دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

ہماری شادی کو ایک سال ہونے والا تھا اور میں مہر کے عشق میں مکمل طور پر گرفتار ہو چکا تھا… اس کی خاموشی اب بھی ویسی ہی تھی مگر میں نے اسے اس کی عادت سمجھ لیا تھا کیونکہ میں نے اسے کسی کے ساتھ بھی کبھی ضرورت سے زیادہ بولتا نہیں دیکھا تھا پھر میں اسے عادت نہ سمجھتا تو اور کیا سمجھتا۔ مگر عادت سمجھنے کے باوجود بعض دفعہ میری خواہش ہوتی تھی کہ وہ بولے، بات کرے۔ اس طرح جیسے باقی لڑکیاں بات کرتی تھیں جیسے میری گرل فرینڈز کبھی مجھ سے بات کرتی تھیں۔ مگر اس کی خاموشی تھی کہ ختم ہی نہیں ہوتی تھی اور جب یہ ختم ہوئی تو سب کچھ ختم ہو گیا۔
اس دن صبح آفس جانے سے پہلے میں نے مہر کو رات کے کھانے پر کچھ اہتمام کرنے کے لیے کہا۔ میرا دوست مونس چار سال کے بعد پاکستان آ رہا تھا اور میری شادی کے بعد پہلی بار میرے گھر آ رہا تھا۔ ممی اور پاپا اس ویک اینڈ پر اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ اگر ممی وہاں نہ گئی ہوتیں تو میں مہر کی بجائے ممی سے کھانے پر اہتمام کی بات کرتا۔
”رات کو کتنے بجے آئیں گے آپ کے دوست؟” مہر نے مجھ سے پوچھا۔ وہ مجھے گاڑی تک چھوڑنے آئی تھی۔
”سات آٹھ بجے تک آ جائے گا… اور دیکھو تم بھی بہت اچھی طرح تیار ہونا، وہ پہلی بار تمھیں دیکھے گا… تم وہ گرین ساڑھی پہننا جو تم نے یزدانی کے ڈنر پر پہنی تھی۔” میں نے اسے ہدایات دیں۔ اس نے ہمیشہ کی طرح سر ہلا دیا۔ مجھے یاد نہیں اس نے کبھی میری کسی بات سے اختلاف کیا ہو یا انکار کیا ہو اور مجھے اس کی یہ عادت Odd لگنے کے باوجود پسند تھی۔
”مونس یہ میری بیوی مہر… اور مہر یہ مونس ہے۔” مراد نے مونس کے ساتھ میرا تعارف کروایا۔
”چار سال کے بعد یہ پاکستان آیا ہے اور آتے ہی سب سے پہلے میرے ہاں کھانا کھا رہا ہے۔”
”وہ اس لیے بھابھی کیونکہ اس نے پچھلے ایک سال میں مجھ تک آپ کی اتنی تعریفیں پہنچائی ہیں کہ مجھے آپ سے ملنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔” میں مونس کی بات پر مسکرائی۔
”ملنے کا یا صرف دیکھنے کا۔” مراد نے بے تکلفی کے ساتھ کہا مونس مجھے دیکھتے ہوئے اس جملے پر کچھ جھینپا۔
”نہیں ملنے کا… شادی کی تصویریں تو مجھے ای میل کے ذریعے بھجوائی تھیں تم نے۔”
”ہاں اور تم نے تائید کی تھی میری بات کی کہ ہاں بڑی خوبصورت بیوی ہے میری… اب ذرا ویسے دیکھ کر بتاؤ کہ اپنی اس رائے پر قائم ہو۔” مونس اس کی بات پر کچھ اور جھینپا۔





”میں سمجھتا تھا کہ تم کچھ ٹھیک ہو گئے ہو مگر تم ابھی بھی اسی طرح ہو۔” اس بار اس نے مراد سے کہا۔
”ہاں میں تو اسی طرح ہوں اور مجھ میں تو اگلے 30 سال کوئی تبدیلی نہیں آئے گی… اب میری بیوی خوبصورت ہے تو کیا میں پوچھوں نہ کہ خوبصورت ہے یا نہیں۔”
”میں کھانا لگواتی ہوں۔” اس سے پہلے کہ مونس کچھ کہتا میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور مجھے احساس ہوا کہ مونس نے یقینا میرے وہاں سے جانے پر خدا کا شکر ادا کیا ہوگا۔
