زندگی جبرِ مسلسل کی طرح — آفاق احمد آفاق

”میں سمجھتا ہوں پر اس میں تمہاری کیا غلطی ہے؟حالتیں اگر اتنی غیر مناسب ہیں تو اس میں بھی عمل دخل تمہارے اپنے گھر والوں کا ہے۔جس نے گناہ کیا ہے وہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہے۔جوبے گناہ ہے وہ جواب بھی نہ دے سکے۔یہ کہاں کا انصاف ہے؟” عاصم کو غصہ آگیا ۔چائے کا کپ میز پر رکھ کر وہ اس کے قریب صوفے پر آبیٹھا۔اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا دایاں ہاتھ تھام کر اسے کہا”بھلا تم ہی ان کی بات مان لو۔۔شادی کرکے۔۔۔۔”’
”کیسی بات کر رہے ہو یار۔تم جانتے ہو میں کسی طور ان کی بات نہیں مان سکتا۔مجھ میں ۔۔۔تمہیں پتا تو ہے” اس کا دل ایک بار پھر دکھ کے گہرے سمندر میں ہچکولے کھانے لگا۔اذیت کسے کہتے ہیں؟اس لمحے کوئی اس سے پوچھتا۔
”تم طبی طور پر بالکل تندرست ہو۔ایک عام مرد کی طرح تمہارے اندر بھی ۔۔۔”
”میں عام مرد نہیں ہوں”اس نے عاصم کی بات کاٹ کر گہرے دکھ سے کہا”میرے جذبات تو کب کے دم توڑچکے۔اب تو راکھ باقی ہے۔راکھ کو کرید کرکسی کو کیا ملے گا؟” اسے لگا کہ اس کی زندگی واقعی راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔اگر چلتے پھرتے کھاتے پیتے وجود کو زندگی کہتے ہیں تو وہ زندہ تھا۔اور یہ زندہ ہونا اسے موت سے بدتر لگتا تھا۔جب زندگی موت سے بدتر لگنے لگے تو دکھ آنسو بن کر آنکھوں سے بہنے لگتا ہے۔اس کی آنکھیں بھی برسنے لگیں۔وہ ناامیدی کی انتہا پر تھا۔
”میں سوچتا ہوں عاصم اللہ نے یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں کیا؟اس نے اس بے بسی اور خود ترسی سے بھری زندگی کے لیے مجھے ہی کیوں چنا؟اسے بھی مجھ پر ترس نہ آیا۔وہ تو رحیم ہے ناں ۔۔ ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا”وہ رو رہا تھا۔اس کے لفظ ٹوٹ رہے تھے لیکن وہ کہہ رہا تھا ۔نہ کہتا تو شاید سانس لینا اس کے لیے دشوار ہوجاتا۔”اسی غفور و رحیم نے مجھ پر رحم کیوں نہ کیا؟اک میری ذات تک آکر اس کی رحمت کی حدکیوں ختم ہوگئی؟”
”کاش تمہارے ساتھ ایسا نہ ہوتا ناصر۔کاش کہ تمہارے بابا بے پروائی نہ برتتے تو تم اس ظالم ٹیوٹر کی ہوس کا شکار ہونے سے بچ جاتے۔تمہارا بچپن زخمی ہونے سے بچ جاتا۔جو آج ہے وہ نہ ہوتا۔”دوست کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر عاصم کے دل کے ساتھ اس کی آنکھیں بھی رونے لگیں۔اسے بھی اس لمحے اپنے رب سے شکایت ہونے لگی کہ جس نے اس کے دوست کی زندگی کو بے حسی کی نذر کردیا۔وہ مدد کرتا تو کوئی کیسے؟کوئی بھی حربہ اس کے دوست کے احساسات کو زخمی کرسکتا تھا۔
”جانتے ہو عاصم ایسے کئی کاش میرے پاس بھی ہیں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

