دل تو بچہ ہے جی — کنیز نور علی

شنو تو شائد واقعی تارہ سے جان چھڑانا چاہتی تھی سو جو منہ میں آتا بول دیتی….. شنو کا ایسے ہی جلدی جلدی لوگوں سے دل بھر جایا کرتا تھا…. اور کچھ یہ بھی تھا کہ فیس بک سے ہٹ کر اب فیس ٹو فیس ہونے کے بعد سے تارہ کی تیزیاں اور طنز شنو کو کھٹکتے تھے….. کبھی تارہ منہ پکا کر کے کہتی۔
“نی شنو تیرا یہ صوفہ تو میری امی کے زمانے کا ہے …ان کا بھی جہیز کا تھا”
آگے وہ بھی شنو تھی ….. چُپ کیسے رہ سکتی تھی۔
“جی تارہ باجی یہ تو فرید کی دادی کا تھا…بڑا پائیدار ہے. …..میری دادی ساس اور آپ کی امی ایج فیلو ہی رہی ہوں گی پھر ….”
اب تارہ کے دماغ میں گڑ بڑ شروع ہو جاتی کہ “مر جانی نے اپنی دادی سس کو نکا کہا ہے کہ میری ماں کو وڈا…….”
شنو کی ایسی کئی جلی کٹی باتوں کے جواب میں تارہ ذرا صبر کر رہی تھی (یہ اس کا ذاتی خیال تھا۔ )
تارہ سوچتی اگر غصہ کیا تو اُلٹا فائدہ تسکین کو ہوگا… ورنہ وہ ادھار رکھنے والی نہ تھی…..
٭…٭…٭
جب تک یہ دوستی فیس بک تک تھی بڑی سہانی تھی…….. سامنے آکر تو اب شنو تارہ کو اپنی پرانی سہیلیوں سے بھی بدمزہ لگنے لگی…..محلے والی تسکین نے جو رنگ میں بھنگ ڈالا وہ تارہ کو کسی طرح ہضم نہ ہوا………. وہ سکول کالج کی پرانی پکّی سہیلیاں جن سے جب بات ہوتی تھی وہ وہ قصے جان بوجھ کر چھیڑتیں جن میں تارہ کی بِستی (بے عزتی) تھی جواب میں تارہ ان کے کالے کرتوتوں والے سارے واقعات دہراتی اور ہنستے ہنستے ایک دوسرے کی مٹی پلید کر کے فون رکھتیں اور دل ہی دل میں ایک دوسرے کو جی بھر کر گالیاں اور کوسنے دیتیں……..انہی بد مزہ سہیلیوں سے جان چھڑانے کو تو فیس بک کا آسرا ہاتھ آیا تھا ….ایک شنو ملی تھی اب وہ بھی پرائی ہو گئی…..
٭…٭…٭





شنو کے آج کل تسکین کے گھر کے پھیرے بڑھتے ہی جا رہے تھے ……جو سیر سپاٹے پہلے شنو اور تارہ کیا کرتی تھیں اب ان میں سے تارہ مائنس ہوئی اور تسکین پلس ہوچکی تھی …..تارہ دیکھ دیکھ کر کُڑھتی……
ابھی شنو کی وال پر اسٹیٹس آیا تھا………
“انجوائنگ شاپنگ ود ٹی کے…. فرینڈز آر بلیسنگ……”
“وہ آہ بھر کر رہ گئی.. نادیدہ آنسو پونچھے اور…پھر کچھ سوچ کر گھر سے نکلی………
٭…٭…٭
مالکن مکان خالہ خیرن اپنے صحن میں چارپائی پر بیٹھی دال صاف کر رہی تھی…تارہ نے اونچا سلام جھاڑا اور خالہ نے بہت ہی نحیف آواز میں نا چاہتے ہوئے بھی “والیکم” کہا تھا ……
” خالہ کرایہ ٹیم پر مل رہا ہے نا…. سامنے والی سے”
….تارہ کے فکر مندی سے پوچھنے پرخالہ نے مشکوک پلس ناراض نظروں سے اسے دیکھا تھا…….
” ہاں …مل رہا ہے ……تیری تو سیلی (سہیلی) ہے تجھے نہیں ملوم کہ مل ریا ہے کہ نئیں ….”
