سوئ بار

”ہم نے بھی پڑھ رکھا ہے سب ۔ جانتے ہیں سب ۔“
”مگر مانتے نہیں ہیں۔“ اس نے سر اٹھا کر سب کی جانب دیکھا ۔
”تو ہوش میںہے ؟“ زمان خان نے سر پیٹ لیا ۔
”میں ہی تو ہوش میںہوں۔“
پھر اسے واپس بھیجنے کا فیصلہ سنا دیا گیا کہ وہ باغی ہوتا وہاں کی نسل کو برباد کر رہا تھا، لیکن ایسے نہیں سنگسار کر کے اور پہلا پتھر اسے زمان خان نے مارا تھا اس کا پہلا قدم اٹھانے میں مدد دینے والا ، اس کا باپ ۔ پھر تابڑ توڑ پتھر برسائے گئے اور شیر گل دیوانہ وار بھاگتا چلا گیا ۔کون سا پتھر کہاں لگا یہ یاد نہ رہا سوائے اس پہلے پتھر کے ۔
”شیر گل حق بات کہتا ہے۔“ وہ تو سنگسار کر کے نکال دیا گیا تھا، لیکن یہ سوچ دوسرے ذہنوں میں پنپنے لگی تھی ۔
”آباءہمیشہ درست ہوں گے یہ کہاں لکھا ہے ؟ کہاں ہوتا آیا ہے؟ تاریخ گواہ ہے ۔“ وہ شیر گل کا تایا زاد رشک خان تھا ´۔
” گزری قوموں جیسا کریں گے تو انہی کی طرح بندر خنزیر بنا دیے جائیں گے ۔“ وہ ٹھنڈی وڈاںکے بڑے زمیندار کا پتر امیر حمزہ تھا ۔
”ہم کیا کر سکتے ہیں؟“
” ہم ہی تو کر سکتے ہیں ، ہم جمے رہیں یہ ہم پہ لازم ہے ۔ اصحاب ِ کہف بھول گئے ۔چند جوان لڑکے ، نو عمر لیکن ایمان پر ڈٹ جانے والے ۔ اتنا نہ سہی ، کچھ تو ایمان دکھائیں ۔“
چودہ لڑکوں کا وہ ٹولا شیر گل کا ہم خیال تھا ۔ چودہ گاو ¿ں کے لیے چودہ جوان کافی تھے ۔انہیں سمجھایا گیا ، ڈرایا گیا ، لالچ دی گئی ، وعیدیں سنائی گئیںمگر وہ ڈٹے رہے، جمے رہے ۔ انھیں سنگسار نہ کیا جا سکا کہ اس میں بڑے لوگوں کے پتر شامل تھے۔ پھر کس کس کو سمجھاتے بجھاتے اور کس کس کو سنگسار کرتے ۔ ایک چنگاری تھی جو لگا دی گئی تھی۔
بہت ماہ بعد شیر گل کسی امید کے سنگ لوٹا تھا ۔ ایک آخری بار ۔ بڑے ٹیلے پر کھڑا ہوا چلا رہا تھا ۔
” مان جاو ¿ ۔ حد سے بڑھنے والوں کو مٹا دیا جاتا ہے ۔“ آہستہ آہستہ پورا ٹھنڈی وڈاں ٹیلے کے گرد جمع ہونے لگا ۔ شیر گل یہی دہراتا جاتا ۔
” تو ولی ہے یا نبی جو وعیدیں سنا تا ہے ۔ ہم اب تک بچے ہیں ، آگے بھی بچے رہیں گے ۔“ بڑا زعم تھا انھیں اپنی عبادات پہ ۔ غرور اور تکبر تھا جو ٹپک رہا تھا ۔
”بنی اسرائیل مت بنو۔“
”بن بھی گئے تو کیا؟ بڑا کرم تھا اس قوم پہ ۔“ اور وہ سارا عذاب بھول گئے، صرف انعام یاد رکھا۔ آزمائشیں ، پابندیاں کچھ یاد نہ رہا ۔ شیر گل پھر رکا نہیں ۔ ہمیشہ کے لئے نکل گیااور جس روز سرحد پار سے ان کا متبرک مال آنا تھا اور وہ نجانے کون کون سے منصوبے بنا رہے تھے۔ دھرتی پہ بوجھ کو بڑھا رہے تھے تو زمین سرکنے ، خون اگلنے لگی ۔ گھر کے گھر اجڑ گئے۔ گاو ¿ں کے گاو ¿ں الٹ گئے اور چودہ لڑکوں کا وہی ٹولا بچ گیا جو شیر گل کا ہم خیال تھا ۔
رشک خان نے آنکھوں کو پونچھتے ہوئے پوتی کی جانب دیکھا جواس کی انگلی تھامے زمین کے اونچے نیچے رستوں پر چلتی دراڑوں کو دیکھتی دہراتی جاتی تھی ۔ زمین پہ بوجھ بڑھنے سے بھونچال آتا ہے ۔ اگلی بارنجانے بوجھ کب بڑھے گا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۳

Read Next

پوپو کا عزم – ڈاکٹر بلّو بلونگڑا کا کلینک

One Comment

  • bht umda likha h

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!