”تم آخر چاہتی کیا ہو؟” امی نے رات کو بالاآخر تنگ آ کر مجھ سے پوچھا تھا۔ میں کنسرٹ سے واپسی پر کچھ دیر پہلے ہی کپڑے چینج کر کے اپنے کمرے میں بیڈ پر آ کر لیٹی تھی۔ جب وہ میرے کمرے میں آ گئی تھیں۔
”میں تو کچھ بھی نہیں چاہتی۔” میں نے تین سال میں بار بار دہرایا جانے والا جملہ دہرایا۔ میں واقعی اب کیا چاہ سکتی تھی۔
”تو پھر مراد پر کیا اعتراض ہے تمھیں؟” امی نے ایک بار پھر مراد کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا۔
”کوئی اعتراض نہیں ہے مگر میں شادی کرنا نہیں چاہتی۔”
”ہم تنگ آ گئے ہیں تمہارا انکار سن سن کر… تم شادی نہیں کرنا چاہتی تو کم از کم یہ تو بتاؤ کہ کیوں نہیں کرنا چاہتی؟” امی نے تقریباً زچ ہوتے ہوئے کہا۔
”کیونکہ میں کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتی کیونکہ میں مومی کی جگہ پر کسی اور کو اپنی زندگی میں نہیں لا سکتی… کیونکہ میں دوغلی زندگی نہیں گزار سکتی۔” میرے پاس ان کے سوال کا جواب تھا مگر اس جواب کو ان تک پہنچانے کے لیے ہمت نہیں تھی۔
”پتہ نہیں کیوں نہیں کرنا چاہتی۔” میں نے اپنا ماتھا رگڑتے ہوئے کہا۔
”تم ہماری اکلوتی اولاد ہو تمھیں اس کا احساس ہے… آج مجھے یا تمھارے بابا کو کچھ ہو جائے تو تمہارا کیا ہوگا مہر۔”
”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ سے پہلے مجھے ہی کچھ ہو جائے… پھر کم از کم آپ کو میری وجہ سے کوئی ٹینشن نہیں رہے گی۔” میں نے اطمینان سے کہا میرے اطمینان نے میری ماں کو ہولایا۔
”کس طرح کی باتیں نکال رہی ہو منہ سے… تمھیں کیوں کچھ ہوگا…؟ مگر دیکھو مہر شادی تو ہر لڑکی کو کرنا ہی ہوتی ہے پھر تمھیں اگر کوئی پسند ہے تو ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تمہاری مرضی کی جگہ پر تمہاری شادی کر دیتے ہیں۔”
”میری مرضی کی جگہ…” میں نے سوچا۔
”مرضی کی جگہ؟”
”میری پسند کے مرد سے؟… اور میری پسند کا مرد تین سال پہلے…” ”کیا سوچ رہی ہو؟” امی نے میری سوچ کے سلسلے کو توڑا۔
”کچھ نہیں۔” میں نے ان کا چہرہ دیکھا۔
”مجھے کوئی پسند نہیں ہے۔” امی کو یقین نہیں آیا۔
”یہ تمہاری زندگی کا معاملہ ہے اگر تمھیں…”
”جانتی ہوں امی یہ میری زندگی کا معاملہ ہے مگر مجھے کوئی پسند نہیں ہے۔” میں نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔ وہ کچھ دیر میرا چہرہ دیکھتی رہیں۔
”اگر پسند نہیں ہے تو پھر ہماری پسند سے شادی کرنے پر کیا اعتراض ہے تمھیں؟” میں چپ رہی۔
