سزا — مریم مرتضیٰ

میں اسے سمجھاتی تھی کہ ملازم کو اس کا حق دیا کرو۔ اسے بلا ضرورت مت جھڑکا کرو۔ آخر وہ بھی انسان ہے۔ اس کے بھی سینے میں دل ہے۔ اسے بھی تکلیف ہوتی ہے اور وہ بھی احساسات رکھتا ہے، مگر وہ میری سنتا ہی نہ تھا۔
اب کیوں اس کے پائوں تلے زمین نکل رہی ہے؟ اب کیوں وہ سر میں مٹی ڈال رہا ہے؟ جب انسان خدا کو بھول کر خود خدا بننے لگے، تب خدا اسے بتا دیتا ہے کہ اس میں اور خدا میں کتنا فرق ہے۔ وہ جب غرور کے آسمانوں پر اڑ رہا تھا، تب میں نے اس سے کہا تھا:
” اکڑ کس بات کی عرفان یہ سب تو اللہ نے دیا ہے ۔”میری یہ بات سن کر وہ بہت غصے ہو ا تھا۔
” تم میری محنت کو محض اللہ کی نعمت کہہ کر مجھے بتانا چاہ رہی ہو کہ میں نے کچھ نہیں کیا؟ نا شکری عورت۔” اس دن اس کا ہاتھ پہلی بار مجھ پہ اٹھا اور پھر اُٹھتا چلا گیا۔میں کیا کرتی؟ مجھ سے اس کا تباہی کی طرف جانا دیکھا نہ جاتا تھا اور میں بارہا اسے روکنے کی کوشش کرتی ۔اسے اپنے مال اور دولت پر اس قدر گھمنڈ تھا کہ وہ سوچتا کہ وہ سب کچھ خرید سکتا ہے،کسی کو بھی قدموں میں روند سکتا ہے، مگر کسی کے آگے کبھی جھک نہیں سکتا۔
ہماری شادی کو پانچ سال ہو گئے، میں نے کبھی اسے اپنے سے نیچے کے لوگوں سے پیار سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ملازموں پر ظلم کرنا اس گھر میں عام سی بات تھی ۔بات بات پر انہیں مارنا ، سزائیں دینا ،گالیاں دینا ،نوکری سے نکال دینا اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ مجھے بھی ملازموں سے آہستگی سے بات نہیں کرنے دیتا تھا۔اگر ملازم سے نرمی سے بات کرو تو خواہ مخواہ شک کرتا اور الزام تراشی شروع کردیتا۔ مجھے بددعا سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اسی لیے اسے بارہا سمجھانے کی کوشش کی۔
” عرفان ! ان کا دل دکھتا ہو گا۔”
” تو دکھتا رہے ۔” وہ بے پروائی سے کہتا۔
”دلوں میں خدا رہتا ہے ۔”





