عداوت — ہما شہزاد

اپنے بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی سویرا نے سب سے پہلے ہینڈ بیگ سے وہ لفافہ نکالا اور بہ غور اُسے دیکھنے لگی۔
”گلِ رعنا رضا” یہ نام وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ اس نام کے ساتھ جڑی یادوں کو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھلا دینا چاہتی تھی لیکن اُس کے لیے ایسا چاہ کر بھی ممکن نہ تھا۔ ”کیا پتا یہ کوئی اور گلِ رعنا ہو۔” اُس نے لفافہ کھولنے کی بہ جائے اُسے بیڈ پر رکھ دیا اور خود بے دلی سے کھڑکی کی جانب آگئی۔ دنیا میں صرف ایک ہی تو گل رعنا نہیں۔ اُس نے کھڑکی کھول کے باہر سے آنے والی تازہ ہوا کو محسوس کرتے ہوئے سوچا۔ وہ ڈاکٹر نوید کے کمرے سے لفافہ اٹھا تو لائی مگر نہ جانے کیوں اُسے کھول کر دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔
اُس نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے تاریکی میں کسی چیز پر دھیان دینے کی کوشش کی لیکن ذہن کے پردے پر بہت عرصے بعد ماضی کے کچھ منظر اُبھرنے لگے تھے۔
مبارک ہو سویرا… congratulations سویرا… keep it up سویرا… F.Sc فرسٹ ایئر کے رزلٹ کا اعلان ہوا تھا اور سویرا نے پورے کالج میں ٹاپ کیا تھا۔ اُس کی ٹیچرز، فرینڈز اور کلاس فیلوز سب ہی اُسے مبارک باد دے رہے تھے۔ اس کی کامیابی پر خوش تھے سوائے ایک لڑکی کے جو سکول کے دور سے اُس کی کلاس فیلو تھی اور کوشش کے باوجود ہمیشہ دوسری پوزیشن ہی حاصل کر پاتی تھی۔ وہ کبھی بھی سویرا سے آگے نہیں نکل پائی تھی۔ یہی حسد اُسے سویرا سے دور کرتا گیا۔ آج بھی سویرا کی کامیابی پر وہ سخت نالاں تھی۔ اپنی چند دیگر کلاس فیلو کے ساتھ کھڑی وہ کچھ یوں تبصرہ کر رہی تھی:
”سویرا میں اور مجھ میں کوئی خاص فرق نہیں ہم دونوں ایک جیسے لائق ہیں۔ لیکن اُس کی مجھ سے آگے نکل جانے کی وجہ صرف اُس کی ہینڈ رائٹنگ ہے۔” گلِ رعنا نے اپنے اندر کی تپش کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ اُسے سخت ملال تھا کہ اتنی محنت کے باوجود صرف چند مارکس کے فرق سے وہ ایک مرتبہ پھر سویرا سے پیچھے رہ گئی تھی۔
”ہاں ویسے گل کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ تمہارے اور سویرا کے پیپرز ہمیشہ ایک جیسے اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو سویرا کی رائٹنگ بہت خوب صورت ہے اس لیے وہ ٹاپ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔” جویریہ نے تبصرہ کیا۔
”گل تم نے کبھی کوشش نہیں کہ اپنی رائٹنگ بہتر بنانے کی؟” صدف نے گل رعنا کو مخاطب کیا۔
”بہت کوشش کی ہے یار بس نہ پوچھو۔” گل رعنا نے تاسف سے سر ہلایا۔ ”پتا نہیں کیوں میری رائٹنگ بس ٹھیک ہی ہے۔”
”چلو کچھ نہیں ہوتا سیکنڈ پوزیشن بھی کچھ کم نہیں۔” جویریہ نے اُس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُسے تسلی دی۔ لیکن یہ آگ لفظوں سے بجھنے والی نہیں تھی۔ گل رعنا کو ہر صورت اگلی بار امتحان میں ٹاپ کرنا تھا کیسے؟ یہ پلاننگ بھی اُسے خود کرنی تھی۔ ابھی پورا ایک سال پڑا تھا۔
اور پھر سال بھی ختم ہو گیا۔
اُس دن کالج میں ان کا آخری پریکٹیکل تھا اور وہ لوگ کیمسٹری کے پریکٹیکل کے لیے لیب میں موجود تھے۔
ٹائٹریشن کے لئے بیوریٹ آئرن سٹینڈ میں فکس کر کے سویرا اپنی رف کاپی میں ٹیبل بنا رہی تھی۔ باقی سب لڑکیاں بھی ریڈنگ لینے میں مصروف تھیں۔
”سویرا یہ کیلکولیشن ٹھیک ہے؟” سویر اکے بائیں جانب کھڑی رابعہ نے اپنے نوٹس کے بارے میں پوچھا۔ ”دکھاؤ؟” سویرا نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے بائیں جانب میز پر موجود کاپی پر ذرا جھکتے ہوئے کہا۔ ”نہیں رابعہ تم نے ملٹی پلائی کی بجائے”… ابھی سویراآگے بھی کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اُس کے دائیں ہاتھ کے قریب پڑا آئرن سٹینڈ بیوریٹ سمیت اُس کے ہاتھ پہ آگرا تھا۔ سٹینڈ اور ٹیوب گرنے کی زور دار آواز کے ساتھ سویرا کے منہ سے نکلنے والی چیخ نے سب لڑکیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
سویرا کا ہاتھ بُری طرح زخمی ہوا تھا۔ کالج کے پاس واقع ہسپتال لے جانے پر پتا چلاتھا کہ اس کی دو انگلیاں بھی فریکچر ہوئی ہیں، جنہیں ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگے گا اور فائنل امتحان میں بس چند دن ہی باقی تھے۔
