” صاحب ! دو دن سے کچھ نہیں کھایا ہے !بچہ بیمار ہے !اللہ کے نام پہ کچھ دے دو!”اس عورت کی آنکھوں میں اپنی کے بے بسی کے احساس سے آنسوآگئے تھے ۔ اس لئے جب اس نے جمیل احمد سے سوال کیا تو اس کی آواز میں لرزش بہت واضح تھی ۔
جمیل احمد نے اپنی قیمض کی سامنے والی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پچاس کا نوٹ نکال کر اسے پکڑا دیا ۔وہ عورت دعا دیتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔اس دن جمیل احمد وہاں سے لوٹا تو اس پہ شالا رنگ والے کا ایک نیا روپ آشکار ہوا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ اپنے کام میں بہترین اور قابل تھا مگر کوئی بھی ہنر کاملیت کے درجے پہ انسان کو فائز نہیں کرتا ہے !ہنر نقص سے پاک ہو سکتا ہے ، مگر بندہ بشر نقص اور غلطیوں سے پاک نہیں ہوتا اور جمیل احمد نے اپنے بزرگوں سے یہ ہی سنا تھا کہ
” بہتر انسان وہ ہے ، جو اپنی غلطیوں پر جھکنا جانتا ہو !اور اپنی غلطیوں اور خامیوں کو ویسے ہی قبول کرتاہے جیسے اپنی خوبیوں کو !”
ایک ہفتے کے بعدجمیل احمد دوبارہ اس کے پاس گیا ۔ اس کے آرڈر کا سب کام مکمل تھا ۔ دھانی آنچل پر بکھری رنگوں کی ہولی پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے جمیل احمد نے ، بہت متاثر نظروں سے شالارنگ والے کی طرف دیکھا تھا ۔
” کچھ بھی ہے مگر تم سے اچھا رنگ ساز ، اس شہر میں کوئی اور نہیں ہے ۔۔۔!”
جمیل احمد نے کہا تو شالا رنگ والا کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور وہ فخر سے سینہ تان کربول۔
” بابوجمیل ! میرا تو دعوی آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے بھلا کونسا رنگ ایسا ہے ، جو میں آج تک رنگ نہیں سکا! سب رنگ میرے اختیار میں ہیں ! کوئی یہ بات غلط ثابت کر دے تو قسم سے شالا رنگ والا ، اپنا خاندانی پیشہ ہی چھوڑ دے گا ہمیشہ کے لئے !!”
اس کے لہجے میں تکبر کی آنچ بہت واضح تھی ۔
” اللہ کے نام پہ کچھ دے دو ! میرے تینوں بچے بھوکے ہیں صاحب !”
وہ خستہ حال عورت ایک دم ہی سامنے آئی اور جمیل احمد کے آگے ہاتھ پھیلاتی ہوئی بولی تھی ۔ آج اس کے ساتھ دو بچے اور بھی تھے ۔ جن کی عمریں ٣سے ٤ سال کے درمیان تھیں ۔ بچوں کی خستہ حالی اور غربت ان کے چہرے اور حلئے سے ٹپک رہی تھی ۔اپنی بات کے دوران اس عورت کی مداخلت پر شالا رنگ والے کا منہ ایسے بن گیا جیسے کڑوا بادام منہ میں آگیا ہو ۔ جمیل احمد نے فورا جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا ،تاکہ انھیں کچھ دے سکے مگر اس سے پہلے ہی شالا رنگ والے نے اس عورت کو ہاتھ کے اشارے سے پیچھے کرتے ہوئے کہا ۔
” جا بی بی !کتنی بار کہا ہے کہ دھندے کے ٹیم مت آیا کر !اپنی یہ نوٹنکی کہیں اور جا کے کر ! اس دن ایک بچہ تھا ، آج تین اٹھا کر لے آئی ہے ! اگر بچے نہیں پال سکتے ، تو پیدا کیوں کرتے ہو !”
شالارنگ والے کے تلخ لہجے پہ اس عورت کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
” جس کا لہجہ اتنا کڑوا ہو ، اس کے رنگ کیا سچے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔! ” اس عورت نے سامنے رکھے مختلف رنگوں کو دیکھا تھا ۔
”رنگریز ! تُو روز اتنے رنگوں سے کھیلتا ہے ، کاش کبھی احساس کا ، انسانیت کا رنگ بھی دیکھا ہوتا توُ نے ۔۔۔!
کیا تُو بتا سکتا ہے کہ ذلت اور اذیت کا رنگ کیا ہوتا ہے ؟ کیا تجھے پتا ہے کہ بھوک کس رنگ کی ہوتی ہے ؟ جومجبوری گھر سے نکال کر بھکاری بنا دے ، وہ کس رنگ کی اور کتنی پکی ہوتی ہے ؟ بتا مجھے ۔۔۔! صد حیرت ہے کہ دنیا کو رنگ رنگ کے رنگوں سے رنگنے والا خود اندر سے سیاہ دل رکھتا ہے ۔۔۔۔!”
اس عورت کے لہجے میں تڑپ تھی ۔ اذیت تھی ، جیسے روز روز کی ذلت سے تنگ آگئی ہو۔وہ خودکلامی کرتے ہوئے تیزی سے مڑی تھی ۔
”مگر تُو نے یہ بھی ٹھیک ہی کہا ہے ، اگرغریب بچے پال نہیں سکتا تو پیدا ہی کیوں کرتا ہے ؟ روز روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ ایک بار ہی مر جائیں ہم لوگ !”
