”پتھر کا دور واپس آگیا ہے.. اور اب کی بار سب کچھ پتھر کا بنا کر دم لے گا۔” وہ کمرے میں بیٹھے ہم کلامی کررہے تھے جب منال کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی:
”کس سے باتیں کر رہے ہیں ابا میاں؟ کوئی آپ کو نہیں سن رہا۔”
یہ میری پوتی ہے جو شاید یہی کہنے آئی تھی مگر کہے بنا ہی چلی گئی، حالاں کہ میں جانتا ہوں کے ہرطرف پتھر ہی پتھر ہیں، تو بھلا کوئی مجھے کیسے سن سکتا ہے ؟میری آواز کیسے کسی تک پہنچ سکتی ہے؟ پتھر نے آواز دیوار پار پہنچانے کے سب راستے بند کردیئے ہیں۔اب کوئی کسی کو نہیں سن سکتا۔
مگر میں پھر بھی بولتا جا رہا ہوں، خود سے باتیں کئے جا رہا ہوں، کیوں کہ شاید مجھ تک میری آواز پہنچانے کے لیے اب تک دیوار حائل نہیں ہوتی۔ میں بہ آسانی اپنی آواز سن سکتا ہوں۔
اس گھر کی سب دیواریں خوب صورت پتھروں سے سجی ہیں۔ نوکیلا، پتھریلا، ٹیڑھا ترچھا ہر پتھر خوب صورتی سے استعمال کیا گیا ہے.. یہ پتھر اب خوراک میں بھی شامل ہو گئے ہیں، جب ہی تو یہ اتنے عام ہوگئے ہیں۔
میں سوچتا ہوں، ہمارے وقت میں اس کا یوں استعمال تو نہ ہوتا تھا جیسا اس دور میں ہو رہا ہے۔
زمانہ یہ کیسی ترقی کر رہا ہے جو اسے پتھر کی دنیا میں لے جا رہا ہے؟
”ماما میں کسی ضروری کام سے باہر جا رہی ہوں، تھوڑی دیر میں لوٹ آئوں گی۔” میری پوتی جو فقط اٹھارہ برس کی ہے، میری بہو سے مخاطب ہے، مگر بہو شاید اسے سن نہیں پائی،. شاید وہ کسی پتھر کے پزل کو سلجھا رہی ہے۔ میں اپنی پوتی کو روکنا چاہتا ہوں، اسے آواز دیتا ہوںلیکن وہ دیوار کے پار ہو جاتی ہے۔ دیوار میرے اور اس کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔
میرے اور اُس کے درمیان ہمیشہ یہ دیوار کیوں آجاتی ہے۔ میری آواز کیوں اس تک نہیں پہنچ پاتی؟
”شاید اس لیے کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور آواز بھی دھیمی ہوگئی ہے۔”
خود ہی سوال اور خود ہی جواب دینے کے بعد میں دیوار کو گھورتا ہوں، دیوار میں ترکی سے منگوائے سنگ مرمر کے وہ بہترین پتھر لگے ہیں جن پر باریک بینی سے کام ہوا ہے، لیکن میں سوچتا ہوں یہ کیسے پتھر ہیں؟ دنیا بھر میں مشہور تو ہیں مگر یہ بالکل بے کار ہیں۔ ہاں بالکل! میری نظر میں تو بے کار ہی ہیں،. جو آواز دیوار کے اس پار نہیں پہنچا سکتے۔
میرا دل بوجھل سا ہوگیا۔ ہر طرف اداسی ہی اداسی چھائی ہے۔ دل بہلانے کے لیے میں باہر نکل آیا اور باغ کی طرف چلنے لگا ۔ باغ کی طرف جاتے ہوئے میں بے شمار پھول اور درخت دیکھ کر خوش ہو جاتا ہوں کہ شکر ہے، پتھروں کی نگری سے جان چھوٹی۔
میں باغ میں جا کر ایک بینچ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کچھ ہی لمحے بعد ایک نوجوان وہاں آبیٹھتا ہے، میں اسے بلاتا ہوں، مگر وہ مجھے نہیں سن پاتا۔
