کہہ کہہ کر ان کے سوالوں کے جواب دیتی رہتی… وہ ان سب سوالوں کی بجائے اگر کبھی غلطی سے یا اتفاقاً مجھ سے صرف یہ پوچھ لیتیں… ”کیا تم کو محبت ہو گئی ہے…؟” تو میں ان سے جھوٹ نہ بولتی۔ میں مومی کے بارے میں انھیں سب کچھ بتا دیتی مگر انھوں نے کبھی مجھ سے یہ سوال نہیں کیا… جیسے کبھی کوئی مچھلی سے یہ نہیں پوچھتا کہ کیا وہ خشکی پر رہ سکتی ہے۔ بالکل ایسے ہی ان کا خیال تھا مہر محبت نہیں کر سکتی…
”مہر”… اور ”محبت” نہیں کرے گی؟
مگر شاید وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھیں۔ مہر سمیع جیسی لڑکی جو پاس سے گزرنے والے خوبصورت سے خوبصورت مرد کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتی تھی۔ وہ محبت کیسے کر سکتی تھی… ان کو آخر شک کیسے ہوتا مجھ پر… جب اپنا حلیہ بدلنے کے بعد بھی میں لڑکوں کے نام سے بھی بدکتی تھی… بوائے فرینڈ بنانا… بس یہ ایک کام تھا جو میں نہیں کر سکی تھی میں لڑکوں سے بات نہیں کر سکتی تھی یہ نہیں تھا کہ مجھے ہر لڑکا مومی لگتا تھا بلکہ یہ تھا کہ مجھے کوئی بھی لڑکا مومی نہیں لگتا تھا… اور لگ بھی کیسے سکتا تھا۔ مومی میرے لیے ایک چہرہ نہیں تھا صرف ایک آواز تھا… اور میں نے تین سال میں کبھی اس آواز کو کسی چہرے اور وجود میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کی وہ بس میرے لیے آواز ہی رہا مگر اس ایک آواز نے مجھے یوں جکڑ دیا جیسے ریشم کا کپڑا ریشم کے تار میں جکڑا ہوتا ہے… میں ٹھیک سے نہیں بتا سکتی وجہ کیا تھی… صرف مومی یا کوئی پچھتاوا… یا کچھ اور… مگر میں کسی دوسرے مرد کی طرف دوبارہ ملتفت نہیں ہوئی… شاید ملتفت کا لفظ میں نے ٹھیک استعمال نہیں کیا۔ میں نے کبھی کسی لڑکے سے دوبارہ شناسائی پیدا نہیں کی… اس کے باوجود کہ صوبیہ کے ساتھ گھومتے پھرتے اس کے اپنے بہت سے فرینڈز اور جاننے والے اپنے فون نمبر مجھ تک پہنچاتے رہے۔ فون نمبر والی ہر چٹ ہاتھ میں لیے مجھے صرف ایک فون کال یاد آتی تھی… ایک آواز…
”ہیلو می می… میں مومی بول رہا ہوں… مجھے تمھیں ایک خوش خبری سنانی ہے… دھماکہ… چیخیں… می می… می می… میں مر رہا ہوں…”
میں ہر چٹ کو مٹھی میں مسل کر پھینک دیتی… تین سال میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا جب وہ آخری فون کال دن یا رات کے کسی نہ کسی وقت میرے ذہن میں نہ گونجتی… تب میرے پاس سگریٹ ہوتا تو میں سگریٹ سلگا لیتی… TV آن کر لیتی… سٹیریو لگا لیتی… میں اسے بھولنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی صرف اس اذیت اور پچھتاوے کو کم کرنے کی کوشش کرنی تھی جس سے میں روز گزرتی تھی… اور پھر کبھی کبھی میں سوچتی کیا تھا اگر تین سال پہلے مہر سمیع نے بھی مومی کا فون اٹھایا ہی نہ ہوتا… اگر وہ مومی کو جانتی ہی نہ ہوتی… مومی نام کا کوئی لڑکا اس کی زندگی میں کبھی آیا ہی نہ ہوتا… زندگی کاش سے شروع ہو کر کاش پر ختم ہو جاتی ہے… مگر میرا کوئی کاش میری زندگی کو بدل نہیں سکتا تھا۔
……***……
”بابا آپ نے مجھے بلایا ہے؟” میں نے اس رات بابا کی سٹڈی میں داخل ہو کر ان سے پوچھا۔
امی نے کچھ دیر پہلے ہی مجھ تک ان کا پیغام پہنچایا تھا۔ ”ہاں بیٹھو۔” بابا نے اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کرتے ہوئے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بے حد سنجیدہ نظر آ رہے تھے۔ میں نے ایک نظر ان کے چہرے کو دیکھا اور پھر خاموشی سے کرسی پر ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی۔