”تمھارے پریکٹیکل جوکس کا اب کیا حال ہے؟” مونس نے کھانے کی میز پر مراد سے پوچھا۔
”شادی کر لی اس سے بڑا پریکٹیکل جوک کیا ہو سکتا ہے؟” مراد نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”بھابھی کو پتہ ہے تمھارے چکروں کا۔” مونس نے اچانک بڑی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”ہاں یار سب پتہ ہے… اپنی ساری گرل فرینڈز کے بارے میں بتا چکا ہوں اسے۔” مراد نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔ مونس نے بے یقینی سے مجھے دیکھا۔
”واقعی بھابھی؟” میں نے جواب نہیں دیا صرف مسکرا دی۔
”اور تمھارے پریکٹیکل جوکس… ان کے بارے میں بتایا ہے بھابھی کو۔”
”ان کے بارے میں تم بتا دو… تم کس لیے آئے ہو؟” مراد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں چپ چاپ ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی مجھے نہ مراد کے افیئرز میں دلچسپی تھی نہ اس کے پریکٹیکل جوکس میں… مگر میں ہمیشہ کی طرح چپ چاپ ایک مسکراہٹ کے ساتھ ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔
”وہ ایکسیڈنٹ والا کارنامہ سنایا تھا اپنا؟” مونس اب مراد سے کہہ رہا تھا۔
”کون سا ایکسیڈنٹ والا؟” مراد نے ماتھے پر چندبلوں کے ساتھ پوچھا۔ ”Don’t tell me… کہ تمھیں اپنا Canada جانے سے پہلے آخری کارنامہ بھول گیا ہو۔” مونس نے کچھ تنبیہی انداز میں کہا۔ مراد نے یک دم قہقہہ لگایا۔
”My God… تم کو بھی کیا یاد آ گیا… وہ Fake accident… Good gracious۔” مراد نے اپنی پلیٹ میں چکن کا ایک اور ٹکڑا رکھتے ہوئے کہا۔
”بھابھی مراد کو ہمیشہ الٹرا ماڈرن لڑکیاں اچھی لگتی تھیں… اسے پردہ کرنے والی لڑکیوں سے بڑی چڑ ہوتی تھی۔” مونس اب مجھ سے کہہ رہا تھا۔
”چڑ؟… مجھے ان سے نفرت تھی… اور مجھے جتنی نفرت تھی مونس صاحب کو اتنی ہی ہمدردی تھی ان سے۔” مراد نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
”ایک دفعہ میں رات کے وقت مونس کے گھر سے کوئی کال کرنے لگا کہ لائن کراس ہو گئی۔ دو لڑکیاں فون پر بات کر رہی تھیں ایک لڑکی لبرل تھی اور دوسری کچھ زیادہ ہی دین دار بن رہی تھی۔ وہ پہلی لڑکی کو بڑی نصیحتیں کر رہی تھی۔”
مراد کے لہجے میں تضحیک اور تحقیر تھی۔ ”بوائے فرینڈ بنانا غلط ہے یہ غلط ہے وہ غلط ہے۔ میں اور مونس کافی دیر ان کی باتیں سنتے رہے۔ مونس بڑا متاثر ہوا تھا اس دوسری لڑکی کی باتوں سے۔” مراد نے چھیڑنے والے انداز میں مونس سے کہا۔
”نہیں بھابھی یہ بات نہیں تھی۔ وہ لڑکی باتیں ٹھیک کر رہی تھی اور جو کچھ وہ دوسری لڑکی کو سمجھا رہی تھی وہ بھی ٹھیک…” مراد نے مونس کی بات مذاق اڑانے والے انداز میں کاٹی۔
