دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

”اس طرح کی لڑکیاں اچھی بیویاں ثابت نہیں ہوتیں۔” ممی نے کہا۔
”کس طرح کی لڑکیاں؟” میں نے انجان بنتے ہوئے کہا۔
”تم نے حلیہ دیکھا اس لڑکی کا… کس طرح سلیولیس لباس میں منہ اٹھائے اندر آ گئی… یوں جیسے امریکہ میں بیٹھی ہے۔” ممی نے اسی مہر پر تنقید کرتے ہوئے کہا جسے وہ پچھلے تین سال سے ایک مثالی لڑکی کی مسند پر بٹھائے ہوئے تھیں۔
”مجھے تو وہ سلیولیس میں بہت اچھی لگی… ساری دنیا پہن رہی ہے سلیولیس پھر اگر اس بے چاری نے پہن لیا تو کیا قیامت آ گئی۔” میں نے مہر کی حمایت کی۔
”مجھے ایسی ہی لڑکی لانی ہوتی تو پورا شہر بھرا ہوا ہے… اور اس سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ اونچے گھرانوں کی لڑکیاں… پھر آخر اس میں کون سے سرخاب کے پَر لگے ہوئے ہیں کہ میں اسے ہی اپنی بہو بنا کر لاؤں؟”
”ممی کو میرا مہر کی حمایت کرنا اور برُا لگا۔” جیسے کہ ماؤں کو اکثر لگتا ہے۔
”تو پھر آخر تین سالوں سے آپ میرے پیچھے کیوں پڑی ہوئی تھیں کہ ایک بار اسے دیکھ لوں… ایک بار اسے دیکھ لوں۔”
”مجھے کیا پتہ تھا کہ تین سالوں میں اس کا حلیہ ہی بدل جائے گا… میری ہی غلطی تھی… مجھے پچھلے تین سال میں اس سے ملتے جلتے رہنا چاہیے تھا تاکہ مجھے پتہ تو رہتا کہ وہ کیا گل کھلا رہی ہے۔”
”ممی… مجھے مہر سے… اور صرف مہر سے شادی کرنی ہے۔ آپ یہ بات کہیں لکھ لیں۔”
”کہاں لکھ لوں؟” ممی نے مجھے گھورا۔
”شادی کے کارڈ پر۔” میری حِس مزاح اس وقت ممی کو بے حد بُری لگ رہی تھی۔
”دیکھو مراد اس عمر میں اس طرح کی لڑکیاں بہت اچھی لگتی ہیں مگر جس لڑکی کے ساتھ شادی کرنی ہو اسے صرف بیوی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے… ماں اور دوسرے رشتوں میں بھی دیکھنا چاہیے… ایسی لڑکیوں کو اپنے علاوہ کسی اور میں دلچسپی نہیں ہوتی نہ شوہر میں نہ بچوں میں نہ کسی اور میں۔” ممی نے اپنی ٹون تبدیل کرتے ہوئے پھر ایک متنازعہ بیان دیا۔
”اس پر بحث ہو سکتی ہے ممی۔ مگر میں بحث نہیں کروں گا۔ مجھے مہر ہر صورت اور ہر حالت میں پسند ہے اور مجھے اسی کے ساتھ شادی کرنی ہے۔” میں نے ایک بار پھر اپنا اعلان دہرایا۔
مہر کے گھر سے اپنے گھر تک گاڑی میں ممی نے مجھے ”ایسی لڑکیوں” کے بارے میں بے شمار قصے سنائے… کسی ایک قصے سے بھی میری ہمت نہیں ٹوٹی کیونکہ مجھے ”ایسی ہی لڑکیوں” میں دلچسپی تھی اور اس Species سے نفرت تھی جس Species کی لڑکیوں میں سے کسی ایک کو ممی اپنی بہو اور میری بیوی کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں۔
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ مذہبی اور پردہ کرنے والی لڑکیوں کے لیے میری ناپسندیدگی کا آغاز کب ہوا تھا۔ میرا خیال ہے سکول میں… اور پھر کالج میں یہ ناپسندیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی پھر کچھ واقعات بھی ایسے ہوئے جنھوں نے ان لڑکیوں کے بارے میں میری رائے کو اور خراب کیا۔ اپنے آپ کو پارسا اور باحیا سمجھنے اور ظاہر کرنے والی یہ لڑکیاں کردار کے حوالے سے دوسری لڑکیوں سے زیادہ کمزور ہوتی ہیں بلکہ بعض مواقع پر تو دوسری لڑکیوں سے زیادہ گری ہوئی حرکتیں کرتی ہیں۔ اسلام کی جن چیزوں سے مجھے اختلاف تھا اس میں ایک بنیادی پردہ کا ایشو ہی تھا۔ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ صرف سر اور چہرہ یا جسم اچھی طرح ڈھانپ لینے سے پارسائی کا سرٹیفکیٹ کیسے ملتا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں بے حیائی کا ٹھپہ کیسے لگتا ہے۔
Canada میں قیام کے دوران ایسی بہت سی فیملیز کی لڑکیوں سے میرا آمنا سامنا ہوتا رہا جو بظاہر ہر وقت حجاب اوڑھے رکھتی تھیں اور اپنے آپ کو Practising مسلم کے طور پر ظاہر کرتی تھیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر والوں سے چھپ کر ایسی بہت سی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں جو اسلامی لحاظ سے کسی طور پر مناسب نہیں تھیں۔





