سائیں —- سارہ خان

سائیں! سنو تو، بہت درد ہے۔ جسم تھر کی خشک سالی سہتی ہوئی زمین کی طرح دراڑوں سے بھرا ہے سائیں۔ یہ رخنے بھی عام دراڑوں سے زیادہ پاٹ دار ہیں اور جیسے ہر پاٹ سے پیپ رستی ہو۔
سائیں! جب تم کہتے ہو۔ تم ہو، تو تم کہاں ہو؟
جب تجھ سے پریت لگائی ہے،جب ساری ریت نبھائی ہے، تو پھر دوری کے الاؤ میں کیوں جھلساتے ہو؟ کیوں سائیں؟
دکھائی کیوں نہیں دیتے سائیں؟
سائیں! کبھی کبھی دل تصور سے وجود کی ضد کر ڈالتا ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ تم نور سے مٹی کے بن جاؤ۔ تم ماں جیسے ہونا سائیں!
مگر سائیں! ایک عمر کے بعد ماں کے سینے کم زور پڑ جاتے ہیں۔ وہ ہمارے دل کا بوجھ نہیں سہار پاتے۔ کاش! پھر تم کہیں سے اتر کے ماں بن جایا کرو۔ بس کچھ لمحوں کو سائیں، فقط کچھ لمحوں کو۔
پھر بولو کس سے کہیں؟ تم ہی سے کہنا ہے نا۔
تم سے ہی شکوہ، تم ہی سے محبت!
مگر نہیں! ابھی مجھے تم سے سوال کرنے ہیں۔ سائیں! پیار میں زبان بندھ جاتی ہے، میری زبان تالو سے چپکتی جا رہی ہے سائیں، جو پیاس کی آخری منزل ہوتی ہے اور موت کی پہلی دستک!





تم تو پہچانتے ہو گے موت کی پہلی دستک، پہلی لرزتی ہچکی سے تم تو واقف ہو گے۔ کیوں کہ وہ تمہاری کی تخلیق ہے سائیں۔
تو مجھے کہنے دو سائیں! تم کبھی کبھی مجھے خلا جیسے لگتے ہو۔ مجھے لگتا ہے تم سوائے وہم کے کچھ نہیں۔
مگر میں تمہیں بتاؤں کہ میرا دل کیا چاہتا ہے؟
میرا دل چاہتا ہے کہ تمہارا چہرہ ہو، تمہارے ہاتھ ہوں، بازو ہوں اور جیسا کہ تم کہتے ہو کہ ستر ماؤں جیسے ہو، تو وہ مہربان سینہ بھی تو ہو سائیں۔
سائیں!
تمہارے ہاتھ کہاں ہیں سائیں جو اندھیرے میں میرے گالوں کو نم کرتے آنسو صاف کر سکیں۔
تمہارا چہرہ بھی تو نہیں کہ تکان میں ایک مسکراہٹ ہی دان کر سکے۔
میرا دل چاہتا ہے سائیں تمہاری بانہیں ہوں، میں شدید تھکن میں تمہاری گود میں بیٹھ جاؤں، تمہارے سینے میں چھپ جاؤں، تمہارے کاندھے پر سر رکھوں۔
مجھے لگتا ہے میرے واحد محرم تم ہو، مگر تم کہاں ہو سائیں!
تم کہاں ہو؟
میرے ہر درد کو اب درشن درکار ہے!
کاش کہ تم کبھی کبھی نور کا لبادہ اتار کے مٹی کے بن جاتے، ماس کے بن جاتے سائیں تو پتا چلتا ماس کیا بلا ہے۔ پھر اس ماس میں دل ڈال دیا۔ اتنا بوجھ ہم ماس مٹی کے پتلے نہیں اٹھا سکتے سائیں۔
میرا دل چاہتا ہے تمہارے گھر جاؤں۔ میں نے سنا ہے وہاں مر مر کا فرش ہے، آسمان پر سورج سوا نیزے سا بھی ہو تو زمین پیروں کو ٹھنڈ ڈال دیتی ہے۔ وہ ٹھنڈ پاؤں سے سفر کرتی پورے وجود کو ٹھنڈا ٹھار کر دیتی ہے۔
میرے سینے میں آگ ہے سائیں! میں وہاں جا کے تمہارے مر مر کے فرش سے گلے ملوں گی تو کچھ قرار آئے گا نا سائیں۔ میں خیالوں میں سوچتی ہوں کہ میں اس سفید فرش پر اوندھے منہ آنکھیں بند کر کے لیٹ جاؤں گی، لا محدود وقت کے لیے۔ مجھے وقت کی بندش پسند نہیں سائیں! مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے تو اور بھی بہت کچھ پسند نہیں، مگر تجھے بھی اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
سائیں! ایک بات پوچھوں !تم سوچو گے کیسی باتیں سوچتی ہے مریم۔
ایسی ہی ہے تمہاری مریم سائیں!





