“بابا آج مجھے فائیو سٹار میں ڈنر کرنا ہے ۔” میرب آصف کے گلے میں جھولتے ہوئےفرمائش کر رہی تھی۔
“جہاں میری جان کہے گی ہم وہیں چلیں گے۔”
آصف نے اس کے گال پر بوسہ دیا ۔
“بابا مجھے نیو ٹیب چاہیے ۔” شمس نے بھی ڈیمانڈ کی ۔
“ابھی کچھ دن پہلے ہی تو آپ نے نیو ٹیب لیا تھا ۔” آصف اس کی ڈیمانڈ پر حیرت سے
بولے ۔
“وہ مجھے اچھا نہیں لگا مجھے دوسری کمپنی کا چاہیے ۔” شمس نے آرام سے کہا۔ آصف نے
اثبات میں سر ہلادیا ۔
آصف نے اپنی کلاس فیلو مدیحہ سے پسند کی شادی کی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ سے سرشار تھے- جب ان کی زندگی میں میرب کی آمد ہوئی تو زندگی اور رنگین
ہوگئی – جو شمس کے آتے ہی ایک مکمل خوبصورت آئیڈیل زندگی بن گئی ۔ مدیحہ اور آصف کہ دن رات ان دونوں کہ گرد ہی گھومتے گزر رہے تھے۔
صبح آصف آفس جاتے ، وہ ایک بینک میں ملازمت کرتے تھے ۔ شام کو تھک ہار کہ جب گھر لوٹتے تو بیوی ، بچوں کی محبت سمیٹتے ۔ دن محنت کرتے گزرتا اور شام بچوں کی فرمائشیں پوری کرتے ہوئے- آصف ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ جو ان کے بچوں کہ منہ سے نکلے وہ ان کے سامنے پیش کردیں۔ مدیحہ اکثر انہیں کہتی تھیں کہ بچوں کی
عادتیں اتنی بھی خراب نہ کریں ۔ اور وہ ہمیشہ ایک ہی جواب دیتے کہ “اگر میں اپنے بچوں کی مرضی اور دل کی خواہش پوری کرنے پر انکی عادتیں خراب کر رہا ہوں تو مجھے یہ سو دفعہ منظور ہے ۔ اگر میں اپنے بچوں کی خواہشیں ہی پوری نہ کروں تو میرے کمانے کا کیا فائدہ۔ ” اور مدیحہ بس انہیں دیکھ کر رہ جاتی تھیں کہ یہ بھی سچ
تھا اس رتبے پر فائز ہوتے ہی باقی سب کچھ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے اور آدمی ہو یا عورت وہ بس اپنے بچوں کے لیے جیتے ہیں۔
******************
“بابا پلیز جانے دیں نہ میری ساری فرینڈز جارہی ہیں۔ میں اکیلی تھوڑی جارہی ہوں ” میرب ضدی لہجے میں بولی ۔
“پہلے کبھی بابا نے آپ کو منع کیا ہے میرب جو یوں ضد کررہی ہو تین دن باہر رہنا بابا کو ٹھیک نہیں لگتا اور پھر وہ کہہ بھی تو رہے ہیں کہ آپ کو خود مری لے چلیں
گے ۔ ” مدیحہ اسے پیار سے سمجھا رہی تھیں۔آصف خاموش تھے کہ جتنی مرضی محبت سہی وہ یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ وہ زمانے اور حالات دونوں کے ڈر سے اسے ٹرپ پر نہیں بھیجنا چاہتے تھے۔