”تمہاری امی نے تم سے مراد کے سلسلے میں بات کی ہے۔” انھوں نے تمہید باندھی تھی نہ ہی مجھ سے وہ معمول کے سوال کیے تھے جو وہ اکثر کرتے تھے۔ انھوں نے سیدھا اسی ایشو پر بات شروع کر دی تھی۔ میں چند لمحے کے لیے کچھ بول نہیں سکی۔ انھوں نے اس سے پہلے کبھی اسی طرح کی بات مجھ سے اتنے ڈائریکٹ انداز میں نہیں کی تھی اس کے باوجود کہ میں ان سے بہت قریب تھی۔
”جی” میں نے چند لمحوں کے بعد سر جھکاتے ہوئے کہا۔
”اور تم نے انکار کر دیا؟”
”جی۔”
”کیوں؟”… میں خاموش رہی… اس کیوں کا کیا جواب دے سکتی تھی۔
”میں ہمیشہ اپنے آپ سے ایک ہی سوال کرتا رہتا ہوں۔” بابا نے چند لمحے میرا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد مدھم آواز میں کہنا شروع کیا۔
”کہ مجھ سے تمہاری پرورش میں آخر کہاں غلطی ہوئی؟” میں نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا۔ ان کی صرف آواز میں ہی رنجیدگی نہیں تھی ان کے چہرے پر بھی ملال تھا۔
”میں تو ساری زندگی رزق حلال کے علاوہ کوئی چیز اس گھر میں لے کر نہیں آیا… پھر آخر ایسا کیا ہو گیا کہ میری اکلوتی اولاد میری نافرمان ہے۔”
”بابا میں نے تو کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کی۔” مجھے ان کی بات سے بے حد تکلیف پہنچی۔
”زبان سے نہیں کی حرکتوں سے کی ہے۔” انھوں نے میری بات کاٹ کر کہا۔
”بیٹیاں باپ کے سر کو اونچا کرتی ہیں نیچا نہیں کرتیں۔” میں اس بار کچھ نہیں بولی وہ ٹھیک کہہ رہے تھے کم از کم اس معاملے میں میں ان کے سامنے سر اٹھا کر یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں نے کبھی ان کا سر نیچا نہیں کیا۔
”تم جس روش پر چل رہی ہو… ہمارے خاندان میں لڑکیاں ایسی روش پر کہاں چلتی ہیں… اتنی آزادی کہاں ہوتی ہے انھیں جتنی آزادی ہم نے تمھیں دے رکھی ہے اور شاید یہ اسی آزادی کی وجہ سے ہے کہ آج تم ہماری بات ماننے پر ہی تیار نہیں ہو۔ تمھیں پرواہ ہی نہیں ہے کہ تمہاری وجہ سے لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں شرمندگی اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” میں جانتی تھی ان کا اشارہ کس طرف ہے… میرے لباس کی طرف… ہاں میں جانتی تھی کہ خاندان میں میرے اس لائف سٹائل کو ناپسند کیا جاتا تھا… اور میں یہ بھی جانتی تھی کہ میرے اپنے ماں باپ بھی ان تمام چیزوں کو ناپسند کرتے تھے۔
میں خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”اب اگر ایک پرپوزل ایسا ہے جو…” میں نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”بابا آپ اور امی میری جہاں شادی کرنا چاہتے ہیں کر دیں… مراد سے شادی کرنا چاہتے ہیں مراد سے کر دیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ”میں نے ایک دم کہا اور بابا کو حیرت زدہ چھوڑ کر سٹڈی سے نکل آئی۔ میں اپنے پیچھے بابا کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتی تھی۔ میں نے ہمیشہ کی طرح آج بھی انھیں پریشان کر دیا تھا… وہ انکار ہوتا یا اقرار… دونوں صورتوں میں وہ پریشان ہی ہوتے… مگر میں نے جس طرح ان کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے وہ ضرورت سے زیادہ پریشان ہو رہے ہوں گے۔
مگر میں اور کیا کرتی… میں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ امی اس موضوع پر مجھ سے بات کرنے کے لیے بابا کو کہیں گی… اور بابا کے لہجے میں جھلکنے والی شکست خوردگی میرے لیے کافی ثابت ہوئی تھی… پتہ نہیں انھوں نے مجھ سے بات کرنے کے لیے کیا کیا سوچا ہوگا کہ وہ یہ کہیں گے تو میں یہ کہوں گی اور میں یہ کہوں گی تو وہ یہ کہیں گے… مگر میں نے تو انھیں ایسا کوئی موقع ہی نہیں دیا تھا… ان کی ایک نگاہ چہرے کا ایک تاثر اور چار جملے کافی ثابت ہوئے تھے میرے لیے۔
