دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

مراد اگر تب مجھ سے یہ پوچھنے کی بجائے کہ کیا میں کہیں اور شادی کرنا چاہتی تھی یہ پوچھ لیتا کہ کیا میں کسی اور میں انٹرسٹڈ تھی… کسی اور سے محبت کرتی تھی تو میں اسے ہاں میں جواب دیتی… میں اسے مومی کے بارے میں بتا دیتی چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہوتا مگر میں اس سے جھوٹ نہیں بولتی۔ میں اسے سب کچھ سچ سچ بتا دیتی… لیکن اس نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا۔
ہم دونوں دو ہفتے تک PC بھوربن رہے تھے اور ان دو ہفتوں میں مراد نے مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ شادی سے پہلے اور بعد کی اپنی سرگرمیاں، اپنی گرل فرینڈز، اپنے افیئرز… سب کچھ… اس کا لہجہ ہمیشہ فخریہ ہوتا تھا اور اس کے ان انکشافات نے میرے دل میں موجود احساسِ ندامت کو ختم کر دیا تھا۔ میں جو ہمیشہ یہ سوچتی آ رہی تھی کہ میں کسی دوسرے مرد سے شادی کرتے ہوئے اسے دھوکہ کیسے دوں گی۔ مومی کے ساتھ اپنے تعلق کو اس سے چھپانے کے لیے جھوٹ کیسے بولوں گی۔ مگر مراد نے مجھے اس کش مکش سے بچا لیا تھا۔ اس کی زندگی میں پاکستان اور Canada میں اتنی بہت سی لڑکیاں آتی رہی تھیں کہ اس کے لیے افیئر یا فلرٹ ایک بہت بے ضرر سی چیز بن گیا تھا۔ وہ اگر ایسی چیزوں میں انوالو نہ ہوتا تو اس کے ساتھ گزارے جانے والا ہر دن میرے احساس جرم کو بڑھاتا رہتا کہ میں ایک ایسے شخص کو دھوکہ دے رہی ہوں جس نے زندگی میں میری طرح کوئی غلط کام نہیں کیا… مگر مراد کے ساتھ مجھے کبھی اس احساس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا… میں نہیں جانتی اگر میری زندگی میں مومی نہ آیا ہوتا تو مراد کے یہ سارے قصے سن کر میرا ردعمل کیسا ہوتا شاید نہیں یقینا مجھے بہت تکلیف ہوتی مگر اب مجھ میں ایسا کوئی احساس پیدا نہیں ہوا۔
……***……
”تم شروع سے ہی اتنی کم گو ہو؟” میں نے شادی سے کچھ عرصہ کے بعد مہر سے ایک دن پوچھا۔ ہم لوگ اس رات ایک ڈنر میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ میں گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ وہ میرے برابر بیٹھی ہوئی تھی اور حسب عادت میری باتوں کے جواب ہوں ہاں سے دے رہی تھی یا چند لفظوں اور زیادہ سے زیادہ ایک جملے میں… تبھی میں نے اس سے پوچھا۔
”ہاں۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ ”کیوں؟” میں نے تجسس سے پوچھا۔
اس نے حیرانگی سے میرا چہرہ دیکھا۔ ”کیوں؟”
”ہاں کیوں؟… کیوں اتنی کم گو ہو؟”
”میں فطرتاً ایسی ہوں۔”
”حالانکہ تم اپنے پیرنٹس کی اکلوتی اولاد ہو… ایسے بچے تو بڑے شرارتی اور شوخ مزاج ہوتے ہیں۔” میں نے کہا۔
”میری مثال تمھارے سامنے ہے۔”
”ہاں مگر آپ مرد ہیں… میں لڑکی ہوں، میری اور آپ کی فطرت ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔” اس نے اسی انداز میں کہا۔
”آپ کو میری خاموشی برُی لگتی ہے؟”
”نہیں بری نہیں۔”
”پھر؟”
”عجیب۔” اس نے قدرے حیرانگی سے میرا چہرہ دیکھا۔
”بعض دفعہ مجھے لگتا ہے تم اس شادی سے خوش نہیں ہو۔” میں نے اپنے ذہن میں بار بار آنے والا خدشہ اپنی زبان پر لاتے ہوئے کہا۔
”آپ غلط سوچ رہے ہیں۔”
”یعنی تم خوش ہو؟”
”ہاں۔”





”تو پھر اس خوشی کا اظہار کیوں نہیں کرتی؟”
