دل تو بچہ ہے جی — کنیز نور علی

ی شنو تیری عمر کتنی ہے”
تارہ نے پوچھا تھا.. اب وہ اتنی قریبی سہیلیاں تو تھیں کہ ایسے ذاتی اور خوفناک سوال بھی پوچھ سکیں۔…. شنو نے تیز نظروں سے تارہ کو دیکھا…….. جیسے کہنا چاہتی ہو “ایسا اپنے فٹے منہ جیسا سوال کر کے تجھے کیا ملنا ہے تارہ”…..مگر ضبط کرتے ہوئے سے بولی: ….” اٹھائیس……..” تارہ نے اس جواب پر اس کو ایک گھوری ڈالی…… شنو سٹپٹائی “دو سالوں سے تو اٹھائیس کی ہی ہے”….. کہہ کر وہ ڈھٹائی سے ہنس پڑی ..اور دہی بھلے کی پلیٹ میں سے آلو چن چن کر کھانے لگی……
“وہ اپنا ابرار الحق نہیں کہتا کہ سولہ توں اٹھائییاں تک پیار والی رینج اے ………بس اسی لیے اب میں نے اگلے چار پانچ سال اٹھائیس کا ہی رہنا ہے ………” اونچا قہقہہ لگا کر اب شنو نے دہی بھلے کی پلیٹ میں مزید چاٹ مصالحہ چھڑکا…..
تارہ نے منہ بنایا….. “نا وہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ اوور ایج عاشقاں دا اپنا مقام اے ……..”تارہ نے آنکھیں نچا کر کہا تھا۔
اسے اپنی چالیس کے پیٹے میں جاتی عمر اور پھیلے ہوئے تن وتوش پر شدید غصّہ آتا تھا….. جس کا علاج وہ مزید کھا اور ٹھونس کر کرتی تھی ……….
“نا اور ایج ہوتی ہے میری جُتی…. میں کیوں ابھی سے ایسے بے برکتے فقرے اپنے لیے بولوں……..” شنو نے جھٹ توبہ توبہ کرتے کانوں کو ہاتھ لگائے….. اور سیون اپ کی بوتل کا بڑا سا گھونٹ بھرا….. وہ دونوں بازار آتے ہی اس دکان میں تارہ کے فیورٹ دہی بھلے کھانے بیٹھ گئی تھیں…..
تارہ نے دہی بھلے کی دوسری پلیٹ اپنے آگے سرکاتے ہوئے اس کے دبلے وجود کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا…… لیکن پھر وہ جو کہتے ہیں نا کہ “لو گوں کی فکر نا کریں وہ سب مر جائیں گے ” ایسے ہی تارہ بھی خود کو دل میں ایک تھپکی دے رہی تھی کہ اس شنو کی عمر اور جسامت نے بھی آخر بڑھنا ہی ہے …….کیسی بے ڈھنگی لگے گی یہ ……”چھوٹا قد اور موٹی……توبہ توبہ”….. ایسا سوچ کر ہی سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی تھی………ایسے میں اُسے اپنی پھیلتی جسامت زرا یاد نہیں رہی تھی…. دہی بھلوں اور بوتلوں سے پیٹ پوجا کرنے کے بعد اب انہیں پورا بازار گھومنا تھا………
٭…٭…٭





شنو اور تارہ کی دوستی فیس بک سے شروع ہوئی تھی…. پھر اتنی اچھی دوست بنیں کہ جب شنو کرائے پر گھر ڈھونڈ رہی تھی تو جھٹ تارہ نے بتایا کہ اس کے محلے میں بلکہ گلی بلکہ عین اس کے گھر کے سامنے والا گھر کرائے کے لیے خالی ہے….” مالکن مکان تھوڑی کپتی ہے، لیکن گھر اچھا ہے شنو آ جا….. قسم سے اکھٹے شاپنگ پر جایا کریں گی…. سموسے کھایا کریں گی…… بڑا مزہ آئے گا” تارہ نے چٹخارہ بھرا تھا……………
شنو نے جھٹ اپنے گھر والے فرید اور اکلوتے چھے سال کے کاکے کے ساتھ آکر مکان دیکھا اور مالکن مکان خالہ خیرن نے اسے دیکھا……. خالہ کے گلی میں دو گھر تھے ایک میں خود رہتی تھیں اور دوسرا کرائے پر دے رکھا تھا…….خالہ نے بڑی فیملی کو کبھی مکان نہ دیا اور شنو کا گھرانا تو تھا ہی تین افراد کا…. کرایہ خالہ کی مرضی کا تھا اور مکان شنو کو پسند آگیا تھا.. دوسرے ہی دن اپنا سامان سوزوکی میں لدوا وہ تارہ کے سامنے والے گھر میں آگئی……..
