صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

”لقمان احمد ہائیر ایجوکیشن سکول اینڈ کالج۔” اس نے چشمہ اتار کر آنکھوں میں امڈتی نمی کو صاف کیا۔
”ایان صاحب ماشا اللہ بہت بہت مبارک ہو۔اللہ نے آپ کی محنت کا اتنا خوبصورت صلہ دیا ہے۔اب گاؤں کے بچے سکول کے ساتھ ساتھ کالج کی تعلیم بھی بآسانی حاصل کرسکیں گے۔” گاؤں کے نمبردار نے ایان کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا۔
”بہت شکریہ جناب مگر یہ میری محنت نہیں بلکہ میرے والد صاحب کی دعاؤں کا پھل ہے۔انہوں نے ہمیشہ لوگوں میں علم بانٹا تھا تو بس ۔یہ ان کی خواہش کو جاری رکھنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے۔” ایان جواباً مسکرایا۔
”سر! اب کالج کا افتتاح کرلیا جائے۔پہلا قدم آپ رکھیں،یہ گاؤں والوں کی خواہش ہے۔” ملازم نے ایان کو آگاہ کیا۔
”پہلا قدم میرا بیٹا رکھے گا اور افتتاح بھی اس کے ہاتھوں سے ہوگا یہ میری خوشی ہے۔” اس نے چشمہ لگاتے ہوئے ملازم کو چلنے کا اشارہ کیا۔
سکول کے دروازے کے گرد مجمع جمع تھا۔ایان ہجوم میں سے گزرتے ہوئے حسان کا ہاتھ تھامے آگے بڑھا۔
”حسان بیٹا! یہ ربن کاٹو۔” وہ حسان کو گود میں اٹھائے کہہ رہا تھا۔حسان نے اپنے چھوٹے ہاتھوں سے درسگاہِ علم کا افتتاح کیا۔چار سال کی عمر میں وہ ہزاروں لوگوں کے شاندار مستقبل کا ضامن بن چکا تھا۔تمام افراد سکول میں داخل ہوگئے۔ایان کا اسسٹنٹ تمام افراد کو سکول اور کالج کے متعلق آگاہی دے رہا تھا۔باہر ہجوم کچھ کم ہوا تو وہ خاموشی سے باہر کھڑے ہوکر آسمان کی وسعتوں کو دیکھنے لگا۔اس کے جسم میں برقی لہر دوڑنے لگی۔وہ بار بار آنکھوں میں امڈتی نمی صاف کررہا تھا۔