”میں نے تمھیں بتایا تھا نا کہ اس زمانے میں مونس کو ایسی لڑکیوں سے بڑی عقیدت ہوا کرتی تھی… فون تو ہم نے بند کر دیا مگر ان دونوں لڑکیوں کے حوالے سے ہم دو تین گھنٹے بحث کرتے رہے… اب یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اگلے کچھ دن میں مونس کے گھر جاتا رہا اور اس مخصوص وقت پر جب بھی کال کرتا فون کی لائن کراس ہوتی اور اس وقت وہی دونوں لڑکیاں بات کر رہی ہوتیں… میں تو تنگ آ گیا اس کی نصیحتیں سن سن کر… مجھے یوں لگتا تھا جیسے دنیا میں وہی ایک پارسا ہو اور اس کا نزول ابھی کچھ دن پہلے ہی جنت سے ہوا ہو۔” مونس مراد کی بات پر ہنس پڑا۔
”میں نے ایک دن مونس سے شرط لگائی کہ یہ لڑکی جو دوسروں کو بڑی نصیحتیں کرتی پھر رہی ہے… اسے خود موقع ملے تو یہ دوسری لڑکی سے بھی بڑھ کر کارنامے کرے گی۔” خوف کی ایک سرد لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں سے گزری تھی۔ مجھے صوبیہ اور اپنی گفتگو یاد آنے لگی تھی۔ فون… وقت… دو لڑکیاں… بوائے فرینڈ… نصیحتیں… لبرل… دین دار… میں پلکیں جھپکائے بغیر مراد کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں لڑکیاں ہم نہیں ہو سکتی تھیں۔
”آپ کے شوہر کا ذہن شیطانی ذہن ہے بھابھی۔” مونس نے مجھ سے کہا۔
”ہاں اور تُو تو بڑا فرشتہ ہے۔” مراد نے کہا۔ میں بے حس و حرکت ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ ہنستے، گپیں لگاتے، کھانا کھاتے ہوئے اس قصے کو دہرا رہے تھے۔
”500 کی شرط لگائی تھی میں نے مونس کے ساتھ کہ میں تمھیں اس لڑکی کو ٹریپ کر کے دکھاتا ہوں۔”
”اور میں نے کہا نہیں 1000 کی شرط لگاؤ کیونکہ مجھے یقین تھا یہ شرط ہار جائے گا وہ لڑکی اپنی باتوں سے اتنے مضبوط کردار کی لگتی تھی۔” مونس کہہ رہا تھا۔
”اور میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ اگر اس بار یہ اس لڑکی کے ساتھ فلرٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تو پھر یہ آئندہ پردہ کرنے والی لڑکیوں کے بارے میں اپنی بکواس بند کر دے گا۔”
”ایمانداری کی بات ہے مہر کہ اگر میں اس لڑکی کو ٹریپ کرنے میں ناکام رہتا تو میں واقعی ان لڑکیوں کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ اس لڑکی سے شادی ہی کر لیتا اس کے باوجود کہ اس زمانے میں۔” مونس نے اس کی بات کاٹی۔
”ہر زمانے میں۔”
”اوکے ہر زمانے میں مجھے الٹرا ماڈرن لڑکیاں پسند تھیں لیکن وہ لڑکی اگر واقعی اتنے اچھے کردار کی ہوتی جتنی وہ اپنی باتوں سے ظاہر ہوتی تھی تو میں ضرور…” مونس نے ایک بار پھر مراد کی بات کاٹ دی۔
”ہمارے ایک دوست کا باپ ایکسچینج میں تھا مراد نے اس کے ذریعہ میرے فون کو چیک کروا کر دونوں نمبروں کو ٹریس کروا لیا… اور پھر یہ اس لڑکی کو فون کرنے لگا… کیا نام تھا مراد اس لڑکی کا؟” مونس مراد سے پوچھ رہا تھا۔
”اس لڑکی کا نام… اس کا نام…” مراد ہاتھ روک کر سوچنے لگا۔
”ہاں می می نام تھا۔” میرے کانوں میں ایک دھماکہ ہوا تھا یا پھر پگھلا ہوا سیسہ تھا جو اتارا جا رہا تھا… سامنے بیٹھا ہوا مرد کون تھا؟… کیا کہہ رہا تھا؟… کیوں کہہ رہا تھا؟
