صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

”گڈ جاب مسٹر ایان! آپ نے اتنے کم عرصے میں یہ مقام صرف اپنی قابلیت کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔آپ جیسے ٹیلنٹڈ لوگوں کی وجہ سے ہی ہماری کمپنی ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔” آفیسر نے خوشدلی سے ایان کی تعریف کی۔وہ پچھلے چھے ماہ سے لندن کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کررہا تھا۔اتنے قلیل وقت میں یہ جاب ملنا یقینااس کے لیے کسی معجزے سے کم نہ تھا۔دیارِ غیر میں پہلا سال اس نے بے حد مشکل سے دن گن گن کر گزارا، مگر اب بالآخر وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا تھا۔ وہ دنیا سے کٹ کر ڈٹ کر محنت کرنے والوں میں سے تھا جسے کام کرتے وقت نہ دن کی خبر ہوتی نہ رات کی۔
”تھینک یو سر مگر …”
”ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کا سب سے بڑا پراجیکٹ آپ کے حوالے کیا جائے۔آپ سے بہتر اس پراجیکٹ کو کوئی ہینڈل نہیں کرسکتا۔” آفیسر نے ایان کی بات کاٹتے ہوئے اپنے مطلب کی بات کی۔
”مگر سر میں میں یہ نہیں کرسکوں گا۔” اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے قدرے دھیمے لہجے میں کہا۔
”واٹ ؟ یہ آپ کیا کہہ رہے مسٹر؟ ہم آپ پر بھروسہ کرتے ہوئے کانٹریکٹ سائن کرچکے ہیں۔سیلری کی فکر نہ کریں،بڑھا دی جائے گی۔” آفیسر نے غصے پر قابو پاتے ہوئے تحمل سے کہا۔
”نو ۔نو ایشو آف سیلری۔دراصل تین ماہ بعد میری تعلیم مکمل ہوجائے گی اور مجھے پاکستان واپس جانا ہے۔اس پراجیکٹ پر بہت وقت لگے گا اور میں…”
”آر یو نان سینس؟ آپ سے اس قدر احمقانہ دلیل کی توقع نہیں تھی مسٹر ایان۔” آفیسر نے طنزیہ لہجے میں قدرے بلند آواز میں کہا۔
”آپ لاکھوں کی جاب چھوڑ کر ایسی جگہ واپس جانا چاہتے ہیں جہاں کوئی فیوچر نہیں ہے۔ وہ ملک نہیں جھونپڑی ہے۔کچھ بھی نہیں ہے وہاں ۔کچھ بھی نہیں۔ڈونٹ ویسٹ یور ٹیلنٹ بوائے!” آفیسر تمسخرانہ انداز میں ایان کو دیکھ رہا تھا۔اس کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر آفیسر مزید خوش ہوا۔
”میرے ملک پر اپنی قیمتی رائے دینے کا شکریہ۔مجھے اس سے ذرا بھی فرق نہیں پڑا۔آپ کے لیے اپنا کام اہم ہوگا، لیکن میرے لیے اپنا ملک اور اپنا گھر بہت اہم ہے۔” اس نے جبراً مسکراتے ہوئے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔چند لمحوں کے لیے آفیسر مکمل طور پر خاموش ہوگیا۔
”آپ اس پراجیکٹ کو چھوڑ کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کریں گے۔ میں آپ کے بہتر مستقبل کے لیے …”
”تھینک یو سر! مگر آپ کو میرے مستقبل پر غور و فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” وہ اپنی سیٹ سے اُٹھ چکا تھا۔
“واپس بیٹھ جاؤ۔ تم یہ پراجیکٹ سائن کیے بغیر نہیں جاسکتے،سنا تم نے ؟” آفیسر غصے سے چلّایا۔
”میری نماز کا وقت ہورہا ہے۔بائے!” ایان نے اپنی فائل اٹھائی اور دروازے کی طرف قدم بڑھادیے۔
”او گاڈ یو آر اے سِک مسلم!” آفیسر نے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے بلند آواز میں تنفر سے کہا۔
”اور میں جانتا ہوں تم اپنے بوڑھے باپ کی وجہ سے یہ شان و شوکت چھوڑ رہے ہو نا۔” اس نے مزید کہا۔
”شٹ اپ جسٹ شٹ اپ!” ایان نے خود پر بمشکل قابو پایا۔
”دیکھو میں بھلائی چاہتا ہوں تمہاری اسی لیے…”




”مائی فٹ بھلائی ۔دور رہو مجھ سے اور گدھوں کی طرح کسی اور کے سامنے چِلّاؤ جاکر۔” ایان نے انگلی اٹھاتے ہوئے اپنی طرف آتے آفیسر کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا۔وہ دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا پھر واپس گھوم کر آفیسر سے مخاطب ہوا۔
