میوزک ٹیچر سر جیمز کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے لاشعوری طور پر اسے ہدایات دے رہے تھے لیکن وہ جانتے تھے چڑیا کو ان کی ہدایات کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس کلام کو گانے میں استاد تھی۔ تمام اسمبلی اب چڑیا کے ساتھ Devotional Song کو گا رہی تھی۔
”خدا میرے تو بخش کر”
پہلی تین لائنز کورس کی شکل میں گانے کے بعد آخری لان پھر چڑیا نے گائی تھی… وہ ایک Ritual تھی۔ وہ میٹھی ملائم، مدھر آواز اب کی بورڈ کے C-Major نوٹس پر High notes سے Low میں آتے ہوئے اس Song کا اختتام کر رہی تھی۔ اسمبلی میں گونجتی تالیوں کے درمیان چڑیا ایک اور Flawless rendition کے بعد اسٹیج سے اتری تھی اور اس وقت اس نے باربی ڈول کو بھی دائیں جانب بنی لائنز میں کھڑے دیکھا تھا جو اس کے لیے جوش کے عالم میں تالیاں بجا رہی تھی۔ مانٹیسوری ونگ ہفتے میں ایک بار کمبائنڈ اسمبلی اٹینڈ کرتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ باربی ڈول اس دن مکمل طور پر چڑیا کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی۔ اس کی آواز کے عشق میں، اس کے اسٹار ڈم کے عشق میں جو اس کا اسکول میں تھا… اور اس Red sach کے عشق میں جو اس کے کندھے پر سجی ہوئی تھی۔
اس دن سہ پہر کو ہوم ورک کرتے ہوئے باربی ڈول لاشعوری طور پر وہی Devotional song گاتی رہی جو اس نے اسمبلی میں چڑیا سے سنا تھا اور اس کی ماں نے یہ نوٹس کیا تھا۔ اس کے پوچھنے پر باربی ڈول نے اسے چڑیا کے Heroics کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی ممی مسکراتے ہوئے اس سے یہ سب سنتی رہی تھیں پھر انہوں نے باربی ڈول سے کہا تھا۔
”اچھا چلو سنوں گی میں بھی اس سے کسی دن کچھ…” لیکن اس کی ممی نے چڑیا سے کچھ سننے کی کوشش نہیں کی تھی۔ گھر میں ایڈجسٹ ہو جانے کے بعد وہاں ان کی مصروفیات شروع ہو چکی تھیں اور ان مصروفیات میں نوکر کی ایک نواسی سے کوئی Devotional song سننے میں کس کو دلچسپی ہو سکتی تھی۔
البتہ چڑیا اور باربی ڈول اب اسکول میں ایک دوسرے کے کچھ زیادہ کلوز ہو گئی تھیں لیکن گھر میں یہ دوری اب تک برقرار تھی لیکن ایبک کی آمد نے جہاں اور بہت سی جگہوں سے برف پگھلائی تھی وہاں یہ برف بھی پگھلا دی تھی۔ چڑیا اب آہستہ آہستہ اس وقت وہاں آنے لگی تھی جب گھر میں موجود بچے کھیل رہے ہوتے ہاں البتہ بڑوں کی موجودگی میں وہ ایک بار پھر اسی طرح چھپ کر سب کچھ دیکھنے کی کوشش کرتی تھی۔
ایبک کے بعد باربی ڈول اس گھر کا دوسرا فرد تھی۔ آٹھ سالہ وہ بچی غیر معمولی حد تک دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی اور ایک بے حد Likable پرسنالٹی کی مالک تھی۔ اس کے نام اور کام کی بازگشت صرف باربی ڈول اور ایبک تک ہی محدود نہیں رہی تھی وہ آہستہ آہستہ گھر کے دوسرے افراد تک بھی پہنچنے لگی تھی۔
ایبک نے ایک دن اپنے انکل کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے کہا۔ ”انکل جب شطرنج بورڈ پر کوئین سب سے پاور فل ہے تو پھر بورڈ تو کوئین کا ہونا چاہیے… کوئین ہی کو کنگ ہونا چاہیے۔” ایبک نے چڑیا کی زبان سے سنی ہوئی لاجک اپنے انکل کے سامنے پیش کر دی تھی۔ ایبک کی ممی بھی اس وقت کوئی میگزین دیکھتے ہوئے وہیں موجود تھیں۔
”انٹرسٹنگ!” انکل نے چال چلتے ہوئے بے اختیار ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