فیس بک پر سٹیٹس لکھا….” شفٹنگ از آمیس فیلنگ ٹائیرڈ……” (اپنی بی اے کی سپلی شدہ انگریزی کو وہ اب دھڑلے سے فیس بک پر چمکاتی تھی…..( بندہ پُچھے کم سارا فرید اور اس کے یاروں نے کیا تھا….. سامان گھسیٹ گھسیٹ کر چُک اس بے چارے کی کمر میں پڑ گئی اور یہ نری برتن ڈبے میں رکھ کر ہی فیلنگ ٹائیرڈ)………………..اس اسٹیٹس پر تارہ نے لائک کر کے ڈھیر سارے کومنٹ کیے…….. دونوں نے مل کر اتنے لطیفے اور چٹکلے چھوڑے کہ وہ پڑھ کر اگلا سارا دن دونوں کی فیس بُکی سہیلیاں جل جل کر کوئلہ ہوتی رہیں ……….
٭…٭…٭
فیس بک دوستی اب ہمسائیگی میں بدلی تو دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا…….. اب ہر دوسرے تیسرے دن دونوں بازار کا رُخ کرتیں….. رج کر سموسے، پزا، شوارمے، دہی بھلے اورچاٹیں کھائی جاتیں اور سیل لوٹ کر دونوں گھر آتیں۔ سسرالیوں، رشتے داروں، سہیلیوں کی عیب جوئیاں اور اپنی تعریفیں کر کر کے خوشی کا ایک بے پایاں احساس ساتھ ساتھ رہتا۔
شروع شروع میں تو محلے والیوں نے خاص نوٹس نہ لیا….. لیکن اب یہ کیا کہ ادھر تارہ ابھی شنو کے ٹیرس پر بیٹھی ہے دونوں باتیں بھگار رہی ہیں …..اور اب دونوں تیار شیار ہو کر کہیں سیر سپاٹے پر نکل کھڑی ہوئیں ہیں……
تارہ کے ساتھ والی تسکین اس نظارے سے بڑی بد مزہ ہوئی ……اس کو رہ رہ کر جلن ہو رہی تھی کہ یہاں اس سے کوئی سیدھے منہ بات نہیں کرتا,سہیلیاں نری چنگاریاں ہیں جو بات بے بات بھڑک اٹھتی ہیں …کم بختیں واقف بھی سارے رازوں سے ہیں کہ ادھر کوئی دل کی بات وہ اپنی طرف سے “شئیر” کرتی اور اگلی بندی جھٹ طنز کی دال پر بِستی کا تڑکہ لگا کر سامنے رکھ دیتی ….
فیس بک پر بھی وہ اپنے کاکے کاکیوں کی فوٹویں لگانے اور “واؤ”، “سو کیوٹ” کے کمنٹس لینے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی کیوں کہ اس بے چاری کا سارا ٹبر وہاں پایا جاتا تھا.اور کسی انجان کو ایڈ کرنے پر ساری نندیں بہنیں اور کزنیں سیاپا ڈال دیتی تھیں یا….. ساری ہی اس نئی سہیلی کو ایڈ کر لیتیں…… ایسے میں نئی دوستیں کہاں سے بناتی جن سے دل کا بوجھ ہلکا کرتی …..اپنے غم میں ڈوبی وہ اداس اور چڑچڑی سی تھی …..ایسے میں شنو کا سامنے والے گھر آنے پر اس نے کچھ خاص نوٹس نہیں لیا تھا …لیکن تارہ اور شنو کی دوستی ….اور پھر پتا چلا کہ جی یہ تو فیس بک فرینڈز ہیں …..تسکین بڑی غمزدہ ہوئی …پھر ان کے پھیرے سیر سپاٹے ….وہ سوچتی اور کڑھتی: …..’’ادھر تو بسنت بہار چل رہی ہے ہائے ہائے……. کالج کی کڑیوں جیسی انجوائے منٹ”……..
تارہ اور تسکین کی پرانی محلہ داری تھی۔ زبانیں دونوں کی تلوار تھیں سو آپس میں کبھی بن نہیں پاتی تھی……. فیس بک پر بھی دونوں ایک دوسرے کو دو تین بار ایڈ کرنے کے بعد ان فرینڈ کر چکی تھیں……. ظاہر ہے ایک دوسرے سے کچھ چُھپا ہوا تو تھا نہیں سو ڈینگیں مارنے پر دوسری کے چھوٹے چھوٹے طنز کھٹکتے تھے…….