“آجکل کون سیلی تے کتھے دی سیلی خالہ …..سہیلیاں تو آپ اور اللہ بخشے اماں ہوا کرتی تھیں جو اک دوجی کے بغیر ساہ بھی نہ لیتی تھیں….. آج کل تو بس ٹیم پاس ہے۔”
” آہو ٹیم پاس لئی بندے کپتا وی کہہ دیندے نیں تے فیر ڈھیٹ بن کے خالہ خالہ وی کری جاندے نیں……”
خالہ کوئی حساب کتاب پیچھے رکھنے کی قائل نہ تھی… کل ہی تو شنو کرایہ دینے آئی تھی اور باتوں ہی باتوں میں جب سے اسے شنو یہ بتا کر گئی تھی کہ تارہ نے کہا تھا کہ “مالکن آف مکان کپتی ہے ” تب سے خالہ تپی ہوئی تھی ……
اور آج ہی دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا تھا…….. تارہ خود ہی چل کر اپنی بِستی کرانے آگئی تھی….
تارہ کو تو دن میں تارے نظر آگئے ….”یہ شنو اتنی تیلیاں لگاتی ہے…… دوستی کے نام پر ڈاکا ڈال لیا اس نے۔ میری گلی میں سب سے جنگ کروا کر چھوڑے گی ……اب بندہ اپنے دل کی بھڑاس کتھے کڈھے….”
“توبہ توبہ خالہ ……. سونہہ (قسم) لے لو ….ہماری تو ہمیشہ کی سلام دعا …یہ چار دن ہوئی نہیں دیکھے ہوئے اور تم کس چھپکلی کی باتوں میں آگئی…. پھوٹ پڑوانے والے ……ایسے لوگ خود کپتّے (لڑاکا) اور کمینے ہوتے ہیں… ان کی قبروں میں کیڑے پڑیں گے… عذاب ہوگا…….. تڑپیں گے…. دیکھنا خالہ”…….. شنو کو زبانی کلامی عذاب میں جھلسا کر تارہ نے دل ٹھنڈا کیا اپنا۔
“ناں میں کیوں دیکھوں…….. ویکھن میرے دشمن جِنہاں نوں عذاب ہو وے گا……”
تارہ نے جھٹ بات بدلی: “میں نے تو کرائے کا اس لیے پوچھا خالہ کہ پچھلے مکان پر قبضہ کرن لگے سی……. ذرا دھیان نال خالہ ….کلم کلی تم ہو لوگ کمزور سمجھ کر مال ہی ناں ہڑپ کر جائیں……..”
“ناں منیا میں سلم سمارٹ آں ……..پر میرے مال تے جس دی نظر آوے اوس دے دیدے پھٹن …..موتیا پوے اکھ وچ …..میں آنے ناں کڈھ لواں ….ایویں ای تے نئیں اینے سال مکان کرائے تے چڑھائے …سارے ول جاننی آں ……”
تارہ خالہ کے سلم سمارٹ والے ڈائیلاگ پر ہی لڑھک گئی تھی …..
“خالہ فیس بک تے اپنا اکانٹ تے نہیں بنا لیا …….!”
“آہ… چنگا یاد کرایا ای کڑئیے…….. نی شیدے……… نی مر جانیا……… آجا موبائلے نوں کھول موج میلہ ویکھیے کج………. تے نالے تاری نوں وی وکھا میری ویڈیو…… یو ٹیوپ آلی……” خالہ کا چہرہ لال گلال ہو گیا تھا خوشی سے۔
“خالہ کی یو ٹیوب ویڈیو”…….تارہ کی آنکھیں پھیلیں…. خالہ کی کوئی لیک ویڈیو…….. کس قسم کی.. اس کا دماغ گھوما…….توبہ توبہ …اور خالہ کی مسکراہٹ تو دیکھو……………یہ کیا ہو رہا ہے …..