میرے نزدیک کسی لڑکی کا بوائے فرینڈ بنانا یا سموکنگ کرنا اور نائٹ کلب جانا قابل اعتراض نہیں تھا میں لبرل تھا اور اس بات پر فخر بھی محسوس کرتا ہوں۔ میرے نزدیک قابل اعتراض صرف وہ منافقت اور دوغلا پن تھا جو ایسی لڑکیوں میں کوٹ کوٹ کر بھراہوتا ہے۔میرے نزدیک وہ لڑکیاں بہتر ہیں جو اپنے آپ کو پارسا ظاہر کرنے کی سر توڑ کوششیں نہیں کرتی پھرتیں بلکہ زندگی کو صحیح معنوں میں انجوائے کرتی ہیں اور جیسی ہوتی ہیں ویسی ہی نظر آتی ہیں۔
مگر میں نہیں جانتا میری ممی نے اس طرح کی نیک پروین بہو کی Fantasy یا Fascination کب اور کیسے ڈویلپ کی تھی… اگرچہ وہ خود نماز وغیرہ پابندی سے پڑھا کرتی تھیں مگر پردہ کی کچھ اتنی پابند نہیں تھیں مگر اب میرے بارے میں وہ جب بھی سوچتیں تو مجھے سو فی صد یقین ہے کہ اُن کے تصور میں میرے ساتھ جس لڑکی کا تصور (Image) آتا ہوگا اُس نے ضرور برقع اوڑھا ہوگا اور صرف بُرقع نہیں بلکہ افغانی برقع… مجھے تو یہ بھی یقین تھا کہ وہ میرے لئے ایک ایسی لڑکی بیوی کے طور پر چاہتی ہوں گی جوخود مجھ سے بھی پردہ کرے اور میرے سامنے بھی تین فٹ لمبے گھونگھٹ میں ہی نمودار ہو۔
اور اب اگر خوش قسمتی سے اُن کی پسندیدہ لڑکی میرے پسندیدہ حلیے میں نکل آئی تھی تو انھوں نے کہرام مچادیا تھا یوں جیسے وہ مجھے اپنی مرضی کی لڑکی دکھانے نہیں لے گئی تھیں بلکہ میں اُنہیں اپنی مرضی کی لڑکی دکھانے لے گیا تھا۔
جو بھی تھا ایک بات تو طے تھی کہ میں اگر کسی لڑکی سے شادی کرتا تو وہ مہر ہی تھی…ممّی چاہے اُسے پسند کریں یا نہ کریں۔ وہ مجھے پسند تھی اور اس دن اس کے گھر سے واپسی کے دوران ممی سے ہونے والی گفتگو کے بعد میں طے کر چکا تھا کہ مجھے اگر اس سے شادی کے لئے جان بھی دینی پڑے گی تو میں دوں گا… اور دوسری طرف ممی بھی یہ ٹھان چکی تھیں کہ وہ کسی حالت میں مجھے اس لڑکی سے شادی کی اجازت نہیں دیں گی ۔
رات کے کھانے پرپاپا سے ایک بار پھر اسی موضوع پر بات شروع ہوگئی۔خلاف روایت اس بار یہ بات شروع کرنے والا میں تھا۔
”پاپا آج میں ممی کے ساتھ آنٹی سعیدہ کے گھر گیا تھا” میں نے بے حد سعادت مندی سے کہا۔ ممی نے دانت کچکچاکر مجھے دیکھا۔
”اوہ گڈ۔” پاپا مسکرائے۔
”تو تمہاری ممی بہرحال تمھیں ان کی بیٹی دکھانے کے لئے لے جانے میں کامیاب ہوہی گئیں۔” انھوں نے ایک نظر ممی کو دیکھا اور پھر مجھے۔
”کیا نام ہے اس لڑکی کا؟” انھوں نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔
”مہر” میں نے بے اختیار کہا۔
”اوہ ہاں…تو کیسی لگی تمھیں مہر؟” انھوں نے بے حد دلچسپی کے ساتھ مجھ سے پوچھا۔ میں نے ایک نظر ممی کو دیکھا اور پھر بڑے اطمینان سے کہا۔
”ممی کی چوائس واقعی بہت اچھی ہے۔” میں ممی کی دلی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔
”یعنی تم کو مہر پسند آ گئی ہے۔” پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے سوال کا جواب دیتا۔ ممی نے کہا۔
”مگر مجھے وہ لڑکی پسند نہیں ہے۔” پاپا نے چونک کر ممی کو دیکھا۔
”تمھیں سعیدہ کی بیٹی پسند نہیں ہے؟” انھوں نے کچھ حیرانگی سے کہا۔
”ہاں مجھے وہ پسند نہیں ہے۔”
”مگر اتنے عرصے سے تو تم ہمیشہ مراد کے لیے اسی کا ذکر کرتی رہی ہو بلکہ تین سال پہلے تو تم نے مراد کا پرپوزل بھی اس لڑکی کے لیے دیا تھا۔”
”تب اور بات تھی مگر اب اور بات ہے۔” ممی نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
