شکاری ۔ الف نگر

شکاری

محمد عرفان رامے 

اِس سے پہلے کہ وہ بندوق سے فائر کرتا، شیر اُس پر حملہ کرچکا تھا۔ ایک سنسی خیز داستان!

ٹرین قصبہ فیض پور کے سنسان پلیٹ فارم پر رُکی تو دو نوجوان تیزی سے نیچے اتر آئے۔ کچھ ہی دیر میں دونوں گپ شپ کرتے اسٹیشن سے باہر کی طرف جارہے تھے۔ گھنی فصلوں کے درمیان ایک پگڈنڈی پر چلتے ہوئے وہ جنگل میں داخل ہوگئے۔ اُن کا گائوں جنگل کے پار تقریباََ دو کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

ناصر اور خالد اب جنگل کے وسط میں تھے۔ بہ ظاہر گہرا سناٹا تھا مگر جھینگروں اور کیڑے مکوڑوں کی دھیمی سرگوشیاں مسلسل انہیں اپنی موجودگی کا احساس دِلا رہی تھیں۔ کبھی دور کسی گیدڑ کے چیخنے کی آواز بھی انہیں اپنی جانب متوجہ کر لیتی۔ ابھی انہوں نے نصف فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ خالد نے ناصر کا بازو کھینچ کر رکنے کا اشارہ کیا۔

”ناصر! لگتا ہے ہمارے قریب ہی کوئی گہری سانسیں لے رہا ہے۔” خالد نے تجسس سے کہا۔

”اوہ….. کوئی چور، ڈاکو ہوگا یار!” ناصر نے بے دلی سے جواب دیا۔

”نہیں….. میرے خیال میں کوئی جانور ہے۔” خالد نے کہا۔ ابھی وہ باتوں میں مگن تھے کہ اچانک ناصر کی نظر سامنے جھاڑیوں پر پڑی۔

”شش… شیر… بھاگو…!” ناصر زور سے چلّایا پھر دونوں نے گاؤں کی طرف دوڑ لگا دی۔

بھاگتے بھاگتے انہیں شیر کی دھاڑ سنائی دی۔ خالد تو ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا نظروں سے اوجھل ہو گیا مگر ناصر کی ہمت جواب دے گئی۔ جلد ہی اُس کا بھاری وجود تیز رفتاری میں رکاوٹ بن گیا۔ ناصر کو اپنی موت یقینی دکھائی دے رہی تھی کیوں کہ شیر کی دھاڑ مسلسل قریب آرہی تھی۔ 

اُس نے ہمت کی اور ایک گھنے درخت کے اُوپر چڑھنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ کافی بلندی پر جا پہنچا۔ اُسے درخت کے باریک سے تنے پر بیٹھے تھوڑی دیر گزری تھی کہ شیر دھاڑتا ہوا درخت کے نیچے آگیا۔

کچھ دیر شیر درخت کے نیچے ٹہلتا رہا پھر جنگل میں غائب ہوگیا مگر ناصر صبح ہونے سے پہلے نیچے نہیں اُترنا چاہتا تھا۔ کافی دیر بعد اسے گائوں کی جانب سے بہت سی روشنیاں اپنی جانب بڑھتی دکھائی دِیں۔ جلدہی ہتھیاروں سے لیس چند نوجوان اُس کے قریب پہنچ گئے۔ ناصر چیخ چیخ کر انہیں اپنی جانب بلانے لگا۔ اُن لوگوں میں خالد بھی شامل تھا۔ 

”تم ابھی تک زندہ ہو ناصر؟” ایک نوجوان نے حیرت سے پوچھا۔

”کیا مطلب ہے تمہارا؟” ناصر چونکا۔ 

”کچھ نہیں، دراصل خالد نے تمہارے اور شیر کے دنگل کا نقشہ ہی ایسا کھینچا تھا کہ کسی کو خیریت کی اُمید نہیں تھی۔” نوجوان نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

”اوہ! خالد کی خبر تو میں بعد میں لوں گا۔ پہلے تم لوگ مجھے نیچے اتارو۔ ”ناصر نے بلند آواز سے کہا۔ 

