سمے کا بندھن — ممتاز مفتی

محفل ٹوٹ گئی تو ہم تینوں آپی کے گرد ہو گئیں۔ ”آپی یہ سمے کا گورکھ دھند کیا ہے؟” آپی بولی ”لڑکیو!سمے بڑی چیز ہے، ہر کام کا الگ سمے بنا ہے۔ رات کو گا، بجا، پیو پلا، ملو ملا، موج اڑا۔ بس تین بجے تک۔ پھر بھور سمے اس کا سمے ہے۔اس کا نام جپو۔ اِسے پکارو، فریاد کرو، دعائیں مانگو، سجدے کرو۔ اِس سمے میں تم عیش نہیں کر سکتے، گناہ نہیں کر سکتے، قتل نہیں کر سکتے۔ یہ دھندا جو ہمارا ہے اِس کے سمے میں نہیں چل سکتا۔ اِس کے سمے میں پاں نہ دھرنا۔ اس نے برا مانا تو ماری جا گی۔ جو وہ راضی ہو گیا تو بھی ماری جا گی اور دیکھو اس کے سمے کے نیڑے نیڑے بھی ایسا گیت نہ گانا جو اسے پکارے۔ بھجن نہ چھیڑنا۔ ڈرو کہیں وہ تمہاری پکار سن کر ہنکارا نہ بھر دے۔”
پھر وہ دن آ گیا جب میں نے انجانے میں سمے کا بندھن توڑ دیا۔ اس روز ٹھاکر آئے۔ آپی سے بولے ”بائی کل خواجہ کا دن ہے۔ خواجہ کی نیاز سارے گائوں کو کھلاں گا۔ آج رات خواجہ کی محفل ہوگی ادھر حویلی میں۔ صرف اپنے ہوں گے، گھر کے لوگ۔ تجھے لینے آیا ہوں، چل میرے ساتھ میرے گائوں۔
آپی سوچ میں پڑ گئی اور بولی ”روپا ماندی ہے، وہ تو نہیں جا سکے گی، کسی اور دن رکھ لیتا نذر نیاز۔”
”خواجہ کا دن میں کیسے بدلوں؟” وہ بولا۔
”تو کسی اور منڈلی کو لے جا۔”
”اونہوں!” ٹھاکر نے منہ بنا لیا۔ خواجہ کی بات نہ ہوتی تو لے جاتا ان کے نام لینے کے لائق مکھ تو ہو۔
”میںکس لائق ہوں جو ان کا نام منہ پر لگائوں۔”
”بس اک تیری ہی بیٹھک ہے بائی جہاں پوترتا ہے۔ جہاں جسم کا نہیں من کا ٹھکانا ہے۔”
آپی مجبور ہو گئی۔ اس نے روپا کا دھیان رکھنے کے لیے پیلی کو وہاں چھوڑا اور مجھے لے کر ٹھاکر کے گاں چلی گئی۔
رات بھر وہاں حویلی میں خواجہ کی محفل لگی۔ وہ تو گھریلو محفل تھی۔ ٹھاکر کی بہنیں، بہوئیں، بیٹیاں، ٹھاکرانی سب بیٹھے تھے۔ وہ تو سمجھ لو بھجن منڈلی تھی اور خواجہ کے گیت ”خواجہ میں تو آن کھڑی تورے دوار” سے شروع ہوئی تھی۔
آدھی رات کے سمے محفل اِتنی بھیگی کہ سب کی آنکھیں بھر آئیں، دِل ڈوبے۔ آپی کا ڈوب ہی گیا۔ ٹھاکر اِسے محفل سے اٹھا کر اندر لے گیا۔ شربت شیرا پلانے کو ۔ پھر وہیں لٹا دیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پھر خواجہ کے گیت چلے تو میں بھی بھیگ گئی۔ آنکھیں بھر بھر آئیں۔ میں حیران، میں تو کچھ مانگ نہیں رہی۔ میں تو التجا نہیں کر رہی۔ میں تو اِک تاجر ہوں۔ پیسہ کمانے کے لیے آئی ہوں۔ میری آنکھیں کیوں بھر بھر آئیں خواہ مخواہ۔ سو میں بنا سوچے سمجھے گائے چلی گئی۔آنکھیں بھر بھر آتی رہیں۔ دل کو کچھ کچھ ہوتا رہا، پر میں بھیگ بھیگ کر گاتی گئی۔ سمے بیت گیا اور مجھے دھیان ہی نہ آیا کہ میں ان کے سمے میں پائوں دھر چکی ہوں۔ آپی تھی نہیں جو مجھے ٹوکتی۔
اور مجھے کیا پتا تھا کہ خواجہ کون ہے۔ میں نے تو صرف نام سن رکھا ہے۔ اس کے گیت یاد کر رکھے تھے۔ میں صرف یہ جانتی تھی کہ وہ غریب نواز ہے۔ میں تو غریب نہ تھی۔ مجھے کیا پتا کہ مجھے بھی نواز دے گا خواہ مخواہ زبردستی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ اِس میں اِتنی بھی سدھ بدھ نہیں کہ کون پکار رہا ہے، کون گا رہا ہے، کون منگتا ہے، کون خالی جھولی پھیلا رہا ہے۔ کون جھولی سمیٹ رہا ہے۔ میں تو یہی سنتی آئی تھی کہ دکھی لوگ پکار پکار کر ہار جاتے ہیں، پر کوئی سنتا نہیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ اتنا دیالو ہے، اِتنا نیڑے ہے، اِتنے کان کھڑے رکھتا ہے۔
