سمے کا بندھن — ممتاز مفتی

اگلے دن بیٹھک میں ہمارا نکاح ہو گیا۔ زمیندار نے پیسے کا ڈھیر لگا دیا۔ آپی نے رو کر لوٹا دیا۔
بولی ”سودا نہیں کر رہی،اپنی دھی وداع کر رہی ہوں اور یاد رکھ!یہ خواجہ کی امانت ہے، سنبھال کر رکھیو۔”
حویلی یوں اجڑی تھی جیسے دیو پھر گیا ہو۔
ویسے تو سبھی کچھ تھا ۔ سازو سامان، آرائش، قالین، صوفے، قد آدم آئینے، جھاڑ فانوس سبھی کچھ۔ پھر بھی حویلی بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔
برآمدے میں آرام کرسی پر چھوٹی چودھرانی بیٹھی ہوئی تھی۔ سامنے تپائی پر چائے کے برتن پڑے تھے، مگر اِسے خبر ہی نہ تھی کہ چائے ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ اِسے تو خود کی سدھ بدھ نہ تھی کہ کون ہے، کہاں ہے، کیوں ہے۔
اوپر سے شام آ رہی تھی۔ سمے کو سمے ٹکراتی۔ اداسیوں کے جھنڈے گاڑتی۔یادوں کے دیے جلاتی۔ بیتی باتوں کے الاپ گنگناتی۔ دبے پاں، مدھم، یوں جیسے پائل کی جھنکار بیرنیا ہو۔
دور، اپنے کوارٹر کے باہر کھاٹ پر بیٹھے ہوئے چوکیدار کی نگاہیں چھوٹی چودھرانی پر جمی ہوئی تھیں۔ حقے کا سونٹا لگتا اور پھر سے چھوٹی چودھرانی کو دیکھنے لگتا۔ یوں جیسے اِسے دیکھ دیکھ کر دکھی ہوا جا رہا ہو۔
دوسری جانب گھاس کے پلاٹ کے کونے پر بوڑھا مالی پودوں کی تراش خراش میں لگا تھا۔ ہر دو گھڑی بعد سر اٹھاتا اور چھوٹی چودھرانی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھ جاتا۔ پھر چونک کو لمبی ٹھنڈی سانس بھرتا اور پھر سے کانٹ چھانٹ میں لگ جاتا۔
جنت بی بی ، جو چھوٹی چودھرانی کا کھانا پکاتی تھی، دو تین بار برآمدے کے پرلے کنارے پر کھڑی ہو کر اِسے دیکھ گئی تھی۔ جب دیکھتی تو اِس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں۔ پلو سے پونچھتی پھر لوٹ جاتی۔
سارے نوکر کمین چھوٹی چودھرانی پر جان چھڑکتے تھے۔ اِس کے غم میں گھلے جا رہے تھے لیکن ساتھ ہی وہ اِس پر سخت ناراض بھی تھی۔ اِس نے اپنے دونوں پائوں پر کلہاڑی کیوں ماری تھی؟ کیوں خود کو دوجوں کا محتاج بنا لیا تھا؟کیوں! اپنی اولاد ہوتی تو پھر بھی سہارا ہوتا۔ اپنی اولاد تو تھی نہیں۔
جب چودھری مرنے سے پہلے بقائمی ہوش و حواس اپنی آدھی غیر منقولہ جائیداد چھوٹی چودھرانی کے نام کر گیا تھا تو اِسے کیا حق تھا کہ اپنا تمام تر حصہ بڑی چودھرانی کے دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دے ۔ اگر ایک دن بڑی چودھرانی نے اِسے حویلی سے نکال باہر کیا تو وہ کیا کرے گی؟ کس کا در دیکھے گی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ایک طرف تو اِتنی بے نیازی کہ اِتنی بڑی جائیداد اپنے ہاتھ سے بانٹ دی اور دوسری طرف یوں سوچوں میں گم تصویر بن کر بیٹھی رہتی ہے ۔ سارے ہی نوکر حیران تھے کہ چھوٹی چودھرانی کس سوچ میں کھوئی رہتی ہے۔ چودھری کو مرے ہوئے تین ماہ ہو گئے تھے۔ جب سے یونہی حواس گم قیاس گم بیٹھی رہتی ہے اور پھر ٹوٹتی رات سمے اِس کے کمرے سے گنگنانے کی آواز کیوں آتی ہے؟ کس خواجہ پیا کو بلاتی ہے؟ خواجہ پیا موری لیجو خبر یا۔ کون خبر لے؟ کیسی خبر لے؟ چھوٹی چودھرانی پر انہیں پیار ضرور آتا تھا پر اِس کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ پتا نہیں چلتا تھا کہ کس سوچ میں پڑی رہتی ہے۔
چھوٹی چودھرانی کو صرف ایک سوچ لگی تھی۔ اندر سے ایک آواز اٹھتی۔ بول تیرا جیون کس کام آیا؟ وہ سوچ سوچ ہار جاتی پر اِس سوال کا جواب ذہن میں نہ آتا۔ الجھے الجھے خیال الجھاتے۔ مجھے چمن سے اکھیڑا۔ بیل بنا کر اِک درخت کے گرد گھما دیا اور اب اِس درخت کو اکھیڑ پھینکا۔ بیل مٹی میں مل گئی ۔ اب یہ کس کے گرد گھومے؟ بول میرا جیون کس کام آیا؟
دفعتاً اِس نے محسوس کیا کہ کوئی اس کے روبرو کھڑا ہے۔ سامنے گائوں کا پٹواری کھڑا تھا۔
”کیا ہے؟” وہ بولی۔
”میں ہوں پٹواری، چھوٹی چودھرانی جی۔”