”ہم کیسے اتاریں؟ خود اُترو، جیسے درخت پر چڑھے تھے۔ ” اسی نوجوان نے ناصر کو مشورہ دیا۔

”وہ تو مجھے بھی نہیں معلوم کہ میں کیسے چڑھ گیا تھا۔” ناصر نے جواب دیا۔

”ایسا کرو کہ تم چھلانگ لگا دو۔ ہم تمہیں گیند کی طرح دبوچ لیں گے۔” خالد نے قریب آکر کہا تو سب ہنسنے لگے۔

”نہ بھئی! میری تو ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی۔” ناصر نے ڈرتے ہوئے کہا۔

”ناصر ! ذرا سنبھل کر… تمہارے بہت قریب ایک شاخ پر زہریلا ناگ ہے۔” خالد نے چیخ کر کہا تو ناصر تیزی سے حرکت میں آیا او ر شاخوں سے جُھولتا ہوا درخت سے نیچے اتر گیا۔ اُس کی یہ حرکت دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔ ناصر سمجھ گیا کہ خالد نے یہ چال اُسے درخت سے اُتارنے کے لیے چلی ہے۔

اِس کے بعد وہ سب گاؤں چلے گئے۔ ناصر نے آئندہ شہر جاکر ملازمت کرنے سے توبہ کرلی۔ وہ ایک چوکی دار کا بیٹا تھا لیکن اُس کا باپ بوڑھا ہوچکا تھا۔ گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ ناصر کو اُس کے بوڑھے والد کی جگہ یہ کام سونپ دیا جائے۔ چناں چہ مشورے کے بعد پہرے داری کا کام ناصر کو سونپ دیا گیا۔ ویسے بھی شیر سے ایک مرتبہ سامنا ہونے کے بعد ناصر کے دل سے خوف بہت حد تک کم ہو گیا تھا۔

٭…٭…٭

اُس رات مدھم سی چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ اچانک پہرے داری کرتے ہوئے ناصر نے گائوں کی ایک گلی سے شیر کونکلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کے اوسان خطا ہوگئے۔ شیر نے جبڑوں میں کوئی جانور دبوچ رکھا تھا۔ اگلی صبح گاؤں میں شور مچ گیا کہ فضلی بابا کا بچھڑا غائب ہے۔ جب ناصر نے رات کو شیر کی آمد کا بتایا تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔ گاؤں والے پریشان ہوگئے۔ پھر آئے روز یہ معمول ہی بن گیا۔ وہ رات کے وقت کسی باڑے پر حملہ کرتا اور کسی نہ کسی جانور کو منہ میں دبا کر غائب ہوجاتا۔

ایک رات شیر گاؤں سے شکار لے کر جنگل کو جارہا تھا۔ شیر کا رُخ مٹی کے ٹیلوں کی طرف تھا۔ ٹیلوں کے دوسری طرف جنگل شروع ہورہا تھا۔ ناصر نے شیر کو دیکھا تو محتاط انداز میں اُس کا تعاقب کرنے لگا۔ شیر نے ٹیلوں کے پاس پہنچ کر اپنے شکار سے انصاف کیا اور دعوت اُڑانے کے بعد بھرپور انگڑائی لے کر جنگل میں غائب ہو گیا۔ اُس جگہ پر جانوروں کی بہت سی ہڈیاں دیکھ کر ناصر سمجھ گیا کہ شیر اپنا شکار یہیں لا کر کھاتا ہے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ناصر واپس گھر آ گیا۔ دوسری صبح وہ الماری سے اپنے والد کی بندوق نکال کر صاف کرنے لگا۔

چند روز سکون سے گزرے۔ آخر ایک رات ٹیلوں کے قریب ناصر کو ایک سایہ سا دکھائی دیا۔ قریبی درخت کی شاخ پر بیٹھا ناصر چونک گیا۔ اچانک اُسے شیر مٹی کے ٹیلے کی جانب آتا دِکھائی دیا۔ آج اس کے پاس شکا ر نہیں تھا کیوںکہ گائوں والوں نے اپنے جانور کمروں میں بند کر دیے تھے۔ شیر کا رخ اپنے مخصوص ٹھکانے کی طرف تھا جہاں وہ اپنا شکار کھایا کرتا تھا۔ ٹیلے کے پاس پہنچ کر وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ شاید اُسے آس پاس کوئی خطرہ محسوس ہوا تھا۔

