دنیا کا سب سے بے ہودہ کام کسی ایسی لڑکی کو دیکھنے اور ملنے جانا ہے جسے آپ پہلے ہی ناپسند کرتے ہوں اور میں ممی کے منہ سے ہر وقت اس لڑکی کا ذکر سن سن کر اس سے پہلے ہی الرجک ہو چکا تھا۔ ممی کا خیال تھا وہ میرے سامنے ہر وقت اس کا ذکر کرتی رہیں گی تو میں کبھی نہ کبھی اس سے شادی پر تیار ہو جاؤں گا… 21 ویں صدی میں 19 ویں صدی کے حربے…
اور اب میں بالآخر اس لڑکی کے گھر پر بیٹھا ہوا تھا۔
”بیٹا یہ کباب لو۔” سعیدہ آنٹی نے پلیٹ میرے سامنے بڑھائی۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس وقت میں خود کباب ہو رہا تھا۔ ہر لڑکی اپنی ماں کی کاپی ہوتی ہے۔
ممی نے ایک بار مجھے کہا تھا اور صفیہ آنٹی کو دیکھ کر میرے پیٹ میں گرہیں پڑ رہی تھیں اگر ان کی بیٹی اس انداز میں چادر لپیٹ کر اس کمرے میں آئی تو میں تو ویسے ہی وہاں سے بھاگ جاؤں گا۔ اب ایسا بھی کیا بیک ورڈ ہونا کہ انسان گھر میں بھی چادر لپیٹے رکھے۔ میں بسکٹ کترتا نمائشی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے انکل سے باتیں کرتا تنقیدی نظروں سے سعیدہ آنٹی کا جائزہ لیتا رہا۔
ممی میرے وہاں ان کے ساتھ چلے آنے پر خوشی سے بے قابو ہو رہی تھیں اور انکل میرا بائیو ڈیٹا پوچھ رہے تھے اور ان کے ہر سوال پر مجھے طیش آ رہا تھا۔ یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انسان دوسرے کی زندگی کی کھدائی شروع کر دے۔ مجھے ان سے گفتگو کرتے ہوئے لگ رہا تھا وہ اپنا اگلا ریسرچ تھیسیس شاید مجھی پر لکھنا چاہتے ہوں گے۔ میرا دل چاہ رہا تھا میں ان سے کہوں کہ آپ کو میرے بارے میں اتنی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنے کی زحمت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور… میں اس سے آگے کچھ نہیں سوچ سکا۔
کمرے میں داخل ہونے والی لڑکی نے میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑا دیے تھے اگر یہ ان کی بیٹی تھی تو… ”مراد بیٹا یہ میری بیٹی ہے مہر اور مہر یہ صفیہ آنٹی کا بیٹا مراد۔” ”سعیدہ آنٹی نے ہم دونوں کا تعارف کروایا تھا۔ میں نے گردن موڑ کر خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے ممی کو دیکھا۔ ان کا منہ بھی کھلا ہوا تھا انھیں کس شے نے حیرت زدہ کیا تھا۔ مجھے پتہ نہیں مگر میں لبرٹی بکس والی لڑکی کو سامنے دیکھ کر خود کو لعنت و ملامت کرنے میں مصروف تھا۔ آخر میں کیوں وہاں آنے سے تامل کرتا رہا تھا۔
”مہر” میں نے دل میں اس کا نام لیا۔ وہ خود جتنی خوبصورت تھی اس کا نام اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ وہ اس دن بھی سلیولیس لباس میں ہی ملبوس تھی۔ ہاں مگر اس دن ایک عدد دوپٹہ اس کے گلے میں موجود تھا۔ سرخ لباس میں ملبوس وہ بالکل میرے مقابل کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی تھی اور اس انداز میں وہاں بیٹھی وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز لگ رہی تھی۔ سعیدہ آنٹی اور انکل سمیع یک دم مجھے پیارے لگنے لگے تھے۔ میری بیزاری اور اکڑپن کہیں غائب ہو گیا تھا۔ پہلے انکل سمیع کے سوال پر میں ایک جملے سے لمبا جواب نہیں دے رہا تھا اور اب میں ہر سوال کا جواب دس جملوں سے کم میں نہیں دے رہا تھا۔ مجھے انکل سمیع ہی کو نہیں مہر سمیع کو بھی متاثر کرنا تھا۔
**…**…**
تیرے عشق نچایا
کر کے تھیّا تھیّا
چھیتی آویں وے طبیبا
چھیتی بوہڑیں وے طبیبا
نئیں تاں میں مر گئی آں
عشق انسان کو کائنات کے کسی دوسرے حصے میں لے جاتا ہے۔ زمین پر رہنے نہیں دیتا… اور عشق لاحاصل… لوگ کہتے ہیں انسان عشق مجازی سے عشق حقیقی تک تب سفر کرتا ہے جب عشق لاحاصل رہتا ہے… جب انسان جھولی بھر بھر محبت کرے اور خالی دل اور خالی ہاتھ لے کر پھرے… ہوتا ہوگا لوگوں کے ساتھ ایسا… گزرتے ہوں گے لوگ عشق لاحاصل کی منزل سے… اور طے کرتے ہوں گے مجازی سے حقیقی تک کے فاصلے… مگر میری سمت اُلٹی ہو گئی تھی۔ میں نے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا فاصلہ طے کیا تھا… اور میں نے اپنی مرضی سے بقائم ہوش و حواس ایسا کیا تھا… مجازی کو نہ پا کر حقیقی تک نہیں گئی تھی حقیقی کو پا کر بھی مجازی تک آ گئی تھی… اور اب در بہ در پھر رہی تھی۔
