”چلو پھر دے دیتا ہوں… کم از کم ماضی میں 10 لڑکیاں ایسی ضرور ہوں گی جن سے میں نے سنجیدگی سے شادی کے بارے میں سوچا ہو گا… لیکن میں خوش ہوں کہ میں نے صرف سوچا اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔”
”کیوں؟” شہر بانو کی سنجیدگی ختم ہونے پر نہیں آ رہی تھی۔
”کیونکہ اپنی زندگی کے سنہری دن تباہ کرنے کے شادی کے علاوہ بھی اور بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔” وہ بے حد سنجیدگی سے غیر سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شہر بانو نے بات ختم کر دی تھی۔
عکس کا ذکر پھر اس کے بعد کئی بار ان کی زندگی میں سامنے آتا رہا تھا۔ ہر بار اگر شیر دل اس پر ٹھٹکتا تھا تو شہر بانو بھی چونکتی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ زندگی اتنی مصروف ہونے لگی تھی کہ اسے شیر دل کے حوالے سے جو تھوڑے بہت خدشات تھے وہ جاتے رہے تھے۔ وہ ایک Exceptional شوہر تھا۔ محبت کرنے والا، خیال رکھنے والا، وفادار… شہر بانو کو یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ اپنے حلقۂ احباب میں خواتین کی لمبی چوڑی تعداد رکھنے اور ہر عورت سے بے تکلفی سے بات کر لینے کے باوجود شیر دل جہاں گئے داستانیں چھوڑ آنے والے مردوں میں سے نہیں تھا۔ وہ اگر کسی عورت سے بے تکلف ہو سکتا تھا تو اس بے تکلفی کو حدود و قیود میں رکھنا بھی اسے آتا تھا اور اس میں شادی شدہ ہونے کے لیبل سے زیادہ شیر دل کے اپنے مزاج کا دخل تھا۔ شہر بانو نے شیر دل کے حوالے سے سارے تحفظات اپنے ذہن سے نکال دئیے تھے۔ وہ بھی جو ایک بیوی کے طور پر فطری طور پر ہر بیوی کے ہوتے تھے… لیکن اس کے باوجود صرف عکس مراد علی ایک ایسا نام تھا جس پر شہر بانو کبھی بھی شیر دل کا چہرہ دیکھنا نہیں بھولتی تھی اور اتنے سالوں میں بھی اس کے چہرے پر آنے والا تاثر ایک جیسا ہی ہوتا تھا۔
”عکس مراد علی آ رہی ہے فیاض کی جگہ پر؟” شیر دل کے فون بند کرنے پر شہر بانو نے چائے پیتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”ہاں، فیاض نے ہی ابھی بتایا ہے مجھے… چائے کا ایک کپ بنا دو مجھے۔” شیر دل نے فون ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
”ڈپٹی کمشنر کی پوسٹ پر یہ پہلی وومن آفیسر ہے شاید؟” شہر بانو نے چائے بناتے ہوئے شیر دل سے پوچھا۔
”اس وقت تو ہاں… پنجاب میں کوئی اور وومن آفیسر اس پوسٹ پر کام نہیں کر رہی لیکن پہلے چند خواتین ڈپٹی کمشنر کے طور پر Serve کر چکی ہیں۔” شیر دل نے دور لان میں کام کرتے مالیوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ اب کسی سوچ میں ڈوبا لگ رہا تھا۔ چائے کا کپ اسے تھماتے ہوئے شہر بانو نے پوچھا۔
”کیا سوچ رہے ہو؟”
