شالارنگ ریز نے اداسی کے نیلے رنگ کو یاد کے ابلتے پانی میں انڈیلا تھا ۔ پھر ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے سے اچھی طرح ہلا کر اس میں سفید رنگ کا ڈوپٹہ ڈال دیا اور اسے ڈنڈے کی مدد سے گھمانے لگا ۔ کچھ دیر کے لئے جمیل احمد کی توجہ بھی اس کی باتوں سے ہٹ کر کھولتے پانی میں گھول گھول گھومتے ڈوپٹے پر مرکوز ہوگئی ۔
”مگر تم یہاں کوئی دکان بھی تو کرائے پہ لے سکتے ہو! کیا تم ترقی کرنا نہیں چاہتے !” جمیل احمد چونک کر دوبارہ حال میں لوٹا اور وہی سوال کیا ۔ شالا رنگ والا ہنس پڑا۔
” بابوجمیل ابھی بھی نہیں سمجھے !بتایا تو ہے ابا کی سب ذمہ داریاں ، فکریں ، خواب ، خواہشیںکے ساتھ ساتھ اسکی چاہت اور محبت بھی میرے حصے میں آگئی ہے !ابا کو اس جگہ سے بہت محبت تھی اور مجھے ابا کی محبت سے محبت ہے !بس اتنی سی بات ہے ! اس چھوٹے سے تھڑے میں ٹین کی بنی چھت کے نیچے میرے بچپن ، میری خواہش، میرے خوابوں کے سب رنگ بکھرے ہوئے ہیں !اور میں ٹھہرا رنگریز ، رنگوں کے عشق میں مبتلا ! میں بھلا کیسے ان رنگوں کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جاوں !”
” یار کبھی کبھی تو تم تو فلسفہ بولنے لگتے ہو !” جمیل احمد نے مذاق اڑایا تھا ۔
” بابو جمیل !میں ٹھہرا ان پڑھ بندہ ، فلسفہ وغیرہ کیا جانوں ! دل کی بات تم نے پوچھی ، میں نے بتا دی اور بس ۔۔!” شالا رنگ والے نے ناگواری سے منہ بنایا کر کہا تھا ۔ جیسے اسے جمیل احمد کا مذاق پسند نہیں آیا تھا ۔
اسی وقت ایک بھاری بھرکم عورت اپنے ڈوپٹے لینے آگئی ۔ شالا رنگ والا اس کے ساتھ باتوں میں لگ گیا تو جمیل احمد نے بھی اپنی راہ لی ۔
کافی دن تک جمیل احمد کا پرانی گلی میں جانا نہیں ہوا ۔وہ کام کی مصروفیت کی وجہ سے شہرسے باہر گیا ہوا تھا ۔ واپسی پہ ایک بہت بڑا آرڈر ملنے کی کامیابی اس کے ہاتھ میں تھی ۔ اگلے دن وہ سویرے ہی سویرے اس کی پاس پہنچ گیا ۔
” بابو جمیل ! آج بہت خوش لگ رہے ہو ؟ ”شالا رنگ والا ، اپنا سامان ترتیب سے رکھتے ہوئے بولا۔
” ہاں بھائی ! ایک بہت بڑا آرڈر ملا ہے ۔ اسی سلسلے میں آیا ہوں ! بس اب تم نے کام ایسا کرنا ہے کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھیں !”
جمیل احمد نے ہاتھ میں پکڑا بڑا سا شاپر اس کی طرف بڑھایا اور جیب سے ایک درمیانے سائز کی ڈائری نکالتے ہوئے کہا اور اسے سمجھانے لگا کہ کس طرح کے رنگ اسے چائیے اور کون سے ڈیزائن ڈوپٹوں پر بنانے ہیں ۔شالا رنگ والا بہت دھیان سے سنتے ہوئے سر ہلانے لگا ۔پھر ساری بات سننے کے بعد بہت مطمئن انداز میں بولا ۔
” سب سمجھ گیا ہوں بابو جمیل !پہلے کی طرح ، اس بار بھی کام بہت اچھا ہوگا ۔ آخر شالا رنگ والے سے اچھا ، رنگ ساز کون ہے اس شہر میں۔۔!کونسا سا رنگ ایسا ہے جو میں آج تک نہیں رنگ سکا۔ آپ بے فکر رہو ! سارا کام وقت پہ کر دوں گا مگر دام میری مرضی کے ہوں گے!!”
شالارنگ والے نے فخریہ لہجے میں کہتے ہوئے ، اسے یاد دہانی کر وائی تھی ۔ جمیل احمد نے ساری جمع تقسیم پہلے ہی کی ہوئی تھی شالا رنگ والے کو معاوضہ دینے کے بعد بھی اس کا منافع ، اس کی توقع سے زیادہ ہی بنتا تھا ، اسی لئے جمیل احمد نے کچھ سوچتے ہوئے گردن ہلا دی ۔ ابھی وہ واپس جانے کا سوچ ہی رہا تھا، جب غصے میں بھری دو لڑکیاں وہاں آئیں اور ایک لڑکی نے ہاتھ میں پکڑا شاپرشالا رنگ والے کی طرف بڑھا تے ہوئے بولی ۔
” یہ کیا کیا آپ نے ؟میرے اتنے مہنگے اور قیمتی سوٹ کا سیتاناس کر دیا ۔ جانتے بھی ہیں یہ کپڑا کتنا مہنگا تھا !میری بری کا سوٹ تھا یہ جس کا یہ حال کیا ہے !حد ہے اتنی لاپراوئی !” وہ لڑکی غصے سے بولی جا رہی تھی ۔ شالا رنگ والے نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا ۔
” بی بی ہمارا روز کا کام ہے یہ !میرے پاس سستے سے لے کر مہنگا کپڑا تک آتا ہے ! آج تک کوئی شکایت لے کر نہیں آیا !”
