بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ

ادبی افسانہ

بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ

فارحہ ارشد

 

بہت کلاسیکل پروفائل تھا بی بانہ کا۔۔۔ ڈ کنز اور روسٹیز کے پروفائل کی مانند۔ اٹھارویں صدی کی روسی اور ہسپانوی شاہزادیوں کی سی آن بان والی یا پھر یوں جیسے چغتائی کی بنی تصویروں کے عشق بلب غزال رو نقوش اور ابھاروں میں جان پڑ گئی ہو۔ عمر خیام کی رباعیوں جتنی مے کش اور شاہ حسین کی کافیوں جیسی پر سوز اور اداس۔
اب یہ میری کچی عمر کے ماہ و سال تھے یا کیا تھا کہ ہمیشہ مجھے بی بانہ کو دیکھتے ہی بچپن میں پڑھی پریوں اور جادوگرنیوں کی کہانیاں یاد آنے لگتیں۔ کوئی داستانوی کردار، کوئی حسین جادوگرنی، جس نے اپنی طلسماتی طاقت سے اپنے اردگرد بسنے والی تمام مخلوق کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہو۔ کسی طلسماتی محل میں جادوئی شمعیں اٹھائے کھلے گھیر والی میکسی میں یہاں سے وہاں پھرتی بے چین روح۔

آئے روز گھر میں کسی نہ کسی بہانے محفلیں سجتیں اور بی بانہ شمع محفل بنی، بہ ظاہر قصیدوں سے بے نیاز مگر درحقیقت قصیدے لوٹتی۔ ساری کا پلو سنبھالتی جب وہ ستار کے تار مخروطی انگلیوں سے چھیڑتی تو کئی انفاس کے تار ہلا کر رکھ دیتی۔ شوق کے پیشِ نظر سیکھی گئی موسیقی جب غزل بن کر بی بانہ کے گلے سے برآمد ہوتی تو بارش ہو نہ ہو حاضرینِ محفل کے دلوں پہ ٹھنڈی ٹھنڈی پھوار ضرور برسنے لگتی اور بی بانہ مسکراتے لبوں اور اداس آنکھوں سے دیکھا، ان دیکھا کیے داد سمیٹے جاتی۔ میں ایک کونے میں بیٹھی ان کو دیکھتی ہی رہ جاتی۔ نہ جانے کیوں شعور سنبھالتے ہی اپنا ان دیکھا رہ جانا برا لگنے لگا تھا یا بی بانہ کا حد سے زیادہ نظر آنا۔ بس کچھ تھا جو برا ضرور لگنے لگا تھا۔ میں پسِ پردہ بیٹھی کانوں پہ واک مین چڑھائے مغربی دھنوں پہ سر دھنتی، تیز تیز چیونگم چبائے جاتی اور ٹانگ پہ ٹانگ رکھے ہلائے جاتی۔۔
آرٹسٹک انگلیاں پینٹنگ برش پکڑے جب کینوس پہ رنگ بکھیرتیں تو بی بانہ کے چہرے کا رنگ دمک اُٹھتا۔ لمبی صراحی دار گردن شاہانہ انداز میں اُٹھائے بی بانہ پاپا سے یوں تعریف وصول کرتی جیسے بس اسی کا حق ہو اس تعریف پہ اور پاپا آنکھوں میں دنیا بھر کی حیرت سمیٹے تعریف کیے جاتے۔ ”کمال کر دیا تم نے۔ واہ۔۔کیا جیتی جاگتی منظر نگاری ہے۔“وہ پینٹنگ پہ نگاہیں جمائے یوں دیکھتے جیسے کسی نام ور کلاسیک مصور کی پینٹنگ تبصرے کے لیے سامنے رکھ دی گئی ہو۔ ”لگتا ہے ان سیلن زدہ دیواروں اور خشک پتوں کی خوشبو تک حسیات میں اتر آئی ہو۔ تخیل تمہاری پوروں سے یوں نکلتا ہے جیسے جادوگر کے رومال سے کبوتر۔ واہ سبحان اللہ۔۔“ پینٹنگ جیسی بھی ہوتی پاپا کا تبصرہ بہت شان دار ہوتا۔