سوچ تو نے عطا کی ہے تو اس میں سوال بھی تو تو ہی ڈالتا ہے نا سائیں!
اور تم سے نہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں؟
اچھا! اچھا بتا سائیں کس کا درد زیادہ ہے؟ وہ بدن جو ان چھوا رہ جائے یا وہ بدن جو ہر رات مسلا جائے؟
کس کی اذیت حد سے سوا ہے؟
جو سہاگن ہو کے کنوار پن سہے یا جس کا ہر شب سہاگ بدل جائے؟
آہ!
یہ جسم کا تختہ بھی نری آزمائش ہے سائیں! طلب و رسد کے مابین ہی پھنسا رہتا ہے اور اوپر سے تیری شرطیں سائیں! اتنی بڑی تختی لکھ دی اک ذرا سی چھینٹ جتنی حیاتی دے کے۔
سائیں! تم مجھے فاختہ بھی تو بنا سکتے تھے نا! میرے سامنے والے درخت کی خزاں زدہ ٹہنیوں پر روز ایک فاختہ کا جوڑا آکے بیٹھ جاتا ہے ہلکے سرمئی رنگ کا۔ وہ جانے چونچیں لڑاتے ایک دوسرے سے کیا کہتے رہتے ہیں۔ کھیلتے ہیں، اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔ اڑ جاتے ہیں کبھی بیٹھ جاتے ہیں، پھر چلے جاتے ہیں یا پھر میرے پچھلے باغیچے میں عصر کے بعد جو ڈھیروں بلبلیں ڈیرہ ڈال لیتی ہیں، ان میں سے ایک میں بھی تو ہو سکتی تھی۔ کالی سیاہ رنگت والی مثلث کے سر جیسی اک آزاد بلبل آہ! یہ سب پرندے چلے جاتے ہیں، اگلے دن پھر آجاتے ہیں۔ تم مجھے بنا سکتے تھے نا ان میں سے ایک سرمئی فاختہ جس کی گردن کے پیچھے لکیر ہے یا سیاہ بلبل تو بنا دیتے۔ تیرا کیا جاتا! کیا جاتا تیرا سائیں؟ انسان بنا کے ہر وقت کے گناہ و ثواب میں ڈال دیا۔ میرے من میں اس خیر و شر کی کھینچا تانی مجھے مار دے گی سائیں۔
یہ کیا کیا تم نے ہمارے ساتھ؟ تشنگی دی، پھر سمندر دکھایا، پھر روح کو جگا دیا۔ پھر حلال و حرام کے چکروں میں ڈال دیا۔
دیکھ تو نے کیسا چکر چلایا ہے سائیں! پہلے من ڈال دیا سینے میں اور پھر اُسے محسوس کرنے کی صلاحیت دان کر دی۔ پھر بے چینی سے بھر دیا اور اندر ہی اندر جانے کتنے خلا بنا دیے۔
پھر وہ سارے خلا اکٹھے کیے اور ان کو پرُ کر دینے والی نعمت سامنے لا کے رکھ دی اور ساتھ بورڈ لکھ کر لگا دیا:
”شجرِ ممنوعہ”
یہ سب شجرِ ممنوعہ مجھے سدرالمنتہیٰ جیسا لگتا ہے سائیں، جسے چھونے پہ پر جل جاتے ہیں۔ میرے پر بار بار جلتے ہیں سائیں، لیکن کیا کروں؟ بنتِ حوا ہوں، جی کو اسی پیڑ کی پیڑا ہے جس پہ ”شجرِ ممنوعہ” لکھا ہے۔
تو فرشتہ بنا دیتا نا، نور والوں میں سے ایک، جن میں تمنا نہیں جاگتی۔ بس اطاعت ہی اطاعت ہے۔
میں پوچھتی ہوں سائیں اچھا خاصا جب فرشتوں سے کام چل رہا تھا، تو کیا ضرورت تھی ہم خواہشات کے ماروں کو بنانے کی۔
پھر نام بھی مریم دے دیا۔ پاک دامن۔ دامن تو پھٹ گیا سائیں، دیکھ نا کتنے سوراخ ہیں۔ اب تو دامن سے بدن تک چھید ہی چھید ہیں سائیں، چھید ہی چھید ہیں-