”کچھ نہیں۔” شیر دل نے مسکرا کراسے ٹالا تھا اور اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ عکس مراد علی کے ایک ہی ڈویژن میں ہونے کا مطلب اس کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا Stress تھا۔ وہ خاتون آفیسر 24گھنٹے کو 48گھنٹے سمجھ کر کام کرنے والوں میں سے تھی اور وہ جہاں بھی کام کرتی تھی، اس کی Competence وہاں پر دوسرے مرد آفیسرز کے لیے بہت مسائل پیدا کر دیتی تھی۔
وہ ڈی ایم جی کی ان چند خاتون آفیسرز میں سے ایک تھی جن سے پروفیشنل جیلسی رکھنے کے باوجود ان کے کولیگز ان سے مرعوب ہونے پر مجبور تھے۔ وہ واحد نوجوان آفیسر جس کی قابلیت کو ماننے اور سراہنے میں اس کے میل کولیگز کا شاؤونزم آڑے نہیں آتا تھا اور اس میں اس کی قابلیت کے ساتھ ساتھ اس کی پرسنالٹی کا بہت زیادہ دخل تھا اور اس قابلیت اور ٹریک ریکارڈ کے ساتھ اس کا کسی بھی جگہ پر ہونے کا مطلب تھا کہ انہیں عکس مراد علی کے ساتھ Over shadow ہو جانے سے بچنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ لگن اور مستعدی کے ساتھ کام کرنا پڑتا تھا جتنا کسی دوسرے مرد آفیسر کے ساتھ کام کرنے میں۔
”وہ تو فل برائٹ اسکالر شپ پر امریکا گئی ہوئی تھی؟” شہر بانو کو یک دم یاد آیا۔ آخری بار ان کے گھر پر کسی گیٹ ٹو گیدر پر عکس اور شیر دل کے کسی بیچ میٹ نے اس کا ذکر اس حوالے سے کیا تھا۔
”واپس آگئی ہے۔” شیر دل نے چائے کا سپ لیتے ہوئے مختصراً کہا۔
”Is she single? ” شہر بانو نے اچانک پوچھا۔ چائے پیتے ہوئے شیر دل ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا تھا۔
I don’t know… “مثال کو لے کر آؤ ذرا۔” شیر دل نے جواب دیا پھر اسی سرعت سے سوال بدلا۔ عکس منٹوں میں شہر بانو کے ذہن سے غائب ہوئی تھی۔
”میں دیکھتی ہوں اسے… اسے آج ویسے بھی بابا سے بہت سی شکایتیں کرنی ہیں۔” شہر بانو نے جاتے ہوئے جیسے اسے وارن کیا تھا۔ شیر دل مسکرا دیا۔ چائے کا ایک اور سپ لیتے ہوئے اس نے سیل فون نکال کر وہ بزنس کارڈ دیکھا جو فیاض نے اسے ٹیکسٹ کیا تھا۔ وہ، وہ نمبر نہیں تھا جو شیر دل کے پاس تھا یقیناً اس نے نمبر تبدیل کر لیا تھا۔ چند لمحے وہ نمبر اور نام دیکھتا رہا پھر اس نے نمبر پر کال کرنا شروع کی۔
٭٭٭
عکس کا نام اس نے پہلی بار اپنے باپ سے سنا تھا۔ بختیار فون پر پبلک سروس کمیشن کے کسی ممبر سے بات کر رہا تھا جو اس کا دوست تھا۔ سی ایس ایس کے تحریری امتحان کا نتیجہ ایک ڈیڑھ ہفتے میں آنے والا تھا اور بختیار کے کسی دوست نے اسے شیر دل کے رزلٹ کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے فون کیا تھا۔ وہ تحریری امتحان میں دوسرے نمبر پر تھا شیر دل بختیار اور مجبتیٰ سلیمی کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کے دوران کمرے میں ہی تھا۔
