شام ڈھل چکی تھی۔
سرد موسم میںیہاں شام ڈھلتے ہی سناٹا چھا جاتا ۔ شہر سے کچھ دور یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں تھا جہاں کچھ ہموار قطعۂ زمین اور چھوٹی چھوٹی ڈھلانوں پر گھر بنے ہوئے تھے۔
کہیں کہیں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنسان اور نیم تاریک راستوں کو زندگی کی نوید دیتیں تھیں۔ گھروں کے باہر لگے اکا دکا بلب اندھیرے کا نوحہ پڑھتے محسوس ہوتے۔ نئے لوگوں کے لیے یہ ماحول بے حد پراسرار یت کا حامل مگراس علاقے کے مکین یہاں کی ہر اونچ نیچ سے آشنا تھے۔
کچی پکی سڑکیں جن پر پانی جمع تھا، محلے کی معاشی خستہ حالی کا منہ کا بولتا ثبوت تھیں۔
گھروں کی ٹیڑھی میڑھی دیواروں میں موجود دراڑیں اس حالتِ زار کو مزید اُجاگر کرنے کا باعث تھیں۔تمام گھر تقریباً ایک جیسے خستہ حال تھے اور اونچے نیچے ان گھروں میں بسنے والے شعور سے ناآشناافراد بھی تقریباً ایک جیسے مزاج کے حامل تھے ۔
ایک گھر سے اٹھنے والی آوازیں محلے کے در و دیوار کوہلا رہی تھیں۔
”مارو سالے کو۔۔!”ایک آواز۔
گالیوں اور کوسنوں کی گونج میں سُنائی دینے والی دوسری آوازیں، اس کو پڑنے والے ہاتھ، پیر ، گھونسے ، لاتیں اور ڈنڈے تھے۔
”گھر میں گھسنے کی ہمت کیسے ہوئی ۔ ماں بہنیں نہیں ہیں اس کے گھر میں۔۔”ایک اور آواز۔
”اتنا مارو کہ آئندہ ایسی حرکت کا سوچ بھی نہ سکے۔”ایک دوسری نوجوان آواز جس کا ہر جملہ اول آخر گالی کے ساتھ تھا۔
محلے کے تمام مرد اپنی ذمے داری پوری کرنے پہنچ چکے تھے۔ عورتیں زبانی جمع خرچ سے اس نیکی کے کام میں پورا پورا حصہ ڈال رہی تھیں۔ لڑکے کے ہر طرف اشرف المخلوقات جمع تھی اور اسے اس کے غیر انسانی فعل کی سزا دے رہی تھی۔
عورتوں میں چہ می گوئیاں جاری تھیں۔ وہ ایک دوسرے سے اصل واقعہ جاننا چاہ رہی تھیں۔
”ارے مجھے موت کیوں نہ آگئی یہ دن دیکھنے سے پہلے۔”ایک عورت نے سینہ پیٹا۔
”شادا ںسورہی تھی اچانک اس کی چیخ سن کر کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ لڑکے نے شادا ں پر سے رضائی اٹھاکر پرے جھٹکی ہے۔”چشم دید گواہ عورت نے کہا۔
”بچی تو مارے خوف کے بے ہوش ہوگئی ہے۔”ایک دوسری ہمدرد عورت نے تاسف سے کہا۔
”میرے بیٹے کو مت مارو وہ بے قصور ہے۔”
لڑکے کے باپ کو کسی نے اس انہونی کا بتادیا تھااوروہ دور ہی سے چلاتا آرہا تھا۔
”پکڑو اسے بھی مارو۔”کئی آوازیں بلند ہوئیں۔اس کے باپ کی آواز بھی لاٹھی ، ڈنڈے اور گھونسوں کے شور میں دب میں گئی۔
”ہوا کیا ہے؟کچھ تو پتا چلے۔ اللہ کے واسطے میرے بیٹے کو مت مارو۔” اس کا باپ رحم کی بھیک مانگ رہا تھا۔ مگر وہاں اس کی سننے والا کوئی نہ تھا۔کچھ لوگ باپ کو پکڑ کر الگ لے گئے۔
”تمہارے بچے بھی ایسے ہی مریں گے۔”وہ دہائیاں دینے لگا۔
باپ کا درد تھا جو منہ سے خون تھوکتے ہوئے نکل رہا تھا۔مار کھانے والا پندرہ سولہ سال کا نوجوان تھا جس کی ایک آنکھ سوج کر نیلی پڑ چکی تھی۔ کان اور ناک سے خون بہ رہا تھا۔ ملگجے کپڑوں پر جگہ جگہ خون کے دھبے اس کے حلیے کو مزید خستہ اور وحشت ناک بنا رہے تھے ۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خوف اور درد کی شدت سے آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