”خوشی کا اظہار کس طرح کرتے ہیں؟” اس نے مجھ سے بے حد عجیب سوال پوچھا۔
”مسکرا کر ہنس کر، باتیں کر کے، فرمائشیں کر کے۔” میں نے اس سے کہا۔
”میں یہ سب کچھ کرتی تو ہوں۔” اس نے ونڈ سکرین سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔
”لیکن آپ مجھ سے شادی پر خوش نہیں ہیں تو…” میں نے اس کی بات تیزی سے کاٹی۔ وہ بات کو غلط رُخ پر لے جا رہی تھی۔
”تم نے یہ نتیجہ کیسے اخذکیا کہ میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں؟”
”آپ کی باتوں سے۔”
”خدا کا خوف کرو مہر۔” میں نے ہلکی سی ناراضگی سے کہا۔
”میں تمہاری خوشی کی بات کر رہا تھا اور تم میری خوشی پر بات کرنے لگی ہو۔” میں نے ایک گہرا سانس لیا۔
”میں تو بہت خوش ہوں… تم کو بتا تو چکا ہوں کہ میرے لیے یہ لو میرج ہے… میں تو شادی سے پہلے ہی تمھارے عشق میں برُی طرح غرق ہو چکا تھا۔” میں اسے وقتاً فوقتاً یہ بات بتاتا رہتا تھا۔ وہ آہستہ سے مسکرا دی۔
کچھ دیر تک میں خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا پھر میں نے موضوع تبدیل کر دیا۔ ”ممی بتاتی ہیں کہ تین سال پہلے تم بہت مذہبی ہوا کرتی تھی۔” میں نے اس سے پوچھا۔
”ممی کو غلط فہمی ہوئی ہے میں کبھی بھی بہت مذہبی نہیں ہوا کرتی تھی۔” اس نے یک دم قدرے ترش لہجے میں میری بات کاٹ دی۔ میں اس کے لہجے کی رکھائی پر کچھ حیران ہوا۔ آخر ایسی کیا بات کہہ دی تھی میں نے کہا۔
”اچھا؟… مگر ممی تو کہتی ہیں تب تم بہت پردہ وغیرہ کرتی تھی اور…” اس نے ایک بار پھر اسی رکھائی سے میری بات کاٹ دی۔
”اتنا پردہ نہیں کرتی تھی جتنا ممی سمجھی ہیں۔ انھیں میرے بارے میں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔” مجھے لگا وہ کچھ خفا ہو رہی ہے اور مجھے حیرانگی ہو رہی تھی آخر اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اس قدر ناراض ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ بہرحال میں نے موضوع تبدیل کر دیا۔
**…**…**
مراد سطحی ذہنیت کا خوبصورت مرد تھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ وہ اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھا… مگر اس سب کے باوجود اگر مومی میری زندگی میں نہ آتا اور میں اپنی مرضی سے اپنے لیے شوہر کا انتخاب کرتی تو میں مراد کو کبھی اپنے لیے منتخب نہ کرتی… امی نے غلط کہا تھا کہ وہ میرے جیسا تھا وہ میرے جیسا نہیں تھا وہ سوچے سمجھے بغیر بولنے کا عادی تھا اور ایسی باتیں بھی دوسروں کے سامنے کہہ دیا کرتا تھا جو دوسرے منہ سے نکالنے سے پہلے دس بار سوچتے… وہ ویسٹرن Ethics لے کر پاکستان میں رہ رہا تھا۔ اس کی اور میری شخصیت میں بہت فرق تھا۔ اس کے باوجود کہ میں اپنی وضع قطع سے اسی کی طرح کی ایک لڑکی نظر آتی تھی مگر مجھے کبھی بھی اپنے اور اس کے درمیان کوئی مشترک چیز نظر نہیں آئی ماسوائے اس کے کہ وہ بھی مذہب سے اتنا ہی دور تھا جتنا میں تھی اور صرف یہی ایک چیز تھی جو میرے لیے باعث اطمینان تھی کم از کم مجھے یہ خدشہ نہیں تھا کہ وہ مجھے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیے مجبور کرے گا۔
اس کی اور مومی کی بہت سی باتیں ایک جیسی تھیں۔ شادی کے شروع کے دنوں میں مجھے اس کی آواز پر کبھی کبھار مومی کی آواز کا گمان ہوتا مگر یہ گمان مجھے بہت سے دوسرے لوگوں کی آواز پر بھی ہوتا تھا… اگر میں نے مومی کا چہرہ دیکھ رکھا ہوتا تو پھر مجھے ہر مرد کا چہرہ مومی کی طرح لگتا… Illusions… Illusions… Illusions…
