”لڑکی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے میری دوست کی بیٹی ہے مہر… مراد کے لیے بالکل مناسب رہے گی… ماشاء اللہ بہت خوبصورت، سادہ اور باحیا… آج کل کی لڑکیوں سے بالکل مختلف ہے۔” انھوں نے بڑے فخریہ انداز میں پاپا سے کہا۔ میرے پیٹ میں کوئی بڑی قوت سے گھونسے مارنے لگا۔
”آج کل کی لڑکیوں سے بالکل مختلف۔” کا مطلب میں بڑی اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ کوئی قبل از مسیح کی لڑکی میرے لیے منتخب کیے بیٹھی تھیں مگر قبل از مسیح کی لڑکی پھر بھی قابل قبول ہو سکتی تھی وہ اپنی وضع قطع کے اعتبار سے اتنی آؤٹ ڈیٹڈ نہیں ہوتی جتنی میری ممی کی پسند کی لڑکی ہوتی۔
اگلا ایک ہفتہ میں باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر ممی سے اپنی اس دن کی گستاخی کی معافی مانگتا رہا تھا مگر ممی نرم نہیں پڑیں… پھر کوئی معجزہ ہی ہوا کہ میری منگنی کے لیے ان کا جوش و خروش یک دم غائب ہو گیا۔ مجھے پھر بھی خدشات ستاتے رہے اور یہ خدشات صرف تب غائب ہوئے جب Canada جانے کے لیے کراچی ائیرپورٹ پر ممی اور پاپا سے گلے ملنے کے بعد میں ڈیپارچر لاؤنج میں داخل ہوا۔ بے اختیار میرا دل چاہا میں وہیں خوشی کے ساتھ چیخ مار کر اُچھلوں۔ سعیدہ آنٹی کی وہ صوم و صلوٰة کی پابند بیٹی میری زندگی سے بہرحال غائب ہو گئی تھی یا دور ہو گئی تھی اور جس شدومد سے ممی اس لڑکی کو میری زندگی میں شامل کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ یہ ایک معجزہ ہی تھا کہ میں اس سے چھٹکارہ پانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
ماؤں کی سائیکی بڑی عجیب ہوتی ہے وہ اپنے بیٹوں کو اپنی مرضی کی لڑکی بیوی کے طور پر لا کر دینا چاہتی ہیں… دوسرے الفاظ میں اپنی ہی ایک کاپی انھیں بیویوں کی صورت میں بخشنا چاہتی ہیں اور پھر یہ توقع بھی رکھتی ہیں کہ بیٹے آمنا صدقنا کہہ کر اس رشتہ کو نہ صرف قبول کر لیں بلکہ دل و جان سے اس کو نبھائیں بھی… بدقسمتی سے میں ممی کی توقعات پر پورا نہیں اترا تھا کیونکہ میں نے ممی کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی… ماں سے محبت اپنی جگہ مگر میں اس محبت میں کم از کم اتنا اندھا نہیں ہوا تھا کہ آنکھیں بند کر کے اپنی تمام خواہشات اور پسند کو ایک طرف رکھ کر صرف ممی کے کہنے پر ایک ایسی لڑکی کا ہاتھ ساری عمر کے لیے تھام لیتا جسے میں کسی سے اپنی بیوی کے طور پر متعارف کرواتے ہوئے شرماتا اور جھجکتا… مگر یہ بات ممی کو اس وقت کون سمجھاتا۔
میں ان کے ساتھ ہر بات پر بحث کر سکتا تھا اور ہر بات پر بحث کیا کرتا تھا اور تقریباً ہر بات پر انھیں اپنی بات مان لینے پر مجبور کر لیا کرتا تھا… مگر صرف یہی ایک چیز ایسی تھی جہاں ممی اور میں کبھی متفق نہیں ہوئے… ان کی اور میری پسند شمال اور جنوب ہی رہے۔ وہ میری پسند اور خوشی کے بارے میں سوچنے کی بجائے اپنی اگلی نسل اپنے پوتے اور پوتیوں کی اچھی تربیت کو اپنا ٹارگٹ بنائے ہوئے تھیں اور میں ان کی طرح اتنا Selfless نہیں ہو سکتا تھا کہ بیوی کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی ساتھی کی بجائے اپنے بچوں کی ممکنہ ماں کے بارے میں سوچ کر کسی کو اپنی زندگی میں لاتا۔
