شکستہ خواب


میری یادداشت میں ایک چھلنی نصب ہے جس میں صرف خوشی دینے والی باتیں رہ جاتی ہیں اور باقی باتیں آپ ہی آپ چھن کر زائل جاتی ہیں۔“
وہ بولتا جارہا تھا اور ڈشز مجھے دیتا جارہا تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں کون سی مٹی کا بنا ہوا ہے اس پہ کسی بات کا اثر کیوں نہیں ہوتا۔ کھانے کے بعد ہم دونوں ٹیرس پہ رکھے جھولے پہ آبیٹھے تھے۔ ہمارے سامنے میز پر سیلون کی خوشبو دار چائے کے کپ رکھے تھے۔ چائے میری کمزوری ہے اور شہاب دنیا بھر سے خوشبو دار چائے ڈھونڈ کر میرے لیے منگواتا تھا جو ہم اکثر مل کر انجوائے کرتے۔ اس نے میرا نام لے کر دوبارہ پُکارا تو میں چونکی۔ وہ مجھے بتا رہا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے ترکی جارہا ہے اور کوشش کرے گا کہ جلدی واپس آجائے…… وہ بول رہا تھا اور میری آنکھیں اپنے مقابل پہاڑوں کی چوٹیوں کو تک رہی تھیں۔ کبھی میرا بھی شوق ہوا کرتا تھا کوہ پیمائش کا…… کیسے کیسے ناقابلِ یقین خواب دیکھ لیتا ہے انسان! یہ سوچتے ہوئے مجھے اپنی حماقت پہ ہنسی آگئی غالبا شہاب نے بھی کوئی چٹکلا کہا ہو گا مجھے ہنستا دیکھ کر وہ سمجھا کہ اسی کی بات پہ ہنسی ہوں۔ کہنے لگا: ”چھوٹی سی گڑیا لگتی ہو تم ہنستے ہوئے!“ میری ہنسی اسی وقت گلے میں پھنس گئی تھی…… مجھے اچھو سا لگ گیا…… شہاب اندر جاکے پانی لایا، جو مجھ سے پیا نہیں گیا۔ مجھ سے سانس نہیں لی جارہی تھی اور شہاب پریشانی میں کبھی مجھے کمر پہ تھپکتا تو کبھی اوپر دیکھنے کو کہتا…… بلآخر کچھ دیر بعد میری حالت غیر ہوکے آہستہ آہستہ سنبھل رہی تھی۔ شہاب نے مجھے کندھے سے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا: ”اندر چلو گڑیا“ تو میں بپھر گئی۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹک کرکہا: ”نہیں ہوں میں گڑیا!“
”میں چالیس سال کی ادھیڑ عمر عورت ہوں جس کی گود آج تک ہری نہیں ہوئی اور اب ہو بھی نہیں سکتی، مگر تم کو کیا فرق پڑتا ہے؟ تم سارا دن اپنے کام میں مصروف رہتے ہو اور گھر آکر مجھے کسی پالتو جانور کی طرح پُچکار کر اپنی بچوں کی کمی پوری کرلیتے ہو مگر کبھی یہ سوچا ہے کہ میں کس کرب سے گزر رہی ہوں؟؟“”


وہ ششدر سا، حیران آنکھوں سے میری جانب تک رہا تھا کیوں کہ میں نے کبھی اس لہجے میں بات نہیں کی تھی مگر شاید میں اپنی برداشت کی آخری حدوں تک پہنچ گئی تھی…… لہٰذا بولتی گئی۔
”میری زندگی ایک دائرے کا سفر ہے، جس میں پچھتاوا، رنج، ناامیدی اور بے سکونی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ دَم گھٹتا ہے میرا اس تنہائی میں!! تھک گئی ہوں اپنی آرزوؤں کا لاشہ ڈھوتے ڈھوتے۔“
اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ میں نے اس کو اپنا فیصلہ سُنا دیا کہ ”مجھے ایک بچہ گود لینا ہے اور بس!! میں اسے اکیلا چھوڑ کر اندر چلی گئی تھی۔

صبح میں اُٹھی تو اپنی سائیڈ ٹیبل پہ رکھا پیغام دیکھا۔ اٹھا کے پڑھا تو لکھا تھا: ”واپس آکر بات کریں گے۔“ میں نے وہ پرچہ برابر رکھی باسکٹ میں پھینک دیا اور چھت کو تکنے لگی۔
پانچ روز بعد جب شہاب آیا تو وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا: میں نے اس سے معمول کے مطابق بات کی مگر ہمارے درمیان کی گئی آخری بحث کی کشیدگی موجود تھی۔ رات کھانے کے بعد ہم ٹیرس پر بیٹھے تھے تو شہاب نے بات شروع کی……
”نازی، میں نے اس ٹرپ کے دوران بہت سوچا اور اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ میں غلط تھا اور تم درست تھیں۔ ہمیں واقعی ایک بچہ گود لے لینا چاہیے۔“ میں اسے دیکھ کر مسکرائی اور اپنی نحیف آواز میں کہا ”اچھا؟“ وہ اُٹھ کے میرے برابر میں آکے بیٹھ گیا تھا اور ہاتھ تھام کے بولا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم کل ہی کسی یتیم خانے جائیں گے اور ایک لڑکا گودلے لیں گے…… فرط جذبات سے میری آنکھوں میں آنسو جھلملا گئے تھے…… شہاب کے اندر بات کرتے ہوئے ایک خوشی بھی تھی اور ولولہ بھی تھا کہنے لگا: میں نے تو اس کا نام بھی سوچ لیا ہے!!“ اس موقع پہ میں نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے اسے خاموش کردیا۔ مجھے شہاب کے مزاج میں یکسر اتنے بڑے تغّیر کی توقع نہیں تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا تو وہ راضی خوشی میرے پیچھے ہولیا۔ میں اسے ایک کمرے میں لے گئی جو ہمارے کمرے کے برابر میں تھا…… دروازہ کھول کر میں نے اسے اندر جانے کو کہا تو اس نے بھی حیرانی سے اندر جھانکا اور پھر غیر یقینی سے میری جانب دیکھا۔ میں نے نظروں سے اس کو قریب جانے کا اشارہ کیا، سامنے پالنے میں ایک شیر خوار بچی لیٹی ہوئی ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ تمہارے جانے کے اگلے دن ہی میں اسے لے آئی تھی، انہوں نے جب مجھے بچے دکھائے تو مجھے سب سے پیاری یہ لگی۔ شہاب کا گلا کچھ سوکھ رہا تھا اس نے کھنکھارتے ہوئے کہا: ”لڑکی ہے؟“ میں نے فخر سے کہا: ”ہاں!“ اس نے دھیمے سے کہا: ”اچھا…… اب نیا نام سوچنا ہوگا۔“ میں نے بچی کو گود میں اٹھایا اور شہاب کی بانہوں میں دیتے ہوئے کہا: ”میں نے اپنی بیٹی کا نام صوفیہ شہاب درج کرادیا ہے۔“ شہاب نے اس روئی کے گالے کو تھاما تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکا اور ایسا محو ہوا اس کو کھلانے میں کہ بھول ہی گیا کہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ جس پہاڑ کے دامن میں برسوں سے کھڑی تھی آج آخر کار اسے سرکر آئی ہوں۔

Loading

Read Previous

سبز اور سفید

Read Next

ادھورا کردار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!