”دل صرف خون کا لوتھڑاہے، اس میںکوئی نہیںرہتا۔ یہ واعظوں والی باتیں مت کیا کرو۔” وہ مجھے جھڑک دیتا۔
”آپ کو بددعا سے ڈر نہیںلگتا عرفان؟”میں حیرانی سے پوچھتی۔
”نہیں۔”
” ٹوٹے ہوئے دلوںسے جو دعاحاصل ہوتی ہے، وہ عرش تک جاتی ہے اور فوراََ قبول ہوتی ہے اور جب ٹوٹے ہوئے دل سے بددعا نکلتی ہو گی تو کیا وہ عرش تک نہیں جائے گی؟ ” میں نے آہستگی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
” اپنی بکواس بند کرو اور مجھے اب نصیحتیں کرنے کی کوشش کی تو زبان کاٹ کر رکھ دوں گا ۔” وہ غصے میں آ گیا تھا۔
”میں آپ کو تباہی سے بچانا چاہتی ہوں عرفان۔” میں اس کی منتوں پر اتر آئی تھی۔
” اس سے پہلے کہ میں تمہیں تین طلاقیں دے کر تباہ کر دو ںاپنی زبان بند کر لو۔”وہ تلخی سے کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
عورت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، طلاق کے الفاظ اس پر کپکپی طاری کر دیتے ہیں ۔وہ ہر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
انہی دنوں میں حاملہ ہو گئی ۔یہ خبر اس کے لیے دنیا کی سب سے بڑی خوش خبری تھی ۔ آنے والے مہمان کے لیے ہماری آنکھوں میں بھی ہر ماں باپ کی طرح بہت سے سپنے تھے ۔ہم نے بہت سے خواب مشترکہ بُن رکھے تھے ۔وہ میرا بہت خیال رکھتا تھا، مگر ملازموں اور دیگر لوگوں سے اس کا رویہ ویسا ہی تھا۔
” نیچے کو نیچے نہ رکھو تو وہ اوپر آ جاتا ہے۔ ” وہ اکثر یہ جملہ بولا کرتا تھا ۔
نو ماہ بیتے اور ہمارے آنگن میں بیٹے نے جنم لیا ۔ اس کا سر جسم کے باقی حصوں سے قدرے بڑا تھا۔عرفان سمجھتا تھا کہ وہ اپنی دولت سے بیٹے کو ٹھیک کروا لے گا ۔شروع میں مجھے بھی اس کی بات پر تسلی ہوئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوتا گیا کہ انسان کو ملنے والی جزا میں خیر ہی خیر ہوتی ہے اور اس کو ملنے والی سزا میں اذیت ہی اذیت ہوتی ہے ۔ ہمارا بچہ جوں جوں بڑھتا گیا، ہم نے دیکھا وہ تنہا دیوانوں کی طرح ،پاگلوں کی طرح خود سے باتیں کرتا، سر میں مٹی ڈالتا ،کپڑے پہنائو تو پھاڑ دیتا۔
عرفان کی خواہش تھی کہ اس کا بچہ اس جیسا بنے گا۔ کس کی ہمت کہ خدا کی سزا جزا میں بدل سکے۔ ڈاکٹر بھی پریشان تھے۔ ان کی کوئی دواکام نہ آ سکی۔
اولاد کا مسئلہ بڑا سنگین ہوتا ہے۔ اس میں ماں باپ دونوں کا مثبت کردار ہونا ضروری ہے۔ کسی ایک کا بھی منفی ہوا تو دوسرے کو سزا بھگتنی پڑتی ہے کیوں کہ اولاد سانجھی ہوتی ہے ۔مجھ سے اپنے بیٹے کی حالت دیکھی نہ جاتی۔ میری ممتا کب تک خاموش رہتی؟ آخر یہ بھی پھٹ ہی پڑی۔
”آپ کے گناہ کی سزا مجھے کیوں کاٹنی پڑ رہی ہے؟”
”سزا؟” وہ چونک گیا۔
”یہ سزا نہیں تو اور کیا جزا ہے؟ ” میں شاید قدرے اونچا بول رہی تھی کیوں کہ مجھے حواس پر قابو نہیں رہا تھا۔
”ایسی بات نہیں ہے عاصمہ ،ہم اپنے بیٹے کو امریکا لے جائیں گے۔ وہاں بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے اس کا علاج کروائیں گے۔ ہمارا بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔” اس نے سنبھلنے کی کوشش کی تھی۔
”کیوں؟ کیا امریکا اللہ بیٹھا ہوا ہے؟” میں ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔
” ڈاکٹر ہیں۔”
”ڈاکٹر خدا ہیں؟ ”
”نہیں، مگر مسیحا ہیں۔” اس کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔
”مسیحا مرض کا ہوتا ہے عرفان صاحب! سزا کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔”
”ک ک کون سی سزا؟ تم کس سزا کی بات کررہی ہو؟” اسے پسینہ آ گیا تھا۔
”وہی سزا جو بیٹے کی شکل میں ہمیں ملی ہے عرفان۔ جب انسان کو وہ شے مل تو جائے جس کی وہ آرزو کرے، مگر یوں ملے کہ وہ اسے پا کر بھی بے سکون اور اذیت میں ہو، تو سمجھ لو کہ اس سے اللہ ناراض ہے ۔”میں نے روتے ہوئے بہ مشکل کہا تھا۔
”میں نے جو کیایہ اس کی وجہ سے ہے؟” اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔
”تمہارے دل و دماغ میں غرور نے بسیرا جو کر لیا ہے، اس سے تمہیںصاف نہیں دکھائی دیتا، اسے ہٹائو اور پھردیکھو، لوگوں کی بددعائیں ،وہ بددعائیں جو آہ بن کر عرش تک گئیں اور خدا ہمارے جیسا نہیں جو انہیں خالی لوٹا دے ۔ وہ خدا ہے، رب العالمین ہے ۔ وہ بندوں کی فریا د پر فیصلے یوں ہی کیا کرتا ہے عرفان۔ جو نیچے کو نیچے رکھنے کی تم بات کرتے تھے نا، جس طرح فرعون کو موسیٰ زندہ رکھ کر اللہ دکھلا سکتا ہے اسی طرح تیرے نیچے کو بھی تیرے اوپر لا سکتا ہے۔”
دو دن ہو گئے۔ وہ مسلسل رو رہا ہے۔ سر میں مٹی ڈال رہا ہے۔اسے اس کے احساسِ جرم نے دیوانہ بنا دیا ہے ۔ مجھے ڈاکٹر کی کال آئی، اب ہمارا بچہ ٹھیک ہو سکتا ہے ۔میں نے عرفان کو بہت بتانے کی کوشش کی، مگر وہ کچھ سن ہی نہیںرہا۔ بس روتے ہوئے یہی کہے جارہا ہے:
”تم مجھ سے ناراض ہو گئے تھے، میں تمہیں منانے آگیا ہوں،آ گیاہوں میں۔”
احساسِ جرم کی دیوانگی سزا کی دیوانگی مٹا دیتی ہے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Read Next

ناک — محمد نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!