”تم کب ملے ہو اس سے؟” شیر دل نافع سے پوچھ رہا تھا۔
”یہاں امریکا آنے سے پہلے۔” نافع بتا رہا تھا۔ ”ڈی ایم جی والوں کی گیٹ ٹو گیدر تھی وہاں ملا ہوں۔ وہاں تمہارا ذکر ہوا تمہاری انگیج منٹ کا ذکر ہوا تو اس نے مبارک باد دینے کے لیے کہا۔” نافع بتا رہا تھا۔
”کیسی ہے وہ؟” شیر دل پوچھ رہا تھا۔
”پشاور میں رہ رہ کر پشتون ہو گئی ہے آدھی… مذکر، مؤنث خراب ہو گئے ہیں اس کے۔” نافع، شیر دل کے سوال پر ہنسا تھا۔
”میرا خیال ہے وہ پشتونوں کے اس کو دیکھ کر صحیح ہو گئے ہوں گے۔” شیر دل نے بے ساختہ بے حد سنجیدگی سے تبصرہ کیا۔ دونوں اپنی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔ شہر بانو گفتگو سنتے ہوئے چپ چاپ ڈنر کرتی رہی۔
وہ پہلا موقع نہیں تھا جب اس نے شیر دل کو کسی لڑکی کے بارے میں بات کرتے یا اس کا حال احوال پوچھتے دیکھا تھا۔ اس کے حلقہ احباب میں لڑکیوں کی لمبی چوڑی تعداد تھی اور ان میں سے بہت سی اس کی بہت پرانی اور کلوز فرینڈز تھیں۔ وہ ان سب سے رابطے میں رہتا تھا اور گرم جوشی کا یہی عالم دوسری طرف سے بھی تھا اور اگر میل ملاپ والیاں فرینڈز نہیں تھی تو پھر بیچ میٹس تھیں۔ شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گیا تھا جب وہ شیر دل کے کسی نئی دوست سے متعارف نہ ہوئی ہو اور اس بار یہ نیا نام عکس مراد علی کا تھا۔ ڈنر ٹیبل پر نافع کی بیوی تاباں سے باتیں کرتے شہر بانو نے سوچا تھا۔
”Still single?” تاباں کی کوئی بات سنتے ہوئے اس نے کچھ حیران ہو کر شیر دل کا چہرہ دیکھا تھا اور اس وقت پہلی بار اس نے شیر دل کے چہرے اور آنکھوں میں وہ چیز دیکھی تھی جو پھر ہمیشہ اسے اس نام پر نظر آئی تھی۔
”بتایا تو نہیں اس نے کچھ… اگر Status تبدیل ہوا ہوتا تو بتاتی تو سہی لیکن میں نے سنا ہے کہ غنی اور وہ کافی قریب ہیں آج کل۔” شہر بانو نے ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے شیر دل کو بے اختیار اپنی کرسی پر پہلو بدلتے دیکھا۔
”غنی حمید؟” شیر دل کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ ”Don’t tell me” تاباں کی باتوں میں شہر بانو کی دلچسپی کم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ کوئی چیز تھی شیر دل کے انداز میں جس نے اسے مضطرب کیا تھا۔ ہاتھ میں پہنی منگنی کی بیش قیمت انگوٹھی کے باوجود، اپنے بیڈ روم کی بیڈ سائڈ ٹیبل پر پڑے اس کارڈ کے باوجود جو شیر دل نے اسے منگنی پر دیا تھا اور جس میں اس نے شہر بانو کے ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا۔ شیر دل کے والٹ اور اپنے والٹ میں رکھی ایک دوسرے کی تصویروں کے باوجود … کچھ تھا جس نے شہر بانو کو ہلایا تھا۔
”عکس اور غنی… سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” وہ اب شیر دل کو دو ٹوک انداز میں کہتے دیکھ رہی تھی۔
Roasted Salmon کو بھول کراس وقت نیپکن سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے نافع سے کہہ را تھا۔
