دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

وہ زہر ایک رات پہلے تاجور اور ماہ نور نے شگن کے لڈوؤں کے اُس تھال میں ملایا تھا جو موتیا کے گھر بارات والے دن بھیجا جانا تھا۔ وہ دونوں آدھی رات کو حلوائی کے بنائے ہوئے لڈوؤں میںوہ زہر ملا کر لڈو دوبارہ بناتی رہیں اور ساتھ بہت کچھ سوچتی رہیں۔
”اگر اُس نے لڈو نہ کھایا تو؟”ماہ نور کو ایک وہم ہوا۔
”شکوراں لے کر جائے گی اور اپنے ہاتھ سے کھلائے گی۔”
تاجور نے مطمئن اندازمیں کہا۔
”اور اگر لوگوں کو شک ہوگیا اور شکوراں نے بتادیا تو؟”ماہ نور کو فکر ہوئی۔
” کیا بتائے گی وہ؟ لڈوؤں کے تھال تو سارے گاؤں والوں کے لئے ہیں اور شکوراں کو یہ تھوڑی پتہ ہے کہ اس میںزہر ہے۔”
تاجور کا اطمینان برقرار تھا۔
”لوگ پھربھی شک کرسکتے ہیں۔” ماہ نور بے چین تھی۔
” کرتے رہیں۔ مر تو کوئی بھی سکتاہے اور موتیا تو ویسے بھی بیما ر ہے۔ کچھ نہیں ہوگا ماہ نور تو ایسے ہی پریشان ہورہی ہے۔”
تاجور نے اُسے تسلی دی تھی۔ پتہ نہیں ماہ نور کو تسلی ہوئی یا نہیں، پر وہ لڈّو بناتی رہی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دیساں دا راجہ
میرے بابل دا پیارا
امبڑی دے دل دا سہارا
نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا
گھوڑی چڑیا نی سیّوں گھوڑی چڑھیا
حویلی کے باہر کھڑے بینڈ باجے والے بارات کے تیار ہونے کے انتظار میںشادی بیاہ کے گانوں کی دھنیں بجارہے تھے اور بالکل اُسی وقت تاجور نے سُرخ کڑھائی والے کپڑے کے ساتھ ڈھکا ہوا لڈوؤں کا ایک تھال شکوراں کو تھماتے ہوئے کہا تھا:
” شگن کے لڈو ہیں دُلہن کے لئے۔ جاکر موتیا کو کھلا آؤ میں ابھی گاؤں میں بھی بٹوانے کے لئے بھجوارہی ہوں۔”
شکوراں نے بے حد خوشی سے تھال تھاما تھا اور پھر ہنستے ہوئے کہا تھا:
”چوہدرائن جی! جوڑا لوں گی شگن کے لڈّو دلہن کو کھلانے کے لئے۔”
تاجور اُس کی بات پر ہنسی۔
” ایک نہیں دو جوڑے لے لینا۔ ایک اپنا اور ایک بتول کا۔ پر اپنے ہاتھ سے کھلا کر آنا موتیا کو پورا لڈّو۔”
شکوراں نے سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
” جی جی! اپنے ہاتھ سے ہی کھلاؤں گی!”