” نہیں تو کیا میرا دماغ خراب ہے جو میں اتنی دیر سے بول رہی ہوں !” وہ دونوں خواتین بھی لڑنے کے موڈ میں تھیں ۔ شالارنگ والا بھی اپنی غلطی ماننے کے بجائے ، بحث کرنے میں مصروف تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے ہنر میں نکھار بھی آیا تھا اور اس کے مزاج میں غرور بھی بڑھا تھا ، اس لئے وہ اکڑ کر بات کرتا تھا !جمیل احمد نے سوچتی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تھا ۔وہ خواتین لڑنے کے بعد ، بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے جا چکی تھیں ۔ شالا رنگ والا بھی بڑبڑاتے ہوئے اپنے کام میں لگا ہوا تھا ۔
” میرے خیال سے تمہیں ایک بار آرام سے ان خواتین کی بات سن لینی چائیے تھی !ایک سمجھدار شخص کبھی بھی اپنے گاہکوں کو خفا نہیں کرتا ہے۔ ”
سامنے والے ، چائے کے کوکھے پہ بیٹھے باباجی نے اپنے ہاتھ میں پکڑا اخبار تہہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔ وہ یہاں تب سے چائے کا کھوکا چلا رہا تھا ، جب شالا کا باپ پہلی بار یہاں کام کرنے لگا تھا ۔وہ شالا اور اس کے سب گھرانے سے بہت اچھی طرح واقف تھا ۔اسی لئے اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
” اوہو چاچا! سب سمجھتا ہوں میں! بچہ نہیں ہوں ! چھوٹی سے عمر میں رنگوں سے کھیلنا شروع کیا تھا اور آج شادی شدہ بال بچوں والا ہوں ۔ بھلا مجھے کوئی کیا بتائے گا ، رنگوں کے درست استعمال اور امتزاج کے بارے میں ! بعض خواتین کو خوامخواہ ہی عادت ہوتی ہے ہر بات اور چیز میں نقص نکالنے کی !”
شالا رنگ والے نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔جمیل احمد نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا مگر پھر چپ کر گیا کہ کہیں وہ اس کی بات کا برا ہی نہ مان جائے ۔
” پتر بندے کو اپنے قد سے اونچا بول بولتے ہوئے کئی بار سوچنا چائیے ! یہ نہ ہو ادھر بات قد سے وانچی ہوئی اور اُدھر فورا پکڑ میں آ گئی !
بھول چوک بندے بشر سے ہی ہوتی ہے نا!” باباجی نے نرمی سے سمجھایا تھا ۔ شالا رنگ والے نے کچھ کہتے کہتے خود کو بمشکل روکا تھا ۔
” میں کل دوبارہ چکر لگاوں گا ۔” جمیل احمد نے سوچا کہ آج بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔ جب پہلے ہی شالا رنگ والے کا مزاج بگڑا ہوا ہے ۔ شاید وہ گھر سے ہی پریشان آیا تھا ۔ بابا جی کی بات بھی اپنی جگہ ٹھیک تھی کہ اسے اپنے کام اور ہنر پر غرور سا ہو نے لگا تھا ۔ جو بھی تھا جمیل احمد کا ان سب سے لینا دینا نہیں تھا ۔اسے اپنے کام سے غرض تھی ۔ جمیل احمد پلٹا جب اس کی بے ساختہ نظر فٹ پاتھ پر ،خستہ حال اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک جوان سال عورت پر پڑی ، جس کی گود میں ایک سال کا کمزور اور سانولا سا بچہ بھی تھا ۔آہستہ آہستہ قدموں سے چلتی بہت جھجھک کر سوال کر رہی تھی ، جیسے اسے مانگنے کا تجربہ آج پہلی بار ہوا ہو ۔۔۔!
” صاحب ! دو دن سے کچھ نہیں کھایا ہے !بچہ بیمار ہے !اللہ کے نام پہ کچھ دے دو!”اس عورت نے شالا رنگ والے کے پاس جا کر کہا ۔
” او بی بی معاف کرو ! صبح صبح کیا دھندہ خراب کرنے آ گئی ہو !کمائی ہوئی نہیں اور مانگنے والے پہلے آگئے ہیں !”
شالا رنگ والے نے کوفت سے کہا ۔
” صاحب اللہ تجھے بہت دے گا !میں بہت مجبور ہوں ! دو دن سے ۔۔۔۔!” وہ عورت بے چارگی سے کہہ رہی تھی ۔ جب شالا رنگ والے نے تیزی سے اس کی بات کاٹی ۔
” سن لیا ہے ! تم مانگنے والوں نے ڈھونگ بنایا ہوا ہے !بہت دیکھے ہیں تیرے جیسے ! جا اپنا راستہ لے !” شالا رنگ والے نے اسے جھاڑا تھا۔ وہ عورت نم آنکھوں سے اسے دیکھتی خاموشی سے پلٹ گئی !شالا رنگ والا بڑ بڑاتے ہوئے اپنے کام میں لگ گیا ۔