”اور پھر دیکھو اس بار تو لڑکا بھی تمھارے جیسا ہے… آزاد خیال… تم پر کوئی روک ٹوک نہیں لگائے گا کیونکہ اسے تمہاری جیسی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں… ہے بھی اکلوتا… جس طرح کا تمہارا مزاج ہے تمھیں کسی کے ساتھ وہاں ایڈجسٹ منٹ کا مسئلہ نہیں ہوگا۔” میں نے امی کا چہرہ دیکھا وہ جانتی تھیں مجھے زندگی میں کبھی بھی کہیں بھی کسی کے ساتھ بھی ایڈجسٹ منٹ کا مسئلہ نہیں ہو سکتا تھا… مجھے خاموش رہنا آتا تھا اور سب کچھ اپنے اندر رکھنے کی عادت تھی۔ ”صفیہ بہت اچھی ہے… میں 25 سال سے جانتی ہوں اسے… تمھیں بڑے پیار کے ساتھ رکھے گی… تمھارے بابا بھی یہی چاہتے ہیں… اور دیکھو مہر اس بار تو ہم نے اس طرح کا لڑکا پسند کیا… جس طرح کی تم ہو۔” امی نے میری خاموشی کو میری آمادگی سمجھتے ہوئے قدرے جوش سے کہا۔
”جس طرح کی میں ہوں؟… اور میں کس طرح کی ہوں؟” میں نے اپنے اندر جھانک کر اپنا عکس دیکھنے کی کوشش کی۔ میں پتہ نہیں کس طرح کی تھی۔
”مجھے شادی نہیں کرنی۔” امی کو میرے جواب نے ناراض کیا۔
”تم اپنے انکار سے ہمارے پچھتاووں میں اضافہ مت کرو… پہلے ہی میں اور تمھارے بابا پچھتاتے رہتے ہیں کہ ہمیں تمھیں اتنی آزادی نہیں دینی چاہیے تھی۔ جس حلیے میں تم ہر وقت رہتی ہو اس حلیے کی وجہ سے خاندان اور جاننے والے تو پہلے ہی ہماری کوششوں کے باوجود تمہارا پرپوزل قبول کرنے پر تیار نہیں… ورنہ یہی لوگ تھے جو تین سال پہلے ہمارے آگے پیچھے پھرتے تھے… اور اب وہ صاف کہتے ہیں کہ مہر ضرورت سے زیادہ آزاد خیال ہے اور ہمیں اس طرح کی بہو نہیں چاہیے… اور ہم شرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں ان سے کیا بحث کریں… ظاہر ہے خود ہمارا کوئی بیٹا ہوتا تو ہم بھی اس کے لیے تمھارے طور طریقوں والی بہو تو کبھی نہ لاتے… سارا میل جول ہمارا ہماری ہی طرح کی فیملیز میں ہے اور ہم جیسی فیملیز میں اتنی آزاد خیال لڑکیوں کو کون قبول کرتا ہے… اب صفیہ کی صورت میں میں تو سمجھتی ہوں کہ ایک فرشتہ ہی آیا ہے کہ جو بے چاری ہماری خاندانی ویلیوز رکھنے کے باوجود تمھیں بہو بنانا چاہتی ہے کیونکہ تمہاری طرح اس کا بیٹا بھی بہت آزاد خیال ہے… کسی اور جگہ تمہاری شادی کرنے کی کوشش کریں گے تو پتہ نہیں کیسے لوگوں سے سامنا ہو… یہاں کم از کم مجھے یہ تو تسلی ہے کہ لڑکے کے ماں باپ کو ہم جانتے ہیں اور وہ دونوں بہت اچھے لوگ ہیں… مگر تم ہو کہ تمھیں تو اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے کہ ماں باپ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا چاہتے ہیں… تمہاری وجہ سے تمھارے بابا ہر وقت مجھے ملامت کرتے رہتے ہیں… کیونکہ انھیں لگتا ہے میں نے کبھی تمھیں روکا نہیں… کبھی سمجھایا نہیں… انھیں کیا پتہ کہ میں 24 گھنٹے یہی کام کرتی رہتی ہوں مگر تم صم بکم بن کر میرے سامنے بیٹھی رہتی ہو مجال ہے تم پر کوئی اثر ہو جائے… اس سے تو اچھا تھا کہ ایک اولاد بھی نہ ہوتی… کم از کم تمہاری وجہ سے لوگوں کے سامنے شرمندگی تو نہ اٹھانی پڑتی۔ ماسٹرز کرنا تھا وہ تم نے کر لیا اب کیا کر رہی ہو؟… نماز قرآن تو کب کا چھوڑ دیا تم نے… سارا دن تم باہر پھرتی رہتی ہو اور ساری رات تم کیبل لگا کر بیٹھی رہتی ہو… وہ بند ہوتی ہے تو تم سٹیریو لگا لیتی ہو… وہ بند ہوتا ہے تو تم گھنٹوں سوتی رہتی ہو۔ یا پھر فون لے کر بیٹھی رہتی ہو… تمھیں نہ کسی آئے گئے کا پتہ ہوتا ہے نہ ہی اس بات کی پرواہ کہ میں اور بابا تمھیں اور تمہاری حرکتوں کو دیکھ دیکھ کر کتنے پریشان ہوتے رہتے ہیں… یہ سب کچھ اس صوبیہ کی وجہ سے ہوا ہے… ہمیں چاہیے تھا کہ ہم شروع میں ہی اس کے ساتھ تمہاری دوستی ختم کروا دیتے… نہ تمہارا اس کے ساتھ میل جول ہوتا نہ تم اس کے رنگ میں رنگتی… مگر ہم لوگ تو یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے اپنی اولاد کی اتنی اچھی تربیت کی ہے کہ وہ صوبیہ جیسی سینکڑوں لڑکیوں کے ساتھ پھر کر بھی ویسی نہیں ہو سکتی… ہمیں کیا پتہ تھا کہ ہماری اپنی اولاد ہی ہمارے لیے اتنی پریشانیاں کھڑی کر دے گی۔” امی غصے میں بولتے ہوئے میرے کمرے سے نکل گئیں۔ میں ان کے جذبات کو سمجھ سکتی تھی ان کو مجھ پر جتنا غصہ اور شرمندگی تھی مجھے اپنے آپ پر اس سے کہیں زیادہ غصہ اور شرمندگی تھی۔ اگر مہر سمیع کا بت کسی سڑک پر لگا ہوتا تو اس پر پتھر پھینکنے والوں میں میں سب سے پہلی ہوتی “Down with Mehr Sami” میں نعرے لگا لگا کر اپنا حلق زخمی کر لیتی… مجھے اگر دنیا میں کچھ اور اچھا نہیں لگتا تھا تو مہر سمیع کیسے اچھی لگتی… یہ سب کچھ مہر سمیع ہی کی وجہ سے تو ہوا تھا نہ وہ ہوتی نہ میں ننگے پاؤں اور ننگے سر دنیا میں کھڑی ہوتی۔
Rejection بہت کم لوگوں کو اتنی خوشی دے سکتی تھی جتنی مجھے دیتی تھی جو انسان اپنے آپ کو خود 24 گھنٹوں میں ہزاروں بار Reject کرتا ہو وہ کسی کی Rejection سے کیا سیکھے گا…؟ میرے ماں باپ کو لگتا تھا میرے لباس طور اطوار نے مجھے لوگوں کے لیے قابل اعتراض بنا دیا تھا… وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کم از کم میرے اپنے لیے یہ لباس اور اطوار بہت سی آسانیاں پیدا کر رہے تھے… یہ کسی دوسرے مرد کو میری زندگی میں آنے سے روک رہے تھے۔
تین سال میں ماں باپ کی معصوم پیاری اور باحیا مہر سمیع کہیں غائب ہو چکی تھی۔ اب صرف میں رہ گئی تھی جو زندگی کو اس طرح سے گزار رہی تھی جیسے گزارنا چاہتی تھی۔