”لیکن میں نے فی الحال کافی لوگوں سے یہی سنا ہے۔ میراخیال ہے دو چار مہینوں میں شادی کرنے والے ہیں وہ دونوں۔ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ شاید منگنی ہو چکی ہے دونوں کی۔” شہر بانو نے شیر دل کو یک دم چپ ہوتے دیکھا تھا اس نے نافع سے دوبارہ عکس کے حوالے سے کچھ نہیں پوچھا تھا لیکن شہر بانو کو یوں لگا تھا جیسے وقتی طور پر وہ ذہنی طور پر مکمل طور پر غائب دماغ ہو گیا تھا۔ وہ اب اتنے عرصے سے اس کے ساتھ تھی اور اس کے اتنے قریب تھی کہ شیر دل کے ماتھے پر آنے والی شکن کو بھی کتاب کے صفحے کی طرح پڑھ لیتی تھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کی اچانک خاموشی اور آف ہو جانے والے موڈ کو نہ محسوس کرتی، عکس مراد علی کا نام بہت بری طرح رجسٹر ہوا تھا۔ اس رات ڈنر سے ان کی واپسی بہت دیر سے ہوئی تھی اور واپسی کے پورے راستے شیر دل اس سے گفتگو کے دوران مکمل طور پر عدم توجہی کا شکار تھا۔
اگلے دن وہ نارمل تھا جیسے وہ ہمیشہ ہوتا تھا اور اسے نارمل دیکھ کر ساری رات بستر میں کروٹیں لے لے کر جاگتے رہنے والی شہر بانو بھی نارمل ہو گئی تھی لیکن عکس کا نام ایک عجیب سی بازگشت بن گیا تھا جو رہ رہ کر گونجتی تھی۔
”تم نے کبھی کسی سے محبت کی مجھ سے پہلے؟” اس ڈنر کے ایک ہفتے کے بعد شہر بانو نے شیر دل سے وہ سوال کیا تھا جو عکس کا نام اسے بار بار پوچھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہ سوال کر کے کیا چاہتی تھی۔ کوئی تصدیق یا کوئی تسلی…؟
”یہ ایک انتہائی احمقانہ سوال ہے ۔” جواب تڑاق سے آیا تھا۔ وہ رات کے وقت بے مقصد سڑک پر ٹہلتے ہوئے روسٹڈکاجو کھا رہے تھے۔
”خیر احمقانہ والی تو کوئی بات نہیں۔” شہر بانو نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”کسی بھی مرد سے یہ سوال احمقانہ ہی ہوتا ہے۔” شیر دل نے شہر بانو کے ہاتھ میں پکڑے کا جوکے لفافے سے چند کاجو نکال کر انہیں پھانکتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
”احمقانہ کیوں؟” شہر بانو کو اعتراض ہوا۔
”یار مرد شادی کے بعد بیوی بچوں کی موجودگی میں محبت کر سکتا ہے تو منگیتر کی آمد سے پہلے مہاتما بدھ بن کر کیوں رہے گا۔”
”ہاں تو یہی پوچھ رہی ہوں کہ تم نے کسی سے محبت کی ہے؟”
”کسی سے…؟کئیوں سے۔” شیر دل نے کچھ اورکاجو پھانکے۔
”محبت کا پوچھ رہی ہوں فلرٹ کا نہیں پوچھ رہی۔” شہر بانو نے اسے ٹوکا۔
”دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا…” وہ اسی انداز میں بولا تھا۔
”تم میرے ساتھ محبت کر رہے ہو یا فلرٹ؟ ” شہر بانو نے یک دم اس سے پوچھا، وہ بے ساختہ ہنسا۔
شہر بانو کو بھی ہنسی آئی تھی… حالانکہ آنا غصہ چاہیے تھا۔
”پھر بتاؤ نا…” شہر بانو نے دوبارہ پوچھا۔
”یار بتایا تو ہے… بہت محبتیں کی ہیں۔” شیر دل نے بے پروائی سے کہا۔
”کبھی کسی سے شادی کرنے کا کیوں نہیں سوچا۔” شہر بانو نے کہا۔
”کس سے شادی؟” وہ چونکا۔
”کسی بیچ میٹ یا گرل فرینڈ سے؟”
اس بار شہر بانو نے بڑے نپے تلے انداز میں مچھلی کو چارا پھینکا تھا۔ اس نے عکس کا نام لیے بغیر عکس کا ذکر کیا تھا۔
”تم اپنی تعریف سننا چاہتی ہو تو میں ویسے ہی کر دیتا ہوں۔ تم ماضی کی کسی محبوبہ کا نام اگلوانا چاہتی ہو تو اس کے لیے تم مجھے 60سال کا ہونے دو۔” مچھلی نے چارے کو کانٹے اور چھری کی مدد سے ہک سے اتار کر کھایا تھا۔ وہ شیر دل سے کبھی کچھ اگلوا نہیں سکتی تھی، اسے جو بات نہیں بتانی ہوتی تھی وہ نہیں بتاتا تھا۔ شہر بانو نے بے اختیار گہری سانس لی تھی۔
”آہیں بھرنے والی کیا بات ہے؟” شیر دل ساتھ چلتے چلتے یک دم چونکا۔
”تم سوال کا جواب نہیں دو گے تو اور کیا کروں گی؟” شہر بانو نے کہا۔