میں بہت حیران ہو جاتا ہوں کہ یہاں پتھر تو نہیں ہیں پھر نوجوان میری آواز کیوں نہیں سن پا رہا؟ پھر میری نظر اس کے کانوں پر جاتی ہے اور میں بے زار سا ہو کر وہاں سے بھی اٹھ جاتا ہوں اور چلنے لگتا ہوں۔ گھر پہنچنے سے پہلے بازار کا رخ کرتا ہوں کہ کوئی کتاب خرید لوں۔ میں ایک دکان کے باہر رکتا ہوں۔
”یہ کتاب بیچنے والی دکان کتنی خستہ حال ہے۔” دل میں سوچتا ہوں کہ اسے تو خوب صورت ہونا چاہیے، بالکل ویسے جیسے کتابیں خوب صورت ہوتی ہیں۔
اس دکان کی ایک دیوار کے اندر کھڑکی نما کائونٹر بنا ہے، میں اس میں منہ نکال کر دکان دار کو مخاطب کرتا ہوں اور اپنی مطلوبہ کتاب مانگتا ہوں،مگر وہ کتاب کی بجائے مجھے پتھر تھما دیتا ہے، بڑا سا چوڑا پتھر، جو لمبائی میں تقریباً کتاب جتنا ہے، میں اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتا ہوں۔
”چاچا! اب کتاب کی جگہ یہی چلتے ہیں، چاہیے تو لے لو، وقت ضائع مت کرو۔” یہ کہہ کر وہ پلٹ جاتا ہے۔
مگر میں اس سے دوبارہ وہی کتاب مانگتا ہوں کہ مجھے تو اپنی مطلوبہ کتاب ہی چاہیے۔ مجھے کوئی جواب نہیں ملتا… دکان دار کسی اور کے ساتھ مصروف ہو جاتا ہے۔
قیمتی پتھر کی دیوار کی طرح اس عام سے پتھر سے بنی دیوار نے بھی میری آواز دکان دار تک جانے سے روک دی ۔
” تو یہ تمام پتھر ایک سے ہیں۔”میں بے زار سا ہو کر گھر کی طرف مڑتا ہوں۔
ہر طرف پتھر اور دیواریں ہی دیواریں ہیں، کوئی کسی کو نہیں سن سکتا مگر میں پھر بھی مسلسل خود سے باتیں کیے جا رہا ہوں۔
گلی میں قدم رکھتا ہوں تو ایک گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے دیوار کے اس پار کوئی میری آواز سن کر اپنی زبان میں میرا جواب دیتا ہے.. میں خوش ہوتا ہوں کہ کوئی مجھے سن سکتا ہے، کسی نے مجھے سن لیا۔
اچانک اس گھر کا گیٹ کھلتا ہے، گھر میں بندھا کتا مسلسل بھونک رہا ہے، شاید وہ گھر والوں کو میرے آنے کی اطلاع دے رہا ہے۔ مجھے وہ کتا اس وقت سب سے خوب صورت لگا، وہ میری موجودگی کا احساس رکھتا ہے، وہ مجھے سن سکتا ہے۔
گھر کا مالک پورچ سے گاڑی نکالتا ہے، اور چلا جاتا ہے۔ کوئی گھر کے اندر سے باہر آتا ہے اور کتے کو دروازے سے دور پھولوں سے لپٹی دیوار کے سامنے موجود اس کے گھر میں باندھ آتا ہے، شاید کتے کے مسلسل بھونکنے سے گھر والے تنگ آگئے ہیں۔ گیٹ بند ہو جاتا ہے،. میرے اور کتے کے درمیان بھی دیوار حائل ہو جاتی ہے۔
میں منہ میں بڑبڑاتا ہوں:
”پتھر کا دور لوٹ آیا ہے، سب پتھر ہو گیا ہے۔ اب کبھی کوئی مجھے نہیں سن پائے گا۔
. اداسی میرے اندر گھلنے لگتی ہے، میں قدم بڑھانے لگتا ہوں کہ اچانک دیوار کے پار سے آواز آتی ہے۔ وہ مجھے ابھی بھی سن سکتا ہے، اب کی بار پتھر حائل نہیں ہوتا… کتا مجھے سن کر پھر بھونکنے لگا ہے۔
٭…٭…٭