پہلی بار دوپٹہ گلے میں ڈال کر گھر سے نکلنے پر میرے ماں باپ کو اتنا شاک نہیں لگا تھا جتنا اس دن لگا تھا جب میں سلیولیس شرٹ پہن کر گھر کے اندر ان کے سامنے پھرتی رہی تھی۔ مجھے نہیں پتہ انھوں نے مجھے کن نظروں سے دیکھا ہو گا… جیسی نظروں سے بھی دیکھا تھا… مجھے ان نظروں کی پرواہ نہیں تھی… انسان اللہ سے نہ ڈرے تو کیا ماں باپ سے ڈرے گا؟… معاشرے سے ڈرے گا؟ دنیا سے ڈرے گا؟
مجھ میں آنے والی تبدیلیوں نے یقینا میرے ماں باپ کی راتوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں… وہ دونوں مجھے سمجھانے کی جتنی کوشش کر سکتے تھے کرتے رہے… امی کئی ماہ مجھے عذاب کی وعید والی آیات اور احادیث کا ترجمہ کر کر کے سناتی رہیں… پر مہر سمیع اب کس عذاب سے ڈرتی؟… طوفان نوح تو اس کی زندگی میں آ کر گزر چکا تھا اور اس طوفان کے بعد مہر سمیع کی زندگی میں تو کوئی ”کشتی” تک نہیں بچی تھی… پھرکیا بچانا؟… کیا چھپانا؟…
میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد نہ ہوتی اور میرے ماں باپ پڑھے لکھے نہ ہوتے یا میں تب اس نروس بریک ڈاؤن کی وجہ سے ہفتوں بیمار نہ رہتی اور میرے ماں باپ کو یہ خدشہ نہ ہوتا کہ مجھ پر سختی کرنے کی صورت میں مجھے پھر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ مجھ پر سختی ضرور کرتے… مجھے گھر میں بند کر دیتے… میری تعلیم چھڑوا دیتے… مجھ پر پابندیاں لگاتے… دوستوں سے میرا میل جول ختم کروا دیتے… دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے مجھے مجبور کرتے… کچھ نہ کچھ ضرور کرتے وہ… مگر جب اولاد اکلوتی ہو اور انسان کو اس اولاد سے عشق تو پھر کیسی پابندی اور کہاں کی سختی… انھوں نے بالآخر میرے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے… یہ سوچ لیا تھا کہ میں آج کی لڑکیوں کی طرح ہو گئی تھی… یہ بھی شکر تھا کہ آوارہ نہیں ہوئی تھی صرف جدید زمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق چل رہی تھی… اور جو کچھ کر رہی تھی وہ تو میری عمر کی ساری ہی لڑکیاں کرتی تھیں… انھوں نے ایسے ہی بہت سے ڈھکوسلوں کے ساتھ خود کو بہلایا ہوگا۔ وہ اس کے علاوہ اور کیا کرتے۔
حیران کن بات ہے مگر میری فرینڈز نے مجھ میں آنے والی تبدیلیوں کو کچھ زیادہ گرم جوشی سے خوش آمدید نہیں کہا تھا۔ وہ حیران تھیں بلکہ حیرانگی سے زیادہ پریشانی کا شکار تھیں۔ ”آخر ہوا کیا ہے تمھیں؟”
”یہ سب کیوں کر رہی ہو؟”
”پردہ کرنا کیوں چھوڑ دیا؟”
”بال کیوں کٹوا لیے؟”
”اس طرح کے کپڑے کیوں پہن رہی ہو؟” ”اتنی چپ اور سنجیدہ کیوں رہنے لگی ہو؟”
”نماز پڑھنا کیوں چھوڑ دی؟” وہ وقتاً فوقتاً یہ سب سوال مجھ سے پوچھتی رہتیں…
”ایسے ہی۔”
”پتہ نہیں۔”
”دل نہیں چاہتا۔”
”کچھ نہیں۔”
”ویسے ہی۔”
”کوئی وجہ نہیں۔”
”نہیں…”