسٹنگز پر ہونے کے لیے کچھ دوسری قابلیتوں کا ہونا ضروری تھا اور شیر دل کے پاس وہ چیک لسٹ پوری تھی۔
اسلام آباد کی وہ تعیناتی میرٹ پر ہوتی تب بھی ٹائی DMG کے انہیں دو جونیئر آفیسرز کے درمیان ہوتی اور شیر دل کو ایک مرد آفیسر کے طور پر ترجیح دی جاتی لیکن اب عکس مراد علی وہاں تھی جہاں وہ ہونا چاہتا تھا اور نہیں ہو سکتا تھا۔
”She is lady luck’s blue-eyed girl” اس کے اسی کے بیج میٹ نے ہنستے ہوئے شیر دل کو بتایا تھا جس نے اسے اس کی دارالحکومت میں پوسٹنگ کے بارے میں بتایا تھا۔
”وہ تو وہ ہمیشہ سے ہے لیکن یہ پوسٹنگ…” شیر دل اب بھی اسی طرح ہکا بکا تھا۔
”پشاور میں امریکی ایمبسی اور US Aid والوں کے ساتھ بہت کام کیا ہے اس نے۔ کہتے ہیں کہ اس کی اس پوسٹنگ میں انہی کی کار فرمائی ہے وہ بڑے متاثر ہیں اس خاتون کی قابلیت سے۔”ظفر نے ان وجوہات کو بیان کیا جو اس کے خیال میں عکس کی پوسٹنگ کی اصلی وجہ تھی۔ شیر دل نے ظفر کے اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا وہ جانتا تھا اسلام آباد کی اس پوسٹنگ پر پاکستان کے اندر اور باہر موجود DMG کے تمام جونیئر آفیسرز اس وقت اسی طرح کے تبصرے فرما رہے ہوں گے۔ وہ کچھ انگور کھٹے والی صورت حال تھی اور شیر دل عکس سے بے حد جیلس ہونے کے باوجود اپنے حسد میں اس حد تک نہیں جاتا تھا کہ وہ اس کے پروفیشنل ہونے یا قابلیت کے حوالے سے سوال اٹھاتا یا اعتراضات کرتا۔
شہر بانو سے منگنی کے بعد عکس اور اس کے درمیان غنی حمید کے حوالے سے Argument ہوا تھا۔ وہ غنی کو شدید ناپسند کرتا تھا اور اکیڈمی میں ٹریننگ کے دوران غنی واحد آفیسر تھا جس کے ساتھ شیر دل کی بول چال بھی نہیں تھی اور عکس اور غنی کی قربت اور متوقع شادی کے حوالے سے نافع سے علم ہونے کے بعد شیر دل کوشش کے باوجود اپنے آپ کو ری ایکٹ کرنے سے روک نہیں سکا تھا۔ جواباً وہی ہوا تھا جس کا شیر دل کو توقع نہیں تھی لیکن اسے کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔ غنی کے معاملے پر ان کی آپس میں جس نوعیت کی گفتگو ہوئی تھی اس کے بعد شیر دل نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ عکس سے دوبارہ کبھی رابطہ نہیں کرے گا۔
بوسٹن سے واپس آنے کے بعد اپنی شادی کے بعد لاہور میں پوسٹنگ کے دوران اس نے عکس کو اسلام آباد میں 14 اگست کی پرچم کشائی کی تقریب کی لائیو کوریج میں TV پر دیکھا تھا۔ وہ تقریب کے مختلف انتظامات کے سلسلے میں بار بار ادھر سے ادھر پھر رہی تھی۔ بالوں میں ٹکائے یا پھنسائے سن گلاسز، کندھے پر لٹکائے ایک بیگ اور ہاتھ میں پکڑے ایک وائرلیس کے ساتھ وہ پنڈال میں سینئر آفیسر اور غیر ملکی مندوبین کے درمیان شٹل کاک بنی نظر آ رہی تھی۔ وہ ان بہت کم مواقع میں سے ایک موقع تھا جب شیر دل اسے کسی افراتفری میں دیکھ رہا تھا اور پرچم کشائی کی اس تقریب کو پاکستان پرچم کے لیے اور شیر دل، عکس کے لیے دیکھ رہا تھا۔ اگر اس تقریب میں وہاں جامرز کام نہ کر رہے ہوتے تو شیر دل سیل پر اسے کوئی نہ کوئی ٹیکسٹ ضرور کر دیتا اور اس ٹیکسٹ کے جواب میں شیر دل کو جو جواب ملنا تھا اس سے اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے لیکن وہ پھر بھی یہ رسک لینے میں تامل نہ کرتا۔
شیر دل کی سوچوں کا تسلسل یک دم ٹیبل پر پڑے سیل فون کی آواز سے ٹوٹا تھا۔ اس نے بے اختیار آگے بڑھ کر سیل فون اٹھایا وہاں عکس مراد علی کا نام چمک رہا تھا۔ وہ اسے کال بیک کر رہی تھی۔
……٭……
وہ پہلی بار تھا جب کسی نے چڑیا کا دل اتنی بری طرح سے توڑا تھا۔ وہ پندرہ منٹ زرد چہرے کے ساتھ ٹینس کورٹ پر اس کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے بار بار سروس کرنے والے ایبک کو چپ چاپ دیکھتی رہی۔ کٹ میں دوسرا ریکٹ اس لیے نہیں تھا کہ ایبک اس کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتا تھا اور یہ فیصلہ اس نے کیوں کیا تھا، یہ چڑیا کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن خود کو اس طرح نظر انداز کیے جانے کی تکلیف اسے شدت سے ہوئی تھی خاص طور پر اس لیے کہ ایبک اتنے ہفتوں سے اسے وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیتا آرہا تھا۔
