شالا رنگ والا بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔ جمیل احمد نے کچھ دیر اسے رونے دیا اور پھر آہستگی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور پھر جھک کر ، زمین پر بیٹھے ،گھنٹوں میں سر دئیے ، بچوں کی طرح روتے ، شالا رنگ والے کے کندھے پر ہاتھ رکھا او ر اس کے کان پاس اپنا منہ لا کر آہستگی سے کچھ کہا ۔ اس کی بات سنتے ہی ، شالا رنگ والے نے چونک کر اپنا سر اٹھا یا ۔ اس کی بھیگی آنکھوں میں بے یقینی تھی ، جمیل احمد نے اثبات میں سر ہلایا اور اس کا کندھا تھپتھپا تا ، کمرے سے باہر نکلا تو دروازے کے پاس اس کے تینوں بچے ، اپنے چہروں پر حیرت لئے کھڑے تھے۔چھوٹے سے باورچی کھانے کے، ٹوٹے ہوئے دروازے پر اس کی بیوی بھی پریشان چہرہ لئے کھڑی اسی طرف دیکھ رہی تھی ۔ جمیل احمد نے مسکرا کر ان سب کی طرف دیکھا اور پورے یقین سے گھر کی دہلیز پا رکر گیا ۔
اس کی بیوی فورا اپنی جگہ سے آگے بڑھی ، اسی وقت کمرے کے دروازے پہ اپنے بھیگے چہرے کو آستین سے صا ف کر تا ، شالا رنگ والا نموادار ہوا ۔ اپنے بچوں کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا ۔ بچے اتنے دنوں کے بعد باپ کو پہلے والے موڈ میں دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھے ۔اس کی بیوی حیرت سے ، اس کے بدلے ہوئے انداز دیکھ رہی تھی ۔
” میرے کپڑے نکال دے ! آج کافی دنوں کے بعد کام پہ جا رہا ہوں ! سب آئیں گے حال پوچھنے ! جلدی کر ! پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے !’
شالا رنگ والے نے صحن کے کونے میں لگے سنک پر جھکتے ہوئے ، اپنا منہ دھویا تھا ۔
” ہاں مگر۔۔!” اس کی بیوی نے کچھ کہنا چاہا ۔
”میں جان گیا ہوں کہ جب سب رنگ کھو جائیں تو ، تب ایک رنگ جو پچھتاوے اور ندامت کے آنسووں میں کھلتا ہے ، وہ امید کا رنگ ہے !
اس رب کی بارگاہ سے ، ہر گناہ اور توبہ کی امید کا ۔۔۔! اور یہ بات ہی جمیل بھائی نے سمجھائی ہے مجھے !”
شالا رنگ والے نے کہا تو اس کی بیوی کی آنکھوں میں خوشی سی نمی تیرنے لگی ۔شالا رنگ والا آگے بڑھا اور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتا ، اپنے بچوں کو محبت سے گلے لگاتے ہوئے بولا۔
”مجبوری کسی کو بھی سڑک پر لے آتی ہے !جمیل بھائی نے میری آنکھیں کھول دیں ہیں ! میں اگر اپنے پچھتاووں میں مبتلا رہ کر تم سب سے بے خبر ہو جاوں گا تو ایسا نہ ہو کہ کل کو میری بیوی اور بچے بھی ، روٹی کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے ، اپنے احساس اور عزتِ نفس کے سفاک قتل پر ، بے بس ہو کر، خود کو دریا کی بے رحم لہروں کے حوالے کر دیں ۔۔۔۔۔۔!”
شالا رنگ والے کے چہرے پر خوف کی لہراتی پرچھائیاں بہت واضح تھیں ۔اس نے اپنے بچوں کو چوما اور پھر وہ پورے یقین اور اعتماد سے اپنی جگہ سے اٹھا اور مضبوط لہجے میں بولا ۔
”میری ندامت کے آنسووں کی بارش میں جو رنگ ، آج بھی میں رنگ سکتا ہوں ، و ہ امید کا رنگ ہے ، اور سب جانتے ہیں کہ میں ٹھہرا رنگوں کے عشق میں مبتلا شخص ۔۔! میں بھلا کیسے اس رنگ کو چھوڑ دوں ۔ جس سے مجھے احساس کے سب رنگ مل سکتے ہیں ۔۔۔! ” شالا رنگ والے نے کہا اور دروازے کی طرف جاتے ہوئے کچھ یاد آنے پر واپس مڑا ۔
اور ہاں !کل سے ببلو بھی میرے ساتھ جائے گا ۔ میں اپنے باپ کی طرح ہی اپنے بیٹے میں اپنا ہنر منتقل کروں گا مگر اسے یہ بھی ضرور سمجھاوں گا کہ انسان ہو کر کبھی بھی کاملیت کا دعوی نہ کرے کیو ںکہ کاملیت صرف ایک ذات کے لئے ہی ہے ۔ بندوں کے لئے نہیں ۔۔۔۔!”
شالا رنگ والا نے کہا اور کپڑے بدل کر مسکراتا ہوا ، گھر سے نکل گیا ۔
شالا رنگ والا آج بھی پہلے کی طرح ، اسی پرانی گلی میں ، ٹین کی چھت تلے بنے تھڑے پر اپنے ہنر کے رنگ سے ، دیکھنے والی ہر آنکھ کو مسحور کر رہا تھا ، مگر اب اس کے لہجے میں ، اس کے ہنر کی طرح کے تیز رنگ نہیں ہوتے تھے ۔بلکہ عاجزی اور انکسار میں ڈوبے ، شکرگزاری کے ہلکے اور مسحور کن رنگ تھے ، جو ہر دل کو بہت محبت سے گھیر لیتے تھے اور
شالا رنگ والا ، آج جو رنگ سب سے اچھا اور بہترین رنگتا تھا ، وہ رنگ ”انسانیت” کا تھا ۔جو اسے امید کے رنگ سے ملا تھا ۔ امید جو کبھی بھی ایک انسان کو دوسرے انسان سے مایوس یا بد گمان نہیں ہونے دیتی ہے ۔۔۔!
امید جو ، کائنات کے خالق سے بندے کا رابطہ مضبوط اوربراہ راست بنا دیتی ہے ۔۔۔!
٭…٭…٭