‘‘ہونا چاہیے نا؟” ایبک نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”ہونا چاہیے لیکن ہو نہیں سکتا۔” اس کے انکل نے مسکراتے ہوئے لیکن دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔
”لیکن کیوں؟” ایبک نے جواب کے لیے اصرار کیا۔ وہ جیسے چڑیا کے لیے اس جواب کو کھوج رہا تھا جو چڑیا کی اس لاجک کو غلط ثابت کر دیتا۔
”کیونکہ یہ رول ہے… لیکن تمہیں یہ کہا کس نے ہے؟” سوال کا جواب دیتے ہوئے اس کے انکل کو جیسے اچانک خیال آیا تھا کہ یہ سوال ایبک کا اپنا نہیں ہو سکتا تھا۔
”چڑیا نے کہا۔” ایبک نے مدھم آواز میں کہا اور پھر اس نے سوچ سوچ کر چڑیا کی لاجک بتائی تھی۔ ایبک کی ممی میگزین ہاتھ میں لیے بے حد سنجیدگی سے اس کی گفتگو سنتی رہی تھی پھر بات ختم کرنے پر انہوں نے اسی سنجیدگی کے عالم میں اپنے بھائی سے کہا تھا۔
”Over-ambitious” انہوں نے جیسے ایک لفظ میں چڑیا کوDiscribe کیا۔
”تم ذرا دیکھو، آج کل نوکروں کے بچے اگر اچھے اسکول میں پڑھنا شروع ہو جائیں تو وہ بیٹھ کر کیا کیا خیالی پلاؤ بنانا شروع ہو جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو کیا کیا باتیں سکھانا شروع ہو جاتے ہیں۔ عمر سے پہلے میچور اور چالاک بنا دیتے ہیں انہیں، اب تم اس لڑکی کی باتیں سنو، لگتا ہے یہ کہیں آٹھ، نو سال کی بچی کی باتیں ہیں۔ یقیناً یہ سب خیر دین اور اس کی بیٹی کی باتیں ہیں جو یہ بچی سن سن کر اپنی Interpretations کے ساتھ دیتی پھر رہی ہے۔” ایبک کی ممی اب بے حد خفا انداز میں بات کر رہی تھیں۔ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ اس گفتگو میں ایسا تھا جو انہیں بری طرح چبھا تھا۔ ایبک کے انکل جواباً مسکراتے ہوئے ایبک کے ساتھ چیس بورڈ پر چیس کے مہرے آگے پیچھے کرتے رہے۔
”تم دیکھو ڈی سی ہاؤس کے سرونٹ کوارٹرز میں بیٹھ کر یہ نوکر کیسی باتیں کرتے رہتے ہیں… یہ یہاں بادشاہ کے محل میں بیٹھ کر بغاوت کی تیاری کی کوششیں ہیں۔” انہوں نے جیسے بے حد خفگی کے عالم میں اپنے بھائی سے کہا تھا۔ ”اور اس بچی کو کانونٹ میں ایڈمیشن دلوانے کا کارنامہ یقیناً تمہاری بیوی کا ہو گا۔ یہ مدر ٹریسا بننے کے دورے اسی کو پڑتے ہیں، پوچھوں گی میں اس سے۔” ایبک کی ممی کو چڑیا کی وہ باتیں واقعی میں ہی بری لگ گئی تھیں ورنہ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر اس طرح ری ایکٹ کرنے والی خاتون نہیں تھیں اور خاص طور پر کسی بچے کی بات پر ری ایکٹ کرنے والی، وہ ریزروڈ طبیعت کی مالک تھیں مگر بہرحال خوف خدا رکھنے والی خاتون تھیں۔
”نہیں، یہ ہمارا کارنامہ نہیں ہے۔” ایبک کے انکل نے اپنا اگلا مہرہ آگے بڑھاتے ہوئے بے ساختہ بہن کی خفگی دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ ”یہ ہم سے پہلے یہاں Serve کر کے جانے والے آفیسر اور اس کی بیوی کا کمال ہے۔ اس بچی کی فیس وغیرہ بھی وہی پے کرتے ہیں۔ ہم لوگوں نے تو صرف کوارٹر میں رکھنے کی اجازت دی ہوئی ہے خیر دین کو۔ But she is a bright girl میں جب بھی اسکول جاتا ہوں ، سسٹر ایگنس اس کی بہت تعریف کرتی ہیں…” انہوں نے تفصیل سے بہن کو بتایا تھا۔
”Whatever… ذرا دیکھو تو سہی کیسی باتیں کر رہی ہے وہ…” ان کے بھائی نے ایک بار پھر چڑیا کا دفاع کیا تھا۔
