”دنیا میں ایسا کوئی رنگ نہیں بنا ، جو شالارنگ والا کے ہاتھوں میں آکر کھلا نہ ہو ! بابو جمیل میں ایسا رنگ رنگتا ہوں کہ کپڑا خود بھی اپنی قسمت پہ نازاں ہوتا ہے ! اس شہر میں ، مجھ سے زیادہ رنگوں کی صحیح پہچان کسی کو بھی نہیں ہے !”
شالا رنگ والے نے ہمیشہ کی طرح بہت مان اور فخر سے دعوی کیا ۔جمیل احمد نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا اور اسے کام سمجھانے لگا ۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے اپنی ذاتی اور چھوٹی سی بوتیک کا کام لے کر اس کے پاس آ رہا تھا اور وہ جانتا تھا کہ شالا رنگ والے کی بات اتنی غلط بھی نہیں ہے ۔ اس پرانی گلی میں کوئی بھی ایسا رنگ ریز نہیں تھا جو اس کی طرح کا کپڑا رنگتا ہو ۔شالا رنگ والے کے رنگ بہت پکے اور منفرد ہوتے تھے ۔ جمیل احمد نے جب نیا نیا بوتیک کا کام شروع کیا تھا تو اس وقت اس کے پاس بہت محدود بجٹ تھا اور اسی محدود بجٹ میں اس نے گاہک کو بہتر سے بہتر کام مہیا کرنا تھا تاکہ وہ مارکیٹ میں اپنی اچھی ساکھ بنا سکے ۔ اسی لئے ،اس نے دریا کے پل کے پاس آباد ، شہر کے سب سے پرانے بازار کا انتخاب کیا اور بہت تلاش کے بعد بالاخر اسے شالا رنگ والا مل ہی گیا۔پرانی گلی کے سب سے آخر والے کونے میں ٹین کی چھت کے نیچے ،چائے والے کھوکھے کے سامنے وہ بیٹھتا تھا۔ آج سے چھ ، سات سال پہلے وہ تیس کے لگ بھگ تھا۔ سانولا رنگ ،دراز قد، متناسب جسم کے ساتھ وہ اچھی شخصیت کا مالک تھا ۔ نخرہ اس میں بہت تھا ، اپنے ہنر پہ نازاں ، اپنی مرضی کا دام لینے والا اور اپنی مرضی سے کام کرنے والا ۔۔۔۔!
مگر یہ بھی ضرور تھا کہ اپنا کام بہت دل لگا کر اور ایمانداری سے کرتا تھا ۔خواتین کی عادت ہوتی ہے ، ہر بات میں اعتراض کرنے اور نقص نکالنے کی ، مگر شالا رنگ والا کسی کی نہیں سنتا تھا ۔اگر کوئی نئی آنے والی عورت اس کے زیادہ دام پہ اعتراض کرتے ہوئے کہتی کہ
” پورے بازار میں ایک ہی دام مقر ر ہے مگر تمہارے دام سب سے الگ اور زیادہ ہیں !”
” پھر آپ کہیں اور سے کام کروا لیں ۔۔! میں اپنے دام کم نہیں کرتا ہوں ۔۔۔!”
وہ لاپروائی سے کہہ کر اپنے کام میں لگ جاتا ۔کچھ عورتیں تو یہ سن کر چلی جاتیں مگر زیادہ تر اس کی مستقل گاہک تھیں ۔ جو اسکے مزاج سے بہت اچھی طرح واقف تھیں ۔اس لئے سر کھپائی کرنے کے بجائے ، اپنے کام سے کام رکھتی تھیں ۔ شالا رنگ والا ایک بار جس بات پہ بگڑ جاتا ، پھر اسے سمجھانا یا منانا بہت مشکل ہوتا تھا ۔ اس کے رنگوں کی طرح ، اس کی ضد بھی بہت پکی تھی !اپنے بہت پرانے گاہکوں کے ساتھ اس کا مزاج زیادہ تر خوشگوار ہی رہتا تھا ۔ کیونکہ وہ اسے اور اس کے مزاج کو سمجھ کر بات کرتے تھے ۔ اگر شالا رنگ والا کسی سے بہت ہنس ہنس کر بات کر رہا ہو تا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ آج اس کا موڈ بہت خوشگوار ہے پھر وہ بات بہ بات قہقہ لگاتا تھا ، ہنستے ہوئے اس کے سفید دانت بہت واضح نظر آنے لگتے تھے ۔ مگر اس کے بہت سے ہم عصر اس بات کو غلط رنگ دے کر بیان کرتے کیونکہ وہ اس کے کام اور تھڑے کے سامنے لگے رش سے بہت جلتے تھے اور اسی حسد میں کہتے ؛
” اس کے پاس زیادہ خواتین اسی لئے جاتی ہیں کہ وہ انھیں اپنی باتوں میں لگا لینے کا ماہر ہے ! پہلے پہل نخرے دکھاتا ہے اور پھر اپنے مرضی کے دام طے کرتے ہی ، اس کا مزاج بدل جاتا ہے ۔ اب ظاہر سی بات ہے اس طرح ہنس ہنس کر باتیں کرے گا تو سب شہید کی مکھیوں کی طرح اس کے گر د جمع ہی ہوں گی نا!”
