آنکھوں سے کاجل ہلکا ہلکا پھیل چکا تھا۔ سوہائی نے اسے بہ غور دیکھا اور بولی۔ 

”شادی پشمینہ کی تھی مگر یہ توکیوں دیدے بھرے بیٹھی ہے ،خیر سے؟”

”میری مرضی ہے۔”

”ہئے سندھو! بھوتنی لگ رہی ہے قسمے۔”

وہ گھورتے ہوئے خفگی سے ہنس پڑی۔

”چھاتھیو سندھو؟” (کیا ہوا سندھو؟)

نزدیک آکر کلائی تھامی۔

”کیوں دل کو پریشان کررہی ہے؟”

”دل پریشان ہی اچھا ہے۔” بڑبڑاکر بیٹھ گئی۔

”سندھو!گل سن، دل پہ نہ لے۔دیکھ ادا سارنگ نے نہ لکھا تو کیا ہو گیا۔تو لکھ دے انہیں خط۔”

”توچری ہوگئی ہے سوہائی؟میں لکھوں خط؟میںکیسے…؟” وہ گھبرائی۔

”کیوں؟ تو کیوں نہیں؟ اری چری تو منگ نہیں منکوحہ ہے ان کی۔پگلی تو لکھ سکتی ہے،لکھ، پورے حق سے لکھ خط۔”

”پر میں کیا لکھوں؟”

”تو لکھنا تو شروع کر پگلی۔ سب چنگا ہوجائے گا۔جو دل میں آئے سو لکھ دے ۔”

”پتا کدھر سے لائوں گی؟”

”چاچاسائیں سے۔” وہ سوچ میں پڑگئی۔

”نہ سوہائی، شرم آئے گی مجھے ان سے پتا لیتے ہوئے۔” وہ گھبرائی۔

”تو بس شرماشرمی میں مرجانا ایک دن۔”

سوہائی نے سر پہ ہاتھ مارا۔ ” مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔”

سندھو منہ بناکے بیٹھ گئی۔

”چل جب تک کوئی کہانی تو سنا۔”

”چل پرے ہٹ، روز روز میرے پاس کہانیاں کہاں سے آئیں گی۔”

”تو بھی نا سندھو، اپنے نام کی ایک ہے۔”

وہ ہنستے ہوئے اپنے بستر پر چھلانگ مار کر بیٹھ گئی، نیند کس کم بخت کو آنی تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۵

Read Next

شریکِ حیات قسط ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!