مگر مراد میں اور بہت کچھ بھی مومی جیسا ہی تھا… اس کا سٹار عقرب تھا۔ اسے سفید رنگ پسند تھا وہ D&G لگاتا تھا… اسے فرائیڈ چکن پسند تھا اور وہ سپرائٹ لیمن کے ساتھ پیتا تھا… اور میں نے ان تمام چیزوںکو مومی کے لیے اختیار کیا تھا… مگر پتہ نہیں کیا ہوا مراد سے شادی کے ابتدائی ہفتوں ہی میں میں نے آہستہ آہستہ یہ تمام چیزیں چھوڑ دیں… میں نہیں چاہتی تھی اس میں اور مجھ میں کچھ بھی مشترک ہو… میرا بس چلتا تو میں شاید اس کو مجبور کرتی کہ وہ ان تمام چیزوں کے بارے میں اپنی پسند تبدیل کر لے… میں نہیں چاہتی تھی اس میں کچھ بھی مومی جیسا ہو۔
میں لاشعوری طور پر اسے ہر وقت ہر بات میں مومی کے ساتھ کمپیئر کرتی رہتی تھی اور وہ ہر معاملے میں مجھے مومی سے کمتر لگتا۔ میں مومی کے بارے میں بھی سب کچھ نہیں جانتی تھی مگر میں ہر چیز Imagine کر لیا کرتی تھی… مومی کون سی بات کہتا اور کون سی کبھی نہیں کہتا… مومی کون سا کام کرتا اور کون سا کبھی نہیں کرتا… میں جس کو نہیں جانتی تھی اس کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی۔
مراد بہت سوشل تھا۔ وہ مجھے ہر دوسرے دن کسی نہ کسی پارٹی یا ڈنر میں لے کر جاتا رہتا اور وہ بے حد خوشی محسوس کرتا جب اس کے شناسا لوگ میری خوبصورتی اور لباس کی تعریف کرتے۔ اس کا حلقہ احباب مراد سے بھی زیادہ لبرل تھا۔ ان میں سے بعض مرد ڈائریکٹلی میرے جسم کی تعریف کرتے۔ انھیں میرا فگر اپیل کرتا تھا اور مراد ان تعریفی کلمات پر جیسے سرشار ہو جاتا وہ اسے برے نہیں لگتے تھے کیونکہ وہ خود بھی وہاں موجود دوسروں کی بیویوں کو اسی طرح کے الفاظ میں سراہتا۔
اور اس سب کے بعد وہ مجھ سے یہ بھی کہتا کہ اسے مجھ سے شدید محبت ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو… یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مجھ سے جھوٹ بول رہا ہو۔ مگر مجھے دونوں صورتوں میں کوئی اعتراض نہیں تھا… نہ مجھے اس کی محبت کی ضرورت تھی اور نہ اس بات کی پرواہ کہ وہ کسی اور سے محبت نہ کر رہا ہو… میں تب Indifferent تھی۔ عجیب سی بے حسی تھی جو میرے وجود پر طاری تھی۔
اور اس بے حسی کو توڑنے کی کوشش مراد کی ممی نے کی تھی۔
”بیٹا نماز پڑھا کرو…” شادی کے کچھ ماہ بعد ایک دن انھوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر کہا۔ ”کس لیے؟” میرے سوال نے انھیں گنگ کر دیا تھا۔
”کس لیے؟… بیٹا ہم مسلمان ہیں اس لیے… مرنا ہے ہم سب کو… اللہ کے پاس جانا ہے اس لیے…” ان کے لہجے میں ہلکی سی ناراضگی تھی۔
”صفیہ تو اتنی عبادت گزار عورت ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اس نے آخر تمھیں یہ سب باتیں کیوں نہیں سکھائیں؟” وہ بڑبڑا رہی تھیں۔
”تم BA میں تھیں جب میں پہلی بار تمھارے گھر گئی تھی اور مجھے تم اس لیے پسند آئی تھی کہ مجھے لگا تھا تم نماز کی پابندی کرتی ہوگی… تمہاری وضع قطع ہی اور تھی تب… میں نے تو تبھی طے کر لیا تھا کہ میں نے اسی لڑکی کو اپنی بہو بنا کر لانا ہے… مگر بعد میں تو مجھے تمھیں دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی۔” میں سر جھکائے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