وہ کہتے ہوئے تاجور کے کمرے سے نکل آئی تھی اور نکلتے ہوئے اُس کو عجیب سا وسوسہ آیا۔ وہ تھال تاجور نے اُسے کمرے میں کیوں دیا تھا جب کہ باقی سارے لڈّو تو حویلی کے باورچی خانے میں پڑے ہوئے تھے۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب شکوراں کو وہ زہر بھی یاد آیا اور تاجور کی وہ تاکید بھی کہ وہ اپنے ہاتھ سے لڈّو موتیا کو کھلا کر آئے۔
اُس کا دل پتے کی طرح کانپا تھا۔بے اختیار وہ باورچی خانے کی طرف آئی تھی۔ وہاں بہت سارے تھال تھے لڈوؤں کے۔ شکوراں نے وہ تھال وہاں رکھ کر اُس کا کپڑا اُٹھا کر ایک دوسرے تھال پر ڈالا اور تھا ل اُٹھا لیا۔
اُس کا دل یک دم مطمئن ہوا تھا۔
”میں خوامخواہ ہی غلط سوچ رہی تھی۔ چوہدرائن جی! کبھی ایسا نہیں کرسکتیں۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو کم از کم میرے تھال کے لڈو میں تو زہر نہیں ہوگا موتیا کے لئے۔”
”سُن شیلو! یہ تھال رکھا ہے میں نے لڈوؤں کا۔ بلّی منہ مار گئی ہے انہیں۔ ذرا باہر پھنکوادینا۔”
اُس نے اندر آتی ہوئی شیلو سے کہا اور خود باہر نکل آئی۔شکوراں کو یقین تھا کہ چوہدرائن پر وہ خوامخواہ شک کررہی تھی، پھر بھی اُس نے اپنی طرف سے ساری احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں۔ پر ایک چیز قسمت ہوتی ہے اور ایک چیز بدقسمتی، اور حویلی میں اُس دن بدقسمتی کا راج تھا۔ اُس راج کو شکوراں کیسے توڑسکتی تھی؟ شیلو نے شکوراں کی ہدایت سُن کر ہاں بھی کہہ دی تھی مگر اُس پر عمل نہیں کیا تھا۔ وہ اس وقت لڈو بانٹنے کے لئے لڈوؤں کے تھال لینے آئی ہوئی تھی نہ کہ لڈو پھینکنے کے لئے۔ وہ دوبارہ باورچی خانہ میں آئی تھی تو وہ شکوراں کی ہدایت بھی بھول چکی تھی اور یہ بھی کہ لڈوؤں کے کس تھال کو شکوراں نے پھینکنے کا کہا تھا۔
…٭…
تاجور دُلہا بنے مراد کو دیکھ کر اُس سے نظریں ہی نہیں ہٹا سکی۔ وہ روپ اُس پر تب بھی آیا تھا جب وہ ماہ نور کو بیاہنے گیا تھا،مگر آج تو کوئی اور ہی روپ آیا ہوا تھا اُس پر۔
” اس طرح کیوں دیکھ رہی ہیں مجھے؟ کیا پیارا نہیں لگ رہا؟”
مراد نے مسکراتے ہوئے ماں سے کہا تھا۔
”تُو تو ماں کی آنکھوں کا تارہ ہے۔ تو کیوں پیارا نہیں لگے گا۔ اللہ نظرِ بد سے بچائے تجھے۔”