یہ باتیں وہ حریف کرتے تھے جن کے پاس دکان تو بہت بڑی تھی مگر کام بہت کم تھا ۔ جبکہ شالا رنگ والا ایک چھوٹے سے تھڑے پہ ،اپنا کاروبار چمکائے بیٹھا تھا ۔جمیل احمد کو بھی اس کا نخرہ اور غرور نہیں بھایا تھا مگر جمیل احمد کا ، شالارنگ والے کے مزاج سے زیادہ اپنے کام سے مطلب تھا ۔ وہ جس طرح کا کام چاہتا تھا ، وہ شالا رنگ والے سے بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا تھا ۔ شالا رنگ والے کے دام اس کی مرضی کے مطابق ہی طے ہوتے تھے مگر جتنا اچھا وہ کام کرتا تھا ، جمیل احمد کو اس کے بتائے دام زیادہ نہیں لگتے تھے ۔ اسی لئے جمیل احمد بہت کچھ دیکھ کر نظرانداز کر دیتا تھا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمیل احمد او راس میں ایک انجانا سا تعلق بن گیا تھا۔ جمیل احمد کو یاد ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی تو وہ کس طرح تیار ہو کر کام پر آتا تھا ۔ تیل لگا کر اچھی طرح کنگھی کئے ہوئے بال ، صاف ستھرے کپڑے پہنے ، ہر وقت ہلکی سی گنگناہٹ اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی جیسے ساون کے دنوں میں ہلکی سی کن من جاری رہتی ہے ۔ جمیل احمد اپنے کام کی وجہ سے زیادہ تر اس کے پاس آیا ہی رہتا تھا اور کافی وقت وہاں گزارتا تھا ۔ اس لئے اب وہ اکثر ادھر ، اُدھر کی باتیں بھی کر لیتے تھے ۔
” تم اتنا کماتے ہو ! کسی اچھی سے جگہ کیوں نہیں چلے جاتے ! ” جمیل احمد نے ایک بار عورتوں کے بے پناہ رش میں پڑنے والے دھکوں سے گھبرا کر کہا ۔
”بابو جمیل سوچا تو بہت بار مگر وہ کیا ہے کہ !” شالا رنگ والا اپنے کالے اور گھنے بالوں میںہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
”مجھے یاد ہے آج بھی ۔۔۔!!!” اس نے بڑی سی کڑاہی میں گرم پانی میں گھلا رنگ نالی میں الٹایا اور برتن کوپانی سے کھنگال کر ، اس میں صاف پانی ڈالا اور اس کے گرم ہونے کا انتظار کرتے ہوئے کہنے لگا ۔
”جب میں نے پہلی بار اپنے ابا کے ساتھ ضد کر کے اس پرانی گلی آیا تھا ۔ تب بھی یہ اسی طرح ہی گنجان و آباد علاقہ تھا۔ میں شاید تب سات یا آٹھ سال کا تھا ۔ ابا نے مجھے اپنے پاس رکھے ٹین کے پرانے ڈبے پہ بیٹھا یا اور گاہکوں کے ساتھ مصروف ہوگئے ۔میں دن بھر اپنے باپ کو مختلف قسم کے لوگوں کے ساتھ رنگوں کے صحیح انتخاب اور امتزاج کے لئے الجھتے دیکھتا رہا ۔ ابا کو اپنے پیسوں سے زیادہ ، لوگوں کے کام کی فکر ہوتی تھی کہ سب کچھ بہترین اور گاہک کی مرضی کے مطابق ہو ۔ ابا نے بھی اپنا کام اسی جگہ سے شروع کیا تھا ۔ وہ اکیلے کام کرتے تھے۔ دن بھر رنگوں کی ڈبیوں کو کھولتے اور بند کرتے رہتے ۔ رات گئے تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ۔ میں جو پہلے کچھ دن خاموشی سے سب دیکھتا رہا ۔ بعد میں چھوٹے چھوٹے کاموں میں ابا کی مدد کر وانے لگا ۔ اماں کہتی تھیں کہ ابھی میری عمر نہیں ہے ان رنگوں میں رنگنے کی ! مگر اباکا ماننا تھا کہ ” ہنر سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ! یہ ایک رنگ ساز کا بیٹا ہے ، اسے رنگوں کو برتنے کا سلیقہ آنا چائیے ۔”
شالا رنگ والا ، بولنے پہ آتا تو رکتا ہی نہیں تھا ۔ وہ بہت باتونی تھا اس لئے کہ اس کی باتوں میں لفظ ” میں ” بار بار آتا تھا اور اسے اس لفظ سے بہت محبت تھی ، اس لئے کہ اسے اپنی ذات کے بت کو پوجنے کی عادت تھی ۔۔۔۔ ! اپنے ماضی کا ذکر تو خاموش ہونٹوں کو بھی خودکلامی کے رس میں بھگو دیتا ہے ، وہ تو پھر رنگوں میں سانس لینے والا ، زندہ دل آدمی تھا ۔
” بس بابو جمیل! اباکی یہ بات دماغ میں ایسی بیٹھی کہ پھر سکول جا کر بھی دل نہیں لگا ۔ بمشکل آٹھ جماعتیں پاس کی اور ابا کے ساتھ کام سنبھال لیا پھر ابا تو گزر گیا مگر اپنی سب ذمہ داریاں اور فکریں میرے کندھے پہ ڈال گیا۔ بس شکر ہے بہت سا کڑا وقت تو گزر گیا ہے ، جو رہ گیا ہے وہ بھی گزر جائے گا !”