”کیونکہ تم میں زمین آسمان کا فرق آ گیا تھا پر جو بھی تھا اب تم اس گھر میں آ چکی ہو… تمھیں سے ہماری نسل آگے چلنی ہے۔ مراد کو تو دین کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے مگر تمھیں تو فکر کرنی چاہیے… ایسی بیوی اور ماں بھی کس کام کی…؟ جسے صرف سج سنور کر گھومنا پھرنا ہی آتا ہو… دین کی الف بے سے بھی وہ واقف نہ ہو… تم صفیہ کی بیٹی ہو۔ میری اکلوتی بہو ہو، مجھے بہت پیاری ہو اس لیے تم سے یہ سب کہہ رہی ہوں… تم سیدھے رستے پر آ جاؤ گی تو مراد بھی اپنے آپ کو تبدیل کرے گا ورنہ اور کچھ سالوں کے بعد وہ دین سے بالکل ہی دور ہو جائے گا۔” میں اسی طرح خاموشی سے ان کی باتیں سنتی رہی جس طرح امی کی باتیں سنتی تھی اور امی کی باتیں سعیدہ آنٹی کی باتوں سے کہیں زیادہ کڑوی کسیلی ہوتی تھیں وہ تو اس کے مقابلے میں مجھے کچھ بھی نہیں کہہ رہی تھیں۔
”تم دونوں سرِشام باہر نکل جاتے ہو، رات کو بارہ ایک بجے واپس آتے ہو۔ پھر تم دونوں اسی وقت جاگتے ہو جب مراد کے آفس کا وقت ہو رہا ہوتا ہے۔ مراد کے جانے کے بعد تم سارا دن TV دیکھتی رہتی ہو… پھر شام ہو جاتی ہے اور تم دونوں کی وہی روٹین شروع ہو جاتی ہے… میں یہ نہیں کہتی کہ تم گھر کا کام کرو… گھر کے کام کے لیے نوکر ہیں… نہ ہی یہ کہتی ہوں کہ میرے پاس آ کر بیٹھو… میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ اور کچھ نہیں تو تم نماز اور قرآن تو پڑھ لیا کرو… صبح فجر کے وقت اٹھا کرو… مراد کو بھی اٹھایا کرو… نہ بھی اٹھے تب بھی اس سے کہا کرو… کبھی نہ کبھی تو اس کے دل میں خیال آئے گا کہ باقاعدگی سے نہ سہی وہ کبھی کبھار بھولے سے ہی نماز پڑھ لے۔” میں ان کی باتیں سنتی رہی اور کیوٹکس لگے اپنے لمبے ناخنوں کو کھرچتی رہی۔
”اوپر سے تم کپڑے ایسے پہنتی ہو کہ میرے دل میں ہول اٹھتے ہیں کہ یااللہ اس گھر کا ہو گاکیا…؟ اور مراد تو ہے ہی بے حیا کہ انھیں کپڑوں میں تمھیں ساتھ لیے پتہ نہیں کہاں کہاں پھرتا ہے… میں نے کبھی اس گھر میں ہاف سلیو بھی نہیں پہنی حالانکہ مراد کے پاپا کا حال بھی مراد جیسا ہی تھا مگر تم سلیولیس کپڑے پہنتی ہو… اور آگے پیچھے سے تمہارا گلا اتنا کھلا ہوتا ہے کہ مجھے عورت ہو کر تمھیں دیکھتے ہوئے شرم آتی ہے اور اگر ساڑھی پہن لو تو اس کے ساتھ تم اتنے چھوٹے چھوٹے بلاؤز پہنتی ہو کہ تمھارا سارا جسم عریاں ہو رہا ہوتا ہے۔ گھر کے مرد ملازم تمھیں کن نظروں سے دیکھتے ہیں تمھیں اس کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔” مجھے اس دن پہلی بار اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ مجھ سے ناخوش تھیں یا شاید پریشان بھی تھیں۔
”تم تو اتنے اچھے طریقے سے دوپٹہ سینے پر پھیلائے رکھتی تھی، اتنا وقار ہوتا تھا تمھارے لباس میں جب میں نے تمھیں تین چار سال پہلے دیکھا تھا پھر تمھیں ہو کیا گیا ہے؟” میں نے اب بھی سر نہیں اٹھایا۔
”میں یہ نہیں کہتی کہ تم ماڈرن لباس نہ پہنو… یا یہ کہ تم چادر یا برقع اوڑھو… تم اپنی مرضی کا لباس پہنو مگر شائستگی تو ہونی چاہیے اس لباس میں… یہ تو نہیں کہ پورا جسم نظر آ رہا ہو، دوپٹہ سر پر مت لو سینے پر تو لے لو۔ سلیولیس نہ پہنو ہاف سلیوز پہن لو… ساڑھی پہنو مگر بلاؤز پورا پہنو۔” میں اب بھی چپ تھی۔ انھوں نے میری امی کی طرح مجھے کوئی آیات اور احادیث نہیں سنائی تھیں۔