”اوہ، اچھا دوسری پوزیشن ہے…” بختیار نے مسکراتے ہوئے شیر دل کو دیکھا تھا وہ بھی جواباً مسکرایا تھا۔
”تھینک یو… اور پہلی پوزیشن پر کون ہے۔” شیر دل باپ کے سوال پر بے اختیار مسکرایا۔ اس کے ذہن میں بھی اسی وقت یہی سوال آیا تھا۔
”وہ کون ہے؟” اس نے بختیار کے ماتھے پر چند سوالیہ بل دیکھے۔ وہ یقیناً پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ شیر دل نے اندازہ لگایا۔
”Ok—oh—hmm” اس نے بختیار کو وقفے وقفے سے کہتے سنا… پھر چند اور رسمی جملوں کے بعد انہوں نے فون رکھ دیا۔ شیر دل نے تب ان سے پوچھا۔
”فرسٹ پوزیشن پر کون ہے؟” اور اس وقت شیر دل نے پہلی بار عکس کا نام سنا تھا۔
چند ہفتوں بعد شروع ہونے والے انٹرویوز Intelligence اور سائیکلوجیکل ٹیسٹ کے دوران وہ جیسے لاشعوری طور پر… پہلے نمبر پر اس خاتون امیدوار سے کہیں نہ کہیں ٹکرانے کا منتظر رہا تھا، وہ آمنا سامنا کہیں نہیں ہو سکا تھا۔
عکس کا نام اس نے دوسری بار ایک بار پھر اپنے باپ سے ہی سنا تھا… سرتوڑ کوشش کے باوجود شیر دل تحریری امتحان کے رزلٹ کو تبدیل نہیں کر سکا تھا۔ فائنل رزلٹ میں پہلے دس امیدواروں کی فہرست میں صرف پہلی دو پوزیشنز پر موجود امیدوار تھے جنہوں نے تحریری امتحان کے رزلٹ کو برقرار رکھا تھا،باقی آٹھ امیدواروں کی پوزیشن میں تبدیلی ہوئی تھی اور ان میں سے کوئی بھی لڑکی نہیں تھی اور دراصل پہلی بیس پوزیشنز میں صرف پہلی پوزیشن کے علاوہ باقی تمام لڑکوں کے پاس تھیں۔ ہیڈ آف دا ٹیبل پر کسی لڑکی کو دیکھ کر پاکستان میں کسی مرد کی انا کو جتنا جھٹکا لگتا ہے وہ جھٹکا شیر دل کو بھی لگا تھا اور اسے یقین تھا تین سے دس نمبر تک موجود باقی تمام لڑکوں کو بھی پہلی پوزیشن پر آنے والا صرف اگر کسی کو دیکھتا ہے تو دوسری پوزیشن پر آنے والے کو… یہ جیسے فاصلہ چیک کرنے کی ایک محتاط کوشش ہوتی ہے لیکن پہلی پوزیشن پر آنے والے کو سب دیکھتے ہیں باقی ساری پوزیشنز پر موجود لوگ بیج کی کسی پوزیشن سے اپنا فاصلہ نہیں ناپتے، وہ ٹاپ پر موجود شخص سے ہی کمپیرزن کرتے ہیں… اور یہ فرق شیر دل سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا تھا جو ہمیشہ Top ladder پر بیٹھتا آیا تھا۔
اس کا خیال تھا اس کے اور عکس کے درمیان Neck to neck فائٹ ہوئی ہو گی، مارکس اور پرسنٹ ایج کی… لیکن ا یک اور کاری ضرب اسے اس وقت لگی تھی جب بختیار نے اس کی یہ خوش فہمی بھی دور کر دی تھی۔ عکس اور اس کی پرسنٹ ایج میں بہت فرق تھا اور پہلی پوزیشن سے ہاتھ دھونے کے بعد یہ دوسری ہزیمت تھی جو شیر دل نے اٹھائی تھی۔
