دردِ دل
صوبیہ اطہر
گھر کے کاموں میں صبح سے شام ہو جاتی ہے۔ ایک کپ چائے پینے کا وقت نہیں ملتا۔
یہ آوازیں پتا نہیں کہاں سے آتی ہیں جیسے کسی بھوت بنگلے سے آتی ہیں نہ ایک آواز نکالو تو پیچھے چار آوازیں آتی ہیں۔
ہاں تو میں کیا کہ رہی تھی۔
اس گھر کو بناتے بناتے نہ جانے کتنا عرصہ گزر گیا۔
کتتی عیدیں …………
کتنی شب براتیں …………
کس کس کی سال گرہ…………
مجھے کچھ یاد نہیں …………
یاد ہے تو بس اتنا کہ مجھے اچھی بہو بننا ہے اچھی بیوی بنناہے اوراچھی ماں بنناہے
رات کوتھک ہارکرگیارہ بجے کے قریب جب بسترپربیٹھی توجوڑجوڑ دکھ رہا تھا۔ نیند سے آنکھیں بند ہو رہیں تھیں کہ وقار نے پکارا۔
”آمنہ…………
کچھ دیر پاؤ ں تو دبا دو بہت دکھ رہے ہیں۔“
ناچار اٹھ کر پاؤ ں دبانے لگی۔
”کل آفس والوں نے ہوٹل میں فیملی ڈنر ارینج کیا ہے مگر تم
وقار نے مجھے سر سے پاؤ ں تک سوچتی نظروں سے دیکھا۔ رہنے ہی دو۔“
”میں اکیلا چلا جاؤں گا“ نہ جانے کیا تھا ان کی نظر میں
چھن! کچھ ٹوٹا تھا مگر کیا؟
آنسوؤں کا گولہ حلق میں پھنس گیا۔
کانوں کے پیچھے اور گردن میں کھچاؤ محسوس ہونے لگا۔
میں نے لمبا سانس لیا۔
وقار سو چکے تھے۔میں واپس بیڈ کے کنارے پر آ کر ٹک گئی۔
یہ آوازیں پھر آنا شروع ہو گئیں
افف میرا سر۔
اب اکثر مجھے رات کو نیند نہیں آتی۔آج کی رات بھی جاگ کر گزارنی ہو گی۔
ہاں تو میں کیا کہ رہی تھی؟
کچھ دن پہلے کی بات ہے کیا ہوا تھا یاد نہیں مگر ایک بات یاد ہے وقار نے کہا تھا۔
”تم جاہل کی جاہل ہی رہنا۔“
اور میں یہ سوچتی رہ جاتی ہوں
نہ جانے تعلیم یافتہ کسے کہتے ہیں؟
افف …… پھر یہ آوازیں
اب مجھے یہ بھی پتا چل گیا ہے یہ آوازیں کہاں سے آتی ہیں
یہ اس راکھ کے ڈھیر سے آتی ہیں
جو پہلے میرا دل تھا
پھر اس کو دباتے دباتے روکتے ٹوکتے مارتے اورسمجھاتے ہوئے راکھ کا ڈھیربن گیا۔
اف میراسر
میں نے بڑبڑاتے ہوئے سرکودونوں ہاتھوں سے تھاما۔
وقار کی آنکھ کھل گئی تھی۔
”آمنہ کس سے باتیں کررہی ہو۔
نہ خود آرام کرو گی نہ مجھے کرنے دوگی۔
ہر طرح کی سہولت دی ہے تمہیں پھر بھی ذہنی مریضہ بنتی جارہی ہو
صبح بات کرتاہوں کسی سائیکاٹرسٹ سے۔“