“آپ لوگوں کے ساتھ وہ مزہ تو نہیں آئے گا نہ جو فرینڈز کے ساتھ آتا ” وہ منہ پھلا کر کہتی ہوئی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اسکے جاتے ہی شمس چلا آیا اپنا مقدمہ لڑنے ۔ وہ دونوں ایک ہی کالج میں زیر تعلیم تھے اور آج کل کالجز میں ٹرپس کا دور چل رہا تھا- ان کے کالج کا ٹرپ مری جارہا تھا ۔ پہلے تین دن لڑکوں کا ٹرپ جانا تھا اس کے اگلے تین دنوں کے لیے لڑکیوں کا اور آصف ان دونوں کو ہی اجازت نہیں دے رہے تھے – وہ آئے روز نظر آنے والی نیوز کہ فلاں جگہ پر وین کھائی میں گرگئی ،تو کبھی فلاں جگہ کوئی حادثہ رونما ہوگیا سے خائف تھے اور بچوں کو کالج ٹرپ کے ساتھ بھیجنے کے حق میں نہیں تھے کہ وہاں ان کا دھیان کون رکھے گا اور وہ دونوں خود اپنا دھیان بلکل نہیں
رکھتے تھے۔
“بابا مجھے تو آپکی بات کا لاجک سمجھ نہیں آرہا ، حادثہ ہونا ہو تو وہ تو آپ کی موجودگی میں بھی ہوسکتا ہے ” – آصف کی بات شمس کی سمجھ سے باہر تھی۔
“بس شمس میں کچھ نہیں سنوں گا، اپنے روم میں جاؤ”- شمس بھی منہ بسورتا ہوا اٹھ کر چلا گیا ۔اگلی صبح ناشتہ کرتے ہوئے وہ لوگ مری جانے کا پروگرام بنا رہے تھے ۔
****************
زندگی کی کتاب میں وقت کے پنے اتنی تیزی سے پلٹ رہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن بھی آصف اور مدیحہ کی زندگی میں آپہنچا جب میرب، عرفان کے ساتھ بیاہ کر
سسرال چلی گئی اور عفرا شمس کے سنگ بیاہ کر آصف اور مدیحہ کے گھر کا حصہ بن گئی۔
شروع شروع میں زندگی مزے میں کٹ رہی تھی، مدیحہ گھر سنبھالتی اور آصف وہ بزنس سنبھالتے جو انہوں نے شمس کو جاب نہ ملنے پر اپنی ساری جمع پونجی لگا کر
شروع کر کے دیا تھا۔ شمس اور عفرا کے دن رات گھومنے پھرنے میں گزر رہے تھے، انہیں جیسے زندگی میں کوئی فکر نہ تھی کہ
مدیحہ کی اچانک موت نے جہاں آصف کو توڑ پھوڑ کہ رکھ دیا، وہیں شمس اور عفرا کی زندگی میں یہ تبدیلی آئی کہ شمس کہ پاس بزنس کا ہولڈ آگیا اور عفرا کے پاس گھر
کا ہولڈ آگیا ۔
کچھ دن تو عفرا نے کافی اچھے سے گھر سنبھالا اور پھر اس نے اپنی پرانی روٹین دوبارہ شروع کرلی، صبح شمس کے آفس جاتے ہوئے اس کے ساتھ ہی میکے کے لیے نکلتی
اور شام کو اسکے ساتھ ہی واپس لوٹتی اور جاتے ہوئے آصف پر یہ احسان کر جاتی تھی کہ ان کے لیے روٹی بنا کر رکھ جاتی تھی۔
جسے وہ جب انہیں بھوک لگتی خود ہی فریج میں موجود سالن کے ساتھ کھالیتے پر کہتے کچھ نہیں تھے ۔
پھر جب عفرا کو پتا چلا کہ وہ ماں بننے والی ہے تو اسے کچن میں گھسنا ہی گناہ لگنے لگا ، اس کی آسانی کے لیے شمس نے ایک فل ٹائم ملازمہ رکھ دی، کچھ دن
سکون کے گزرے تو وہ یہ کہہ کر کام چھوڑ گئی کہ “بی بی خود تو میکے چلی جاتی ہیں اور میں پیچھے اکیلی ، بے شک بڈھا ہے پر ہے تو مرد ہی نہ ” عفرا نے اس بات کو بلکل اگنور نہیں کیا تھا ۔
اس نے یہ بات شمس کو بتائی اسے باپ سے متنفر کرنے کے لیے اور وہ تو پہلے ہی بیوی کی آنکھ سے دیکھتا اور بیوی کے ہی کان سے سنتا تھا اس کے ہر مشاہدے پر
