ساگ — عنیقہ محمّد بیگ

”تو… کیا میں چوڑیاں پہن کر تماشا دیکھتا رہوں؟” اس نے لفظوں کی جگہ جیسے انگارے چباتے ہوئے جواب دیا۔
”ہمیں حیدر کو نہیں… ایمان کو پکڑنا چاہیے… کیوںکہ ایمان ہماری آنکھوں میں دھول جھونکے جا رہی ہے… ایمان آپ کی بہن ہے… وہ دھوکا دے رہی ہے… اگر کسی کی ٹانگیں توڑنی چاہئیں تو ایمان کی۔” اس کی زبان قینچی کی طرح چلنی شروع ہوگئی تھی۔
”ہاں… ارم… تم ٹھیک کہہ رہی ہو…. اور …. اور… اگر یہ سب کچھ سچ نکلا…. تو میں اسی وقت اسے زندہ زمین میں گاڑدوں گا۔”
”آپ ایسا کردیں گے اس کے بعد کا سوچا ہے آپ نے؟ پولیس آپ کو پکڑ کر لے جائے گی… میں کیسے جی سکوں گی… اور بچے..!!.. آپ کی بہن تو یہی چاہتی ہے کہ اس کے بھائی کا گھر اجڑ جائے… وہ برداشت نہیں کررہی… اس کی شادی جو نہیں ہوپارہی ”۔
”میں تو کہتی ہوں … حسنین شاہ سے شادی کروادیں… بوڑھا ہے تو کوئی حرج نہیں مگر اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہو ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے ۔”پتا نہیں وہ کیا کیا اول فول بکتی رہی ۔
”ہاں!… تم ٹھیک کہہ رہی ہو… مجھے ایمان پر اتنا اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا… آخر ہے تو وہ ایک کمزور لڑکی ہی نا! شادی نہ ہونے کی وجہ سے اس نے ایک ذلیل شخص کو اپنے لیے چن لیا۔ ایمان… تم ۔۔تم ایسی نکلوگی… میں نے سوچا نہیں تھا۔” اویس سرتھام کر بولا ۔
”بس اویس… کل آپ خود اس کا، اصل چہرہ دیکھ لیں گے… اس کا راز فاش ہو جائے گا۔ آپ بس دیکھیں کل کی رات ”۔
اویس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے… اور ارم کے چہرے پر فتح مندی جھلکنے لگتی ہے۔
”وہ باورچی خانے میں جارہی ہے۔” دروازے کی آڑ میں کھڑی ارم نے بتایا… وہ بھی بیوی کے پاس آکھڑا ہوا… ”وہ دیکھیں اس نے ساگ پلیٹ میں نکالاہے ”۔
ایمان نے ساگ نکالنے کے بعد روٹیاں بھی پلیٹ میں رکھیں … چہرے پر خوشی کا احساس تھا۔ ”دیکھ لیں۔ کتنی خوش نظر آرہی ہے… آپ کی بہن… اب آپ کو یقین ہوا؟”
”ہاں…. یقین آرہا ہے… ارم… میں کتنا بے وقوف بنتا رہا ہوں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”اویس… خود کو کیوں برا بھلا کہہ رہے ہیں… بری تو وہ ہے جس نے اتنی محبت کرنے والے بھائی کو دھوکہ دیا ہے۔” ارم نے اس کو حوصلہ دیامگروہ بہت پریشان ہوگیا تھا۔
”وہ اوپر جا رہی ہے…. وہ بھی یقینا آچکا ہوگا… اس کے کمرے میں.. اب کچھ دیر بعد آپ کو ایمان کا اصل چہرہ نظر آجائے گا!”
”میں ایمان کو کبھی معاف نہیں کروں گا… کبھی نہیں!” وہ ہاتھ مسلنے لگا ،اس کا سارا وجود غصے سے کانپ رہا تھا ۔ ”اویس آپ نے وقت پراس کی شادی کردی ہوتی… تو آج آپ کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔” اس نے آگ پر مزید تیل ڈالا۔ وہ غصے سے اپنے کمرے سے باہر نکلا… اور سیڑھیاں چڑھنے لگا… وہ بھی اس کے پیچھے لپکی۔
”اویس! اس کو رنگے ہاتھوں پکڑنا ہے” سیڑھیوں پر اس نے اویس کو نصیحت کی۔
دونوں دبے قدموں دروازے کے پاس آپہنچے اور اندر سے آتی آوازوں پر کان لگادیے۔
”دیکھو … تو آج ساگ بنا ہے… تمہیں ساگ بہت پسند ہے نا… مگر مجھے نہیں !! ہاں سچ مجھے بالکل پسند نہیں ۔”
اس کی ہنسی کی آواز ابھری۔
”دیکھ لیں… اویس… سچ اب آپ کے سامنے ہی ہے”۔ ارم پھرآگ لگانا نہ بھولی ۔
