عقل مند چڑیا ۔ الف نگر

عقل مند چڑیا

شبینہ گل

پرندے یہاں آکر بسیرا کرنے لگے تو تم بھوکے مروگے۔ پڑھیے ایک خوب صورت کہانی!

جامن کا وہ سرسبز درخت بہت گھنا اور اونچا تھا۔ اِس کی جڑ میں سفید خرگوش نے اپنا گھر بنا رکھا تھا۔درخت کے پہلے ہی تنے میںایک گلہری نے سوراخ کرکے رہنے کے لیے ایک کھوہ سی بنالی تھی۔ اِس سے اوپر ایک موٹی شاخ پر میاں مٹھو اور سب سے اوپر آخری شاخ پر کوے نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا۔ یہ چاروں دوست آپس میں مل جل کر رہتے اور دُکھ سُکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے۔ وہ میٹھی جامنوں سے اپنا پیٹ بھرتے پھر کہیں گھومنے نکل جاتے اور شام گئے واپس آتے۔

ایک دن وہ سب سیر کو جانے لگے تو اچانک کوے کی طبیعت خراب ہوگئی۔ شاید اُسے بخار تھا۔ اُس کی حالت دیکھ کر گلہری کہنے لگی :

”کوے بھائی! تم آج گھر پر ہی آرام کرو۔ ہم تمہارے لیے گرم سُوپ لے آئیں گے۔” یہ بات سن کر کوا اپنے گھونسلے میں چلا گیا جب کہ گلہری، خرگوش اور طوطا مل کر سیر کو نکل گئے۔

کچھ دیر تو کوا گھونسلے میں آرام کرتا رہا جب ذرا دل گھبرایا تو درخت کی نچلی شاخوں پر آبیٹھا۔ اچانک اُس کی نگاہ زمین پر گئی جہاں ایک زخمی چڑیا کراہ رہی تھی۔ کوا اُسے دیکھ کرنیچے اتر آیا۔

”کہاں سے آئی ہو بی چڑیا ؟” کوے نے پوچھا تو زخمی چڑیا نے اپنا حال بتانا شروع کیا:

”بھائی کوے! کچھ شرارتی بچوں نے مجھے پتھر مار کر زخمی کردیا ہے۔ میں بہت تکلیف میں ہوں، یہ جامن کا درخت مجھے اچھالگا تومیں نے اب یہیں رہنے کا ارادہ کیا ہے۔” چڑیا کی بات سن کر کوا غصہ میں آگیا ۔

”نہیں چڑیا بی! یہاں تمہیں کوئی نہیں رہنے دے گا۔” کوا بے چاری چڑیا کو ڈانٹنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر چڑیا نے یہیں رہنے کا فیصلہ کرلیا تو جامن تیزی سے ختم ہوجائیں گے۔ چڑیا نے بہت منت کی لیکن کوے نے ایک نہ سنی بے چاری چڑیا مشکل سے خود کو گھسیٹ کر وہاں سے جانے لگی لیکن اگلے ہی قدم پر اوندھے منہ گرگئی۔اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

اچانک دور سے اُسے طوطا، گلہری اور خرگوش آتے دکھائی دیے۔ آج وہ وقت سے پہلے ہی لوٹ آئے تھے۔ انہوں نے زخمی چڑیا اور کوے کو دیکھا پھر ساری کہانی معلوم کرنے کے بعد تینوں نے کوے کو دیکھا۔ آخر طوطا بولا: ”کوے بھائی! یہ درخت تو ہمیں اللہ نے دیا ہے۔ ہم اس پر کسی کو گھر بنانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟”

کوا غصّے سے بولا: ”اگر دوسرے پرندے یہاں بسیرا کرنے لگے تو تم لوگ بھوکے مرو گے۔”

”رزق دینے والی اللہ کی ذات ہے۔” گلہری نے کہا تو خرگوش نے بھی اپنا فیصلہ سُنا دیا:

”آج سے چڑیا ہماری دوست ہے، جب تک یہ اُڑ نہیں سکتی، میرے گھر میں رہے گی۔ 

کوے کو یہ بات پسند نہ آئی مگر وہ خاموش رہا۔ اِدھر طوطے، چڑیا اور خرگوش نے مل کر چڑیا کی مرہم پٹی کی تو اگلے دن تک چڑیا اچھی بھلی ہوگئی لیکن ابھی اُسے آرام کی ضرورت تھی۔

”بی چڑیا! ابھی تمہیں مزید سکون کی ضرورت ہے۔ تم اسی درخت پر آرام کرو، ہم تمہارے لیے کچھ کھانے کو لے آئیں گے۔” گلہری نے چڑیا سے کہا۔ اس کے بعد کوے سمیت وہ سب چڑیا کو درخت پر چھوڑ کر سیر کو نکل گئے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ درخت کی اوپر والی شاخ سے کوے کے بچوں کی چیخنے کی آواز آئی: ”کائیں، کائیں، کائیں” وہ مسلسل چیخ رہے تھے۔ چڑیا اُڑتی ہوئی بچوں کے پاس پہنچی تو حیران رہ گئی۔ گھونسلے کے قریب ایک کالا سانپ کوے کے بچوں گھور رہا تھا۔ چڑیا یہ دیکھ کر گھبرا گئی۔ وہ چاہتی تو اُڑ کر کہیں چلی جاتی اور اپنی جان بچا لیتی مگر کوے کے بچے بہت چھوٹے تھے۔ وہ ابھی اُڑنا بھی نہیں جانتے تھے اور چڑیا انہیں سانپ کا لقمہ بنتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔

آخر چڑیا کو ایک ترکیب سُوجھی۔ اُس نے کانٹوں بھری ایک ٹہنی اُٹھائی سانپ کی دُم پر چبھو دی۔ ایک دم سانپ تکلیف سے دہرا ہوگیا اور اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے درخت سے نیچے جاگرا۔ چڑیا نے جلدی سے کوے کے بچوں کو درخت کی ٹہنیوں میں چھپا دیا۔

اِدھر جب کوا، خرگوش، طوطا اور گلہری واپس آئے تو انہوں نے سہمی ہوئی چڑیا کو کوے کے گھونسلے کے پاس بیٹھے دیکھا۔ کوے نے اپنے بچوں کو کانٹے دار ٹہنیوں اور پتوں میں چھپا دیکھ کر شور مچا دیا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا:

”دیکھ لیا چڑیا سے ہمدردی کا انجام؟ یہ میرے بچوں کی جان لینے کی کوشش کررہی تھی۔ اگر میں وقت پر نہ پہنچ جاتا تو آج میرے بچے مرچکے ہوتے۔”

چڑیا بے چاری آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔ طوطا اور گلہری بھی پریشان ہوگئے۔ اچانک کوے کے بچوں نے بولنا شروع کیا:

”چڑیا بی! چڑیا بی! آپ ہمیں چھوڑ کر مت جائیں۔ ہم آپ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔” کوا یہ سن کر بہت حیران ہوا۔ تب بچوں نے تمام ماجرا سُنایا تو سب خوف زدہ ہوگئے۔ کوا تو بہت زیادہ شرمندہ ہوا اور چڑیا سے معافی مانگنے لگا۔ چڑیا بولی:

”کوے بھائی! اس وقت یہ سوچنا ضروری ہے کہ ہم سانپ سے خود کو کیسے بچا سکتے ہیں؟”

”ہم کمزور ہیں، بھلا اس کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟” گلہری نے کہا۔

”ویسے بھی یہ درخت بہت اچھا ٹھکانہ ہے۔ معلوم نہیں پھر ایسا درخت ملے نہ ملے۔” خرگوش نے کہا تو کوے نے اُس کی تائید کی۔ چڑیا بالکل خاموش تھی۔ خرگوش نے پوچھا:

”چڑیا بہن! کیا تم ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گی؟” یہ سُن کر کوا پرُجوش ہوکر بولا: ”ہاں نا! آج سے ہم سب دوست ہیں، سب مل کر رہیں گے۔”

چڑیا بی کہنے لگی: ”میں یہ سوچ رہی تھی کہ اگر کوئی ہمارے گھر پر قبضہ کرے تو گھر چھوڑنے کے بجائے ہمیں دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے۔” سب حیران ہوکر چڑیا کی بات سُننے لگے۔ آخر گلہری بولی: ”بھلا ہم کیسے سانپ کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟”

چڑیا نے کہا: ”جب میں اکیلی اُسے مار کر بھگا سکتی ہوں تو ہم سب مل کر اُس کا مقابلہ کیوں نہیں کرسکتے؟” چڑیا کی بات وہ سب سانپ سے بچاؤ کی ترکیب سوچنے لگے۔ آخرکار چڑیا ہی کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔

اگلے دن پانچوں دوست قریبی جھاڑیوں میں چھپ گئے۔ اُن کی توقع کے عین مطابق آج پھر سانپ درخت کی طرف آنکلا تھا۔ اُسے دیکھ کر سب کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے۔ سانپ چوں کہ کافی لمبا تھا اس لیے ابھی وہ درخت کے نچلے تنے تک ہی پہنچا تھا کہ خرگوش نے ایک لمبی جست لگا کر اُس کی دُم پر کاٹ لیا۔ تکلیف کی شدت سے سانپ بلبلا اُٹھا اور دُم کو اِدھر اُدھر پٹختا ہوا تیزی سے اوپر چڑھنے لگا۔ اِسی وقت طوطا، چڑیا اور کوا آگے بڑھے اور سانپ کو اپنی تیز چونچوں سے ٹھونگنے لگے۔ تکلیف اور غصے سے سانپ کا منہ کھل گیا۔ یہ دیکھتے ہی گلہری نے اُس کے منہ میں باریک کانٹے دار ٹہنیاں گھسا دیں جو اُس کے حلق میں پھنس گئیں۔ جیسے ہی سانپ کوے کے گھونسلے کے قریب پہنچا تو اسی وقت کوے نے پتوں والی ٹہنیاں اس کی آنکھوں پر ڈال دیں۔

سانپ اب اندھوں کی طرح اِدھر اُدھر ٹکریں مارنے لگا۔ وہ برُی طرح زخمی ہوچکا تھا۔ اِدھر طوطا، کوا اور چڑیا مسلسل اُسے ٹھونگیں مار رہے تھے۔ آخر کار وہ درخت سے نیچے گر گیا۔ یہ دیکھتے ہی خرگوش اور گلہری تیزی سے اُس پر حملہ آور ہوئے اور اُس وقت تک اپنی چونچوں سے اُسے ٹھونگیں مارتے رہے جب تک اُس کا دم نہ نکل گیا۔ سانپ کے مرنے کے بعد وہ سب بے یقینی کی کیفیت میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ جب انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اپنے طاقت ور دشمن سے نجات حاصل کرچکے ہیں تو خوشی خوشی ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگے۔ کوے نے چڑیا کو شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:

”بہن چڑیا! میں غلطی پر تھا، آج تمہاری ذہانت، ہمت اور عقل مندی نے ہم سب کو بچا لیا۔”

چڑیا مسکراتے ہوئے بولی: ”میں اکیلی تو شاید کچھ بھی نہیں کرسکتی، یہ ہم سب کے اتفاق اور اتحاد سے ممکن ہوا ہے۔” اِس کے بعد سب نے مل کر جامن کے درخت پر چڑیا کا گھر بنایا اور یوں پانچوں دوست مل جل کر رہنے لگے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شکاری ۔ الف نگر

Read Next

چل میرے بادل! ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!