ممی کا خیال تھا میں اپنی عمر کے دوسرے لڑکوں کی طرح لاپرواہ اور بے فکرا ہوں اور انھیں یہ افسوس بھی تھا کہ وہ میری اتنی اچھی تربیت کیوں نہیں کر سکیں کہ میں ان کی فلاسفی کو نہ صرف آسانی سے سمجھ جاتا بلکہ اسے اپنی زندگی کی فلاسفی بھی بنا لیتا… جبکہ میں سمجھتا تھا میں اپنی زندگی کو ممی کے برعکس زیادہ حقیقت پسندی سے دیکھ رہا تھا۔
Canada اپنے تین سال کے قیام میں جتنی بار بھی میں نے کبھی دعا کی اس میں اس لڑکی کی شادی کی دعا ضرور کی صرف اسی طرح مستقل طور پر میری زندگی سے دفع ہو سکتی تھی… نماز وغیرہ تو خیر میں پڑھتا نہیں تھا مگر اگر کبھی پڑھنے کا خیال آیا بھی تو صرف اسی ایک دعا کے لیے؟… اور مجھے پورا یقین تھا کہ میری پاکستان واپسی سے پہلے ہی اس لڑکی کی کہیں نہ کہیں شادی نہیں تو منگنی… کچھ نہ کچھ تو ہو ہی چکا ہو گا… بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا… تین سال کے بعد Canada سے واپسی پر رات سوپ پیتے ہوئے بے اختیار مجھے اس وقت پر اچھو لگا جب ممی نے کہا۔
”بس اب تم آ گئے ہو میں سعیدہ کے پاس جاتی ہوں اس کی بیٹی کے لیے تمہارا پرپوزل لے کر۔” میں نے بے اختیار دانت پیسے آخر پورا پاکستان مر گیا تھا میرے پیچھے کہ کسی نے اس لڑکی کے لیے پروپزل ہی نہیں بھجوایا اور وہ میرے لیے ہی بیٹھی ہے۔
”ممی کم از کم فی الحال تو میری شادی کی بات نہ کریں ابھی تو میری فلائٹ کو پاکستان آئے ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا۔” پاپا بھی میز پر تھے اور مجھے اپنی تین سال پہلے کی حماقت یاد تھی اس لیے میں نے حتی المقدور اپنے لہجے میں شیرینی بھرتے ہوئے ممی سے کہا۔
”ہاں ابھی تو اسے آرام سے کھانا کھانے دو… تم عورتوں کو بھی ہر وقت شادی بیاہ ہی کی پڑی ہوتی ہے۔” پاپا نے ہلکی سی خفگی کے ساتھ ممی سے کہا۔ ممی اس وقت خاموش ہو گئیں۔
مگر پچھلے تین ماہ میں اس ایک رات کے علاوہ ہر دن اور ہر رات انھوں نے کوئی 3313 مرتبہ سعیدہ آنٹی کی اس بیٹی کی حیا، پارسائی، شرافت، خوبصورتی، سگھڑاپے، سلیقے، طریقے، لحاظ، مروّت، اخلاق، نرم خوئی اور صوم و صلوٰة کی پابندی کا ذکر کیا ہوگا… اور 3313 بار ہی میرا دل ڈوبا… میں نے کب چاہا تھا کہ مجھے ان خوبیوں کا مرقع ٹائپ کی بیوی ملے۔ مجھے ایک ایسی بیوی کی خواہش تھی جو میرے ساتھ چلتی پھرتی اچھی لگے میں اسے لے کر پارٹیز میں جا سکوں جو اس طرح کا لباس پہنے اور اس طریقے سے رہے جیسا میں چاہتا تھا… اور ممی جس طرح کی لڑکی کو اپنی بہو بنانے کے خواب دیکھ رہی تھیں مجھے ایسی لڑکیوں سے ویسے ہی چڑ تھی۔