”تو جا، جا کر بڑی چودھرانی سے مل، مجھ سے تیرا کیا کام؟”
”آپ ہی سے کام ہے۔” وہ بولا۔
”تو بول کیا کہتا ہے؟”
”گائوں میں دو درویش آئے ہیں۔ گائوں والے چاہتے ہیں انہیں چند دن یہاں روکا جائے۔ جو آپ اِجازت دیں تو آپ کے مہمان خانے میں ٹھہرا دیں۔”
”ٹھہرا دو۔” وہ بولی۔
”نوکرچاکر، بندوبست۔” وہ رک گیا۔
”سب ہو جائے گا۔”
پٹواری سلام کر کے جانے لگا تو پتا نہیں کیوں اس نے سرسری طور پر پوچھا ”کہاں سے آئے ہیں۔”
پٹواری بولا”اجمیر شریف سے آئے ہیں۔ خواجہ غریب نواز کے فقیر ہیں۔” اِک دھماکا ہوا ۔ چھوٹی چودھرانی کی بوٹیاں ہوا میں اچھلیں۔
اگلی شام چھوٹی چودھرانی نے جنت بی بی سے پوچھا ”جنت، یہ جو درویش ٹھہرے ہوئے ہیں، ان کے پاس گائوںوالے آتے ہیں کیا؟”
جنت بولی ”لو چھوٹی چودھرانی، وہاں تو سارا ان لوگوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ بڑے پہنچے ہوئے ہیں، جو منہ میں سے کہتے ہیں ، ہو جاتا ہے۔”
”تو تیار ہو جا جنت ، ہم بھی جائیں گے۔ تو اور میں ۔”
”چودھرانی جی وہ مغرب کے بعد کسی سے نہیں ملتے۔”
”تو چل تو سہی۔” چودھرانی نے خود کو چادر میں لپیٹتے ہوئے کہا ”اوردیکھا وہاں مجھے چودھرانی کہہ کر نہ بلانا۔ خبردار!”
جب وہ مہمان خانے پہنچیں تو دروازہ بند تھا۔ جنت نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ”کون ہے؟” اندر سے آواز آئی۔ جنت نے پھر دستک دی۔ سفید ریش بوڑھے خادم نے دروازہ کھولا۔ جنت زبردستی اندر داخل ہو گئی۔ پیچھے پیچھے چودھرانی تھی۔ سفید ریش گھبرا گیا اور بولا”سائیں بادشاہ مغرب کے بعد کسی سے نہیں ملتے۔ وہ اِس وقت کمرے میں مشغول ہیں۔”
”ہم سائیں بادشاہ سے ملنے نہیں آئے۔” چھوٹی چودھرانی بولی۔
”تو پھر؟” سفید ریش گھبرا گیا۔
”ایک سوال پوچھنا ہے۔” چودھرانی نے کہا۔
”سائیں بابا اِس سمے سوال کا جواب نہیں دیں گے۔”’
”سائیں بابا نے جواب نہیں دینا۔ انہوں نے پوچھنا ہے۔” وہ بولی۔
”کس سے پوچھنا ہے؟” خادم بولا۔
”اس سے پوچھنا ہے جس کے وہ بالکے ہیں۔” یہ سن کر سفید ریش خادم سن کر کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
”ان سے پوچھو۔” چھوٹی چودھرانی نے کہا ”ایک عورت تیرے دروازے پر کھڑی پوچھی رہی ہے کہ غریب نواز بتا کہ میرا جیون کس کام آیا؟”
کمرے پر منوں بوجھل خاموشی طاری ہو گئی۔
چھوٹی چودھرانی بولی ”کہو وہ عورت پوچھتی ہے، تو نے بیٹھک کے گملے سے اِک بوٹا اکھیڑا۔ اِسے بیل بنا کر ایک درخت کے گرد لپیٹ دیا کہ جا اِس پر نثار ہوتی رہ ۔” وہ رک گئی۔ کمرے کی خاموش اور گہری ہو گئی۔”اب تو میں نے اِس درخت کو اکھیڑ پھینکا ہے۔ بیل مٹی میں رل گئی۔ وہ بیل پوچھتی ہے ۔ بول میرا جیون کس کام آیا؟” یہ کہہ کر وہ چپ ہو گئی۔
”تیرا جیون کس کام آیا۔ تیرا جیون کس کام آیا۔” سفید ریش خادم کے ہونٹ لرزنے لگے۔
”تو پوچھتی ہے کہ تیرا جیون کس کام آیا ؟” وہ رک گیا ۔ کمرے میں خاموش اِتنی بوجھل تھی کہ سہاری نہیں جاتی تھی۔
”میری طرف دیکھ۔” سفید ریش خادم نے کہا ”سنہری بائی، میری طرف دیکھ کہ تیرا جیون کس کام آیا۔ مجھے نہیں پہچانتی؟ میں تیرا سارنگی نواز تھا۔ دیکھ میں کیا تھا کیا ہو گیا۔”
چھوٹی چودھرانی کے منہ سے ایک چیخ نکلی ”استاد جی آپ۔ وہ استاد کے چرن چھونے کے لیے آگے بڑھی۔”
عین اس وقت ملحقہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک بھاری بھر کم نورانی چہرہ برآمد ہوا۔ ”سنہری بی بی! تیرا جیون کس کام آیا۔”
چھوٹی چودھرانی نے مڑ کر دیکھا ۔
”ٹھاکر۔” وہ چلائی۔
ٹھاکر بولا ”اب ہمیں پتا چلا کہ سرکار نے ہمیں اِدھر آنے کا حکم کیوں دیا تھا۔” اس نے سنہری بی بی کے سامنے اپنا سر جھکایا اور بولا ”بی بی ہمیں آشیرباد دے۔”

٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مشام — میمونہ صدف

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۲)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!