تاجور نے اپنی آنکھ سے انگلی سے تھوڑا سا کاجل نکال کر اُس کے ماتھے کے ایک کونے پر لگایا تھا اور اُس سے نظریں ہٹا لی تھیں۔ وہ سفیدکپڑوں میں ملبوس ماں اور باپ کے ساتھ چلتے ہوئے صحن میں آیا تھا۔ جہاں وہ کُرسی رکھی ہوئی تھی جس پر بیٹھ کر اُ س نے ماں سے سہرا بندھوانا تھا۔ اوپر ی منزل کے چھجے سے ماہ نور نے مراد کو دیکھا تھا اور اُس کے دل سے ہوک اُٹھی تھی۔ وہ شہزادہ اُس کا تھااور کسی اور کو بیاہنے جارہا تھا اور وہ اُس شہزادی کی موت کا انتظار کررہی تھی جسے اس حویلی کی ملکہ بن کر آنا تھا۔
کُرسی پر بٹھا کر سہرابندی کی رسم شروع کرنے سے پہلے چوہدری شجاع نے ملازم کو مٹھائی لانے کے لئے کہا تھا اور ملازم چند منٹوں میں لڈّوؤں کا وہی تھال لے آیا تھا جو تاجور نے شکوراں کو موتیا کے گھر لے جانے کے لئے دیا تھا۔
” پہلے منہ میٹھا کروا دو بیٹے کا ، پھر ہار پھول پہناتے ہیں۔”
چوہدری صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ تاجور نے بسم اللہ پڑھتے ہوئے تھال میں سے ایک لڈّو اُٹھایا اور لڈّو اُٹھاتے ہوئے وہ تھال دیکھ کر اُلجھی تھی۔ اُسے لگا تھا کہ وہ وہی تھال تھا جو اُس نے شکوراں کو دیا تھا کیونکہ وہ لڈّو اُس نے او ر ماہ نور نے کچھ مختلف طریقے سے بنائے اور سجائے تھے اور پھر خاص ترتیب سے چاندی کے ورق لگا کر اُنہیں تھال میں رکھا تھا۔ لیکن پھر اُسے لگا کہ اُسے وہم ہورہا تھا۔ وہ تھال تو کتنی دیر پہلے شکوراں لے کر جاچکی تھی۔ اپنے سامنے اُس نے اُسے حویلی کے دروازے سے تھال سمیت نکلتے ہوئے دیکھا تھا اور اب تک تو وہ یقیناً موتیا کو لڈّو کھلا چکی ہوگی اور کسی بھی وقت وہاں موتیا کی موت کی خبر آنے والی تھی۔
اپنے وہم کو سر سے جھٹک کر اُس نے لڈّو اُٹھاکر تھا اور مراد کے منہ میں رکھا تھا جو وہ ہنستے ہوئے سارا ہی کھاگیا تھا۔ تاجور نے بھی ہنستے ہوئے اُسے لڈّو کھانے دیا تھا۔ لڈّو کھاتے کھاتے اُس نے مراد کے چہرے کے تاثرات بدلتے دیکھے تھے۔ وہ اپنا گلا پکڑرہا تھا، یوں جیسے وہ لڈّو اُس کے حلق میں اٹک گیا ہو۔ تاجور نے عجیب سی کیفیت میں اُسے دیکھا تھا اور پھر اُسی لمحہ حویلی کے صحن میں داخل ہوتی ہوئی شکوراں کو جو بڑے اطمینان سے آرہی تھی۔
کسی نے تاجور کے کلیجے پر ہاتھ ڈالا تھا۔ وہ چیخی تھی:
”مراد لڈّو تھوک دے! مت نگل!”
اُسے دیر ہوچکی تھی۔ مراد اپنا گلا پکڑتے ہوئے فرش پر گرا تھا اور کچھ بھی کہے بغیر تڑپنے لگا تھا۔ اوپر چھجے میں بیٹھی ماہ نور چیخ مار کر نیچے کی طرف دوڑی تھی۔
”سانس لے مراد سانس لے!”