میری ہر کراہ میں پاک دامنی کی آہ تیرے فلک پر گونجتی ہوگی۔ کیا تجھے میری آواز سنائی دیتی ہے؟ مگر پھر مولا! پھر بھی دامن داغ دار ہے۔ پھر بھی قبا لیرو لیر ہے سائیں۔ کیوں سائیاں؟ کیوں؟ کبھی تو بولو، میں کس کی مانوں سائیں؟ تیری؟ یا من کی۔ میں ام عیسیٰ تو نہیں، نہ آسیہ نہ آمنہ۔میں تو مینا تھی بابا کی۔ عام سی مریم ہوں، بہت عام سی۔ بہت بہت عام سی سائیں! جب صحرا میں بوند بوند خشک ہو جاتی ہے تو سب چرواہے اپنے جانوروں کو لے کے خشکی سے تری کی جانب چل پڑتے ہیں۔ ہر جانور کے گلے میں گھنٹی ہوتی ہے، میں ان گھنٹیوں والوں میں سے ایک میں بھی تو ہو سکتی تھی نا۔
بے زباں رکھنے میں کیا حکمت ہے تیری؟ بتا نا سائیں!
سائیں! عجیب معاملہ ہے، بے حد عجیب۔ یہ گھڑی جو ٹِک ٹِک، ٹِک ٹِک چلتی رہتی ہے، یہ مجھے اپنے جیسی لگتی ہے۔ ایک بلیک ہول میں سفر کرتی ہوئی۔ دیکھو نا سائیں! ایک سر ایک تال، مگر منزل؟ منزل کا نشان نہیں، بس دن رات کا چلنا، رائیگانی ہی رائیگانی۔ یہ اس گھڑی کی اور میری کیسی ڈیوٹیاں لگا رکھی ہیں تو نے۔ ٹِک ٹِک ٹِک ٹِک۔ چلتے جانا۔ کولہو کے بیل کی مانند ایک مدار میں۔ یونہی، بے سبب، لاحاصل۔ سب لاحاصل ہی تو ہے سائیں! لاحاصل ہی تو ہے۔
یہ حسن کی بھی اپنی پریشانیاں ہیں سائیں۔
میں ٹھہری جاہل پگلی، لیکن تجھے ایک بات بتاؤں؟
آئندہ کسی کو حسن دے کے لاوارث مت چھوڑنا سائیں! حسن پر پہرے دار نہ ہو تو سائیں من میں گدلاہٹ آجاتی ہے، پھپھوندی لگ ہی جاتی ہے۔ اجلے تن کے اندر بھیتر من چِلا چِلا کے چاہے جانا مانگتا ہے۔ لمس مانگتا ہے، وجود مانگتا ہے۔
اور پھر سب میلا ہو جاتا ہے سائیں۔ نگاہ، تن، من۔ تم سمجھ رہے ہو نا سائیں میں کیا کہہ رہی ہوں؟ مجھے ڈر لگتا ہے! سائیں پاس آؤ تمہیں بتاؤں۔
سب میلا ہو جائے گا سائیں۔ اسی لیے بولا نا فاختہ بنا دیتے، یا پھر بلبل یا پھر گھنٹیوں والوں میں سے ایک، بے پروا، خوش بخت۔
اچھا سائیں! ذرا سوچو تو کہ یہ کیسا مقام ہے کہ تیری ایک مخلوق اپنے ہونے سے نالاں ہے۔ وہ کبھی فاختہ میں بدل جانا چاہتی ہے کبھی گھنٹیوں والوں میں۔
سائیں! میں مستقل تم سے شکوے کر رہی ہوں اور تم کچھ بول ہی نہیں رہے۔ اگر مجھ سے کوئی سوالی اتنے سوال کرے نا تو غصے میں اٹھا کے ماروں سوالی کی چاہت کہ یہ لو! پکڑو بند کرو اپنی بک بک، مگر تم کیسے ٹھنڈے میٹھے صابر ہوسائیں۔ نہ تم پر میری مٹھاس اثر کرتی ہے نہ کڑواہٹ۔
میرے تمام حربے ناکام ہو رہے ہیں۔ میں خود کو کیسے سمجھاؤں سائیں؟ کیسے بہلاؤں۔ مجھے خود کو بہلانا ہی سکھا دو سائیں۔
ہر مخلوق کا اپنا دکھ ہے سائیں، مگر ہمارے ساتھ تو حساب کتاب باندھ دیے نا۔ باقی سب بے حسابے۔ مانتے ہو نا یہ تو۔
اب دیکھو نا بہت دراڑیں ہیں۔ سب پاٹ دار ہیں۔ یہ پاٹ روز بہ روز چوڑے ہو رہے ہیں سائیں۔ کوئی آبِ شفا بھیجو سائیں۔ اپنے ماس مٹی کے کھلونوں کے لیے کوئی ماٹی کا لیپ بھیجو سائیں۔ بھیجو نا سائیں، بھیجو نا۔
چلو سائیں میں مان لیتی ہوں، پھر تمہاری مان لیتی ہوں، مگر یہ کیا پہیلی ہے کہ تم ساگر میں دھکیل کے شرط لگا دیتے ہو فقط نظارہ کرنا ہے۔ ایک اوک تک بھر کے نہیں پینی۔ بن پیے لوٹنا ہے۔ کدی آتتڑی دے ویڑے سائیں، کدی آ تتڑی دے ویڑے۔ آہ!
چلو سائیں کھیل ختم کرتے ہیں، اب کہ بھی جیت تمہاری ہوئی، میں ہار گئی سائیں۔
مگر سائیں!
میں؟
میرا دل؟
تیری مریم سائیں؟
تیری مریم سائیں؟
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

قرآن کہانی —– جالوت اور حضرت طالوت علیہ السلام

Read Next

الف نگر میگزین ۔ مئی اور جون ۲۰۲۲

One Comment

  • bhut acha lgaa phr kr maza aya

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!