تب میرا شدت سے جی چاہتا کہ پاپا میری پینٹنگز کی بھی ایسے ہی تعریف کریں اور ایسے ہی میری انگلیوں پہ بھی بوسہ دیں۔ میں پوری محنت سے پینٹنگ بنا کے ان کے سامنے لاتی تو وہ سرسری سا دیکھ کر حوصلہ افزائی کم اور کڑیتنقید والے انداز میں گویا ہوتے ”اپنا تخیل وسیع کرو اور اس کو رنگوں سے بات کروؤ۔ ایک اچھی تصویر بنا جھول کھاتی مکمل کہانی جیسی ہوتی ہے۔ ربط نہ ٹوٹنے پائے۔ بس کہتی چلی جائے حسیات میں اُتر کے بولے۔۔۔۔۔ابھی اور محنت کرو“وہی سادہ مگر سخت جملے۔ میری آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں اور وہ مجھے یوں دیکھنے لگے جیسے بہت دور کہیں خلا میں دیکھتے ہوں۔۔۔ ہاں وہاں ایک خلا تھا میں توکہیں نہ تھی۔ اپنی عدم موجودگی نے مجھے دکھی کر دیا۔ ”بی بانہ سے سیکھو نا“۔۔۔۔ اس آخری جملے نے پہلے مجھے دکھی کیا پھر شکست خوردہ اور پھر میرے اندر غم و غصہ بھر دیا۔ میں کیوں نہیں ہوں؟ میں کہاں ہوں؟ ہر طرف بی بانہ۔۔۔۔ میں نے دکھ سے پاپا کو دیکھا مگر وہ مزید رکے بنا واپس مڑ گئے تھے، جب تک ان کے قدموں کی چاپ مدہم ہوئی میں نے برش کسی ایک رنگ میں ڈبویا اور پوری پینٹنگ پہ پھیر دیا۔ وینگوف کی طرح اپنا کان کاٹ کے تصویر کو امر کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا سو میں نے سارا سامان ڈسٹ بن میں پھینک کے ہاتھ جھاڑ لیے۔

میں اور بی بانہ ایک تصویر کے دو رخ تھے بالکل الٹ۔۔۔ یکسر متضاد۔میری چندھی مندھی سی آنکھوں کا بی بانہ کی سبزی مائل سنہری آنکھوں سے کیا موازنہ۔ اور کہاں میرے شولڈر کٹ مختصر سے بال اور کہاں لئیر کٹ والی بی بانہ کے ریشمی سیدھے لمبے گھنے بال۔ میرے زرد ٹخنے اور بی بانہ کی گلابی ایڑیاں۔ اور ہاتھ، میرے تو کیا پورے گھر میں کسی کے بھی اتنے حسیں نہ تھے۔ مخروطی انگلیوں والے نازک اور نرم آرٹسٹک ہاتھ۔۔۔۔۔۔ کزن لوگ تو رشک کیا کرتے اور میں اپنے عام سے ہاتھوں کو چھپانے لگتی۔ میری زبان آدھی اردو آدھی انگریزی میں لپٹی غوطے کھاتی اور بی بانہ اردو بولتی تو لگتا لکھنؤ یا دلی کا رنگ اس سے بہتر کہاں نظر آئے گا۔ اور جب انگریزی بولتی تو فرنگیوں کو مات دے دیتی۔ فلسفہ، ادب، فیشن، ثقافت اورکرنٹ افیئرز پہ دلائل، تبصرے اور تجزئیے۔ جب کہ مجھے تو چند کورس کی چیزوں کے علاوہ کچھ علم تھا ہی نہیں تو بحث مباحثہ کیسا۔ اتنا منصفانہ موازنہ کرنے کے باوجود میں سمجھتی تھی میری موجودگی کو ”عدم موجودگی“میں بدلنے کا حق کسی کو نہیں۔ مگر یہ حق وصول کرنے کے لیے مجھے بہت دشواری رہی اور بالآخر ناکامی کے پے در پے حملوں نے مجھے بی بانہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔

Loading

Read Previous

بھول

Read Next

دردِ دل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!