کاش کہ بابا مجھے اس ظالم ٹیوٹر پر اندھا اعتماد کرکے اس کے رحم و کرم پر نہ چھوڑتے۔جس نے اپنی درندگی سے میری کمسن روح پر ایسے نشان چھوڑے جو چاہ کر بھی مٹا نہیں پایا۔مجھے آج بھی اپنے جسم پر اس کے بدنما ہاتھ سرکتے محسوس ہوتے ہیں تو وحشت سے پاگل ہونے لگتا ہوں۔اس کا مکروہ چہرہ اور شیطانی مسکراہٹ مجھے آج بھی یاد ہے۔تمہیں پتا ہے اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔بالکل میری عمر کا ۔۔ کمسن۔۔ پھول سا۔اس کے گھر کی دیوار پر اس کی بڑی سی تصویر لگی رہتی تھی۔وہ اس سے بڑا پیار کرتا تھا۔ اکلوتا بیٹا جو تھا۔میں سوچتا ہوں مجھ میں اسے کبھی اپنے بیٹے کی جھلک کیوں نظر نہ آئی؟جس طرح مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ایسے ہی باپ بھی سانجھے ہونے چاہیے تھے ناں۔میں بھی کم سن تھا،پھول جیسا معصوم تھا۔اس پھول کو مسلتے ہوئے اسے ایک لمحے کو وہ پھول کیوں یاد نہ آیا جو اس کے اپنے آنگن کی پیداوار تھا؟ایک بار میں نے اسے روتے ہوئے کہا تھا کہ خدا کر ے کوئی آپ کے بیٹے کے ساتھ بھی وہی کچھ کرے جو آپ میرے ساتھ کر رہے ہیں تو جانتے ہو اس نے کیا کیا تھا؟زور سے ہنسا تھا۔کتنی ہی دیر تک ہنستا رہا تھا۔مجھے اس زیادتی سے اتنی اذیت نہیں پہنچی تھی جتنی اس کی اس بے حس ہنسی سے پہنچی تھی۔پورے چار سال تک وہ مجھے کھلونا سمجھ کر کھیلتا رہا۔کھیل کا خاتمہ تب ہوا جب بابا کا ٹرانسفر سکھر سے حیدرآباد ہوا۔ لیکن تب تک میرے اندر کا بچہ مر چکا تھا۔میں مرچکا تھا۔پھر بے حسی کے بہاؤ میں کہاں کہاں اور کب تک بہتا رہا مجھے اندازہ ہی نہ ہوا۔مجھے کبھی سمجھ ہی نہ آئی کہ مجھے فاعل تخلیق کیا گیا ہے۔مفعول میری توہین ہے۔اور جب سمجھ آئی تب چاہ کر بھی خود کو اور اپنے احساسات کو سمیٹ نہ سکا۔جب روح زخمی ہوجائے ناں تب زندگی کے رنگ بے رنگ ہوجاتے ہیں۔میرا یہ خوب صورت وجود جو ہر آنکھ کے لیے باعث ستائش ہے خود میرے لیے دو کوڑی کا نہیں ہے عاصم۔رو بھی نہیں سکتا کہ زمانے کو ہنسنے کا موقع نہ ہاتھ آجائے اور ہنسنے سے بھی معذور ہوں کہ روح میں خوشی کے پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔ایک بات تو بتاؤ دوست۔۔ کیا بدلہ لینے سے روح کے زخم بھرجاتے ہیں؟’ماضی کی سیاہی اس کی آنکھوں کو بھگوئے چلی جارہی تھی۔اس کے سوال کا عاصم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔وہ چاہ کر بھی اپنے جان سے عزیز دوست کی مدد نہیں کر پا رہا تھا۔بہت کچھ چاہنے کے باوجود کچھ نہ کرسکتا تھا۔بس اتنا کہہ سکا ”مت سوچو اس طرح ناصر پلیز۔۔۔”
”مجھے بتاؤ ناں بدلہ لینے سے روح کے زخم بھرجاتے ہیں؟لوگ کہتے ہیں بدلہ اذیت ختم کردیتا ہے۔جانتے ہو گذشتہ سال وہ شخص جس نے اپنے پیشے کی حرمت کو داغ دار اور میری روح کو زخمی کیا، بیمار ہوا تو مجھے اس نے بلایا تھا۔اسے فالج ہوا تھا۔اپنی جگہ سے ہلنا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔میں جان بوجھ کروہاں گیا،اس لیے نہیں کہ مجھے اس سے کوئی ہم دردی تھی۔بس اس لیے کہ میں چاہتا تھا اسے اذیت میں گرفتار دیکھ کر، بے بس دیکھ کر میری روح شاد ہو۔میرے اندر کی اذیت کچھ کم ہو۔میں نے دیکھا تھا وہ واقعی بے بسی کا مجسم بنا دوسروں کے رحم و کرم پر تھا۔رحم کے قابل تھا۔مجھے دیکھ کر اس کے لب تو کچھ نہ کہہ سکے لیکن ادھ جڑے ہاتھوں سے مجھ سے معافی کی بھیک مانگنے لگا۔میری زندگی کو اذیتوں کے سپرد کرنے والا مجھے کہہ رہا تھا کہ میں اسے معاف کردوں۔مجھ سے کچھ نہ ہوسکا بس جانے سے پہلے اس کے بے بس اور معذور وجود پر تھوکا تھا میں نے۔مجھے لگا تھا یہ کرکے میں اپنے اندر کی اذیتوں کا بدلہ لے چکا ہوں۔اب میرے دل کی ویرانیاں ختم ہوجائیں گی لیکن باہر نکل کر مجھے احساس ہوا کہ سب کچھ وہیں تھا۔اس ایک کم زور وجود کی تذلیل سے میری روح آباد نہ ہوسکی تھی۔اس دن میں نے جانا کہ بدلہ اذیت کا خاتمہ نہیں ہوتا،اذیت کے سفر کو مزید بڑھادیتا ہے۔اسی لمحے میں نے اسے دل سے معاف کردیا تھا۔کچھ دن بعد وہ مرگیا پر۔۔ میں زندہ ہوں۔تمہارے سامنے بے بسی اور غم ویاس کی تصویر بنا بیٹھا ہوں۔سوچتا ہوں زندہ رہنے سے تو مرجانا بہتر ہے۔ہمیشہ کا سکون۔ہمیشہ کی آزادی۔جب روح جسم سے بغاوت کربیٹھے تو انسان کو مرجانا چاہیے دوست۔”