”اور سنو میں جاب اور یہ پراجیکٹ ابھی اور اسی وقت تمہارے منہ پر مارتا ہوں۔”
”تمہارا غرور برباد کردے گا تمہیں ایان اور تم یہاں واپس ضرور آؤ گے۔یاد رکھنا تمہیں میری ضرورت ضرور پڑے گی۔” آفیسر بول رہا تھا اور ایان دروازہ پار کرکے باہر نکل چکا تھا۔وہ اس وقت شدید غصے میں تھا۔آفس سے نکل کر وہ سی ویو پر چلا گیا اور شور مچاتی لہروں کو تکنے لگا۔پانی بھی اس کے ضمیر کی طرح بے سکون تھا۔
”یا میرے اللہ! یہ سب کیوں ہوتا ہے ۔ہر دفعہ مجھ پر ہی آزمائشیں کیوں آتی ہیں، کیوں میرے لیے ہمیشہ ایک ساتھ دو راستے کھول دیے جاتے ہیں۔میں کہاں جاؤں ۔بابا کے پاس یا پھر یہاں رہ کر کماتا رہوں۔” اس کی سوچوں میں نماز کا وقت نکل چکا تھا۔
”اگر میں تحمل سے اس کی بات سْن لیتا تو شاید کوئی راستہ نکل ہی آتا، مگر وہ جاہل بابا کو …”
”ایان ایان! ارے واہ ۔آج تم یہاں کیسے آگئے بھئی؟ کس کے ساتھ آئے ہو ہمیں بھی تو ملواؤ۔” ثنا نے آس پاس دیکھتے ہوئے شوخ لہجے میں ایان سے سوال کیا۔
”تم سے ایسے ہی سوال کی توقع تھی۔” ایان نے تاسف سے ثنا کی طرف بغور دیکھا۔
”ان فیکٹ مجھے پوچھنا چاہیے کہ اس دفعہ تم کس کے ساتھ آئی ہو۔” اس نے انتہائی بدتمیزی سے کہا۔
”تمہاری طرح سڑیل نہیں ہوں جو اکیلی آؤں۔ظاہر ہے ہمارا پورا گروپ آیا ہے۔ تمہیں بھی بلانے آئی تھی، مگر تم تو اس قابل ہی نہیں ہو۔” ثنا نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
”مجھے فخر ہے اپنے سڑیل ہونے پر۔اب تم جاسکتی ہو اپنے گروپ کے پاس۔”ایان نے بھاری پتھر اٹھا کر پانی میں پھینکا۔وہ ہر شخص سے بیزار ہوچکا تھا۔
”ایان اپنے غرور و تکبر سمیت اسی پانی میں ڈوب کر مرجاؤ تم بس ۔” ثنا انتہائی غصے سے بلند آواز میں کہہ کر واپس چلی گئی۔
وہ ڈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور بے مقصد چلنے لگا۔
٭…٭…٭
”کیوں پریشان ہو میرے بچے؟” ماسٹر لقمان پچھلے دس منٹ کی فون کال پر تیسری دفعہ یہ سوال دہراچکے تھے۔
”بابا میں میانہ روی اختیار نہیں کرپاتا۔ہمیشہ میرے لیے دو راستے ایک ساتھ کھول دیے جاتے ہیں اور میرے قدم دونوں طرف ہی ڈگمگاتے رہتے ہیں۔مجھ میں پختگی کیوں نہیں ہے بابا جان؟” ایان نے قدرے مایوسی سے کہا۔
”اس بات پر پریشان تو نہیں ہونا چاہیے بیٹا۔اللہ تمہارے لیے آسانیوں کے در ایک ساتھ کھول رہا ہے، مگر تم کس سمت چلتے ہو یہ امتحان ہے میرے بچے۔” انہوں نے پُر شفیق لہجے میں گویا ساری پریشانی وقتی طور پر ختم کردی تھی۔
”بابا! میں نے دراصل اپنی جاب چھوڑ دی ہے۔” ایان نے اپنا بوجھ اتارتے ہوئے بمشکل کہا۔
”وہ لوگ مجھے نیا پراجیکٹ دے رہے تھے۔میں نے انکار کردیا اور بس ۔سب کچھ ختم۔” اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے گہرا سانس لیا۔
”بیٹا! میں یہ سوال نہیں کروں گا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔تم نے سوچ سمجھ کر انکار کیا ہوگا، مگر اب اپنے انکار پر قائم رہو۔اگر اللہ نے تم سے یہ فیصلہ کروایا ہے تو یقینا تمہارے لیے آگے بہتری ہوگی۔” وہ لمحے بھر کو ٹھہرے پھر کہنا شروع کیا۔
”تمہاری تعلیم مکمل ہونے میں اب کم عرصہ باقی ہے۔اگر تم وہاں رہ کر کام کرنا چاہتے ہو تو میں منع نہیں کروں گا، مگر ایان! کبھی پیسوں کی خاطر اپنی زندگی مت کھودینا۔ رزق کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اکثر ہم انسان غلط سمت پر چلنے لگتے ہیں۔ کسی ایک چیز کی تمنا بڑھ جائے تو میانہ روی اختیار کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ہم ایک پلڑے میں اپنی ایک خواہش اور دوسرے پلڑے میں پوری زندگی رکھ دیتے ہیں۔اب بتاؤ بھلا ایک خواہش کے لیے زندگی کا سودا کرنا چاہیے؟ اس لیے بیٹا اتنا آگے نہ بڑھو کہ اپنی اصل بھی بھول جاؤ اور اتنا پیچھے بھی مت رہو کہ لوگ تمہیں نگل کر آگے بڑھ جائیں۔ ہمیشہ دو راستوں کے درمیان ایک درمیانی راستہ ضرور ہوتا ہے اور بھلائی صرف میانہ روی اختیار کرنے میں ہے۔ تم اکثر بیزار رہنے لگے ہو اور یہاں خوش بھی نہیں ہو بیٹے، واپس آجاؤ میرے بچے! اللہ یہاں بھی وہ سب عطا کردے گا جو تمہارے لیے لکھا جاچکا ہے۔” ماسٹر لقمان نے ہمیشہ کی طرح فیصلہ کرنا آسان کردیا تھا۔