”آج کل کے بچے ویسے ہی ضرورت سے زیادہ اسمارٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایبک نے بتایا تھا کہ وہ شطرنج بھی کھیلتی ہے تو definitely وہ Exceptional ہی ہو گی… اس لیے ضروری نہیں کہ خیر دین اور اس کی بیٹی ہی ایسی باتیں کرتے ہوں اس کے ساتھ، خیر دین اچھا، سمجھدار شریف آدمی ہے۔”
”یہ اس نے کہا تھا؟” ایبک کی ممی نے کچھ مزید خفا ہو کر اس سے کہا، ان کا بھائی بے ساختہ ہنسا اور اس نے ایبک کے بولنے سے پہلے کہا۔
”یہ میرے Nephew کی assesment ہے کہ وہ اتنا اچھا کھیلتی ہے کہ وہ مجھے بھی ہرا سکتی ہے۔” ایک کی ممی نے اس بار ایبک سے کہا۔
”ایبک تم اب اس کے ساتھ نہیں کھیلو گے۔” ایبک ماں کی تنبیہہ پر حیران ہوا۔
”لیکن ممی… کیوں؟” اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتیں اس کے انکل کسی وزیٹر سے ملنے کے لیے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
”کیونکہ یہ مجھے پسند نہیں ہے۔” ایبک کی ممی نے بے حد مستحکم آواز میں اس سے کہا۔
”But she is a good girl” ایبک نے اس کا دفاع کیا۔
I, am sure she is a good girl “لیکن بیٹا وہ ایک سرونٹ کی بچی ہے اور میں آپ کو ہمیشہ سے کیا سمجھاتی آئی ہوں… ان کے اور ہمارے سیٹ اپ میں بہت فرق ہوتا ہے ہمیں ان سے تھوڑا فاصلے پر رہنا چاہیے۔” اس بار اس کی ممی نے اس کو بڑے پیار سے اور رسانیت سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ ”اور پھر وہ تو ہے بھی ایک لڑکی… آپ کو لڑکیوں کے ساتھ فرینڈ شپ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ بھائی کے ساتھ دوستی کریں، بہن کے ساتھ دوستی کریں”Stay away from her ایبک نے ایک لمحے کے لیے چیس بورڈ کو دیکھا پھر ممی کو پھر اس نے کچھ سوچ کر کہا۔
”لیکن ممی میں تو اس کو ٹینس کھیلنا سکھا رہا ہوں میں اس کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دوں گا تو پھر اس کو ٹینس کھیلنا نہیں آئے گا۔” اس نے جیسے اپنے لیے چڑیا کے ساتھ رہنے کا کوئی بہانہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی یہ جانے بغیر کہ وہ کتنا بچگانہ بہانہ تھا۔
”اس کو ٹینس سکھانا تمہاری ذمے داری تو نہیں ہے، وہ کہیں سے بھی سیکھ سکتی ہے۔” ایبک کی ممی نے ذرا سا جھنجلا کر کہا۔
”لیکن ممی وہ افورڈ نہیں کر سکتی… آپ کو پتا ہے اس کے پاس ریکٹ بھی نہیں ہے۔” ایبک کو چڑیا سے ایک بار پھر ہمدردی ہوئی۔
”تو یہ بھی ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کی ممی اور نانا کی ذمہ داری ہے۔”
”لیکن ممی اس کے پاپا بھی تو نہیں ہیں نا، آپ ہی تو کہتی ہیں ہمیں ان کے ساتھ بہت Kind ہونا چاہیے جن کے پاپا نہ ہوں… اور ہم کو ان کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔” ایبک نے ممی کو ان کی کبھی کہی جانے والی بات یاد دلائی۔ چند لمحوں کے لیے اس کی ممی کچھ جواب نہیں دے پائی تھیں۔ بڑوں کا سارا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں چھوٹوں کو نصیحت کے ذریعے اچھائی اور عمل کے ذریعے برائی سکھانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور اس کوشش کے نتیجے میں تربیت نہیں کنفیوزن دیتے ہیں۔
”اس کے نانا ہیں نا۔” اس کی ممی نے ایک کمزور لاجک دی۔