”میں نے اسے اپنا نام مومی بتایا تھا یہ مونس کا نِک نیم تھا… می می اور مومی زبردست Combination بن گیا تھا۔” مراد ہنس رہا تھا…
”وہ لڑکی چند بار کی گفتگو کے بعد ہی مجھے شادی پر مجبور کرنے لگی۔ تب میں نے پلان کیا کہ اس کو کہیں باہر بلواتے ہیں اور ہم دونوں اسے شرمندہ کریں گے۔ مگر وہ ملنے پر کسی طرح رضا مند نہیں ہو رہی تھی۔ پھر میں نے ایک دن موبائل پر فون کر کے اس پر یوں ظاہر کیا جیسے میں اپنے بائیک سے گر گیا ہوں اور شدید زخمی ہوں… میں نے اس کو مدد کے لیے آوازیں دیں… مگر وہ لڑکی آئی نہیں پھر بھی شرط میں جیت گیا تھا مونس بے چارہ تو اس کے بعد مجھ سے نظر نہیں ملا سکا۔”
”تونے دوبارہ کبھی اس لڑکی کو فون کیا؟” ”نہیں یار اس کے ایک ہفتہ بعد تو میں Canada چلا گیا تھا اور ویسے بھی میں بور ہو گیا تھا اس سارے تماشے سے…”
”کیا ہوا مہر؟… کھانا کیوں چھوڑ دیا؟” مراد نے پہلی بار مجھ پر غور کیا تھا اور میں نے بھی پہلی بار ہی مراد کو دیکھا تھا… یا مومی کو دیکھا تھا… اس کی آواز جسے میں Illusion سمجھتی رہی… وہ آواز چار سال کے بعد ایک چہرہ بن کر میرے سامنے آ گئی تھی۔
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
میں چار سال کے بعد اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کے لیے میں عشق حقیقی سے عشق مجازی پر آئی تھی۔
تیرے عشق نے ڈیرا میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالہ میں تاں آپے پیتا
میں نے جس آدمی کے لیے چار سال میں ”روح” کو ”جسم” بنا ڈالا تھا وہ میری پارسائی کو 1000 روپے کے لیے جانچ رہا تھا…
کوئی طلسم تھا جو ٹوٹا تھا مگر کہاں ٹوٹا تھا۔ ”اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جیسے خیر کو اور بے شک انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔”
میرے ہاتھ سے کانٹا چھوٹ کر پلیٹ میں گرا۔ پھر چھری… میرے ہاتھوں کی گرفت سے باقی سب کچھ چار سال پہلے چھوٹ گیا تھا۔ جس مرد کے لیے میں سب کچھ چھوڑے بیٹھی تھی اس کے لیے می می کیا تھی… کچھ نہیں… کچھ بھی تو نہیں… اسے اس کا نام بھی بہت سوچ کر یاد آیا تھا… اور میں تھی کہ مومی کے نام کو گلے کا تعویذ بنائے پھرتی تھی۔ اس نام کو جس کا اس مرد سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا…
میں اس کا ”چہرہ” دیکھ رہی تھی۔ جسے میں پہلی بار دیکھ رہی تھی… وہ انسان تھا اسے میرے ساتھ یہی کرنا تھا۔ وہ خدا نہیں تھا جو رحم کرتا… اور میں… میں نے انسان کو چاہا تھا… پا لیا تھا… اب جب پا لیا تھا… تو کیا پایا تھا… ذلت، رسوائی، سفاکی، بے رحمی…
اس نے کہا تھا ان دونوں نے مجھے وہاں اس سڑک پر اس لیے بلوایا تھا کیونکہ وہ مجھے شرمندہ کرنا چاہتے تھے… میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے… کیا وہ تب مجھے شرمندہ کرنا چاہتے تھے یا کچھ اور کرنا چاہتے تھے… جسٹ فار انجوائے منٹ یا جسٹ فار ایڈوینچر… اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جیسے خیر کو اور بے شک انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔
اور آئینہ مجھے اپنا عکس دکھا رہا تھا… میرا میک اَپ سے لتھڑا چہرہ، میرے تراشیدہ بال، میرے عریاں بازو اور سینہ ،شیفون کی مہین ساڑھی سے جھلکتا بلاؤز سے نیچے کمر اور ناف تک کا میرا جسم… میں نے بے یقینی سے اس عکس کو دیکھا یہ مہر سمیع نہیں ہو سکتی تھی۔
”اے اللہ آپ کے فضل اور مہربانیوں کی کوئی کمی نہیں، میں قدم قدم پر آپ کو احسان کرتا ہوا پاتی ہوں۔ مجھ سے آپ کی مہربانیوں کا شکر ادا نہیں ہو پاتا، میری اس کمی کو درگزر فرما مجھے ہر درد اور تکلیف سے محفوظ رکھ۔ میرے دل کے سکون اور میری خوشیوں کی حفاظت فرما۔” چار سال بعد میری ماں کی آواز کسی اسم اعظم کی طرح میرے وجود کے اندر گونجنے لگی تھی… اور چار سال بعد… ٹھیک چار سال بعد مجھے اللہ یاد آ گیا تھا وہ جو انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہوتا ہے… وہ جو اس کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے اور دونوں کو عیاں کرنے کی قدرت رکھتا ہے… وہ جس نے چار سال پہلے اس دن میرے سارے راستے مسدود کر کے مجھے گھر سے نکلنے نہیں دیا… ان دونوں کے سامنے جا کر مجھے ذلت نہیں دی اس کے باوجود کہ میں غلط رستے پر تھی، پر اس نے میرے عیب کو ڈھانپ دیا، مجھ پر رحم کیا، میرے چہرے پر کالک نہیں ملی…
وہ اللہ جس نے میری زبان گنگ کر کے میرے ماں باپ کے سامنے میری عزت رکھی… اور وہ اللہ جس نے اسی شخص کو میرا مقدر بنایا جس کے لیے میں نے دعا نہیں ضد کی تھی… اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جیسے خیر کو اور بے شک انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔
چار سال کے بعد مجھے وہ اللہ یاد آیا تھا جس سے میں رحم مانگتی تھی اور وہ مجھ پر رحم کرتا تھا… اور میں چار سال کے بعد اس کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہی تھی۔
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
اور میں نے اس عشق کا اصلی چہرہ دیکھ لیا تھا جسے میں قبلہ اور کعبہ بنائے بیٹھی تھی… 1000 روپیہ… میں نے اللہ کو ایک مرد کے لیے جانچا تھا… اور اس مرد نے مجھے ایک ہزار روپے کے لیے۔ حساب برابر ہوا۔
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
میں نے ساڑھی کے پلو کے ساتھ اپنے عریاں جسم کو ڈھانپنے کی کوشش کی… میں ناکام رہی… شیفون کی ساڑھی برہنہ جسم کو ڈھانپ لیتی مگر میری تو روح عریاں ہو رہی تھی۔
”اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جیسے خیر کو اور بے شک انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔” ہاں میں نے چار سال پہلے راتوں کو جاگ کر تہجد میں اپنے لیے شر ہی لیا تھا۔ وہ شر جس سے اللہ نے مجھے بچا لیا تھا مگر میری ضد تھی کہ مجھے ”وہ” ملے… ”وہ” ہی ملے… تو پھر اس نے مجھے ”وہ” دے دیا تھا۔ آخر مجھے اللہ سے مانگنا آتا تھا میری دعا کیسے قبول نہ کرتا…
