”دیکھو سارے بچے پڑھنے آتے ہیں۔” چڑیا اب اسے سمجھا رہی تھی، باربی ڈول کے آنسو یک دم تھم گئے تھے۔ یہ چڑیا کی باتوں کا اثر نہیں تھا اس نام کا اثر تھا جس سے وہ اس کو پکار رہی تھی۔
”اور اسکول میں تو کتنا مزہ آتا ہے… اتنی اچھی اچھی ٹیچرز ہوتی ہیں، بکس ہوتی ہیں… پھر فرینڈز بھی تو بنیں گے نا تمہارے؟” چڑیا اب وہ کام بھول چکی تھی جس کام سے وہ کلاس روم سے باہر آئی تھی، اسے کچھ یاد تھا تو بس باربی ڈول یاد تھی۔ اپنی جیب میں رومال واپس رکھتے ہوئے اس نے جیب سے باربی ڈول کو ایک ٹافی نکال کر دی۔ باربی ڈول ایک لمحے کے لیے جھجکی پھر اس نے ٹافی اس کے ہاتھ سے لے لی۔ ٹھیک ہے ممی اور پاپا تو یاد آ رہے تھے لیکن ٹافی کھانے میں تو کوئی حرج نہیں تھا۔ چڑیا مسکرائی پھر اس نے باربی ڈول کی دونوں پونیوں کو پیار سے چھوا۔
یہ ان کے تعارف کا آغاز تھا لیکن تعارف، تعارف تک ہی رہا تھا ویسی دوستی نہیں ہو سکتی تھی جو چڑیا اور باربی ڈول دونوں کی خواہش تھی۔ دونوں کے سیکشنز الگ الگ تھے اور باربی ڈول کی بہت جلد اسکول سے چھٹی ہو جاتی تھی۔ مانٹیسوری ونگ کی لنچ بریک کا وقت بھی جونیئر ونگ سے مختلف تھا۔ اس کے باوجود چڑیا کو جب موقع ملتا وہ نرسری ریڈ کے سامنے سے صرف باربی ڈول کے لیے ضرور گزرتی یا لنچ بریک کے دوران واش روم جانے کے بہانے ایک بار مانٹیسوری کے پلے ایریا میں آ کر باربی ڈول سے ضرور ملتی۔ باربی ڈول کو ٹافیاں اور لالی پاپ پسند تھے اور چڑیا جب بھی وہاں آتی اس کے لیے ان دونوں میں سے کوئی نہ کوئی چیز ضرور لے کر آتی۔ وہ خود ٹافیاں وغیرہ کھانے کی بہت شوقین نہیں تھی۔ خیر دین کی دی ہوئی پاکٹ منی وہ سنبھال کر رکھ لیتی تھی۔ اسکول میں وہ گھر سے لایا ہوا کھانا ہی کھایا کرتی تھی۔ انڈا پراٹھا، میٹھے توس، جیم یا مکھن لگے سلائسز یا خیر دین کی اپنی بیک کی ہوئی کوکیز اور پین کیک یا کپ کیک، ٹافی اور چیونگم کبھی اتفاقاً ہی کھاتی تھی وہ، اور لالی پاپ تو کبھی بھی نہیں لیکن باربی ڈول کی وجہ سے اس نے باقاعدگی سے اسکول کینٹین پر جانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی ان عنایات کی وجہ سے باربی ڈول بھی اس کے انتظار میں رہتی تھی۔
اسکول ڈی سی ہاؤس سے بہت دور نہیں تھا۔ خیر دین صبح جس وقت چڑیا کو سائیکل پر چھوڑنے جایا کرتا تھا اسی وقت باربی ڈول بھی اپنی ممی کے ساتھ گاڑی میں اسکول کے لیے نکلتی تھی۔ خیر دین پہلے اسے سائیکل پر بٹھا کر گھر کے فرنٹ گیٹ سے نکلتا اور پھر چند ہی منٹوں میں ڈی سی کی گاڑی ان کو اوور ٹیک کرتے ہوئے ان کے قریب سے گزرتی۔ چڑیا سائیکل پر اور باربی ڈول گاڑی کی کھڑکی کے شیشے سے چپک کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے مسکراتیں اور ہاتھ ہلاتی جاتیں… تب تک جب تک گاڑی اگلا موڑ نہ مڑ جاتی اور کبھی ڈی سی کی گاڑی ان سے پہلے گھر کے فرنٹ گیٹ سے نکل رہی ہوتی اور تب باربی ڈول پچھلی ونڈ اسکرین پر تقریباً چڑھی ہوئی چڑیا کو خیر دین کے آگے سائیکل پر بیٹھے دیکھتی رہتی… اور کبھی ان دونوں کے اسکول جانے کی ٹائمنگ میں چند منٹوں کا فرق پڑ جاتا یا خیر دین پہلے چلا جاتا یا باربی ڈول پہلے اسکول چلی جاتی اور اس دن وہ دونوں سڑک پر ایک دوسرے کو بے چینی کے عالم میں ڈھونڈتی رہتیں۔
”نانا آپ سائیکل تیز کیوں نہیں چلاتے؟” چڑیا کو ان حالات میں ڈی سی ہاؤس کی بیرونی روڈ پر ڈی سی کی گاڑی نہ دیکھ کر سائیکل کی رفتار پر اعتراض ہوتا۔ اسے یقین تھا کہ رفتار ذرا سی بھی تیز ہوتی تو موڑ پر لگے ٹریفک سگنل پر وہ اس گاڑی اور گاڑی کے اندر موجود باربی ڈول کو ضرور دیکھ لیتی۔
”بیٹا تیز تو چلا رہا ہوں۔” خیر دین سائیکل کی رفتار کچھ مزید تیز کرتے ہوئے اس سے کہتا۔
”ہاں پر گاڑی جتنی تیز تو نہیں ہے نا؟” وہ بے ساختہ شکایت کرتی۔ خیر دین ہنستا۔
”یہ سائیکل ہے بیٹا وہ گاڑی ہے ، یہ ٹانگوں سے چلتی ہے وہ پٹرول سے۔ اب سائیکل گاڑی کی طرح تو نہیں بھاگ سکتی نا۔” چڑیا خیر دین کی بات تو سمجھتی تھی پر مسئلہ یہ تھا کہ وہ کسی صورت بھی ہر صبح باربی ڈول کو ایک بار ضرور دیکھ لینا چاہتی تھی۔
وہ ایک ایسے سکول میں پڑھتی تھی جہاں صبح بچوں کو چھوڑنے کے لیے شاندار گاڑیوں کی قطاریں ہوتی تھیں یا پھر کچھ اسکولز وینز اور بسز۔ وہ سائیل پر وہاں آنے والی واحد اسٹوڈنٹ تھی۔ ان شاندار گاڑیوں کے ہجوم میں خیر دین بڑی مشکل سے اپنی سائیکل کے لیے رستہ بناتا۔ گاڑیوں سے بچتا بچاتا اسے اسکول کے مین گیٹ پر چھوڑتا تھا اور پھر اسی طرح چھٹی کے وقت اسے لینے کے لیے موجود ہوتا۔ یہ ڈی سی اور اس کی بیوی کی طرف سے ایک فیور تھی اور گاڑیوں کے اس ہجوم میں سائیکل پر سفر کرتے ہوئے چڑیا کا دل کبھی ویسی گاڑی میں بیٹھنے کو تو چاہتا تھا جو وہ اپنے اسکول کے باہر دیکھتی تھی جس میں اس کے کلاس فیلوز اور اسکول فیلو آتے تھے لیکن اسے کبھی اس سائیکل پر شرمندگی نہیں ہوئی تھی جس کے پیڈل گھماتا اس کا نانا اسے سال کے ہر موسم میں وقت کی پابندی کے ساتھ وہاں لا کر چھوڑتا اور وہاں سے لے کر جاتا تھا۔ سائیکل کے اس دس منٹ صبح اور دس منٹ دوپہر کے سفر میں وہ اور خیر دین بہت ساری باتیں کرتے تھے۔ وہ خیر دین کو سڑک پر اور اسکول کے باہر نظر آنے والی کوئی نئی گاڑی دکھاتی، خیر دین اسے ماڈل بتاتا۔ وہ اسے کوئی سرکاری جیپ یا سرکاری نمبر پلیٹ والی اسٹاف کار دکھاتی تو وہ اسے اس آفیسر کا عہدہ بتاتا۔ و اسے اپنے اسکول میں ہونے والے قصے سناتی اور وہ اسے گھر میں اپنی نوکری کی اس دن کی مصروفیات بتاتا… اور ان ساری باتوں کے درمیان چڑیا یک دم عجیب و غریب سوال کرتی یا اپنے کسی مستقبل کے منصوبے سے خیر دین کو آگاہ کرتی۔