”پر اس کے پاپاتو نہیں ہیں نا۔” ایبک نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”دیکھو کسی سے دور رہنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ Unkind ہیں… میں یہ تھوڑی کہہ رہی ہوں کہ تم اس سے بدتمیزی کرو یا اس کو تکلیف پہنچاؤ۔ بیٹا، میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ تم اس سے دور رہو۔” ایبک نے اس بار ماں سے کچھ نہیں کہا تھا وہ چیس بورڈ پر اپنے مہروں کو آگے پیچھے کرتے ہوئے مصروف دکھنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ ایک چھوٹا سا بچہ ہونے کے باوجود اس کو اپنی ممی کے Argumentکے کمزور ہونے کا اندازہ ہوگیا تھا۔
اگلے دن وہ ٹینس کورٹ پر تھا جب ہمیشہ کی طرح اپنے مقررہ وقت پر چڑیا وہاں آ گئی تھی۔ ایک بچے کی زندگی کا سب سے مشکل ترین مرحلہ اس کو بھی درپیش تھا۔ ایک چیز جو اس کی پسندیدہ تھی اور دوسری طرف اس کی ممی کی ہدایت تھی۔ ایک بچہ ہوتے ہوئے بھی وہ یہ جان سکتا تھا کہ چڑیا کے بارے میں اس کی ممی کی رائے اور اندازہ ٹھیک نہیں تھا، وہ واقعی ایک اچھی لڑکی تھی… پر دوسری طرف و ہ ایک Obedient بچہ بھی تھا۔ بڑا بھائی… اور ایک ایسا بچہ جس کی فرمانبرداری کی سب مثالیں بھی دیتے تھے۔
چڑیا نے آتے ہی اسپورٹس کٹ کو کھول کر اس میں سے ہمیشہ کی طرح دوسرا ریکٹ نکالنے کی کوشش کی۔ کٹ میں آج خلاف معمول دوسرا ریکٹ نہیں تھا۔ اس نے حیرانی سے ایبک کو دیکھا جو اسے مکمل طور پر نظر انداز کئے اپنے ریکٹ سے گیند کو دوسرے کورٹ میں پھینکنے میں مگن تھا۔ وہاں اس کی ہیلو کا جواب نہیں تھا۔ کوئی eye-contact نہیں تھا۔
”ایبک… ایبک۔” اس نے ایبک کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ متوجہ نہیں ہوا، وہاں مکمل خاموشی تھی۔
……٭……
سیل فون بج رہا تھا لیکن دوسری طرف سے کال ریسیو نہیں ہو رہی تھی۔ شیر دل فون ہاتھ میں لیے بے حد تحمل سے کال ریسیو ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ اس کی زندگی میں جتنا انتظار اس عورت نے کروایا تھا کسی نے نہیں کروایا تھا۔ سیل فون بہت دیر تک بجتا رہا پھر شیر دل نے کال ختم کر دی۔
”Shair dill here. please call me back” ایک Text لکھ کر اس نے عکس کو بھیجتے ہوئے اس نے اپنا سیل سامنے پڑی ٹیبل پر رکھ دیا۔ سگریٹ کے کیس سے ایک سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبا کر سلگاتے ہوئے اس نے ٹانگیں دوبارہ ٹیبل پر رکھ دی تھیں۔ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے بھی اس کی نظریں مسلسل سیل فون کی تاریک اسکرین پر جمی تھیں۔ اگر وہ ایک رانگ نمبر سے کال نہیں لے رہی تھی تو کم از کم اب وہ اپنا تعارف کروا چکا تھا اور تعارف کروائے بھی تین منٹ ہو چکے تھے۔ وہ دل ہی دل میں ذرا سا جھنجلایا تھا اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اس نے یاد کیا آخری بار دونوں کی بات کب ہوئی تھی، تقریباً ایک سال پہلے جب اس نے عکس کو اس کی برتھ ڈے پر مبارک باد دینے کے لیے فون کیا تھا۔ وہ اس وقت امریکا میں تھی، ان کی بات آدھے گھنٹے تک ہوتی رہی تھی پھر دونوں عیدوں پر ان کے درمیان بات نہیں ہو سکی۔ عکس کا فون نمبر بند تھا اور آنسر فون آن تھا۔ شیر دل نے اس کے لیے مبارک باد کے پیغامات چھوڑ دیے تھے۔ دونوں بار مبارک باد کا کوئی جواب نہیں آیا۔ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ اس نے شیر دل کے میسج نہ سنے ہوتے۔ شیر دل کو ایک مبہم انتظار تھا اور کیوں تھا اس کا جواب وہ اپنے آپ کو نہیں دے سکتا تھا۔