شیدا خالہ کا کوئی دور پار کا رشتہ دار تھا جو بی اے کلئیر کرنے لاہور آیا تھا اور اب دو سال سے بی اے کے علاوہ ہر چیز کلیئر کیے جا رہا تھا………
شیدا صاحب بڑی سکرین والے موبائل کے ساتھ آئے اور تارہ پر ایک لوفرانہ نظر ڈالنے کی تیاری میں تھا کہ تارہ کی گھوری نے اسے روک دیا…..اس کے بعد شیدے نے اسے بڑی باجیوں والا ایک سلام ٹھوکا اور یو ٹیوب کھول کر اس کے سامنے کر دی …. ………
تارہ حیرانی سے دیکھنے لگی …….خالہ خیرن کا چہرہ خوشی کی شدت سے مزید سُرخ ہو گیاتھا……. ویڈیو چل رہی تھی جس میں خالہ اپنی کبھی کسی زمانے کی سُریلی رہ چکی اور اب کی ڈھیلی آواز میں ماہیے گا رہی تھی شیدا پرات بجا کر بیک گرانڈ میوزک دے رہا تھا…… ویڈیو اسی صحن میں بنائی گئی تھی…..
“وگدی اے راوی ماہیا …وچ بوٹا پھلاہی دا ڈھولا ….
میں نا ہندی ماہیا تینوں کتھے ویاہی دا ڈھولا …….”
شیدا کسی وقت جذبات میں آکر پرات بجانا چھوڑ کر لڈیاں ڈالنے لگتا جس میں خالہ بھی اس کا ساتھ دیتی …اور پھر دوبارہ سے بیک گرانڈ میوزک اور ماہیا……….
تارہ ساکت جامد ویڈیو دیکھے گئی ..خالہ نے پوپلے منہ پر دوپٹا رکھا اور شیدے کو جھانپڑ مار کر بولی “وے پُھٹ منہ سے کتنے ویو لگے ہیں ایس ویڈیو میں…..”
“ڈھائی ہزار ویوز ہو چکے ہیں دادی ….دو دن میں …….”
شیدے نے کمر سہلاتے ہوئے بتایا …..خالہ خیرن نے کبی کی ہوئی کمر کو اکڑایا اور تارہ کو مسکرا کر دیکھا …….
“کل رات کو ستاراں سو تھے……. بس اب تیری خالہ نے سلیپرٹی بن جانا اے …….فیر ویکھیں جلوے تاری…..”
“سلیپر ٹی نہیں دادی…. سلیبرٹی”……… شیدے نے جھٹ غلطی پکڑی تھی………
“لکھ لعنت ای، بی اے دی انگریزی پڑھ پاڈیا… میری زبان کیوں پھڑنا ایں”….. اس سے پہلے خالہ شیدے کو ایک اور جھانپڑ دھرتی لیکن اب وہ خالہ کی پہنچ سے دور تھا…..
خالہ نے تارہ کے بنتے ہوئے منہ کو دیکھا اور، اور، اور زیادہ مسکرائی……. دل ہی دل میں خالہ کو بڑی گدگدیاں ہوئیں..
تارہ کا پوری ویڈیو دیکھنے کے بعد دل کر رہا تھا ابھی رونے بیٹھ جائے …..اتنے لائیکس اسے آج تک کی فیس بکی زندگی میں کہاں ملے تھے جتنی محفل خالہ نے چار منٹ کی ویڈیو کے ساتھ دو دن میں لوٹ لی…….. سچ ہی کہتے ہیں سیانے…. سو سنار کی ایک لوہار کی…… تارہ وہاں سے یُوں اٹھی جیسے دنیا سے اٹھ گئی ہو۔
“ہنہ فیسا بکاں تے چھالاں ماردی سی پی….. میرے اگے کی وے سب…… یو ٹیوپ دی ملکہ بن گئی میں تاں”…. تارہ کے جاتے ہی خالہ نے گرج کر نعرہ مارا تھا……..
