صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

”چاچا! ان بچوں کو چھوڑ کر پہلے مجھے سامان دے دیں۔کب سے دھوپ میں کھڑا انتظار کررہا ہوں۔چیخ چیخ کر دماغ خراب کردیا ہے انہوں نے۔” ایان کو اس وقت سخت کوفت ہورہی تھی۔لندن میں دو سال گزارنے کے بعد کم از کم اب محلے کی دکان پر کھڑے ہوکر انتظار کرنا اس کے ساتھ ناانصافی کے زمرے میں ہی آتا تھا۔
”آپ سے پہلے ہم آئے ہیں اس لیے پہلا حق ہمارا ہی ہے۔ہم جتنا مرضی وقت لگائیں ہماری مرضی۔” دکان پر کھڑا لڑکا جس کی عمر غالباً آٹھ سال تھی چیختی آواز میں ایان سے مخاطب ہوا۔اس کی بات سن کر سب بچے بے ڈھنگی آواز میں ہنسنے لگے۔
”چاچا! سامان دینا ہے یا میں واپس جاؤں؟” ایان بچوں کو گھورتا ہوا سخت غصے میں بولا۔ بچوں کی فوج میں اس وقت وہ خود کو انتہائی تنہا محسوس کررہا تھا۔
”یہ لو بیٹا جی آپ کا سامان۔اس وقت ماسٹر صاحب ہوتے نا تو سب بچوں کو اپنے پاس بٹھا لیتے اور کوئی قصہ سمجھا کر ہی جاتے۔” دکاندار نے ایان کی بے صبری پر افسوس کرتے ہوئے اس کے باپ کی مثال دی۔
”بابا کے پاس بہت وقت ہوتا ہے اور میرے پاس صرف وقت کی ہی کمی ہے۔” ایان کے لہجے میں طنز بھرا ہوا تھا۔اس نے چاچا کو پیسے تھماتے ہوئے اپنی بائیک سٹارٹ کی، مگر وہ تو جیسے اپنی جگہ پر جَم چکی تھی۔اس نے دوبارہ چابی گھمائی مگر بے سود۔
”ابھی تو صحیح چل رہی تھی پٹرول بھی پورا تھا۔کیا مصیبت۔” وہ خود کلامی میں مصروف تھا جب دور بھاگتے بچوں کے قہقہوں نے اسے یک دم حیران کردیا۔اس نے فوراً بائیک سے اتر کر دیکھا تو دونوں ٹائر پنکچر تھے۔بچوں نے قدرے مہارت سے ٹائروں میں کیل گھسائے تھے۔ایان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔وہ بلند آواز میں گالیاں دینے لگا جس پر بچے مزید قہقہے لگانے لگے۔دھوپ کی شدت میں کھڑے اس وقت اس کو اپنی بے عزتی شدت سے محسوس ہوئی۔ اس نے غصے میں اپنی اور بچوں کی عمر کا لحاظ کیے بغیر قدرے بھاری پتھر اٹھا کر پوری قوت سے دے مارا جو بد قسمتی سے بچے کے سر پر لگا تھا۔دکاندار یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گیا۔