اس عورت نے تین سال کی بچی کا بازو کھینچا ۔ جو بار بار ہونٹو ں پر زبان پھیرتی ، گرم اور تازہ لگتے نان کی خوشبو پر بے قرار ہ کر ، تندور کی طرف دیکھ رہی تھی اور پیچھے سے ماں کی قیمض کا دامن کھینچ کھینچ کر اسے ، اس طرف متوجہ کر رہی تھی۔ اس عورت نے ایک زور کا دھموکا اپنی بچی کی کمر پہ مارا اور اسے آگے کر طرف دھکا دیا ۔شالا رنگ والا ناگواری سے منہ بنا کر ، سر جھٹک کر دوسری طرف متوجہ ہو گیا ۔ وہ عورت تیز تیز قدم اٹھاتی ، بچوں کو مارتی ، پرانی گلی کے آخری سرے پر موجود ، دریا پر بنے پل کی طرف چل پڑی ۔ جمیل احمد نے افسوس بھری نگاہ ، اس عورت پر ڈالی۔ شالا رنگ والے نے اسے بھی غریب عورت کی مدد کرنے سے روک دیا تھا ۔کیا تھا اگر اس عورت کو چند پیسے عنایت کر دئیے جاتے ! اس سے کم از کم اس کے معصوم بچوںکی بھوک تو مٹ جاتی نا۔۔!
وہ اسی پچھتاوے میں گم تھا جب شالا رنگ والے نے اسے مخاطب کیا اور حساب کرنے لگ گیا ۔ شالا رنگ والے نے ایک چھوٹی سی ڈائری نکالی اور پنسل ہاتھ میں پکڑے ، کپڑوں کی گنتی کرواتا ہوا ، ڈائری پہ نشان لگاتا جا رہا تھا ۔ جمیل احمد بھی پورے دھیان سے ایک ایک ڈوپٹہ اچھی طرح دیکھ اور پرکھ کر ایک طرف رکھ رہا تھا ۔ کیونکہ یہ اس کی بھی ساکھ کا مسئلہ تھا ۔ اگر گاہک کی مرضی کے مطابق کام نہیں ہو اگا تو ، اگلی بار وہ اس کے پا س آرڈر لے کے کبھی نہیں آئیں گے ۔وہ دونوں اسی حساب کتا ب میں لگے ہوئے تھے ۔ جب ایک دم ہی بہت شور اٹھا ۔سارے لوگ ، چیختے ہوئے ایک طرف کو بھاگے تھے ۔ کچھ ان کی طرح حیران و پریشان ، ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے
”کیا ہوا ؟ ” اس وقت بازار میں رش بھی بہت تھا ، ایک افرا تفری سارے بازار میں پھیل گئی تھی ۔ جمیل احمد اور شالا رنگ والے بھی پریشان ہو کر اپنی اپنی جگہ سے اٹھے تھے ، جب ایک لڑکا تیزی سے بھاگتا ہوا آیا ۔
” ارے کمالے ! کیا ہوا ؟ اتنا شور کیوں مچا ہوا ہے ؟”
شالا رنگ والے نے اسے روک کر پوچھا ۔ جس کی سانسیں پھولیں ہوئیں تھیں ۔
” شالا بھائی !ایک عورت نے اپنے تین بچوں کے ساتھ پل سے دریا میں چھلانگ لگا دی ہے ! سب اسی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں !”
” ک ک کون عورت ؟” شالا رنگ والے کا چہرے کا رنگ فق ہو گیا تھا اس کے ہاتھ کانپے تھے ، جن کی لرزش بہت واضح تھی ۔
” شالا بھائی ! وہ ہی عورت جو آجکل اکثر یہاں مانگنے آیا کرتی تھی ! ابھی ہی تو یہاں سے گزری تھی ۔۔۔! سنا ہے کسی شریف گھرانے کی ، مگر مجبور عورت تھی ، شوہر نشے کی لت میں پڑا ہوا تھا ، اس بیچاری کو بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا ۔” وہ لڑ کا کہتے ہو ئے آگے بڑھ گیا۔ شالا رنگ والے کے ہاتھ سے پنسل ا ور ڈائری چھوٹ کر نیچے جا گر ی۔ وہ ساکت و سامت کھڑے کا کھڑا رہ گیا جمیل احمد کے چہرے پر بھی گہرے دکھ کے سائے تھے ۔
وہ شالا رنگ والے کو چھوڑ کر لوگوں کے ہجوم کو چھیرتا ، تیزی سے پل کی طرف بھاگا تھا ۔ کافی دیر کے بعد وہ تھکا ، ہارا غم زدہ سے واپس لوٹا تھا
” بیچاری ، سچ میں غربت اور فاقے کی ستائی ہوئی تھی ! اس کے رشتے دار بھی وہاں پہنچ گئے ہیں ۔ بہت آہ و بکا مچی ہوئی ہے ۔ اس عورت کی لاش تو مل گئی ہے مگر تینوں بچے ابھی تک لا پتہ ہیں ! شاید پانی کا تیز ریلا بہت دور بہا کر لے گیا ہے ۔بھلا فاقہ زدہ بچوں کا تند و تیز لہروں کے سامنے زور ہی کتنا چلا ہو گا ۔۔۔ ۔!”
جمیل احمد نے نم لہجے میں ، گم صم سے بیٹھے شالا رنگ والے کی طرف دیکھ کر کہا تھا ۔