میری خالہ جب بھی ہمارے گھر آتیں تو اپنے سسرال کے قصے ضرور چھیڑتیں۔ ویسے تو وہ شادی کے چھے سال بعد ہی سسرال سے الگ ہوگئی تھیں اور اس بات کو بھی اب انیس برس سے زیادہ ہوگئے تھے مگر وہ چھے سال انہیں بھلائے نہیں بھولتے تھے۔
مجھے ان واقعات میں کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی مگر جب سے میرا رشتہ خالہ کے بیٹے سے طے ہوا تھا تب سے مجھے لگنے کا لگا تھا کہ ان قصوں کی وجہ سے اور کچھ نہیں تو میں اپنے ددھیالی سسرال والوں کو تو جان ہی پاؤں گی۔
”جب میری شادی ہوئی تو بڑے لوگوں نے شرکت کی، مجھے بڑی سلامیاں چڑھائیں۔”
”آپ کے تو بڑے مزے آئے ہوں گے خالہ۔” ہم نے لقمہ دیا۔
”مزے میرے کیا آنے تھے؟ میری ساس کے آئے خوب مزے۔ اللہ بخشے میری ساس اچھی انسان تھیں پر سلامی میں سے پھوٹی کوڑی نہ دی مجھے تمہیں تو پتا ہے میں سیدھی سادی انسان ہوں اتنی سمجھ بھی نہ تھی کہ خود کچھ مانگ لیتی۔”
خالہ قصہ سنا کر چلی گئیں اور میں نے شکر ادا کیا کہ خالہ جیسی سیدھی سادی اور صاف گو انسان میری ساس ہوں گی۔ سلامی تو اکثر ہی سسرال والے رکھ لیتے ہیں پر صحیح تو کہا خالہ نے کہ ان کے ساتھ زیادہ رہتی ہوئی، پیسوں پر تو انہیں کا حق تھا۔
”لو بھلا کوئی لڑکی اپنے منہ سے خود کیسے مانگ سکتی ہے کہ نکالوں میری سلامی، کم از کم میں تو کبھی نہ مانگوں۔ پیسوں سے بڑھ کر دلہن کی عزت ہوتی ہے، مجھے کیا فکر میری ساس تو میری اپنی خالہ ہوں گی۔” میں اس رات انہیں خیالات میں رہی۔
اس واقعہ کے ایک سال بعد میری شادی ہوگئی۔
ولیمے کے اگلے روز میری کزن جو کہ اب میری نند تھی، کھانے کی میز پر میرے دلہا یعنی اپنے بھائی سے فرمائش کرنے لگی:
”بھائی مہنگا گفٹ لوں گی، اتنے لوگ شریک ہوئے آپ کی شادی میں اور سب لفافوں کے ساتھ۔ خیر اب وہ زمانہ تو رہا نہیں کے ڈیکوریشن پیس لے کر آتے تو نوٹ ایکسچینج کرنے کا زمانہ ہے۔”
”لے لینا! ابھی تو میرے پاس کچھ نہیں جو تھوڑی بہت بچت تھی وہ بھی شادی کے اوپر کے خرچوں میں نکل گئی۔ ویسے امی لفافے تو سب نے آپ کو پکڑائے تھے نا؟” میرے شوہر نے بات مکمل کرکے امی سے پوچھا۔
”ہاں! یہی طریقہ ہوتا ہے اچھے خاندانوں میں۔ میں نے سب ن کر ڈائری میں نوٹ کرلئے ہیں، آخر بعد میں لوٹا نے بھی تو ہوتے ہیں۔” ”کتنی سلیقہ شعار ہیں خالہ” میں نے دل میں سوچا۔
”بھئی جب خرچہ ہمارا ہوا تو ظاہر ہے، سلامی پر حق بھی ہمارا ہی ہے۔ تم لوگ سلامی کو لے کر فکر مند نہ ہو، جس کا حق تھا اس تک پہنچ گیا ہے۔ خالہ نے اپنی روایتی معصومیت سے کہا اور میں ان کا مسئلہ تکتی رہ گئی۔
٭…٭…٭