”صوم و صلوٰة کی پابند” لڑکی کو بیوی بنا کر گھر لانے کا مطلب تھا کہ میں ممی کے ساتھ ساتھ ایک اور نصیحت کرنے والی لے آتا… جو سرتاج کہہ کہہ کر میرا سر کھا جاتی… مجھے ”موت کا منظر” اور ”قبر میں کیا ہوگا” جیسی کتابوں سے حوالے دے دے کر ہولاتی رہتی۔
……***……
”تم آج کل کیا کر رہے ہو؟” پاکستان واپس آنے کے بعد اس دن میں اپنے کچھ پرانے دوستوں کے ساتھ ایک گیٹ ٹو گیدر میں تھا۔ جب میرے ایک دوست نے میرے پاس آ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”چند دنوں تک ایک ملٹی نیشنل کمپنی کو جوائن کر رہا ہوں پھر بس ساری فرصت ختم۔” میں نے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے سپ لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں میں تمہاری جاب کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں۔” اس دوست نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”پھر؟” میں نے سپ لیتے ہوئے رُک کر قدرے حیرانگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”پھر یہ کہ میں پوچھ رہا ہوں کہ شادی وادی کا ارادہ کب تک ہے؟” اس دوست نے مسکراتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا۔
”کوئی نئی گرل فرینڈ… کوئی نیا افیئر… تم تو لڑکیوں کے بغیر چار دن نہیں رہ سکتے۔” وہ اب طنز کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں ایک بار پھر اسی سیاہ لباس والی لڑکی کا تصور آیا… اور یہ ان چند دنوں میں بار بار ہو رہا تھا… کوئی بھی لڑکی کا ذکر کرتا اور میرے ذہن میں ایک جھماکے کے ساتھ وہ آ جاتی۔ یوں جیسے دنیا میں بس ایک ہی لڑکی رہ گئی ہو۔ ایک گہرا سانس لے کر میں نے اپنے دوست سے کہا۔
”نہیں فی الحال تو کوئی گرل فرینڈ ہے نہ ہی کوئی افیئر۔”
”اگر ایسی صورت حال خوش قسمتی سے پیدا ہو ہی گئی ہے تو پھر میری مانو تو شادی کر لو۔” اس دوست نے بظاہر بڑی سنجیدگی سے مجھے مشورہ دیا۔
”کیا تم نے کرلی ہے؟” میں نے ہلکی سی ناراضگی کے ساتھ اس سے کہا۔ اس نے جواباً اپنا ہاتھ میرے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔
”کر لوں گا… منگنی ہو چکی ہے میری۔” ”مبارک ہو۔” میں نے اس سے ہاتھ ملایا۔
”اور اسی لیے اب تم دوسروں کی آزادی ختم کرنے کے درپے ہو۔” میں نے شوخی سے کہا۔
”مشورہ دے رہا ہوں یار… شادی کرنی تو ہے تم نے کبھی نہ کبھی۔”
”ہاں کبھی نہ کبھی… مگر ابھی نہیں۔”
”ابھی کیوں نہیں؟ تم پر تو کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہے… تعلیم تمہاری ختم ہو چکی ہے… جاب مل چکی ہے… گھر اپنا ہے… پھر آخر شادی کر لینے میں کیا ہرج ہے؟” میں نے اس کی بات کاٹی۔
”تم اس وقت بالکل میری ممی کی طرح باتیں کر رہے ہو۔” میں نے ہلکی سی ناگواری کے ساتھ مشروب کا ایک اور سپ لیا۔