”بابا جان! آج آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔بہت زیادہ ۔کبھی کبھی دل کرتا ہے ساری دنیا سے کٹ جاؤں اور بس آپ کی گود میں سر رکھ کر سارے آنسو بہادوں۔میں اتنے عرصے میں بہت تھک گیا ہوں بابا جان، مگر جانتے ہیں ۔جب بھی میں تھک جاتا تھا تو وہ دن یاد کرلیتا ہوں جب مجھے تعلیم یافتہ اور قابل بنانے کے لیے آپ جدوجہد کیا کرتے تھے۔آپ کی محنت کے سامنے میرے پانچ سال تو کچھ بھی نہیں۔یہ سکول آپ کے لیے ہے۔آپ کے علم کو جاری رکھنے کے لیے۔آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے بابا جان۔ مجھے یقین ہے آج آپ بہت خوش ہوں گے۔میرے لیے دعائیں بھی کررہے ہوں گے ،مگر بابا جان! مجھ سے وعدہ کریں اب آپ مجھ سے زیادہ میرے حسان کے لیے دعا کریں گے۔ابھی مجھے بہت محنت کرنی ہے ۔اپنے بیٹے کو منزل تک پہنچانے کے لیے ابھی مجھے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔آپ دعا کریں اللہ مجھے ہمت دے اور یہ زمین و آسمان کی قوتیں مل کر میرے سارے کام آسان کردیں۔” وہ پُرامید ہوکر آسمان پر محوِ رقص جھومتے بادلوں کو دیکھنے لگا۔
”بابا ۔بابا جان! آپ کدھر ہیں ۔؟” حسان سکول سے باہر بھاگتا ہوا مسلسل چلّا رہا تھا۔وہ باپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے باہر آگیا تھا۔اس کے معصوم چہرے پر پریشانی کے آثار واضح تھے۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہونے والا تھا ۔بالکل اپنے باپ کی طرح!
”حسان بیٹا !ادھر ہیں بابا۔کیا ہوا میرے بیٹے کو؟” وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر حسان کو پیار کرنے لگا۔وہ بہت کچھ کہہ رہا تھا۔اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ ہلاتے ہوئے پچھلے آدھے گھنٹے کی داستان سنا رہا تھا۔وہ کہتا جارہا تھا اور ایان صرف اسے دیکھے جارہا تھا ۔مسکراتے ہوئے ۔محبت سے ۔بڑے مان سے۔اس نے حسان کو گود میں اٹھایا اور سکول کی طرف قدم بڑھادیے۔
غروبِ آفتاب کا وقت تھا۔سورج اپنی تمام تر توانائی زمین والوں کے سپرد کرکے ڈوبنے کو تیار تھا۔پرندے قطار بنائے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔شام کا وقت ،دن اور رات کے درمیان کا وقت، اختتام کا وقت،لوٹ جانے کا وقت،پناہ لینے کا وقت!
شام کے وقت شہر واپس جانے سے پہلے ہاجرہ کی فرمائش پر ایان اسے مارکیٹ لے گیا جو گاؤں کی حدود سے باہر چند قدموں کے فاصلے پر تھی۔وہ دونوں مختلف دکانوں سے گزرتے ہوئے مین روڈ پر آگئے جہاں لوگوں کا ہجوم نسبتاً زیادہ تھا۔
”بابا !مجھے یہاں سے آئس کریم لینی ہے۔”مارکیٹ سے گزرتے ہوئے حسان نے کہا۔
”نہیں بیٹا،یہ اچھی نہیں ہے۔گھر جاکر کھائیں گے۔” ہاجرہ نے ٹالتے ہوئے کہا۔
”اللہ کے نام پر کچھ دے دے اللہ تیرا بھلا کرے۔سوہنا رب تیرا بیڑا پار لاوے۔” ان کے قریب سے گزرتے ہوئے فقیر بلند آواز میں صدا لگا رہا تھا۔
”مجھے ابھی کھانی ہے بابا ۔اس دکان سے ابھی ابھی لینی ہے۔” حسان نے رونے والا منہ بنا کر اپنی بات پر زور دیا۔
”بیٹا …”
”اچھا لے لیتے ہیں، لیکن پہلے رونا بند کرو۔” ہاجرہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ایان نے حسان کی ضد پر ہاں کہہ ڈالی۔وہ اس کو گود میں اٹھائے خاموشی سے آئس کریم لینے دکان پر چل دیا۔
”سویر دا بچیاں نے کجھ(کچھ) نہیں کھادا (کھایا)۔اللہ دے نام دی روٹی دے دے ۔اللہ سوہنا سب دے اوچے نصیب کرے ۔” فقیر سامنے والی دکان کے فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔
”بابا جی اللہ بھلا کرے۔” کوئی فقیر سے کہہ رہا تھا۔
”مینگو آئس کریم لینی ہے بابا۔” حسان خوشی خوشی دکان کی طرف جاتے ہوئے باپ سے کہنے لگا۔
”بابا کو پتا ہے حسان کو کون سی آئس کریم کھانی ہے۔”ایان نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔
”مولا تیری شاناں ۔ہائے اوئے میرے مالکا ۔” فقیر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا۔
”یہ لو بیٹا آپ کی مینگو آئس کریم۔” دکان دار نے آئس کریم کا کپ تھمایا۔ایان دکان دار کو پیسے دے رہا تھا جب حسان اچانک اس کے ہاتھ سے چند نوٹ لے کر تیزی سے بھاگنے لگا۔
”حسان ۔حسان کدھر جارہے ہو؟ اففف کہاں چلا گیا ہے ؟” ہاجرہ پریشانی سے اسے آوازیں دینے لگی۔وہ دونوں اس کے پیچھے چلنے لگے۔
”بابا جی! یہ لیں ۔یہ کھالیں۔یہ پیسے بھی لے لیں۔” حسان کو فٹ پاتھ پر بیٹھے فقیر کے پاس دیکھ کر یکدم دونوں کے قدم رک گئے۔