عابدہ پروین میرے سامنے بلھّے شاہ کی کافی گا رہی تھی:
تیرے عشق نے ڈیرا میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالا میں تاں آپے پیتا
چھیتی آویں وے طبیبا
چھیتی بوہڑیں وے طبیبا
نئیں تاں میں مر گئی آں
تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا
بلھّے شاہ نوں سدو شاہ عنایت دے بوہے
جس نے مینوں پوائے چولے ساوے تو سوہے
جاں میں ماری ہے اڈّی مل پیا ہے وہیّا
میرے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آئی… میرے ایڑیاں رگڑنے پر تو مجھے وہ شخص نہیں ملا تھا جسے میں نے چاہا تھا۔
ایس عشقے دی بھنگی وچ مور بولیندا
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
”مہر” صوبیہ نے میرے کندھے کو تھپکا۔ ”کیا ہوا؟” وہ پوچھ رہی تھی۔ اپنے گھٹنوں میں سر چھپائے میں اس سے کیا کہتی کہ بلھّے شاہ ٹھیک کہتا ہے۔ تین سال سے مجھے بھی ہر آدمی کی آواز پر مومی کی آواز کا گمان ہوتا تھا… ہر نام ”مومی” لگتا تھا۔
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
”چلو چلتے ہیں۔” میں یک دم اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ ”مگر… تمہاری فرمائش پر تو آئے ہیں یہاں… مہر… رکو… سنو تو…” میں رُکی نہیں تھی اسے تقریباً بھاگ کر میرے پیچھے باہر پارکنگ میں آنا پڑا تھا۔
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
کوئی مجھ سے زیادہ اچھی طرح اس بول کا مطلب نہیں سمجھتا تھا۔ میں گاڑی کے بونٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنا بیگ کھول کر سگریٹ نکالا اور لائٹر سے سلگایا۔ سگریٹ سکون نہیں دیتا بس یہ تسلی دیتا ہے کہ دنیا میں جلنے اور سلگنے والے صرف اکیلے ہم نہیں ہیں۔
”اگلی بار میں تمھارے ساتھ کسی کنسرٹ میں نہیں آؤں گی… تم شاید اپنی نہیں دوسرے کی تفریح خراب کرنے کے لیے ایسی جگہوں پر جاتی ہو۔” صوبیہ میرے پاس آ کر غصے میں بولنے لگی۔ میں نے جواب نہیں دیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔
”اب گھر چلو گی یا گاڑی کے بونٹ پر ہی بیٹھی رہو گی۔” اس نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ میں چپ چاپ سگریٹ پیتی رہی وہ کچھ دیر کھڑی میرا انتظار کرتی رہی پھر خود بھی آ کر بونٹ پر بیٹھ گئی۔
”اب آسمان پر کیا نظر آ رہا ہے تمھیں؟”اس نے مجھے سگریٹ پیتے آسمان کی طرف دیکھتے پا کر کر پوچھا۔
”جب زمین پر کچھ نہیں ہے تو آسمان پر کیا نظر آئے گا؟” ”سائیکالوجی پڑھ کر تم خود بھی سائیکو کیس ہی بن گئی ہو… اتنا Pessimism… اتنا Pessimism… یوں لگتا ہے تم نے Pessimism کی کوئی مشین لگا لی ہے اپنے اندر… یاد ہے ایک وقت تھا جب سب فرینڈز میں صرف تم ہوتی تھی جو ہر چیز کے مثبت پہلو کی بات کرتی تھی۔” وہ پتہ نہیں مجھے کیا یاد دلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”تین سال میں تم بالکل بدل گئی ہو… کچھ اور ہی ہو گئی ہو تم مہر سمیع۔” اس نے مجھے خبردار کرنے والے انداز میں کہا۔ میں سگریٹ کا کش لیتے ہوئے مسکرائی۔
”تمھیں کیا لگتا ہے کیا ہو گیا ہے مہر سمیع کو؟” ”یہی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ تمھیں ہوا کیا ہے۔”
”مجھے کچھ نہیں ہوا… میں بس دنیا دار ہو گئی ہوں۔”
”جانتی ہوں… مگر ایمانداری کی بات ہے مہر… تم دنیا دار ہو کر اچھی نہیں لگتی… مجھے تو وہی مہر یاد آتی ہے اور پسند تھی جو اتنے اچھے طریقے سے چادر اوڑھتی تھی کہ ہم لوگ مرعوب رہا کرتے تھے… جس سے ہم دعا کروایا کرتے تھے کیونکہ وہ ہم سب میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھی اور ہمیں اس کی دعا پر یقین تھا جو اتنے لمبے لمبے لیکچر دیا کرتی تھی ہمیں… بے شک ہم تمھاری باتوں پر عمل نہیں کرتے تھے مگر ہمیں تم پر رشک ضرور آیا کرتا تھا… ایمان سے تم ویسے ہی اچھی لگتی تھی۔ میں تو اس مہر کو بہت مِس کرتی ہوں۔”