کچھ دن تو تسکین نے اس “محبتاں سچیاں پارٹ ٹو” کو دیکھا پھر اسے خیال آیا کہ نئے محلے داروں کی تو دعوت بھی کی جا سکتی ہے……. سو اس نے بریانی اور کھیر بنائی اور لے کر چل دی شنو کے چوبارے…… لیکن وقت کا دھیان پورا رکھا کہ تارہ آکر رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے…….
٭…٭…٭
“وہ تارہ باجی نے ذکر کیا تھا تمہارا….. میں نے سوچا اب ذرا ہمسائیوں کو ملنا ملانا ہی چاہیے…..” تسکین نے آنکھیں معصومیت سے پٹپٹاکر مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
شنو نے بریانی کی ڈش اور کھیر کا ڈونگا جھٹ وصول کیا اور تارہ “باجی” سُن کر تو اس کاتراہ ہی نکل گیاتھاجیسے….اس نے سوچا ..” میں آج تک اسے…… یعنی “انہیں” تارہ کیوں کہتی آئی…… جب یہ جو میری آپا لگ رہی ہے اسے باجی کہہ رہی ہے تو میری تو ابھی بالی عمریا ہے……..”
ایک دوسرے کامکمل مطلوبہ انٹرویو لینے کے بعد اب وہ دل کھول کر ہنس رہی تھیں……. سسرال کی غیبتیں اور فیس بک کی دوستیاں …..پھر اپنے بچوں کی تعریفوں اور اپنے اپنے “ہبی” کے ذکرِ خیر کے بعد تسکین کو یوں لگا جیسے وہ دونوں تو ایک دوسرے کو کب سے جانتی ہیں …دل کا رشتہ ہے…..
تارہ کی محلے بھر میں کی جانے والی جاسوسی کارروائیاں بتا کر تسکین نے اسے خبردار کیا تھا….. اور شنو نے اسے فیس بک پر ایکٹو رہنے کے انوکھے گر بتائے……گھر جاتے ساتھ ہی تسکین نے پہلا کام نیا اکاؤنٹ بنانے کا کیا تھا….. اور لاگ ان کرتے ساتھ ہی اس نے اپنے سارے خاندان کی اگلی پچھلی سات پشتوں کو بلاک لسٹ میں پھینکا تھا………. اس کے بعد اسے ایسی آزادی کا احساس ہوا جو کبھی کالج میں ہوا کرتی تھی…… کوئی دیکھ نہیں رہا، جو مرضی مذاق کرو….. کوئی زبان نہیں پکڑے گا………
٭…٭…٭
تارہ نے فیس بک کھولی اور یہ کیا…… شنو اینڈ تسکین آر ناؤ فرینڈز…..اس کا دل جل کر کباب ہو گیا…اور یہ کیا…شنو کا اگلا سٹیٹس …جس میں تسکین کو ٹیگ کیا گیا تھا ….
“یمی ڈیلیشس جسٹ واؤ…….. انجوائینگ بریانی ..تھینکس تسکین ………”
یہ پڑھ کر تو دل کے ساتھ ساتھ جگر اور پھیپھڑے بھی دھواں چھوڑنے لگے تھے …..جوں جوں وہ ان کی کمنٹس میں ہونے والی گپ شپ پڑھتی جا رہی تھی اس کا سارا پنڈا تپ کر تندور ہوتا گیا…….. تارہ نے سامنے شنو کے چوبارے کی طرف دیکھا…. جیسے وہ سامنے کھڑی ہو گی اور یہ اس کو کھری کھری سنائے گی…….
“یہ شنو اور تسکین کیسے مل گئیں… بڑی ہی کوئی مگرمچھ ہے یہ تسکینی…… شنو کے ساتھ میری دوستی پر نظر رکھی ہوئی تھی……”
دو پلیٹیں پلاؤ کی ڈکار کر بھی اُس کا غصّہ ٹھنڈا نہیں ہوا …….. تو پھل کی ٹوکری آگے رکھ لی…. منہ کا ذائقہ بھی تو بدلنا تھا…….
٭…٭…٭
شنو نے کام کاج نپٹائے ….
“فرید کام پر …کاکا اِن سکول ……فیلنگ الون”
کا اسٹیٹس لگا کر اس نے سب مارننگ شوز کو ایک ساتھ دیکھا…….. ادھر ایک چینل پر بریک آتی تو دوسرا …..پھر تیسرا……پھر چوتھا..