”اور یہ میری گھڑی بھی آپ اپنے گھر لے جائیں۔” حسان اپنا بازو آگے کرتے ہوئے چہرے پر بلا کی معصومیت سجائے انتہائی محبت سے کہہ رہا تھا جیسے وہ ہر حد تک اس فقیر کی مدد کرنا چاہتا ہو۔ایان یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا۔وہ اس عمر میں اپنے بیٹے سے ایسی توقع نہیں کررہا تھا۔
”پتر اللہ تینوں اپنی شان دے مطابق نوازے۔اللہ بچے دی قسمت سوہنی کرے۔مولا سدا قسمت نوں چمکدا رکھے۔”فقیر پیسے اور آئس کریم کا کپ تھامتے ہوئے دعائیں دینے میں مصروف ہوگیا۔
”حسان بیٹا! ایسے اکیلے نہیں بھاگتے۔اب میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا۔” ہاجرہ اسے ڈانٹ رہی تھی۔
”ماما! وہ والے بابا جی تھے نا وہ بھی بابا سے مانگ رہے تھے جیسے میں نے اپنی آئس کریم مانگی۔بابا نے مجھے میری آئس کریم دی ان کو کچھ نہیں دیا پھر میں نے دے دیا۔” حسان اپنی سمجھ کے مطابق وضاحت دے رہا تھا مگر ایان ۔وہ یہ سب سن کر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
”اب وہ بھی خوش ہوجائیں گے نا ماما۔” بعض اوقات ہم بہت سارے معاملات سمجھ نہیں پاتے، مگر بچے ان کا مفہوم بے حد سادگی سے بیان کرکے ساری الجھنیں سلجھا دیتے ہیں۔
”ہاجرہ تم حسان کو لے جاؤ۔میں جانے سے پہلے بابا کو سلام کر آؤں۔” ایان نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔مارکیٹ کا شور یکدم ہی مدھم لگنے لگا تھایا پھر شاید اس کی سماعتیں کچھ سننا ہی نہیں چاہتی تھیں۔
”اب اس وقت جائیں گے ؟”ہاجرہ نے وقت دیکھا۔مغرب کی اذان ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔
”کچھ نہیں ہوتا۔جب اپنے رہتے ہوں تو سمجھو قبرستان اپنا ہی گھر ہوتا ہے۔” ایان ہاجرہ کے پریشان چہرے کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔
٭…٭…٭
”بابا جان! تو گویا میری دعا قبول ہوگئی۔میں چاہتا تھا میرا حسان آپ جیسا ہو۔آپ نے دیکھا ابھی اس نے کیا کردکھایا۔وہ آپ جیسا ہی ہے احساس کرنے والا ۔لوگوں کے مسائل حل کرنے والا۔ وہ اتنی سی عمر میں مجھے کتنا کچھ سکھا گیا۔میرے بیٹے نے جو کچھ محسوس کیا وہ میں تو کر ہی نہیں سکا۔آپ کہتے تھے نا اپنی اولاد سامنے آجائے تو دوسروں کی پریشانی نظر نہیں آتی۔” ایان نے باپ کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر مٹی سے اپنی مٹھی بھرلی۔
” میں اب اس حقیقت سے آشنا ہورہا ہوں بابا کہ وقت آنے پر اللہ سب کچھ سمجھا دیتا ہے۔ کبھی کبھی میں حیران ہوجاتا ہوں کس طرح زمین و آسمان کی تمام تر طاقتیں مل کر انسان کے کام آسان کردیتی ہیں۔اللہ نے مجھے وسیع رزق عطا کیا ہے مگر آپ نے اور حسان نے مجھے سکھایا کہ رزق کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔آپ عظیم باپ تھے بابا جان ۔آپ کی اعلیٰ تربیت کے باعث میرا بیٹا بھی عظیم ہے۔یہ اللہ کا صلہ ہے میرے لیے۔” مٹی اس کی انگلیوں کی پوروں سے سرکتے ہوئے قبر پر بکھرنے لگی۔ وہ پھر سے مٹھی بھرنے لگا۔
”بابا جان! آپ کہتے تھے جب تمہاری اولاد ہوگی تو تم سب کچھ خود بخود سمجھ جاؤ گے۔ میں واقعی اب سمجھ رہا ہوں۔ اولاد کی تربیت یقینا آزمائش ہے۔ انسان جو کچھ بوتا ہے،اولاد کی صورت میں کاٹتا بھی ہے۔ہماری اولاد پہلے ہمارے اعمال دیکھتی ہے اور پھر وہ اپنے عمل سے ہمارے سارے اعمال سامنے لے آتی ہے۔” مٹی پھر سے بکھرنے لگی۔ہوا کے جھونکے سے قبر پر سجے پھول پھرپھرانے لگے۔
”بابا جان! میں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ اولاد کو صدقہ جاریہ ہمارا عمل بناتا ہے۔ ہمارے مرنے کے بعد پیچھے رہ جانے والا ہر اچھا عمل ”صدقہ جاریہ” ہی ہے اور ہمارے پاس پیچھے چھوڑنے کے لیے اپنی نسل کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اگر آج ہم صحیح تربیت کریں گے تو یقینا کل کو وہ ہمارے لیے بھی ضرور صدقہ جاریہ بنیں گے۔” مغرب کی اذان شروع ہوچکی تھی۔
”ابھی مجھے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔اپنی اولاد کی خاطر خود کو ایسا عامل بنانا ہے جیسا میں کل کو اُسے دیکھنا چاہتا ہوں۔مجھے پہلے خود کو سنوارنا ہے پھر وہ بھی سنور جائے گا۔ مجھے اپنی اولاد کی بھلائی کے لیے اپنی ذات پر محنت کرنی ہے۔راستہ کٹھن ہے مگر منزل نہیں۔” قبر سے اُڑتی دھول مٹی کو قدموں تلے روندتے ہوئے وہ قبرستان سے نکل گیا اپنی اولاد کے پاس جانے کے لیے!

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

Read Next

نالائق — نورالسعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!