”اب اور بات کیا ہے؟” پاپا کی حیرانگی میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”میرا خیال ہے مراد کو وہاں تم ہی زبردستی لے کر گئی ہو پھر ایسا کیا ہو گیا ہے؟”
”سمیع وہ لڑکی تو مراد سے بھی زیادہ ویسٹرنائزڈ ہو گئی ہے۔” ممی نے پاپا کو ہولانا چاہا۔
”اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔” پاپا نے بڑے اطمینان کے ساتھ سویٹ ڈش کھاتے ہوئے کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ مراد اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش رہیں گے کیونکہ مراد کو تو پہلے ہی ایسی لڑکیاں پسند ہیں۔” پاپا نے ایک نظر مجھے دیکھا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
”مگر وہ لڑکی مجھے پسند نہیں ہے۔”
”ساس کو بہو کبھی بھی پسند نہیں ہوتی… تم اپنی پسند کی لڑکی کو بھی بہو بنا کر لاؤ گی تو بھی بعد میں اسے ناپسند کرنے لگو گی… تو پھر یہی لڑکی ٹھیک ہے… کم از کم جس نے شادی کرنی ہے اسے تو پسند ہے۔” پاپا نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا ممی کو ان کے انداز نے اور برہم کیا۔
”ہر وقت کا مذاق اچھا نہیں ہوتا۔”
”میرا خیال ہے اس بار مذاق آپ فرما رہی ہیں۔” پاپا نے ان کی بات کاٹ دی۔
”پہلے دن رات آپ اسی لڑکی کے قصیدے پڑھ رہی تھیں، وہ لڑکی ایسی ہے اور ویسی ہے… اور اب جب آپ کے بیٹے کو وہ لڑکی پسند آ گئی ہے تو آپ کو اس پر اعتراضات ہونے لگے ہیں۔” پاپا نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”ویسٹرنائزڈ ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں مراد بھی ایسا ہی ہے… اور اگر کل کو کوئی دوسری لڑکی بھی لائیں گی تب بھی مراد کے نقش قدم پر ہی چلے گی وہ… پھر آپ کیا کریں گی…؟ کیا میاں بیوی کو آپس میں لڑوائیں گی۔” ”میں…” ممی نے کچھ کہنا چاہا۔ پاپا نے ان کی بات دوبارہ کاٹ دی۔
”آپ یہ یاد رکھیں کہ یہ شادی آپ نہیں کر رہی ہیں، مراد کر رہا ہے لڑکی کو اس کی پسند کا ہونا چاہیے… آپ کی شادی مجھ سے ہو چکی ہے۔ آپ مجھ پر اعتراضات کریں یا پابندیاں لگائیں… You’re most welcome” پاپا نے جیسے بات ختم کر دی۔ میرا دل اس گفتگو پر خوشی سے باغ باغ ہو رہا تھا۔ مجھے اندازہ تو تھا کہ پاپا اس معاملے پر میری حمایت کریں گے مگر یہ یقین نہیں تھا کہ یہ حمایت اتنی کھلی اور دو ٹوک ہوگی کہ مجھے تو منہ سے ایک لفظ بھی نکالنا نہیں پڑے گا۔
”تم ان لوگوں کو مراد کی پسندیدگی سے آگاہ کر دو… اور انھیں ہمارے ہاں انوائیٹ کرو” پاپا نے ممی سے مزید کہا۔ ”پر آپ میری بھی تو سنیں۔” ممی نے احتجاج کی ایک آخری کوشش کی۔
”ضرور سنوں گا مگر مراد کی شادی کے بعد۔” پاپا نے کہا۔
”اب اگر اس نے شادی میں دلچسپی لے ہی لی ہے تو پھر اچھا ہے کہ جلد از جلد اس کی شادی ہو ہی جائے۔” پاپا نے ٹیبل سے اٹھتے ہوئے کہا۔ ممی نے کچا چبا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھا۔
”ممی یہ ذرا فیرنی مجھے دیں… مجھے لگتا ہے یہ اچھی بنی ہے۔” میں نے بے حد معصومیت سے ممی کی نظروں کو نظرانداز کرتے ہوئے فیرنی کے ڈونگے کی طرف اشارہ کیا۔ ممی کا دل چاہا ہوگا ڈونگا میرے سر پر دے ماریں… مگر وہ ماں تھیں انھوں نے ڈونگا مجھے تھما دیا۔
**…**…**




Loading

Read Previous

دربارِدل — قسط نمبر ۱

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!