تاجور روتے اور چلّاتے ہوئے اُس سے کہہ رہی تھی۔ وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ چوہدری شجاع چلّار ہاتھا۔حویلی کے ملازم بھاگ رہے تھے۔ کوئی پانی پکڑرہا تھا، کوئی ڈاکٹر اور حکیم کو بلانے بھاگا۔کوئی گاڑی حویلی کے صحن میں لانے کے لئے اور اِن سب کے بیچوں بیچ شکوراں نے کسی ملازم سے سُنا تھا۔
” چوہدری مراد نے لڈّو کھایا ہے اور کچھ ہوگیا ہے اُنہیں۔”
شکوراں بھاگتی ہوئی تاجور، ماہ نور اور چوہدری شجاع کے پاس آئی تھی۔ مراد ساکت اب تاجور کی گود میں سر رکھے ہوا تھا۔ اُس کے ہونٹوں سے خون اور جھاگ نکل رہے تھے۔ تاجور اور ماہ نور چیخیں ماررہی تھیں اور چوہدری شجاع دھاڑیں مار مار کر رورہا تھا۔
”پھوپھو آپ نے موتیا کو زہر والے لڈّو کھلانے تھے۔ آپ نے میرے ہاتھوں سے میرے ہی شوہر کے لئے زہر والے لڈّو بناکر اُسے کھلادیئے۔”
ماہ نور چیختی ہوئی تاجور سے کہہ رہی تھی اور وہاں کھڑے ہر شخص کو چند لمحوں میں ہی پتہ چل گیا کہ وہاں کیا ہوا تھا۔
تاجور یک دم جیسے تماشا بن گئی تھی۔ اُس نے اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے زہر دے کر ماردیا تھا۔وہاں کھڑے لوگ کان پکڑ کر توبہ کررہے تھے اور چوہدری شجاع اب تاجور کو قتل کردینے کے لئے لپک رہا تھا اور اُس کے ملازمین اُسے پکڑ رہے تھے۔
چوہدری مراد کی موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے گاؤں میں پھیلی تھی اور گاؤں کی عورتیں یہ خبر دینے موتیا کے گھر بھی دوڑی تھیں۔ اُس کے گھر کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا اور وہاں نہ موتیا تھی، نہ اللہ وسائی۔
اگلے چند گھنٹوں میں گاؤں کے لوگوں نے اُنہیں ہر جگہ ڈھونڈ لیا تھا۔ اُن دونوں کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ پھر گاؤں والوں نے سوچا، وہ نہر میں کود گئی ہوں گی۔ شاید مراد کی موت کا صدمہ اُن کے لئے بہت زیادہ ہوگیا تھا۔
…٭…
‘ ‘ تین سال کا تھا جب بھاگ جاتا تھا اور میں پکڑ کر لے آتی تھی۔ اب نہیں پکڑا گیا۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔”
و ہ تاجور تھی جو حویلی کے ہر کمرے میں اب مراد کو ڈھونڈتی پھرتی اپنے آپ سے کہتی رہتی تھی، یوں جیسے حویلی میں صرف مراد اور وہی تھے اور کوئی نہیں تھا۔ نہ چوہدری شجاع، نہ ماہ نور، نہ اُس کے بچے۔ بس وہ اور مراد!
کئی مہینے چوہدری شجاع نے تاجور سے بات نہیں کی تھی اور پیر ابراہیم اُسے واپس اپنے پاس لے آیا تھا۔ وہ باپ تھا! بیٹی گناہ گارسہی لیکن وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ مگر کئی مہینوں بعد اُس کی بگڑتی ذہنی کیفیت دیکھ کر وہ اُسے واپس حویلی لے آیا تھا۔ اُس کا خیال تھا ماہ نور اور بچوں کو دیکھ کر وہ بہل جائے گی پر ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ سارا دن مراد کو حویلی میں ڈھونڈتی پھرتی اور جب تھک ہارجاتی تو اپنے آپ کو کوستی۔
”جاتا جور تیرا بیڑا غرق تیرا ستیاناس! تو نے بیٹا ماردیا اپنا۔”
وہ روتی چلّاتی اور پھر آخر میں بلند آواز میں کہتی:
” میں تاجور نہیں میں موتیا ہوں مراد کی موتیا! موتیا کا مراد!”
…٭…
جھوک جیون میں اُس کے بعد کئی سال پانی نہیں برسا اور آہستہ آہستہ چرند، پرند اور انسان سب اُس بستی کو چھوڑتے گئے جس کا نام کبھی جھوک جیون تھا اور جہاں ایک گامو ماشکی ہوتا تھا جس کی مشک کے پانی سے سارے گاؤں کی پیاس بجھتی تھی۔
اور ایک اللہ وسائی تھی جس کی توتلی زبان لوگوں کے زخموں پر مرہم کا کام کرتی تھی۔
اور ایک موتیا تھی۔ مراد کی موتیا! جس کا دوبارہ کبھی کسی کو پتہ نہیں چلا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پاتال — حیا بخاری

Read Next

لالی — شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!