پھر واپس پہلا……مارننگ شوز ختم ہوئے تو دوبارہ (repeat) والے ڈرامے چلنے لگے.. اس کے بعد وہ سچ میں بور ہونے لگی تو اٹھ کر تیار ہوئی اور تارہ کی طرف آگئی……..
” تارہ باجی…….یہ آپ کے ساتھ والی تسکین کل ملی تھیں…. آپ کی بڑی تعریفیں کر رہی تھیں…….”
تارہ جو کل سے جلی بھنی بیٹھی تھی اس ” باجی ” کے اچانک ایڈیشن پر سڑ کر سواہ ہوگئی ….اور کڑی نظروں سے شنو کو دیکھا ……..شنو اپنی موج میں تھی …….
” کیوں آئی تھی وہ …..” تارہ نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا
“بس ویسے ہی ملنے ملانے …ہمسائیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں ……کہہ رہی تھیں میری طرف آنا”……شنو نے اٹھلا کر کہا ……
تارہ ذرا رکی تھی……. “دھیان سے….یہ جادو ٹونے بھی کرتی ہے ………..آئندہ ندیدوں کی طرح کوئی چیز کھانے سے پہلے سوچ لیئں شنو…..”
“ارے تارہ باجی …..ان توہمات پر آپ یقین کرتی ہیں؟…”
شنو نے تو مانو تارہ کے ساتھ “باجی” کے لاحقے کو فیوی کول سے چپکا دیا تھا ……تارہ کے دل میں ایک گرہ ہی لگ گئی…….
“یہ باجی باجی کیا لگا رکھی ہے ……..”
” جب آپ ٹی کے کی باجی ہیں تو میں کیوں نا کہوں …..میرا زیادہ حق بنتا ہے تارہ باجی .میری تو کوئی بہن بھی نہیں ہے …..”شنو نے بھول پن کی حد کی تھی۔
“ٹی کے.؟” ……تارہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا …..
“جی! ٹی کے ….یہ آپ کے ساتھ والی ٹی کے …… تسکین”…… شنو نے بڑی ادا سے اور نخرے سے مسکرائی۔
“ٹیکے تو واقعی لگنا چاہیں اس میسنی کے ……اس کا تو کبھی گھر والوں نے نک نیم نہیں رکھا…… یہ تمہیں کہاں سے بھا گئی۔” تارہ فل گرم تھی۔
“بس میری ماما کہتی ہیں شنو تمھاری ہنس مکھ نیچر ہے ہر ایک سے جلدی فرینڈشپ ہو جاتی ہے………” شنو کوئی ڈرتی تھی تارہ سے….. دوستی کی ہے تسکین سے تو ڈنکے کی چوٹ پر بھئی…..
اس کے بعد تارہ کا دل یوں ٹوٹا جیسے کوفتہ ہانڈی میں ٹوٹ جائے……… شنو کچھ دیر بیٹھی…… اور پھر چل دی….. نہ تارہ نے روکا اور نہ ہی شاپنگ پر… نا شاپنگ پر جانے کے صلاح مشورے ہوئے……نہ کسی کو ڈسکس کرنے کا خیال آیا…….
٭…٭…٭
“ارے ٹی کے تم پر پرپل کلر بہت سوٹ کرتا ہے سویٹی ……”شنو نے آتے ہی کہا….
تسکین کی بڑے عرصے بعد کسی نے تعریف کی تھی… ایک اتنے وکھرے نک نیم “ٹی کے” کی ہی خوشی کم نہیں تھی۔ اس کا دل تو اُڑنے لگا تھا….. پرانی اداسی تو اب کہیں دور کھڑی تھی……..
“اچھا شنو ڈئیر اٹھو ہم ابھی بازار جا رہے ہیں چلو …” تسکین نے بڑی ہی دل نشین مُسکراہٹ اور اپنائیت سے کہا اور ساتھ ہی اپنا پرس الماری میں سے نکالنے لگی……
“کل چلیں گے یار…..” شنو نے صوفے پر پھیل کر بیٹھتے ہوئے سستی سے کہا……
“زیادہ نخرے نہ دکھا…. اٹھو… تمھیں کب سے سستی ہونے لگی…..” تسکین نے لاڈ کیا تھا…..
شنو مسکرائی…….