٭…٭…٭
تارہ کا حسد کے مارے برُا حال تھا…… شنو کے خلاف میدان مارنے گئی تھی اور خالہ نے یوٹیوب کا فائر کھول دیا …….خالہ خیرن کو تو خیر وہ بعد میں دیکھے گی ….اور کیا پتا اگر واقعی خالہ کل کو سلیبر ٹی بن جائے تو وہ خالہ کے ساتھ ساتھ رہ کر بھی مشہور ہو لے گی ……لیکن ابھی تو اسے تسکین اور شنو کی لو اسٹوری کا دی اینڈ چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
شنو کے پروفائل کا مکمل آپریشن کر کے بھی اسے کوئی ایسا سراغ رازنہ ملا تھا کہ کون سی لڑکی اس کی سہیلی ہے کون نند ہے یا بھابھی ہے…..کیوں کہ شنو کی لسٹ میں زیادہ تر ’’پاپا کی پرنسس‘‘ ’’معصوم پری‘‘، ’’دل جلی‘‘، ’’اداس آنکھیں‘‘ قسم کی سہیلیاں تھیں…….
لیکن تسکین کا پرانا اکاؤنٹ وہیں تھا…وہی سو سال پرانی کور فوٹو اور ڈی پی …تارہ نے اچھی طرح دیکھ بھال کر اس کے نئے اور پرانے پروفائلز کا جائزہ لیا۔ پرانے میں تو وہ ایڈ نہیں تھی لیکن نئے میں تسکین شنو کو ٹیگ کرتی تھی ہر ہر پوسٹ پر اور پھر ان میں چلبلے کمنٹس ……….ادھر شنو کا بھی کوئی لمحہ تسکین کے بغیر نہیں گزرتا تھا وال پر…
تارہ کو پرانی عیاشیاں یاد آگئیں۔ اب کہاں وہ محبتیں جب تارہ کوئی پوسٹ بھی ایسی نہ لگاتی تھی جس میں شنو کو ٹیگ نہ کرے اور شنو بھی ہرپیج کی تازہ پوسٹ پر جھٹ کمنٹ میں تارہ کو مینشن کرتی اور دونوں کے ایک دوسری کی محبت سے لتھڑے ہوئے کمنٹس پڑھ پڑھ کر دونوں کی فرینڈز جلتی بھنتی رہتیں……… اب تو تارہ اپنی چنی آنکھوں والی بیٹی کی تصویر ڈی پی میں لگاتی تو شنو دانت کچکچا کر ’’کیوٹ‘‘ لکھتی…… جس کے جواب میں تارہ شنو کے گھسے پٹے، روتے، کرلاتے اداسیوں کا اشتہار بنے نئے کور پر ’’واہ‘‘ لکھ کر فارغ ہو جاتی (باندری جئی کبھی اداس ہوئی نہیں پر کور چن کر روتا، تڑپتا اور پھڑکتا لگاتی ہے……….)
تارہ نے شنو کو ابھی تک ان فرینڈ اس لیے نہیں کیا تھا کہ دشمن کی سُن گُن ملتی رہے …..اور لگا کر بات کرنے کاموقع وہ ہر کمنٹ میں ڈھونڈ لیتی تھی ……..پرانے دنوں کو یاد کر کے تارہ نے ایک آہ بھری…….” شنو کو یہاں لا کر اپنے پیروں پر میں نے آپ کلہاڑی ماری ہے …..لیکن تسکین بانو….. تمہیں میں اب سبق سکھا کر رہوں گی نانی یاد آئے گی بچو……”……
اور پھر ان ہنستے کھیلتے اسٹیٹسز اور نٹ کھٹ شرارتی سے کمنٹس کے سکرین شاٹس بنانے کے بعد تارہ نے بڑی شیطانی مسکان چہرے پر سجا کر تسکین کی ساتوں نندوں کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجی تھی…….. جنہیں چھے ماہ پہلے صرف اس لیے ان فرینڈ کیا تھا کہ ندیدیاں لسوڑے کی طرح چپک جاتی تھیں ہر پوسٹ پر……
ہر ہر کمنٹ کے ریپلائی میں گُھس آتی تھیں چیونٹوں کی طرح………..
٭…٭…٭
اور اگلے دن ہمسائے میں وہ گھمسان کا رن پڑا کہ تارہ کے پیر ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے خوشی سے……… آوازوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ساری پلٹون نہیں آئی ….لیکن جو جو بھی آئی تھی کسر سب کی پوری کر کے جائے گی ……سب سے چھوٹی والی تو شنو کے پاس بھی پہنچ گئی تھی ..اس کے بال پوٹنے کی کسر رہ گئی تھی ورنہ چھوٹی نے اپنی لمبی زبان کا پورا استعمال کیا تھا ….اور آگے سے شنو کے جواب بھی بھرپور تھے ………..