”آج کل ممی 24 گھنٹے اٹھتے بیٹھتے اسی قسم کی باتیں کرتی رہتی ہیں… اور اب تم بھی انھیں کی طرح بول رہے ہو۔” میں نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”وہ اگر ایسی باتیں کر رہی ہیں تو کیا غلط کر رہی ہیں… آخر شادی کرنی تو ہے تم نے… اکلوتے بیٹے ہو آنٹی کی تو ویسے بھی خواہش ہوگی کہ جلد از جلد تمہاری شادی کر دیں۔” اس نے ممی کی طرفداری کی۔
”اور پھر تمہارا ٹریک ریکارڈ بھی اسی قابل ہے کہ تمھیں جتنی جلدی ہو سکے کسی کھونٹے سے باندھ دیا جائے۔” اس کا اشارہ میرے افیئرز کی طرف تھا۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کے طنز کو نظر انداز کیا اور ایک اور سپ لیا۔
”پھر کیا طے کیا ہے؟” وہ ہنوز وہیں تھا۔
”فی الحال تو یہ طے کیا ہے کہ میں اس موضوع پر تم سے مزید کوئی بات نہیں کروں گا۔” میں نے جواباً کہا۔
”اور اپنی شادی کے بارے میں لائحہ عمل تمہاری شادی کے دوران ہی طے کروں گا… کب ہو رہی ہے تمہاری شادی؟” میں نے بات کا موضوع مہارت سے بدلا۔
……***……
”مراد تم صرف ایک بار اس لڑکی کو دیکھ تو لو۔” ممی اس دن پھر میری منتیں کر رہی تھی اور یہ چوتھا دن تھا جب میں نے لبرٹی بکس پر اس سیاہ لباس والی سفید لڑکی کو دیکھا تھا۔ اور چار دن سے میں مکمل طور پر اس کے خیالوں میں گم تھا اور پچھتاوے کا شکار بھی… آخر میں کیوں اس طرح گونگا بنا رہا… اس سے پہلے سینکڑوں لڑکیوں سے پہلی ہی ملاقات میں دوستیاں کر چکا تھا… بلکہ لڑکیوں سے گفتگو میں استاد تھا۔ پھر آخر وہاں کیا ہو گیا تھا مجھے… خوبصورت سہی مگر تھی تو لڑکی ہی پھر میں کیوں اتنا مرعوب ہو گیا تھا… اور اگر اس سے بات نہیں کر پایا تو باہر نکل کر گاڑی کا نمبر ہی نوٹ کر لیتا بعد میں نمبر کے ذریعے ہی اسے ٹریس کر لیتا اب کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک لڑکی کو کسی حوالے کے بغیر تلاش کرنا… میں چار دن سے خود کو برُی طرح ملامت کر رہا تھا اور اب ممی اُس لڑکی کے مقابل اس لڑکی کو لا کر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”دیکھو میں تمھیں شادی پر مجبور تو نہیں کر رہی صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ ایک نظر اسے دیکھ لو۔”
”اور اگر اسے دیکھنے کے بعد میں نے آپ سے کہا کہ وہ مجھے پسند نہیں آئی تو؟” میں نے یک دم کہا۔
”تو پھر میں تمھیں اس سے شادی کے لیے مجبور نہیں کروں گی۔” ممی نے جیسے مجبوراً کہا۔
”صرف یہ نہیں آپ آئندہ کسی ایسی لڑکی کو مجھے دکھانے کے لیے بھی اصرار نہیں کریں گی۔” میں نے ان کے سامنے اپنی شرط رکھی۔ وہ ہچکچائیں۔
”یہ کیا بات ہوئی؟”
”یہ جیسی بھی بات ہے آپ اسے قبول کریں تو میں سعیدہ آنٹی کے گھر جاؤں گا ورنہ نہیں۔” میں نے انھیں دو ٹوک انداز میں کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔” انھوں نے طوہاً کرہاً ہامی بھری۔ مجھے ان کے وعدے پر قطعاً یقین نہیں تھا مگر کم از کم میں اس ایک لڑکی سے چھٹکارہ پانے میں ضرور کامیاب ہو جاتا جو پچھلے تین سال سے مجھے بھوت کی طرح چمٹی ہوئی تھی۔
……***……