ادھر ناصر بھی چوکنّا ہوکر درخت پر بیٹھا تھا گو کہ اسے شکار کا بالکل تجربہ نہیں تھا مگر اب پیچھے ہٹنا بھی ممکن نہ تھا۔ چناں چہ اُس نے درخت کے تنے پر بیٹھے بیٹھے بندوق سنبھالی اور شیر کی دونوں آنکھوں کے درمیان کھوپڑی کا نشانہ باندھ لیا۔ اِس دوران وہ شیر کے نزدیک آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اُسے ہر صورت اپنے حواس پر قابو رکھنا تھا۔ جیسے ہی خونی درندہ مزید آگے بڑھا، ناصر نے اللہ کا نام لے کر بندوق کا ٹریگر دبا دیا۔

اگلے ہی لمحے پُر سکون علاقہ فائر کی آواز سے گونج اُٹھا۔ گھونسلوں میں سوئے ہوئے پرندے گھبرا کر شور مچانے لگے۔ جیسے ہی اُس کے جسم کو بندوق نے زور دار جھٹکا دیا، ناصر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور زمین پر آگرا۔

بلندی سے گِرنے کے باعث اُس کی ٹانگ پر شدید چوٹ آئی۔ وہ زخمی ٹانگ کو پکڑ کر درد سے دہرا ہو گیا۔ اچانک ناصر کی نظر قریب ہی ہانپتے ہوئے شیر پر پڑی تواُس کے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی ۔ گولی سر کے بجائے شیر کی ٹانگ میں لگی تھی۔ زخمی شیر دھاڑتے ہوئے دوبارہ اُس پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔

ناصر نے جلدی سے بندوق سنبھالی اور اُس کا رخ دوبارہ شیر کی طرف کرکے ٹریگر دبا دیا۔ شیر نے لمبی جست لگا کر اُس پر حملہ کردیا۔ ماحول ایک مرتبہ پھر فائر کی آواز سے گونج اٹھا۔ ساتھ ہی ناصر کی ایک کرب ناک چیخ بھی بلند ہوئی۔ فائر کی آواز سن کر ناصر کے باپ بشیر احمد کی آنکھ کھلی تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے وہ جلدی باہر نکل آیا۔ اِسی دوران گائوں کے دیگر لوگ بھی جنگل کو جانے والے راستے پر جمع ہوگئے۔ جب وہ ٹیلے کے نزدیک پہنچے تو وہاں کا منظر دیکھ کر سب کے منہ حیرت اور خوف سے کھلے رہ گئے۔

خون میں لت پت شیر درخت کے قریب پڑا تھا۔ جب کہ بے سُدھ ناصر کا آدھا وجود اِس کے نیچے دبا ہوا تھا۔ بیٹے کی حالت دیکھ کر بوڑھا بشیر احمد تڑپ اُٹھا۔ گائوں کے چند نوجوان تیزی آگے بڑھے اور انہوں نے مُردہ شیر کو کھینچ کر ناصر سے دور کیا ۔ناصر کی ٹانگ زخمی تھی اور وہ خوف کے مارے بے ہوش ہوچکا تھا۔ موقع پر موجود ایک حکیم نے طبی امداد دی تو جلد ہی ناصرنے آنکھیں کھول دِیں۔

گائوں والے ناصرکی بہادری پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ اِدھر بشیر احمدکا سر فخر سے بلند ہوچکا تھا۔ آخر اُس کے بیٹے کو گائوں سب سے بہادر نو جوان ہونے کا اعزاز جو مل چکا تھا۔ اب لوگ ناصر کو ”شکاری” کے نام سے پکارنا شروع ہوگئے۔ ناصر بھی خود کو ”شکاری” کہلوا کر فخر محسوس کرنے لگا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شہروز اور چندا ماموں ۔ الف نگر

Read Next

عقل مند چڑیا ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!