”تمہاری اعلیٰ تعلیم نے یہ سکھایا ہے کہ بچوں کو مارتے پھرو۔ا تنا غرور توبہ ہے بھئی ۔لگتا ہی نہیں ماسٹر لقمان کی اولاد ہو۔” وہ ایان کو نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بچے کے پاس بھاگا جو جاہلوں کی طرح چیخ چیخ کر سارے محلے کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ایان کو خود پر مزید افسوس ہوا۔وہ جانتا تھا پورا محلہ اس کی اعلیٰ تعلیم کا طعنہ دینے اس کے باپ کے پاس ضرور جمع ہوگا۔ وہ شدید کوفت میں اپنی بائیک گھسیٹتے ہوئے چلنے لگا۔
”ایان بچے! مجھے تم سے یہ امید تو بالکل بھی نہیں تھی۔تم نے پہلے بدتمیزی کی اور پھر پتھر ہی اٹھا کر ماردیا۔تم اتنے غصیلے تو کبھی بھی نہ تھے” لقمان احمد نے افسوس کے ساتھ ایان کی طرف دیکھا جو سر جھکا کر خاموشی سے بیٹھا تھا۔
”بابا میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔پتا نہیں ان جاہل لوگوں نے آپ کو کیا کچھ کہہ دیا ہے۔” ایان زچ ہوکر بولا۔
”خبردار جو آئندہ تم نے جاہل کا لفظ استعمال کیا۔ایسے افظ بول کر تم دوسروں کی نہیں بلکہ اپنی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہو۔مجھے اب صحیح معنوں میں تم پر افسوس ہورہا ہے ایان۔” لقمان احمد آج شدید غصے میں تھے۔
”یہ زمین جس پر تم اکڑ کر چلتے ہو،یہ زبان جس سے تم چیختے ہو، یہ علم جس پر فخر کرتے ہوئے تم سب کو جاہل کہتے ہو اور یہ مال جس پر تم اِتراتے پھرتے ہو ۔ان میں سے کوئی ایک چیز بھی تمہاری اپنی نہیں ہے۔اگر اللہ چاہے ایک لمحے سے پہلے تم سے سب کچھ چھین لے تو کیا کرو گے؟” ماسٹر لقمان نے قدرے بلند آواز میں کہا۔
”سنو بیٹے! تمام برائیوں میں برتری جانتے ہو کس برائی کو حاصل ہے؟ ” ایان شرمندگی سے خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔اس کی تمام وضاحتیں اور الفاظ دم توڑ گئے تھے۔
”اپنے آپ کو بھول جانا۔اپنی اصل سے منہ موڑلینا تمام برائیوں کی ابتداہے جو انسان اپنی اصل سے منہ موڑ لیتا ہے وہ پھر ہر گناہ کا عادی ہوجاتا ہے۔ غرور اس وقت زور پکڑتا ہے جب انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی سانسوں کی ڈور کس مالک کے ہاتھ میں ہے۔ایان احمد! جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے اس پر غرور کبھی مت کرنا۔فخر کرنے والے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔بیٹے کبھی اللہ کے ناپسندیدہ مت بننا۔” لقمان احمد نے آخری الفاظ کہتے ہوئے ایان کے ہاتھ تھام لیے جیسے بڑے مان سے کوئی عہد پختہ کردہے ہوں۔
”جی بابا آئندہ آپ کو شکایت نہیں ہوگی۔”بیٹے نے باپ کا مان رکھ لیا تھا۔وہ اپنے باپ کی ہر نصیحت پر سر جھکانے والوں میں سے تھا۔
”اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور ہو بھی نیکوکار تو یقینا اس نے مضبوط گرہ تھامی اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔” (لقمان:22)
چار سو گہرا سکوت چھایا تھا۔پت جھڑ کی اداس رات میں ایان کھڑکی کے پٹ کھولے درخت پر جھولتے پتوں کو دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میںگم تھا۔ماسٹر لقمان نے عشا کی نماز ادا کرکے ایان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔
”ایان،میرے بچے! ادھر میرے پاس آکر بیٹھو۔”
