زندگی کا سانس
تنزیلہ احمد
کافی دیر سے اپنی جگہ ساکت وہ آنکھوں میں افسردگی سموئے ہوئے تھی۔
فراک کے کونے مسلتی وہ اپنے باپ کو شکست خوردہ حالت میں کیاری کے پاس بیٹھے دیکھ رہی تھی۔ ان کی زندگیوں کا آج ناخوش گوار ترین دن تھا۔
دوپہر کو اس کا نومولود بھائی ہمیشہ کے لیے ان کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔ اس کا معصوم سا دل سناٹوں کے زیر اثر تھا۔
ننھا دماغ یہ سمجھانے میں ناکام رہا کہ کیسے وہ اپنے باپ کی دلجوئی کرے۔
اچانک باپ کی نظر اس کی جانب اُٹھی۔ افسردہ آنکھوں میں چمک کوندی۔
یہاں زندگی اب بھی سانس لے رہی تھی۔
٭…٭…٭