”نانا۔ میں جب بڑی ہوں گی نا تو ایک کار بناؤں گی۔” دوسرے بچوں کے ارادے خریداری سے شروع ہوتے تھے چڑیا کے ایجادات سے۔ ”اچھی بڑی سی کار جیسے صاحب کی اسٹاف کارہے نا ویسی کار۔” وہ خیردین کو بتاتی وہ ہنستا ، سنتا رہتا۔
”لیکن چڑیا تم تو ڈاکٹر بنو گی… ڈاکٹر تو علا ج کرتے ہیں گاڑیاں تھوڑی بناتے ہیں۔” خیر دین لقمہ دیتا۔ چڑیا سوچ میں پڑ جاتی۔
”اچھا نانا پھرمیں ایک کار خرید لوں گی۔” وہ چند لمحوں بعد اپنا ترمیم شدہ منصوبہ پیش کرتی۔
”پر گاڑی تو بہت مہنگی ہوتی ہے اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟” خیر دین ہنستے ہوئے کہتا۔
”میں جب ڈاکٹر بنوں گی تو اسپتال میں جاب کروں گی اس سے جتنے پیسے ملیں گے میں سب جمع کر لوں گی پھر گاڑی خرید لوں گی۔” وہ اپنا طویل المدتی پلان بتاتی۔
”اچھا پھر گاڑی خرید کر کیا کرو گی؟” خیر دین اگلا سوال کرتا۔
”پھر ہم اس میں جایا کریں گے۔ آپ، امی اور میں… تینوں اس میں بیٹھیں گے۔”
”تم ایسا کرنا مجھے ڈرائیور رکھ لینا اس گاڑی کا۔” خیر دین ہنس کر کہتا۔
”نہیں نانا، ایک ڈرائیور بھی رکھ لیں گے بس ہم سب پیچھے بیٹھ جایا کریں گے مزے مزے سے۔” وہ مسکراتے ہوئے خیر دین کو بتاتی۔
”چلو ٹھیک ہے چڑیا لیکن بیٹا یہ بات ضرور یاد رکھنا کہ تمہیں لوگوں کا علاج کرنے کے لیے ڈاکٹر بننا ہے۔ بڑی گاڑیوں کے لیے نہیں۔” خیر دین اسے نصیحت کرنا نہ بھولتا۔
”جی نانا۔” وہ فرمانبرداری سے سر ہلاتی۔
”شاباش۔” خیر دین اسے سراہتا۔
”اور نانا جوغریب اور بوڑھے لوگ ہوں گے میں ان سے پیسے نہیں لوں گی ، فری علاج کیا کروں گی۔” چڑیا چند لمحوں بعد یک دم سنجیدگی سے کہتی اور خیر دین خوش ہو جاتا۔
……٭……
شیر دل اب کرسی پر سیدھا بیٹھا فیاض سے بات کر رہا تھا۔ ”کب آئی ہے واپس؟”
”اچھا اور چارج کب سے لے رہی ہے؟”
”ہاں دے دو نمبر۔”
شہر بانو سلائس کھاتے ہوئے شیر دل کو فون پر بات کرتے دیکھتی رہی۔ کوئی چیز تھی جو شیر دل کے انداز میں منٹوں میں تبدیلی ہوئی تھی، اس کی باڈی لینگوئج میں اس کے لب و لہجے میں اس کی آنکھوں میں اور اس میں اور وہ یہ ہمیشہ سے ہوتے دیکھتی آئی تھی۔ ہمیشہ عکس مراد علی کے نام پر وہ شیر دل پر ایسے ہی اثرات دیکھتی تھی۔ وہ تبدیلی پہچان لیتی تھی لیکن وہ اس تبدیلی کو کبھی کوئی نام نہیں دے سکی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ عکس کے نام پر شیر دل میں جو جھلکتا تھا وہ کیا تھا۔
اس نے پہلی بار عکس مراد علی کا نام اپنی انگیج منٹ(Engagement) کے ایک ہفتے کے بعد سنا تھا۔ شیر دل کا کوئی بیچ میٹ اور دوست اپنی بیوی کے ساتھ بوسٹن آیا ہوا تھا۔ شیر دل نے انہیں شہر بانو سے ملوانے کے لیے ڈنر پر انوائٹ کیا تھا اور ڈنر کے دوران ہی نافع نے شیر دل سے کہا۔
”اور ہاں… عکس بھی مبارک باد دے رہی تھی تمہیں۔” شیر دل فورک سے مچھلی کا ٹکڑا اٹھاتے اٹھاتے ٹھٹکا تھا۔