”حجام کو بلاؤ۔۔۔ اس کے سر اور بھنووں کے بال منڈواؤ۔”محلے کے ایک سرکردہ بزرگ نے جوشیلے لہجے میں کہا، جو شدت جذبات سے کانپ بھی رہے تھے۔ ساتھ ساتھ ایک آدھ لات بھی لڑکے کو رسید کرتے جاتے۔
حجام آگیا۔ تمام محلے والے جب اس لڑکے کی خدمت سے تھک کر ہٹ چکے تواس نیم مردہ کے بال مونڈھ دیے گئے۔
رات ظلمت کی سیاہ چادر اوڑھے اس گھر میں اتری تھی۔ اس کا گواہ واحد چھوٹا سا بلب تھا۔ جس کی کمزور سی روشنی سے بننے والے مہیب سایوں کی درندگی لڑکے کو کھائے جارہی تھی۔
حجام اب تک بال مونڈھ ہی چکا تھا۔ اس کی غیرت نے جوش مارا تو دو چار ہاتھ اس نے بھی رسید کردیے۔ ایک بار پھر اسے مارنے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ لڑکا بے سدھ پڑا تھا۔
”شاداں کو ہوش آیا؟”عورتوں میں سے پھر کسی نے پوچھا۔
”ابھی تک نہیں آیا۔”
لڑکے کا باپ بے بسی کی تصویر بنا دور ہی سے لختِ جگر کا خونِ جگر دیکھ رہا تھا۔ محلے کے چند بڑے ، اس کے اردگرد کھڑے اظہارِ خیال فرما رہے تھے ۔ ”ماں باپ بچوں کی تربیت ہی ٹھیک سے نہیں کرتے۔”ایک شخص نے نفرت سے اس کے باپ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”اس کے باپ نے بھی جوانی میں ایسے ہی کام کیے ہوں گے ۔”دوسرے شخص نے مزید غلاظت انڈیلی۔
”ایسے لوگوں کی نسل ہی خراب ہوتی ہے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے دن بہ دن معاشرہ خراب ہوتا جا رہا ہے۔”
”ایک ہمارے بچے ہیں۔۔ مجال ہے جو کہیں آنکھ اٹھا کر دیکھ ہی لیں۔”
”ایک یہ بھوکے ننگے جنہیں ہر چیز کی ہوس کھائے جاتی ہے۔ بچے پالے نہیں جاتے اور لائن لگادیتے ہیں۔” عظمت کے ایک مینارنے نخوت سے لڑکے کے باپ کو دیکھا۔
لڑکے کے باپ کا چہرہ غصے اور شرمندگی سے سرخ اور ڈاڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔ چہرے پر شدید کرب کے آثار تھے۔
اس کی اٹکی ہوئی سانسوں کے درمیان چند الفاظ نکلے:
”غریب کی بددعا سے بچو۔ تم لوگ عظیم ہونا۔۔ میرے بیٹے کا قصور کا تو بتاؤ۔۔ وہ مرجائے گا اسے مت مارو۔!!””تمہیں اللہ کا واسطہ۔”
اچانک بھیڑ سے آواز بلند ہوئی کہ لڑکے نے دم توڑ دیاہے ۔
”ہوش آگیا ہے۔۔ شادا ںکو ہوش آگیا ہے۔” دوسری آواز اُبھری۔
شادا ںنے ہوش میں آتے ہی خوف زدہ انداز سے پوچھا۔
”وہ لڑکا کہاں گیا جو سانپ کو جھٹکنے کے لیے رضائی جھاڑ رہا تھا؟”
لڑکا چلاگیا تھا وہاں ،جہاں سے اس کی واپسی محلے والوں کی تمام تر شرمندگی کے باوجود ممکن نہ تھی۔ اسے بڑھ بڑھ کر کاندھا دیتے محلے کے تمام لوگ سوگ وارتھے ۔عظمت کے سب مینارے ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔ لڑکے کے باپ کا بوڑھا وجود ڈھے چکا تھا۔
”ارے صاحب ہیرا تھا، ہیرا۔۔۔!”ایک صاحب لڑکے کے باپ سے گویا ہوئے: ”خدا ایسی اولاد سب کو دے۔”
اس رات گھر کے مکینوں نے سانپ کو ڈھونڈنے کی تمام تر کوشش کی مگر سانپ تھا جو مل کے نہ دیا۔۔ اور اس دن کے بعد اس علاقے سے سانپ کی بدولت لاشیں اٹھنے لگیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});