میں چار سال پہلے کی مہر سمیع ہوتی اور مومی میری زندگی میں نہ آیا ہوتا تو میں مراد جیسے شخص کو اپنی زندگی کا ساتھی کبھی نہ بناتی۔ سطحی ذہنیت کا وہ خوبصورت مرد۔ وہ آدمی نہیں تھا جس کے ساتھ میں اپنی زندگی گزارنا چاہتی تھی… اسے اللہ نے میرے مقدر میں لکھا بھی نہیں تھا مگر میں نے ضد کی تھی، دعا سے اپنا مقدر بدلا تھا… اور اس بدلے ہوئے مقدر کو دیکھ کر اب مجھے خوف آ رہا تھا۔ میں کیسے اس آدمی کے ساتھ رہوں گی جسے میں نے خود لیا تھا۔
میرا دل چاہا میں اس گھر سے بھاگ جاؤں، دنیا سے بھاگ جاؤں… وہاں اب میرے لیے کچھ نہیں رہا تھا… چند منٹ لگے تھے مجھے اپنے کمرے سے کار کی چابی اٹھاتے اپنا موبائل لیتے… میں نے اس گھر پر آخری نظر بھی نہیں ڈالی… میں نے اس گھر کے لیے بہت بڑی قیمت ادا کی تھی۔
……***……
”مجھے پتہ نہیں تھا بھابھی کو یہ سب کچھ اتنا برُا لگے گا، تمھیں چاہیے تھا مجھے روک دیتے۔” مونس نے معذرت خواہانہ انداز میں مہر کے ڈائننگ روم سے نکلنے کے بعد مجھ سے کہا۔ میں خود بھی تب تک تشویش میں مبتلا ہو چکا تھا۔ وہ کبھی اس طرح ناراض نہیں ہوتی تھی بلکہ ایک سال میں وہ کبھی مجھ سے ناراض ہوئی ہی نہیں تھی اور میں نے کوئی پہلی بار تو اس کے سامنے گرل فرینڈز کا ذکر نہیں کیا تھا، میں اکثر کرتا تھا اور وہ صرف مسکراہٹ کے ساتھ سب کچھ سن لیتی تھی پھر اب کیا ہوا تھا؟
”تم جاؤ… بھابھی کو منا کر لاؤ۔” مونس نے مجھ سے کہا۔
”میں بھی ان سے ایکسکیوز کر لوں گا۔”
”ہاں مجھے لگتا ہے یہی کرنا پڑے گا، تم کھانا کھاؤ میں اسے لے کر آتا ہوں۔” میں اپنی کرسی چھوڑتے ہوئے باہر لاؤنج میں نکل آیا اور تبھی میں نے باہر گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز سنی… میں ہکّا بکّا رہ گیا۔ کیا وہ گھر سے باہر جا رہی تھی؟… اس وقت؟… اور وہ بھی اتنی معمولی سی بات پر ناراض ہو کر؟… میں تقریباً بھاگتا ہوا باہر پورچ میں آیا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی اس کی گاڑی گیٹ سے باہر نکل چکی تھی اور چوکیدار گیٹ بند کر رہا تھا۔
میری تشویش میں اور اضافہ ہوا… آخر وہ اس طرح گئی کہاں تھی؟
لاؤنج میں واپس آ کر میں نے فون اٹھا کر اس کے موبائل پر کال کی۔ مجھے امید تھی موبائل اس کے پاس ہی ہوگا۔ مگر مجھے خدشہ تھا کہ وہ میری کال ریسیو نہیں کرے گی… میرا خدشہ ٹھیک ثابت نہیں ہوا۔ اس نے میری کال ریسیو کر لی تھی۔
”تم کہاں جا رہی ہو مہر؟” میں نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”میں ایک سڑک پر ہوں اور یہ سڑک میرے گھر جا رہی ہے۔” مجھے شبہ ہوا کہ اس کی آواز بھرّائی ہوئی تھی۔
”اور میں اپنے گھر سے دوبارہ کبھی تمھارے گھر نہیں آؤں گی۔”