”جی بابا جان! میں سمجھ گیا ہوں۔” ایان نے مسکراتے ہوئے فون بند کرکے آنکھیں موند لیں۔
لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اِترا کر نہ چل بے شک اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (لقمان:18)
”میرے بچے! آج مجھے اپنی تمام عمر کی محنت کا صلہ مل گیا ہے۔جب جب تمہاری صورت دیکھتا ہوں لگتا ہے مجھے بھاری اجرت مل رہی ہے۔ ایک طویل انتظار کے بعد بالآخر وہ دن آگیا ہے جب تم اپنی تعلیم مکمل کرچکے ہو اور جانتے ہو گاؤں کا ہر فرد تم پر فخر کررہا ہے۔” لقمان احمد نے ایان کا ماتھا چومتے ہوئے فخر سے کہا۔ان کی آنکھوں میں فتح کی چمک دوڑ رہی تھی۔
”یہ لوگ فخر اس لیے کررہے ہیں کیونکہ انہیں نہیں معلوم میں نے دو سال وہاں کس طرح گزارے ہیں۔” ایان اپنے باپ کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے طنزیہ مسکرایا۔وہ اب پہلے جیسا ایان نہیں رہا تھا۔دو سالوں نے اس کی سوچ سے زندگی سمیت سب کچھ بدل دیا تھا۔
”پیارے بیٹے! ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا جب انسان جنت میں داخل ہوگا، تو جہنم والے حسرت سے کہیں گے: دیکھو کیسے جنت میں پہنچ گیا،ہم بھی تو اتنی عبادت کیا کرتے تھے۔پھر جنت والے مسکرا کر جہنم والوں سے کہیں گے کہ جنت محض عبادت سے نہیں بلکہ محنت سے ملتی ہے۔” لقمان احمد لمحے بھر کو رُکے۔
”کیسی محنت بابا؟” ایان نے قدرے تجسس سے پوچھا۔
”جنت سے نکالے جانے کے بعد ۔دنیا سے دوبارہ جنت تک کا سفر کرنے کی محنت۔ ہم انسان اپنی زندگی کے ابتدائی سال جنت میں ہی گزارتے ہیں۔فکروں سے آزاد،دلوں کے صاف بس عیش و آرام میں زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں، مگر پھر آدم علیہ السلام کی طرح ہر انسان پر آزمائشوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں۔اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ایسے وقت میں انسان سلامت سے ملامت کی طرف،محبت سے محنت کی طرف،قربت سے غربت کی طرف،الفت سے کلفت کی طرف اور رحمت سے زحمت کی طرف سفر کرتا ہے۔اس سفر میں جو سچے دل سے مالک کی رضامندی شاملِ حال رکھتے ہوئے محنت کرتا ہے وہ جنت میں دوبارہ داخل کردیا جاتا ہے۔باقی سب تو بس اپنی عبادتوں پر ہی اِتراتے رہتے ہیں۔” لقمان احمد دھیرے سے مسکرائے۔
”مگر بابا ! یہ طویل محنت انسان کو بہت تھکا بھی تو دیتی ہے۔ پھر جنت میں واپس جاکر بھی وہ سکون میسر نہیں ہوتا۔” ایان نے گہری سانس لی۔شام کے گہرے سائے ڈھل چکے تھے۔اس نے کھڑکی کے پٹ بند کردیے۔ کمرے میں ہوا کا داخلہ بند ہوا تو اس نے دوبارہ کہنا شروع کیا۔
”ہم انسانوں کو ابتدا سے ہی محنت کش کیوں نہیں بناتے؟ ہم اپنی اولاد کی ہر ناجائز خواہش پوری کرتے رہتے ہیں پھر جب اسے جنت سے نکالنے کا وقت آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے وہ تو جنت میں رہتے ہوئے اپنے لیے جہنم تیار کرچکا ہے۔” ایان کی بات سن کر لقمان احمد چونکے پھر حسبِ معمول مسکرانے لگے۔
”جب تمہارے سامنے تمہاری اپنی اولاد ہوگی نا تو تمہیں خود بخود اس سوال کا جواب مل جائے گا۔”باپ کی بات سن کر ایان ہنسنے لگا۔اسے ہمیشہ اپنے باپ کی حکمتیں بعد میں سمجھ آیا کرتی تھیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

Read Next

نالائق — نورالسعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!