اپنے کمرے میں آ کر میں اپنے اس اقرار کے بارے میں سوچتی رہی… میں نے مراد کو پہلی بار اپنے گھر پر ہی دیکھا تھا اور پہلی نظر میں مجھے اس کے لیے کچھ محسوس نہیں ہوا تھا… کچھ بھی نہیں… اور ایسے مرد سے شادی کرنا جس کے لیے آپ کچھ بھی محسوس نہ کرتے ہوں… کیسا تھا؟
لیکن میں اگر مراد کے لیے کچھ محسوس نہیں کرتی تھی تو کسی اور مرد کے لیے کب کرتی تھی؟… کیا کر سکتی تھی؟
اس رات ایک بار پھر مجھے مومی یاد آیا… اتنی برُی طرح کہ… آخر ایسا کیوں نہیں ہوا تھا کہ مجھے وہ مل جاتا۔ میری زندگی اس کے ساتھ گزرتی… میرے نام کے ساتھ اس کا نام جڑتا… ایک بار پھر سے میں تین سال پہلے ان تمام ہفتوں کے بارے میں سوچتی رہی جب مجھے یونہی لگتا تھا کہ میں مومی کی زندگی میں شامل ہو جاؤں گی… بہت آسانی کے ساتھ… کسی دشواری کے بغیر… اور میں ان تمام خوابوں کے بارے میں سوچتی رہی جو تب میں مومی کے حوالے سے دیکھتی رہی تھی… اور اب ایک دوسرا مرد… پتہ نہیں… کہاں سے یک دم میرے سامنے آ گیا تھا… ایک ایسا مرد… جس سے چاہنے کے باوجود میں کبھی محبت نہیں کر سکتی تھی… تو کیا میں اس کو فریب دینے والی تھی؟… دھوکہ دے رہی تھی اس سے شادی کر کے؟… میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
**…**…**
”یار مومی تو پاکستان آ جانا۔” میں نے ایک بار پھر اصرار کیا۔
”اگر میرے لیے ممکن ہوتا تو میں تمھارے اس اصرار کے بغیر ہی آ جاتا۔” اس نے جواباً کہا ہم دونوں پچھلے ایک گھنٹے سے فون پر باتوں میں مصروف تھے۔
”آخر ایسی بھی کیا تکلیف ہے تجھے کہ تو میری شادی پر بھی نہیں آ سکتا۔” میں نے ہلکی سی خفگی سے کہا۔
”تکلیف نہیں ہے یار بس مجھے چھٹی نہیں مل رہی۔” اس نے وضاحت دی۔
”تو پھر جاب چھوڑ دے۔” میں نے اطمینان سے کہا۔
”اور اس کے بعد پاکستان آ کر جوتے چٹخاؤں؟” وہ بھی جواباً ناراض ہوا۔
”خیر تمھارے جیسا کوالیفائیڈ بندہ پاکستان آ کر جوتے تو نہیں چٹخا سکتا۔” میں نے کہا۔
”تمھیں اچھی جاب مل جائے گی یہاں۔”
”جانتا ہوں اچھی جاب مل جائے گی مگر میں فی الحال پاکستان آ کر کوئی جاب ڈھونڈنے میں دلچسپی نہیں رکھتا… کچھ سال تو مجھے یہیں رہنا ہے۔” اس کا اطمینان اور ضد برقرار تھی۔
”اچھا مت آ پاکستان بلکہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہ جانا مگر یہاں آ کر میری شادی تو اٹینڈ کر لو۔” میں نے اس بار تقریباً منت کرنے والے انداز میں کہا۔
”تم پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ یہ یک بیک شادی کا بھوت کیسے تمھارے سر پر سوار ہو گیا ہے؟” اس نے جواباً مجھ سے پوچھا۔
”بس یار مجھے محبت ہو گئی ہے۔” میں نے سنجیدگی سے کہا وہ بے اختیار ہنسا۔
”تمھیں اور محبت؟… تمھیں ہر قسم کی بیماری ہو سکتی ہے مگر یہ بیماری نہیں ہو سکتی۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”تم یقین کرو یا نہ کرو تمھارے یار کو اس بار یہی بیماری ہو گئی ہے۔”
”کیوں تمہاری عقل کیا گھاس چرنے چلی گئی ہے؟” اس نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں مجھے بھی لگتا ہے کہ وقتی طور پر میرے دماغ کے سارے بلب فیوز ہو گئے ہیں۔ البتہ میرا دل آج کل بڑا روشن روشن ہے۔” میں نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”میں تمھیں محبت سے منع نہیں کرتا… مگر یار یہ شادی… شادی جیسی مصیبت مول لینے کے لیے کس نے کہا ہے۔” وہ بھی سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔
”میرے ماں باپ نے۔” میں نے بے ساختہ کہا۔