”آئی ایم سوری مہر مجھے تم سے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی… مگر اتنی ناراضگی…” اس نے میری بات کاٹ دی۔
”میں نے اپنی زندگی کے چار سال جس شخص کی موت کے سوگ میں گزار دیے اس کے نزدیک میں صرف ایک پریکٹیکل جوک تھی۔ ایک Bet… بس۔” وہ اب رو رہی تھی۔ مجھے اس کی بات کی سمجھ نہیں آئی۔
”کیا حق پہنچتا تھا تمھیں کسی کی پارسائی کو Judge کرنے کا؟… تم کیا خدا تھے؟”
”مہر…” میں نے کچھ کہنا چاہا۔
”میں نے ایک غلطی کی اور تم نے مجھے دوزخ میں پھینک دیا… میں نے ایک گناہ کیا تھا مگر میں برُی لڑکی تو نہیں بن گئی تھی… مگر تم نے پوری دنیا کی کالک میرے چہرے پر مل دی۔”
”تم کیا کہہ رہی ہو مہر؟” میں تقریباً چلاّ اٹھا۔
”می می… مہر نہیں… می می۔” وہ بلکتے ہوئے کہہ رہی تھی اور مجھے جیسے غش آ گیا۔ می می… تو کیا وہ می می تھی… وہی لڑکی… اوہ میرے خدا۔
”ایک بھول… صرف ایک بھول ہوئی تھی مجھ سے اور تم نے مجھے وہ بھی نہیں بخشی… اللہ تو کیا کچھ نہیں معاف کر دیتا… میں نے تمہارے لیے اللہ کو چھوڑ دیا Made a wrong choice… I preferred you…” وہ اب ہذیانی انداز میں کہہ رہی تھی اور میں کچھ بولنے کے قابل نہیں تھا… تب مجھے شرمندگی نہیں تھی صرف شاک لگا تھا…
”ہم سب انسان ہیں… ہم سب سے غلطیاں ہو جاتی ہیں… پھر تم نے میری غلطی پر میری ذات کو چوراہے میں تماشہ بنا کر کیوں رکھ دینا چاہا۔”
”مہر تم واپس آؤ… ہم دونوں بیٹھ کر بات کرتے ہیں… تمھیں مجھ سے جو بھی کہنا ہے گھر آ کر کہو… میرے سامنے۔” میں نے بالآخر اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”مجھے تم سے گھن آتی ہے مراد… مجھے تو اپنے آپ سے بھی گھن آتی ہے… میں… میں تو کسی کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی… نہ تم کو… نہ اللہ… کسی کو بھی نہیں… میں تو اب دوبارہ اللہ کے سامنے تک جانے کے قابل نہیں رہی… میں تو اس سے معافی تک نہیں مانگ سکتی… میں تو اس قابل ہی نہیں رہی کہ…” اس کی باتوں میں بے ربطگی تھی۔ یوں جیسے اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا تھا… ورنہ اللہ… وہ اللہ کی بات کب کرتی تھی… میرے اور اس کے بیچ اللہ کب آیا تھا…؟ کبھی بھی نہیں۔
”تم کہاں ہو؟” میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔ اس نے کچھ نہیں کہا… وہ صرف بچوں کی طرح بلک بلک کر روتی رہی۔
”مہر… مہر… میری جان…” میں کچھ اور نہیں کہہ سکا۔ میں نے ایک زور دار دھماکہ سنا اور پھر مہر کی چیخ اور پھر خاموشی… اور میں فون کا ریسیور ہاتھ میں لیے پاگلوں کی طرح چیختا گیا تھا۔ دوسری طرف شور تھا۔ آوازیں تھیں، بہت سی آوازیں صرف ”ایک آواز” نہیں تھی۔ میں نے اس رات ”دنیا” کو سناٹے میں اترتا پایا۔ بس ایک میں تھا۔ جو چیخ رہا تھا، چلا رہا تھا۔
اور اس لمحے زندگی میں پہلی بار مجھے اللہ یاد آیا۔

**…ختم شد…**




Loading

Read Previous

دربارِدل — قسط نمبر ۱

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!