“بچوں کے گھر آنے سے پہلے واپس بھی آنا ہے ….” تسکین نے یاد لایا تھا……” اٹھو بھی تھوڑا سا ہی کام ہے۔”
“ایک تو تمہارے پروگرام بہت ہی فاسٹ ہوتے ہیں…… ’’جیو تیز‘‘ ہو پوری”…….. شنو اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور تسکین مسکرائی۔
“بس میں ایسی ہی ہوں۔” اسے جیسے خود پر پیار آیا تھا ……
“ہائے یہی تو دل چاہتا تھا میرا…… ہنسی مذاق، موج مستی…..یہ لاڈ نخرے سہیلیوں کے……. اور وہ تارہ عیاشیاں کر رہی تھی اور میں دیکھ دیکھ کُڑھا کرتی تھی…… اب کہاں تارہ…… ڈوب گیا تارہ….. ہاہاہا” بڑی ہی خوشی ہوتی تھی سوچ کر……..
٭…٭…٭
“تارہ باجی…..آج تو میگزین اپ لوڈ ہونا ہے….” شنو نے نمکو کی پلیٹ سے آخری دانے اُٹھاتے ہوئے کہا…..
آج کچھ دن بعد شنو اور تارہ پھر سے اکٹھی تھیں….. گپیں لگ رہی تھیں…….. تارہ آئی تھی شنو نے چائے بنائی اور اب دونوں نمکو اور بسکٹ کھا کر چائے پی چکی تھیں …..شنو اب تسکین کے ساتھ کافی گھل مل گئی تھی جو تارہ کے لیے ایک دکھ بھری داستان تھی ..
باتوں کے دوران ہی تارہ نے مشورہ دیا….
“بڑی پھاپھے کٹنی ہے یہ تسکین بچ کر رہنا…….میں نے تو اسی لیے ان فرینڈ کر دیا تھا ہمسائیگی کا بھی خیال نہیں کرتی یہ تو جس کے پیچھے پڑ جائے ……”
“جی تارہ باجی بس مجھے لوگوں کی واقعی سمجھ نہیں ہے لیکن احتیاط کروں گی”….. شنو کا بھولپن افف…
“میں نے تو مخلص دوست بن کر مشورہ دیا ہے آگے تم خود سمجھ دار ہو۔”
“کہاں تارہ باجی…. میری ماما کہتی ہیں شنو ابھی تک تمھارا بچپنا نہیں گیا۔ تمھاری معصومیت کا لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں……….” باتیں شنو پہلے بھی ایسے ہی کرتی تھی…. لیکن تارہ کو آج احساس ہو رہا تھا کہ” یہ باندری کتنا بن بن کر بولتی ہے ڈرامے باز “…..
“خیر شادی ہو گئی بچوں والی بن کر اب کوئی ننھی کاکی تو رہتی نہیں ہے کیا فائدہ خود کو دھوکا دینے کا……. حقیقت پسندی اچھی چیز ہے”……… تارہ نے صاف صاف لتاڑا تھا اسے۔
“ہاں جی بڑی عمر کے ساتھ بندہ ایسی ہی سیانوں والی باتیں کرنے لگتا ہے …ٹھیک کہا آپ نے تارہ باجی…” شنو نے ریموٹ سے چینل بدلتے ہوئے کہا…. اس کا انداز ایسا تھا جیسے” اب تم دفع ہو جا تارہ باجی…….”
تارہ نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا اور دل ہی دل میں گالیوں سے نوازا….” اس کمینی کی باتیں صرف اس تسکینی کی خاطر سُننا پڑ رہی ہیں ورنہ اب ملتی تھی شنو سے میری جتی …….”
تارہ بے چاری نے تو اب شنو کے باجی والے ٹائٹل پر بھی “کمپرومائیز” کرلیا تھا۔
مجبوری یہ تھی کہ تارہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ شنو کی دوستی سے پیچھے ہٹے اور تسکین شنو پرمکمل قبضہ جمالے……..” اور پھر یہ دونوں مل کر مجھ معصوم کو ساڑیں گی….. ناں ناں تسکینو بی بی…. میں تجھے یہ خوشی نہیں دیکھنے دوں گی۔” تارہ نے کڑھتے ہوئے سوچا۔
سو اب پہلے جیسی بے لوث محبت بھری اپنی بلا وجہ کی تعریفوں اور دوسروں کی غیبتوں سے اٹی گپ شپ میں اک دوجے پر تاک تاک کر اٹیک ہونے لگے تھے……




Loading

Read Previous

سائبان — محمد عمر حبیب

Read Next

عادت — ثمینہ سیّد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!