اس کے آنسو اس کے گالوں پر اپنے نشان چھوڑ کر خشک ہوچکے تھے۔وہ اداس ہوتا تھا،بے بسی بھی اس پر غالب آتی تھی لیکن آج اس کی مایوسی انتہا پر تھی۔شاید انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ صبر کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔اسے لگتا ہے اگر وہ اور صبر کرے گا تو اس کا دل پھٹ جائے گا۔وہ مرجائے گا،اس کی کیفیت بھی وہی تھی۔وہ بے دم سا صوفے کی پشت پر سر ٹکائے آنکھیں بند کیے گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔عاصم نے چاہا کہ وہ اسے سمیٹ لے۔ایسے ہی جیسے ہمیشہ سمیٹ لیا کرتا تھا ۔اس نے اپنے دوست کے دائیں شانے پر تسلی اور محبت بھرا ہاتھ رکھا تو اس نے جھٹک دیا۔ہاتھ جھٹکنے کے بعد جانے کیوں ہنس پڑا۔ایسی ہنسی جو اپنی ذات کی ہی توہین ہو۔
”اگر غیرت مند ہوتا تو اتنے برس زندہ نہ رہتا۔تم فکر نہ کرو۔مجھے کچھ نہیں ہوگا۔سہارے مجھ جیسے مردہ دل لوگوں کو زندہ نہیں کرسکتے عاصم۔” وہ کہہ رہا تھا لیکن عاصم اسے اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
”ہمت کرو ناصر۔۔ میں انکل کو سمجھاؤں گا وہ تم سے آئندہ کوئی سوال نہیں کریں گے۔”
عاصم کی تسلی پر اس نے سختی سے اسے منع کیا”نہیں ۔۔کسی کو سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔انہیںسمجھابھی لیا تو مجھے نہیں سمجھاسکوگے۔کچھ باتیں،کچھ احساس سمجھ سے بہت آگے کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔میں جارہا ہوں” وہ یک لخت اٹھ کھڑا ہوا۔
”کہاں جاؤگے اس وقت” عاصم نے گھڑی کی طرف دیکھا۔رات کے گیارہ بج رہے تھے ”آج یہیں رک جاؤ۔”
عاصم کو اس کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی کہ وہ رات کے اس پہر اسے اکیلے کار ڈرائیو کی اجازت دے سکتا۔وہ بھی جب وہ اپنی مایوسی کی انتہا پر تھا۔ اس نے اسے روکا لیکن وہ نہ رکا۔عاصم جانتا تھا کہ ایسے لمحوں میں جب وہ اپنی ضد پر اڑجائے تو کسی کی نہیں سنتا۔اس کی بھی نہیں۔وہ عاصم کے فلیٹ سے نکل کر اپنی کار میں جابیٹھا۔کار اسٹارٹ کرکے اس نے آخری نظر اپنے سب سے قریبی دوست عاصم کو دیکھا بالکل ایسے ہی جیسے کوئی ڈوبنے والا شخص کنارے پہ کھڑے اپنے دوست کو دیکھ رہا ہو جس کے متعلق یقین ہو کہ وہ چاہ کر بھی اسے ڈوبنے سے بچا نہیں سکے گا۔کار عاصم کی نظروں سے اوجھل ہوگئی لیکن آج جانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اپنے دوست کو آج کے بعد کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔
اگلی صبح شہر کی پولیس کو مرکزی شاہ راہ پر حادثے کا شکار ایک گرے کلر کی نیو ماڈل کرولا کار ملی۔جس کاڈرائیور شدید زخموں کے باعث زندگی کی بازی ہارچکا تھا۔ڈرائیور کی جیب سے ملنے والے بٹوے سے اس کا آئی ڈی کارڈ ملاتھا جس سے ڈرائیور کی شناخت ممکن ہوسکی۔حادثے میں جان سے ہاتھ دھونے والا شخص شہر کے پڑھے لکھے طبقے کا جانا پہچانا فرد ناصر حسن تھا جس نے سخت محنت سے کم عمری میں اپنی الگ پہچان بنالی تھی۔شناختی کارڈ،وزٹنگ کارڈ اورکچھ نقد رقم کے ساتھ اس کے بٹوے سے ایک مڑے تڑے کاغذ کا ٹکڑا بھی پولیس کے ہاتھ لگا ۔جس پر مرنے والے نے مرنے سے کچھ دیر قبل ایک شعر لکھا تھا۔کاغذ پر شعر کے نیچے لکھنے کا وقت اور اس دن کی تاریخ بھی درج تھی۔پولیس کا خیال تھا کہ شعر لکھنے اور حادثہ ہونے کا وقت کچھ منٹوں کے فرق سے ایک ہی ہے۔

زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

آخری لفظ — فارس مغل

Read Next

اجنبی — لبنیٰ طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!