”مہر بیٹا انسان نے اللہ کو جواب نہ دینا ہوتا تو جو چاہے کرتا پھرے کوئی بات نہیں مگر دیکھو ہم سب نے مر جانا ہے… ہمیشہ کے لیے دنیا میں زمین کے اوپر نہیں رہنا۔” اس دن آنٹی سعیدہ نے دو گھنٹے تک مجھے لیکچر دیا تھا اور میں سنتی رہی تھی میری اپنی امی چار چار گھنٹے یہی کام کرتی تھیں میں تب بھی سنتی رہتی تھی۔ آنٹی سعیدہ کو اس دن یقین ہو گیا تھا کہ انھوں نے میرا دل بدل دیا تھا۔ میری امی کو بھی ہر بار یہی گمان ہوتا تھا۔
شام کو میں اور مراد باہر جانے کے لیے تیار ہونے لگے تو میں نے الماری سے ایک چادر نکال لی۔ مراد نے چونک کر مجھے دیکھا۔ ”یہ چادر کس لیے؟” ”ممی نے کہا ہے کہ میں مناسب لباس پہن کر باہر نہیں جاتی اس لیے میں نے سوچا ہے کہ میں چادر اوڑھ کر ان کے سامنے یہاں سے جاؤں گی پھر گاڑی میں اتار دوں گی…” میں نے بڑی رسانیت سے کہا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا میرا وہ جملہ مراد کو اتنا ناگوار گزرے گا۔ وہ اسی وقت کمرے سے چلا گیا۔
مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس نے ممی سے اس ایشو پر بدتمیزی کی تھی اور اس کی وجہ سے پاپا نے بھی ممی کو بہت برُا بھلا کہا تھا۔ مراد میری نظروں میں کچھ اور نیچے آ گیا تھا۔ سعیدہ آنٹی نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی جو غلط تھی اور صحیح بات پر ان سے لڑنا… اور پھر وہ مراد کی ممی تھیں۔ مراد کو اتنی چھوٹی سی بات پر ان سے لڑنا نہیں چاہیے تھا۔
سعیدہ آنٹی نے دوبارہ کبھی مجھے کوئی نصیحت نہیں کی مگر ان کے انداز میں وہ گرم جوشی بھی ختم ہو گئی جو اتنے ماہ میں ان میں اپنے لیے محسوس کرتی تھی۔ وہ مجھ سے صرف ضرورتاً بات کرتی تھیں۔ شاید ان کا خیال ہوگا کہ میں نے مراد کو ان کے خلاف بھڑکایا ہے اور وہ ساری باتیں بتا دی ہیں۔ حالانکہ میں نے مراد سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ سعیدہ آنٹی اچھی خاتون تھیں… میری امی کی ہی طرح… اور بعض دفعہ میرا دل چاہتا تھا میں ان کو وضاحت دوں مگر پتہ نہیں، ایک عجیب سی جھجک تھی جو میں محسوس کرتی تھی یا پھر شاید مجھے یہ خدشہ تھا کہ وہ مجھے دوبارہ نصیحت کرنے لگیں گی۔
مراد کے برعکس مجھے اس کے ماں باپ دونوں اچھے لگتے تھے… ان دونوں میں اپنی اپنی طرح کی خوبیاں تھیں… پاپا کسی معاملے میں مداخلت نہیں کرتے تھے نہ ہی کسی پر کچھ Impose کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ممی بہت مذہبی تھیں مگر پاپا نے کبھی انھیں اپنے طریقے سے زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کیا۔ مراد بہت زیادہ آزاد خیال تھا پاپا نے اس پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ میرے ساتھ بھی پاپا کا روّیہ ایسا ہی تھا بہو کے طور پر انھوں نے میرے لیے کوئی دائرہ کھینچنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
ممی پاپا کے برعکس اور مزاج کی تھیں۔ وہ تعلیم یافتہ اور بہت خوش لباس تھیں مگر وہ اس طرح کے ماڈرنزم کو پسند نہیں کرتی تھیں جو میں نے اور مراد نے اختیار کر رکھا تھا۔ وہ اپنی باتوں اور مزاج کے اعتبار سے میری امی ہی کی طرح تھیں۔ نرم خو، خیال رکھنے والی اور زیادہ توقعات وابستہ کرنے والی۔
**…**…**




Loading

Read Previous

دربارِدل — قسط نمبر ۱

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!