اثبات میں سرہلاتا رہا اور آخر میں اس نے شمس سے یہ بھی پوچھا تھا کہ” ایسا کیا کہا ہوگا انکل نے جو جمیلہ یہ کہہ گئی ہے “-
اور وہ کندھے اچکاتا ہوا ٹی وی کی سمت متوجہ ہوگیا تھا- جس کا مطلب تھا اسے اس ٹاپک میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اب اسے اپنے بابا کی ذات میں کوئی دلچسپی نہیں
رہی تھی ۔
اس کے بعد یہ ہوا تھا کے شمس رات کو واپسی پر ہوٹل سے کھانا لے آتا تھا اور آصف کو صبح اور دوپہر میں بھی باسی روٹی کے وہی ٹکڑے کھانے پڑتے پر وہ کوئی شکایت
نہیں کرتے تھے ۔ جانتے تھے وہاں ان کی نہ کسی کو فکر رہی تھی ،نہ قدر اس لیے کہنا فضول تھا -اکثر وہ سوچتے شاید وہ اپنے بیٹے سے شکو کریں تو اسے ان کا خیال
آجائے پر پھر یہ خیال کہ اس شاید کے بعد بھی کوئی اثر نہ ہوا تو ؟ اس لیے جتنی زندگی باقی تھی وہ خاموشی سے کاٹنا چاہتے تھے۔
***************
“بیٹا جانے سے پہلے مجھے روٹی تو پکا کر دے جا ، مجھے بھوک لگ رہی ہے۔سالن تو صبح کا رکھا ہوا ہے ۔ ” سجی سنوری عفرا اور اس کے ساتھ آتے زمان کو دیکھ کر آصف نے کہا۔ عفرا ابھی منہ بناکر کچھ کہنے والی تھی کہ پیچھے سے آتیشمس کی آواز نے اسے خاموش ہوجانے پرمجبور کیا۔
“عفرا بنا دو بابا کو روٹی پھرچلتے ہیں ۔”
“دماغ ٹھیک ہے آپ کا اب اتنی تیار ہوکرمیں کچن میں جاں اور ساری محنت پر پانی پھیر لوں “- وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولی۔
شمس سوچ میں پڑ گیا پھرکچھ سوچ کر بولا –
“بابا آپ یہ پیسے لے لیں اور ہوٹل سے روٹی لے آئیں- ” شمس نے سو کا نوٹ ان کی طرف
بڑھایا جسے انہوں نے نہیں پکڑا۔
“تم جاتے ہوئے مجھے میرب کی طرف چھوڑتے جا- ” وہ کہہ کر باہر نکل گئے آج ان کا ہوٹل والی ربڑ جیسی روٹی کھانے کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا۔ تبھی میرب کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔
شمس انہیں میرب کے گھر کی گلی میں چھوڑ کر واپس چلا گیا اور وہ چلتے ہوئے میرب کے گھر کے سامنے آٹہرے اور ہولے سے دروازے پر دستک دی- دروازہ کھولنے والی میرب ہی تھی، انہیں دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئی اور پھر پریشان ۔ اس کی نظروں میں موجود پریشانی وہ بھانپ چکے تھے پر پوچھا کچھ نہیں۔ میرب انہیں اندر لے آئی۔ برآمدے میں بیٹھی میرب کی ساس نے بڑی تیز نظروں سے گھورا تھا وہ بھی جانتی تھی کے اکثر سمدھی جی میرب کے ہاتھ کا کھانہ کھانے کے لیے تشریف لاتے تھے کہ اس کے ہاتھ کی روٹی انہیں بلکل مدیحہ کی روٹی جیسی لگتی تھی۔ آصف کو لیے وہ ڈرائنگ روم میں آگئی اور پوچھا-