عکس سے اس کا تیسرا تعارف نیوز پیپر میں ٹاپ کرنے والے امیدوار کے انٹرویو کے ذریعے ہوا تھا۔ شیر دل، بختیار کی وجہ سے عکس کے فیملی بیک گراؤنڈسے تحریری امتحان کے بعد ہی واقف ہو گیا تھا۔ اب اگر اسے دلچسپی باقی تھی تو وہ چہرے کے حوالے سے شناسائی تھی۔ وہ ایک انگلش نیوز پیپر کا یوتھ ایڈیشن تھا جس میں اس نے پہلی بار عکس کی شکل دیکھی تھی۔ بندھے ہوئے بالوں ، دھلے چہرے اور جدید تراش خراش کے سوٹ میں ملبوس ایک نوجوان اٹریکٹو لڑکی جو خوب صورتی کے بہرحال اس معیار پر نہیں آتی تھی جس پر شیر دل رکھ کر کسی بھی لڑکی کو خوبصورت قرار دیتا تھا۔ وہ اس کے باوجود اس کی تصویر کو بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ یہ جیسے اکیڈمی میں اپنے rival سے ملاقات سے پہلے اس کو Judge کرنے کی ایک کوشش تھی۔ شیر دل نے عکس کے انٹرویو کے ہر جواب کو بہت غور سے پڑھا تھا۔ ان جوابوں کے بغیر بھی اسے اس لڑکی کی ذہانت اور قابلیت پر شبہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود شیر دل نے بہت وقت صرف کیا تھا ان سوالات اور ان کے جوابات پر۔ وہ ڈی ایم جی کی ایلوکیشن میں ایک بار پھر پہلے نمبر پر تھی۔ شیر دل کے کامن کے ١٨لوگ ڈی ایم جی میں جا پائے تھے اور Elite 18 کے اس گروپ میں صرف ایک لڑکی تھی… اور یہ تیسری بار تھا جب نیوز پیپر میں شیر دل نے اپنا نام اس کے نام کے نیچے دیکھا تھا… ہتک سی ہتک تھی۔
……٭……
”تیری ہے زمین، تیر ا آسماں
تو بڑا مہرباں، تو بخشش کر
سبھی کا ہے تو، سبھی تیرے
خدا میرے تو بخشش کر”
اسمبلی کا وسیع و عریض ایریا صبح کے اس وقت صرف ایک آواز سے گونج رہا تھا… چڑیا کی آواز سے جو اس اسمبلی کے سامنے ایک Cemented پلیٹ فارم پر مائیک کے سامنے بے حد جذب سے یہ دعائیہ کلام پڑھ رہی تھی۔ اسمبلی ایریا میں موجود تمام لوگ جیسے کسی ٹرانس میں تھے… اور مہینے میں ایک بار ضرور ہوتا تھا جب چڑیا کو سسٹر ایگنس خاص طور پر اسمبلی میں یہ دعائیہ کلام پڑھنے کے لیے بلواتی تھی۔ اسکول میں ہونے والی تقریبات میں بھی چڑیا کو اسی دعائیہ کلام کے لیے بلوایا جاتا تھا… مسلمان ہونے کے باوجود۔
تیری مرضی سے اے مالک
ہم اس دنیا میں آئے ہیں
تیری رحمت سے ہم سب نے
یہ جسم و جاں پائے ہیں
سماں باندھنا شاید چڑیا کے اس دعائیہ کلام کے لیے بہت چھوٹا لفظ تھا۔ اس کی آواز میٹھی اور ملائم تو تھی ہی لیکن اس میں ایک عجیب سا سوز تھا۔ وہ وہاں موجود سسٹرز اور فادر پیٹر پر رقت طاری کر دیتی تھی۔ ان کا اگر بس چلتا تو وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود اسے اسکولChoir کا حصہ بنا دیتے اور انہیں یقین تھا کہ اگر چڑیا اس Choir کا حصہ ہوتی تو وہ کیتھولک بورڈ آف ایجوکیشن کے زیر اہتمام ہونے والے تمام Regional مقابلے جیت آتی۔
”تیری ہے زمین، تیر ا آسماں
تو بڑا مہرباں، تو بخشش کر
سبھی کا ہے تو، سبھی تیرے
خدا میرے تو بخشش کر”