”تم مجھ سے ناراض ہو؟” چڑیا نے جیسے مصالحت کی کوشش کی تھی، جواب نہیں ملا تھا۔
”ایبک!” چڑیا نے اسے ایک بار پھر پکارا۔ وہ اس بار اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے دور ایک کیاری میں جا کر ٹینس بالز ڈھونڈنے لگا۔ مصالحت کی ساری کوششیں بری طرح ناکام ہوئی تھیں۔ وہ چند منٹ اور وہاں کھڑی رہی پھر جتنے جوش و خروش کے ساتھ وہ ٹینس کورٹ پر آئی تھی اتنی ہی خاموشی اور رنجیدگی کے ساتھ وہ ٹینس کورٹ سے چلی گئی تھی لیکن ٹینس کورٹ سے اپنے کوارٹر تک واپسی میں چڑیا آنسوؤں سے روتی رہی تھی۔ اس دن اس نے کئی ہفتوں کے بعد کنٹا، منٹا، ڈیڈو، ٹوکو کو اپنے ساتھ پایا ورنہ اتنے ہفتوں میں وہ پتا نہیں کہاں غائب ہو چکے تھے۔
ایبک جب کیاریوں میں پڑی ہوئی گیندوں کو اکٹھا کر کے پلٹا چڑیا وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔ ٹینس سے یک دم اس کا دل اچاٹ ہوا تھا۔ وہ اس کی دوست تھی، اسے اچھی لگتی تھی اور وہ اتنے دن سے اس کے ساتھ کھیل رہی تھی جس کے لیے اس کو اس طرح اگنور کر دینا آسان نہیں تھا۔ ٹینس کٹ کو وہاں سے اٹھائے بغیر وہ بے حد خراب موڈ میں اندر چلا گیا تھا۔
چڑیا نے اس رات کھانا نہیں کھایا تھا۔ وہ سہ پہر سے رات تک خیر دین کے واپس آ جانے تک کنٹا منٹا سے باتیں کرتی رہی تھی۔ اس کی ماں نے بار بار آ کر اس کو کھانے کے لیے کہا تھا لیکن وہ بہانے بناتی رہی۔ اس نے ماں کو ایبک کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا لیکن خیردین کو دیکھتے ہی وہ رونے لگی۔ وہ پریشان ہو گیا۔ اسے ساتھ لپٹاتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”کیا ہوا چڑیا؟ کیوں رو رہی ہو؟”
”نانا، ایبک مجھ کوٹینس نہیں کھلاتا۔” اس نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ خیردین کے مسلسل استفسار پر کہا۔ خیر دین ٹھٹکا پھر اس نے اسے ساتھ لپٹا کر بہت پیار کرتے ہوئے کہا۔
”کیوں بیٹا؟”
”پتا نہیں نانا… بس وہ مجھ سے بات بھی نہیں کر رہا اور مجھ کو ٹینس بھی نہیں کھلا رہا۔” گالوں پر بہتے آنسوؤں کے ساتھ چڑیا نے خیردین سے کہا۔
”میں تمہیں اسی لیے منع کرتا تھا نا کہ تم وہاں مت جایا کرو اور ان کے ساتھ مت کھیلا کرو۔” خیردین نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا نانا۔” آنسوؤں کا ایک نیا سیلاب چڑیا کی آنکھوں میں امڈ آیا تھا۔
”میں جانتا ہوں بیٹا، تم نے کچھ نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے ایبک کو صاحب یا اس کی ممی نے تمہارے ساتھ کھیلنے سے منع کیا ہو۔” چڑیا کے دل کو ایک نیا دھچکا پہنچا تھا۔
”لیکن کیوں نانا؟”
”بیٹا وہ افسر لوگ ہیں، صاحب لوگ ہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں نا۔” خیردین اس کو جو سمجھا رہا تھا وہ ایک بچے کا ذہن نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ سماجی فرق اور عدم مساوات… بڑوں کی دنیا کے معیار اور تعریفیں تھیں۔ بچوں کی دنیا کے ضابطے کچھ اور ہوتے ہیں۔
”تم اب وہاں مت جانا۔” اسے بہت کچھ سمجھانے کے بعد خیر دین نے اسے کہا۔ چڑیا نے بوجھل دل کے ساتھ سر ہلا دیا۔ اس کی فیری ٹیل کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
ایبک اگلی سہ پہر ٹینس کورٹ پر آتے ہی چڑیا کو ڈھونڈتا رہا۔ وہ کسی پیڑ پودے کے پیچھے نہیں تھی۔ نہ ہی وہ اس دن ٹینس کورٹ پر آئی تھی۔وہ اکیلا اور کچھ نہیں تو ٹینس سرو کی ہی پریکٹس کر لیتا تھا لیکن اب اس سے وہ بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ چڑیا کا حیران اور اداس چہرہ اسے کل سے اپ سیٹ کر رہا تھا اور اب اس کی عدم موجودگی اس کے لیے مزید پریشان کن تھی۔ مسئلہ ٹینس یا چیس کا نہیں تھا مسئلہ ان باتوں کا تھا جو وہ اس سے شیئر کرتا تھا۔ وہ باتونی تھا اور گھر میں موجود تمام بچے اس سے چھوٹے تھے اور اس کو بے وقوف لگتے تھے۔ واحدچڑیا تھی جس کو اس کی ہر بات سمجھ آتی تھی۔ اس کے نہ آنے کا مطلب اس کا پارٹنر کھو جانا بھی تھا۔