”جی بابا جان۔” اس نے جائے نماز پر بیٹھتے ہوئے اپنے باپ کے دونوں ہاتھ عقیدت سے تھامتے ہوئے اپنی پرنم آنکھوں پر لگائے۔سکون کی لہر اس کے رگ و پے میں دوڑنے لگی۔
” اب تو بڑے ہوجاؤ۔شادی ہونے والی ہے تمہاری اور دیکھو تو کیسے بچے بن جاتے ہو میرے پاس آکر۔” ماسٹر لقمان نے محبت سے اس کی پیشانی کو چوما۔ان کے لاغر و کمزور وجود میں محبت کی رمک آج بھی جوان تھی۔
”میری بات غور سے سمجھنا بیٹے! ہر عروج کو زوال ہے۔ہر بقاکو فنا ہے ہر جوانی نے ڈھلنا ہے۔ ہر غم کے بعد خوشی ہے۔ ہر آنسو کے بعد مسکراہٹ ہے ۔ہر راستے کی کوئی نہ کوئی منزل ضرور ہے۔” وہ لمحے بھر کو رکے پھر کہنا شروع کیا۔
”ہر سمندر کا کوئی نہ کوئی کنارہ ضرور ہے۔ ہر سانس نے ساکن ہونا ہے ۔ہر زندہ نے مرجانا ہے۔ہر آفتاب نے غروب بھی ہونا ہے۔ہر پھول کی خوشبو مانند ہوجاتی ہے اورہر وجود کی تقدیر میں ڈھل جانا لکھا جاچکا ہے۔” وہ بیماری کے باعث ٹھہر ٹھہر کر بمشکل بول رہے تھے۔
”مگر آج تمہیں بتاؤں کہ سدا کون زندہ رہتا ہے؟” انہوں نے اکھڑتے سانس کے ساتھ ایان کے دونوں گالوں پر اپنے کانپتے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”بابا جان! آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں۔ایک بار آپ ٹھیک ہوجائیں پھر ڈھیر ساری باتیں کریں گے نا۔” ایان نے باپ کے کمزور ہاتھوں پر اپنے مضبوط ہاتھ رکھ دیے۔
”اس طرح زمین پر نہ بیٹھیں۔آئیں بستر پر لیٹ جائیں۔”
”اللہ کے سرہانے بیٹھا رہنے دو مجھے پھر نجانے مہلت بھی ملتی ہے کہ نہیں،کون جانے۔خیر۔ سدا زندہ وہ رہتا ہے جو اپنے پیچھے ایسا عمل چھوڑ جائے جو جاری رہے۔انسان تو مرجایا کرتے ہیں نا بیٹے، مگر اعمال ۔اعمال سدا زندہ رہتے ہیں۔آگے بھی اعمال ساتھ جاتے ہیں، پیچھے بھی اعمال رہ جاتے ہیں۔” ماسٹر لقمان نے مسکراتے ہوئے آنکھوں میں امڈتی نمی کو صاف کیا۔ان کے ہاتھ مزید کپکپانے لگے۔
”میرے پاس اعمال کا ڈھیر نہیں ہے میرے بیٹے! مگر میرے پاس تم ہو،تم میرے لیے صدقہ جاریہ ہو۔میں خالی ہاتھ،خالی دامن اور خالی جھولی لیے جارہا ہوں اور اپنا عمل چھوڑے جارہا ہوں۔ ایان،میرے پیارے بچے! میرے لیے خیر کا باعث بننا۔اللہ کے تابعدار بننا۔اللہ کو راضی رکھنا ہمیشہ۔یاد رکھنا تمہارے ہر عمل، ہر کام کا انجام اللہ کی طرف ہے۔لوٹ کر صرف اللہ کے پاس جانا ہے صرف اللہ۔اللہ ۔”
”بابا جان! آپ دعا کریں اللہ مجھے ایسا بنادے جیسا آپ چاہتے ہیں۔آپ نے ساری زندگی میرے لیے اتنا کچھ کیا ہے کہ میں ایک دن کی محنت و ریاضت کا حساب بھی نہیں اتارسکتا۔اللہ نے مجھے آپ کی صورت میں ہر رشتہ عطا کیا ہے۔میں آپ جیسا تو کبھی بن ہی نہیں سکتا بابا۔آپ دعا کریں نا کہ میری اولاد میرے جیسی نہیں بلکہ آپ جیسی ہو۔” ایان نے جائے نماز پر بیٹھے بوڑھے باپ کی گود میں سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔
”بیٹے! اولاد کی تربیت کرتے وقت ایک حکمت ہمیشہ یاد رکھنا۔اپنی اولاد کو ڈانٹنا مت،صرف سمجھانا۔جب تم ڈانٹنے لگو گے تو تمہاری اولاد تم سے ڈرنے لگے گی۔ڈر دوریاں بڑھادیتا ہے بیٹا۔ڈر محبت کے شجر کو دیمک کے مانند کھاجاتا ہے اور پتا ہے جب تم سمجھانے لگو گے تو تمہاری اولاد تم سے محبت کرنے لگی۔نصیحتیں محبت کے بیج کو پھلداراور تناور درخت میں ڈھال دیتی ہیں۔اپنی اولاد کو کبھی بھی کسی مقام پر بھی خود سے دور مت ہونے دینا۔” ماسٹر لقمان نے ایان کے دونوں ہاتھ تھام کر اسے سمجھایا تھا۔وہ ہمیشہ یوں ہی نصیحتیں کیا کرتے تھے۔بڑے مان سے حکمت کی امانت تھمایا کرتے تھے۔