“بابا خیریت ” نظریں دروازے پر ہی جمی تھیں ۔
“بس بیٹا آپ کے ہاتھ کی روٹی -” ابھی ان کاآدھا جملہ باقی تھا کہ وہ ان کی بات کاٹ
کر جلدی سے بول اٹھی-
“بابا آج میں آپ کے لیے روٹی نہیں بناسکتی ۔” ان کی آنکھوں میں موجودناسمجھی کے تاثرات دیکھتے ہوئے وہ وضاحت دینے کو بولی-
” ایکچوئلی بابا میری عرفان سے کل ہی بحث ہوئی ہے کہ میں اتنی گرمی میں روٹیاں نہیں بنا سکتی۔ اپنی بنانے تک تو پھر بھی بندہ گرمی برداشت کرلے پر ساتھ ہی ان کی امی اور تین بہنوں کے لیے بھی بنا اور وہ خود ہلتی بھی نہیں ہیں اور چاہتی ہیںمیں ہی گرمی میں سڑتی رہوں۔ اب اگر میں آپ کے لیے روٹی بنانے جاتی ہوں تو پوری زندگی کے لیے پھنس جاؤں گی اور عرفان کی امی تو ویسے ہی موقع کی تلاش میں ہیں۔” وہ اپنی مظلومیت باپ کے سامنے بیان کر رہی تھی ۔
“بابا میں آپ کو پیسے دیتی ہوں آپ کسی ہوٹل سے جاکر کھانا کھا لیں۔” وہ پیسے
لینے چلی گئی تھی۔ ایک سوچ بڑی دیر سے ان کے دماغ پر دستک دے رہی تھی کہ “کیا وہ دونوں اپنی اولاد پر پیار کی بارش کرتے کرتے ان کو تربیت کی دو بوند دینا بھول گئے تھے۔ ” میرب نے آکر ان کو سو کا نوٹ تھمایا اور انہیں جلدی جانے کے لیے کہا وہ اس قدر دکھ میں مبتلا ہوئے تھے کہ اسے اسکے پیسوں کے لیے منع ہی نہ کر سکے اور چپ چاپ باہر آگئے ۔ میرب نے دروازہ بند کردیا تھا ۔وہ کچھ دیر باہر کھڑے کبھی بند دروازے کو اور کبھی ہاتھ میں موجود سو کے نوٹ کو دیکھتے رہے پھر قدم سڑک کی طرف بڑھا دیئے ۔”کاش تم مجھے اتنی جلدی چھوڑ کر نہ گئی ہوتی مدیحہ ۔” آصف نے شکوہ کیا۔
“تم نہ جاتیں تو مجھے اپنی اولاد کے ان رویوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا خود کو ان پر بوجھ بنتے ہوئے نہ دیکھنا پڑتا۔ ” وہ جو شروع سے ایک مثال سنتے آرہے تھے کہ ایک باپ تو دس بچوں کو اکیلا سنبھال لیتا ہے اور دس بچے مل کر بھی ایک باپ کو نہیں سنبھال پاتے لگتا ہے کسی نے انہی حالات میں ، یا انہی حالات کے لیے کہی تھی وہ سوچنے پر مجبور ہوئے۔
“کاش تم مجھے بھی اپنے اس سفر میں ساتھ لے چلتی ، تم نے کیوں نہ سوچا کے میں اپنے بچوں کے ایسے رویے دیکھ کر کیسے جی پاؤںگا” وہ رو رہے تھے۔ آنسوؤں سے ، آہوں سے
“پر دیکھو کتنا ڈھیٹ ہوں میں اب تک زندہ ہوں۔ ” اسی طرح روتے روتے وہ چلتے جارہے
تھے کے انہیں ہچکی آئی اپنی زندگی کی آخری ہچکی ، موت کی ہچکی اور وہ سڑک کے کنارے پر گر گئے۔ لوگ ان کے ارد گرد جمع ہورہے تھے سو کا نوٹ ان کے ہاتھ سے کب کا اڑ چکا تھا۔ اب اسکی ضرورت بھی باقی نہیں رہی تھی کیونکہ ان کی روٹی کا مسئلہ ختم ہوچکا تھا۔
*************