چھوٹی بے چاری کیا کرتی….. ظاہر ہے زیادہ تر کمنٹس میں اسی کا مذاق بنتا تھا ……اس نے جب سے پڑھا کہ تسکین بھابھی نے اسے ’’کوڑھ کرلی‘‘ لکھا ہے…. کہیں وہ مینڈکی قرار دی جا رہی تھی… کبھی لچھو باندری… اس کے تو آگ لگی ہوئی تھی…… تسکین نے بھی اس آزادی کا خوب خوب مزہ لوٹا اور اب سات نندوں نے آٹھ آٹھ آنسو رلایا تھا۔
٭…٭…٭
دوسری طرف شیدے سے بی اے تو کلئیر نہیں ہوا پر وہ سسرال سے بیوی کلیئر کرواکر لے آیا یعنی شادی کر ڈالی….. اور آتے ساتھ ہی اس نے خالہ خیرن کو خبردار کیا تھا کہ شنو والا گھر اس کو کرائے پر دیا جائے وہ کرایہ دے گا مفت میں نہیں لے گا پر ابھی کے ابھی گھر خالی کرا…..
“ناں اس گھر میں رہتے تیری بیوی کو موت پڑتی ہے ”
“سوری دادی ہم یہاں نہیں رہ سکتے یہاں ہماری پرائیویسی ڈسٹرب ہوتی ہے …” شیدے نے ایکشن مارتے ہوئے کہا ….
خالہ نے ایک چپیڑ کس کر اس کی گدی پر ماری تھی ….”ناں کیا کھڑپ کھڑپ ہوتی ہے… پٹھی چیرم آلیا……. شرم حیا مر گئی اے……..” شیدا سر سہلاتا “ہائے ہائے” کرتا، اندر کو بھاگا…….
کچھ خالہ کو اس بات کا بھی دکھ تھا کہ وہ ابھی تک سلیپرٹی کیوں نہیں بنی….. خالہ نے تو سوچا تھا کہ
“بس ویڈیو کی دھومیں مچیں گی اور سارے ٹی وی چینل والے گھر کے باہر لین لگا کر کھڑے ہوں گے….. کبھی اس مارننگ شو کبھی اس نائٹ شو میں…..” شام سویرے ہون موجاں ہی موجاں…..”
پر دل کے ارماں آنسوں میں بہ گئے…….. ویڈیو کے ویوز کو ڈھائی ہزار کے بعد ایسا بریک لگا تھا جیسے شیدے کا بریک بی اے میں لگ گیا تھا……..
خالہ خیرن کے مکان خالی کرنے کے نوٹس کا تو شنو نے ذرا نوٹس نہ لیا لیکن اگلے ہی دن شیدے نے ان کا سامان نکال باہر کرنا شروع کیا…… جس کے بعد شیدے اور فرید کے درمیان ایک سستی ریسلنگ کا مِنی میچ پڑا……… محلے کے بچوں نے خوب انجوائے کیا….. دونوں کا منہ سوج کر کپا ہوگیا………. اب شنو اور فرید کو گھر خالی کرنا ہی تھا ….نا تو تارہ نے خالہ سے “رئیکویسٹ” کی کہ اس کی سہیلی کو ذرا مہلت دی جائے…. نا تسکین کی مجال تھی کہ باہر نکلتی…….
فیس بک کی میٹھی دوستی فیس ٹو فیس ہوتے ہی کڑوی ہو گئی تھی……….. جس دن شنو نے اپنا سامان پھر سے گاڑی میں ڈال اگلے گھر کی راہ لی اسی دن تارہ نے اس کو ان فرینڈ کر دیا…… اب اس کی نئے نئے گروپس میں نئی نئی لڑکیاں سہیلیاں بن چکی تھیں………… پاپا کی پرنسس، بے بی ڈول اور سوہنی کڑی، انوسینٹ سمائل اور دیسی سینڈریلا نامی سہیلیوں سے اب وہ شنو سے بھی زیادہ کلوز تھی……
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سائبان — محمد عمر حبیب

Read Next

عادت — ثمینہ سیّد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!