ایمان کی آواز دوبارہ ابھری…. ”تم کھانا کیوں نہیں کھارہے… آؤ میں تمہیں کھلاتی ہوں۔ میرے پاس آؤ… پاس آؤ۔” ”اویس آپ احمدبھائی کی چھت سے جاکر یہ دروازہ کھولیں آخر میں بھی اس کا اصل روپ دیکھوں۔”
اویس غصے سے سیڑھیاں اترا… اور احمد سے اجازت لے کر چھت پھلانگ کر سیڑھیوں کا دروازہ کھول دیا۔ ارم فوراً اندر لپکی ۔ ”اویس…. آپ کسی قسم کا کوئی لحاظ نہیں کریں گے۔ مرگئی آپ کی بہن آج سے!” وہ غصے سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
اس نے لمبا سانس لیا…. ”مرگئی… ایمان تم میرے لیے!!” وہ دروازے کی طرف بڑھا… کمرا اندر سے بند نہیں تھا۔
ایمان کھڑکی کے پاس کھڑی نیچے جھانک رہی تھی ۔ اسے اُن دونوں کی آمد کا علم نہ ہوا۔
”مجھے ساگ پسند نہیں… مگر لگتا ہے تمہیں بہت پسند ہے۔ ہم دونوں کی پسند ایک جیسی نہیں…. مگر بہت سی خصوصیات مشترک ہیں مثلاً میں بھی سارا دن محنت کرتی ہوںاور تم بھی… میں بھی اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتی … اور تم بھی!! میں بھی کام کرکے اپنی ذات کا بوجھ اٹھاتی ہوں… اور تم بھی!! مگر اس کے باوجود … سب کی نظروں میں ہمارا وجود بے کار ہے۔”
کمرا خالی تھا… وہاں ایمان کے علاوہ کوئی نہ تھا… وہ دونوں حیرت سے اس کی باتیں سن کر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔
اچانک وہ مڑی… اپنی بھابھی… اور بھائی کو دیکھ کر حیران ہوگئی۔
”بھائی… آپ !!بھابی آپ!!”ایمان نے ہچکچا کر پوچھا۔
”ایمان… تم … تم کس سے بات کر رہی تھیں…!!” اویس کھڑکی کے پاس جا پہنچااور کھڑکی سے افضل سبزی فروش کے آنگن پر نظر ڈالی ۔جہاںاُس کا گدھا مزے سے ساگ روٹی کھارہا تھا۔ اویس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے… ارم نے اپنا سرجھکالیااب وہ معافی مانگ رہی تھی۔
”بھائی… بھابی…. میں روز سالن اس گدھے کو نہیں کھلاتی ہوں… وہ میں ساگ نہیں کھاتی… تو اس لیے آج…” وہ شرمندہ تھی کہ شاید اس کی بھابی کو برا نہ لگاہو کہ انہوں نے محنت کرکے ساگ بنایا ہے… اور اس نے گدھے کو ڈال دیا۔
اویس سر پکڑ کر رونے لگتا ہے… وہ سہم گئی ”بھائی… بھائی مجھے معاف کردیں ۔”
”بھابھی…. آپ ہی کچھ بولیں…” ارم کا چہرہ پیلا پڑنے لگتا ہے۔ ایک دم سے احمد کی آواز کمرے میں پہنچتی ہے… ”اویس… اویس… تم حیدر اور ایمان کو کمرے میں بند کردو… میں ابھی حیدر کے والدین کو لے کر آتا ہوں… وہ اب اس محلے میں نہیں رہ سکتے ۔نہ جانے کب تک یہ بدمعاش حیدر محلے کی لڑکیوں کی عزت سے کھیلتا رہے گا۔”
ایمان اپنے بھائی … اور بھابی کو ایسے دیکھتی ہے جیسے بہت کچھ سمجھ گئی ہو ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔
اسی وقت گدھے کو نہ جانے کیا سوجھی… اور وہ اپنی منحوس آواز میںرینکنے لگا۔
وہ روتے روتے منہ میں بڑبڑاتی لاحول پڑھنے لگی اور گدھے کی آواز غائب ہو گئی۔ کمرے میں صرف اویس کے رونے کی آواز گونجنے لگتی لگی ، جو اس کے کانوں کو محسوس نہیں ہو رہی تھی ..
. وہ دوبارہ کھڑکی کے پاس جاکر نیچے آنگن میں موجود گدھے کو دیکھنے لگتی ہے… جس میں اسے اپنا عکس نظر آیا کرتا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

شب گزیدہ — زید عفّان

Read Next

تبدیلی — ثناء شبیر سندھو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!