پھر ٹھاکر بولا ”سنہری بائی، بس اِک آخری فرمائش ۔ خواجہ پیا موری رنگ دے چنریا۔ ایسی بھی رنگ دے رنگ نہ چھوٹے۔ دھوبیا دھوئے جائے ساری عمریا۔”
پھر مجھے سدھ بدھ نہ رہی۔ ایسی رنگ پچکاری چلی کہ میں بھیگ بھیگ گئی اور میں ہیں نہیں ساری محفل رنگ رنگ ہو گئی۔ انگ انگ بھیگا۔ خواجہ نے رنگ گھاٹ بنا دیا۔
گھر پہنچی تو گویا میں ، میں نہ تھی۔دِل رویا رویا، دھیان کھویا کھویا۔ کسی بات میں چت نہ لگتا۔ بیٹھک بیگانہ دِکھتی۔ ساز میں طرب نہ رہا۔ سارنگی روئے جاتی۔ استاد نکو خاں بجاتے پر وہ روئے جاتی۔ طبلہ سر پیٹتا، گھنگھرو کہتے پاں میں ڈال اور بن کو نکل جا۔ وہاں اِس کا جھومر ناچ جو پتے پتے ڈال ڈال سے جھانک رہا ہے۔
روز دن میں تین چار بار ایسی رقت طاری ہوتی کہ بھیں بھیں کر روتی۔پھر حال کھیلنے لگتی۔ پیلی حیران، روپا کا منہ کھلا، آپی چپ۔ یہ کیا ہو رہا ہے جب آٹھ دِن یہی حالت رہی بلکہ اور بگڑ گئی تو آپی بولی بس پتر، تیرا اِس بیٹھک سے بندھن ٹوٹ گیا۔ دانا پانی ختم ہو گیا۔ تو نے اِس کے سمے میں پائوں دھر دیا۔ اس نے تجھے رنگ دیا۔ اب تو اِس دھندے جوگی نہ رہی۔
”پر کہاں جائوں آپی؟ اِس بیٹھک سے باہر پائو ں دھرنے کی کوئی جگہ بھی ہو میرے لیے۔”
”جس نے بلایا ہے اِس کے دربار میں جا۔” روپا بولی۔
”اِس بھیڑ میں جائے۔”آپی بولی ”یہ لڑکی جائے جس کا سنہری پنڈا کپڑوں سے باہر جھانکتا ہے۔ نہیں یہ کہیں نہیں جائے گی۔ اِسی کوٹھڑی میں رہے گی، بیٹھک میں پائوں نہیں دھرے گی۔”
”پھر پتا نہیں کیا ہوا۔ رقت ختم ہو گئی۔ دل میں ایک جنون اٹھا کہ کسی کی ہو جاں، کسی ایک کی۔ تن من دھن سے اسی کی ہو جاں۔ ہو رہوں۔ وہ آئے تو اس کے جوتے اتاروں، پنکھا کروں، پائوں دابوں، سر میں تیل مالش کروں، اس کے لیے پکائوں، میز لگائوں، برتن رکھوئوں، اس کی بنیانیں دھوئوں، کپڑے اِستری کروں، آرسی کا کول بنائوں پھر سرہانے کھڑی رہوں کہ کب جاگے ، کب پانی مانگے۔
ایک دن آپی بولی ”اب کیا حال ہے دھیے؟” میں نے رو رو کر ساری بات کہہ دی کہ کہتے ہیں کسی ایک کی ہو جا۔
”بولی وہ کون ہے؟کوئی نظر میں ہے کیا؟”’
”اونہوں کوئی نظر میں نہیں۔”
”ناک نقشہ دِکھتا ہے کبھی۔”
”نہیں آپی۔”
”کوئی بات نہیں” وہ بولی ”جو کھونٹی پر لٹکانا مقصود ہے تو آپ کھونٹی بھیجے گا۔”
دس ایک دن بعد جب بیٹھک راگ رنگ سے بھری ہوئی تھی تو میری کوٹھڑی کا دروازہ بجا۔ آپی داخل ہوئی ۔ ”خواجہ نے کھونٹی بھیج دی۔ اب بول کیا کہتی ہے؟”
”کون ہے؟” میں نے پوچھا۔
”کوئی زمیندار ہے، ادھیڑ عمر کا۔ کہتا ہے بس ایک بار بیٹھک میں آیا اور سنہری بائی کو سنا تھا ۔ جب سے اب تک اس کی آواز گانوں میں گونجتی ہے۔ دل کو بہت سمجھایا۔ توجہ ہٹانے کے بہت جتن کیے، کوئی پیش نہیں گئی۔ اب ہار کے تیرے در پر آیا ہوں۔ بول تو کیا کہتی ہے؟ منہ مانگا انعام دوں گا۔”
میں نے کہا ”دے دے۔ سال کے لیے بخش دے، جیسے تیری مرضی۔” آپی ہنسنے لگی۔ پھر بولی چل بیٹھک میں اِسے دیکھ لے ایک نظر۔
”اونہوں۔” میں نے سر ہلا دیا۔
”نہیں آپی ، انہوں نے بھیجا ہے تو ٹھیک ہے۔ دیکھنے کا مطلب؟”
”کتنی دیر کے لیے مانوں؟”
”جیون بھر کے لیے۔”
”سوچ لے، جو اوباش نکلا تو؟”
”پڑا نکلے۔ کیسا بھی ہے، جیسا بھی نکلے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مشام — میمونہ صدف

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۲)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!