”میڈم میں نے خود دیکھا ہے گلِ رعنا نے ہاتھ مار کر سٹینڈ سویرا کے ہاتھ پر گرایا ہے۔” سویرا کے ہسپتال جانے کے بعد صبا نے پرنسپل کے سامنے سب لڑکیوں کو بلائے جانے پر بتایا۔ ”صبا کو غلط فہمی ہوئی ہے میڈم” گل رعنا نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ ”میں مانتی ہوں کہ میرا ہاتھ لگنے سے ہی سٹینڈ گرا ہے لیکن یقین کریں میں نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا میرا ہاتھ غلطی سے سٹینڈ سے ٹکرا گیا۔ یہ محض ایک حادثہ تھا۔ مجھے تو خود بہت افسوس ہے سویرا کے لیے۔” اُس نے آنسو بہاتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
سویر انے باہر سے آتی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتے ہوئے کھڑکی بند کی اور آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی بیڈ پہ بیٹھ گئی۔ ماضی کی تلخ یادیں ہمیشہ ایسے ہی اُداس کیا کرتی ہیں۔ اُس نے بیڈ پہ رکھے لفافے پر ایک نظر ڈالی۔ اُسے وہ دن یاد آیا جب گل رعنا اُس سے معافی مانگنے اُس کے گھر آئی تھی۔
”سویر امیں بہت شرمندہ ہوں میری وجہ سے تم امتحان نہیں دے پاؤ گی۔” اُس نے جھکے سر کے ساتھ کہا: ”مگر یقین کرو اس میں میرا کوئی قصور نہیں بس ایک حادثہ تھا میرا ہاتھ لگا اور …”
”تم کہہ رہی ہو کہ تم نے سٹینڈ جان بوجھ کر نہیں گرایا تو ٹھیک ہے ایسا ہی ہو گا۔” سویرا نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ صبا کے علاوہ کسی بھی لڑکی نے گل کو سٹینڈ گراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس لئے سب اسے ایک حادثہ ہی تصور کر رہے تھے لیکن صبا کسی بھی طرح اسے حادثہ ماننے پر تیار نہیں تھی اور اس کی بات سننے کے بعد سویرا کتنی ہی دیر شاکڈ رہی تھی کہ گل نے آخر ایسا کیوں کیا۔ لیکن اُس کی یہ اُلجھن بھی بہت جلد دور ہو گئی تھی۔
F.Sc سیکنڈ پارٹ میں سویرا نے سیکنڈ پوزیشن لی تھی۔ اُس نے محض دو ہفتوں میں اپنے بائیں ہاتھ سے دن رات لکھنے کی پریکٹس کر کے پیپر دیئے۔ اگرچہ وہ اپنے بائیں ہاتھ سے لکھنے میں ابھی مہارت حاصل نہیں کر پائی تھی پھر بھی اُس نے ہمت کر کے اچھی پوزیشن سے امتحان پاس کر لیا ۔
”مبارک ہو سویرا تم نے بہت محنت کر کے یہ پوزیشن حاصل کی ہے۔” گل رعنا کالج میں رزلٹ ڈے پر اُسے مبارک باد دے رہی تھی۔ اُن کی اور بھی کلاس فیلوز وہاں موجود تھیں۔
گلِ رعنا کی پہلی پوزیشن تھی اور اُس کی خوشی اُس کے چہرے سے پوری طرح عیاں تھی۔ سویرا نے اُس کے دمکتے چہرے کو دیکھتے ہوئے شکریہ کہا اور اُسی لمحے صدف کی مذاق میں کہی گئی ایک بات نے گل کے چہرے کو اچانک ہی تاریک کر دیا اور پھر سویرا تمام عمر اُس تاریکی کو بھلا نہیں پائی۔
”ویسے گل تمہیں بہت بہت مبارک ہو آخر کارتم نے ٹاپ کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش آج پا ہی لی۔” صدف کے کہنے پر گل نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ ”محنت بھی تو بہت کی ہے میں نے اس بار” اُس نے صدف کو دیکھتے ہوئے کہا: ”ویسے یار مان لو تمہاری محنت سے زیادہ سویرا کے فریکچرڈ ہاتھ کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے۔” صدف روانی سے ایک سچائی کہہ گئی۔ ”تم ہی تو کہتی تھیں کہ سویرا کی ہینڈرائٹنگ ہی اُسے فرسٹ پوزیشن کا حق دار بناتی ہے۔” سویرا نے چونک کر صدف کی اس بات پر گل کی طرف دیکھا اور وہاں اب تاریکی کے سوا کچھ نہیں تھا۔
سویرا نے اُس تاریک چہرے کو یاد کرتے ہوئے لفافہ میں موجود رپورٹ نکالی۔
گل رعنا کے دونوں ہاتھ کسی حادثے کے نتیجے میں فریکچر ہو گئے تھے اور ہاتھوں کے پٹھے ناکارہ ہو جانے کی باعث وہ اب کبھی بھی اپنے ہاتھوں سے کوئی کام نہیں کر سکتی تھی۔ رپورٹ کے نیچے نیوروفزیشن ڈاکٹر نوید کے سائن دیکھتے ہوئے سویرا کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
اُس نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے آنسو صاف کئے اور رپورٹ واپس لفافے میں رکھ دی۔ سویرا اُس حادثے کے کچھ ماہ بعد اپنے دائیں ہاتھ کو دوبارہ استعمال کرنے کے قابل ہو گئی تھی۔ لیکن گلِ رعنا نے اپنے کئے کا بدلہ پا لیا تھا۔
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۳

Read Next

وہ راحت جاں — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!