”جب تمہاری اولاد کوئی غلط کام کرے تو اس سے ناراض ہوجانا۔تمہاری خاموشی انہیں کانٹے کی طرح چبھنے لگے گی پھر دیکھنا بھاگتے ہوئے تمہارے پاس لوٹیں گے اور تمہیں یاد ہے نا جو چیز لوٹ آئے اس میں عیب نہیں نکالا کرتے بیٹے۔بس پھر کبھی پیار سے اور کبھی سنجیدگی سے سمجھاتے رہنا ۔حکمت کی باتیں بتانا ۔زندگی کے اصل مفہوم سے آشنا کروانا ۔اللہ کی ذات سے رابطہ استوار کروانا۔اپنی اولاد کو ہمیشہ محبت دینا ۔صرف محبت۔”
”آج میں تمہیں بھاری ذمہ داری سونپ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔ میرے بچے، اپنی اولاد کو صدقہ جاریہ بنانا۔میرے لیے بھی صدقہ جاریہ بننا میری جان۔تم خیر کا باعث بننا ۔پھر دیکھنا تمہارے لیے بھی خیر و عافیت کے راستے آسان کردیے جائیں گے۔میں اپنے پیچھے تمہیں چھوڑے جارہا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ تم ۔ایان ۔میرے بیٹے ۔مجھے زندہ رکھو گے ۔” ماسٹر لقمان نے اپنی گود میں سر رکھے ایان کی پیشانی کو بے حد محبت سے چوما۔محبت کی چاشنی اس کے رگ و پے میں اتر گئی۔اس نے جھرجھری لی۔وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے باپ کے ہاتھ چومنے لگا۔
اور بالآخر حکمت و دانش کا پیکر دنیا میں اپنا قیمتی اثاثہ یعنی اپنی اولاد کو امانتیں سونپ کر اپنے سفرِ آخر پر روانہ ہوا۔ جانے والے ہمیشہ مطمئن ہوکر جاتے ہیں۔رہ جانے والے حکمتوں کا پلڑا تھامے اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہوجاتے ہیں اور یوں زندگی کا سفر جاری و ساری رہتا ہے۔ایک نسل سے دوسری نسل کی آبیاری ہونے کا وقت دستک دے چکا تھا۔
”کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں۔” (لقمان:20)
صبح طلوع ہوچکی تھی۔مارچ کی مدھم دھوپ ٹھنڈی ہواؤں کا ہاتھ تھامے ماحول کو مزید خوشگوار بنارہی تھی۔روشن آسمان پر سورج کی مدھم کرنیں رنگ بکھیررہی تھیں۔بادلوں کا ہجوم بھی محوِ رقص تھا۔
گاؤں کی حدود میں ایان کی گاڑی داخل ہوتے ہی ہر طرف ہلچل مچ گئی۔مین روڈ پر پورا گاؤں اس کے استقبال کے لیے موجود تھا۔کسی نے پھولوں کے ہار تھام رکھے تھے تو کوئی مٹھائی تھامے منتظر تھا۔گویا تمام افراد بے حد خوشی سے فجر کے وقت سے اس کے انتظار میں راہ تک رہے تھے۔بالآخر نو بجے کے قریب ایان احمد کی گاڑی موڑ کاٹتے ہوئے شائقین کی آنکھوں کے سامنے تھی۔گاڑی سے نکلتے ہوئے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر ایان خوشدلی سے مسکرایا۔وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور چار سالہ بیٹے حسان کی انگلی تھامے گاؤں والوں سے ملنے لگا۔تمام افراد محبت سے اس کا خیر مقدم کررہے تھے۔وہ پچھلے پانچ سالوں میں بے حد سنجیدہ ہوگیا تھا۔اپنی زندگی ایک خاص مقصد کے تحت گزاررہا تھا۔آج مقصد پورا ہوچکا تھا۔محنت اور لگن کا ثمر اس کی دہلیز پر دستک دے چکا تھا۔ وہ پُرشوق نگاہوں سے تعمیرشدہ بلڈنگ کی طرف دیکھنے لگا جس کی بلند چوٹی پر اس کے باپ کا نام جگمگا رہا تھا۔




Loading

Read Previous

چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

Read Next

نالائق — نورالسعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!