دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

اللہ وسائی نے بے حد خوشی اور یقین سے کہا۔ تاجور نے ایک بار پھر موتیا کو دیکھا اور وہ اُن آنکھوں کی تاب نہیں لاسکی۔ اُس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جس نے اُسے نظریں چرانے پر مجبور کردیا تھا۔
اپنے بیگ کو کھول کر اُس نے اس میں سے کچھ روپے نکالے اور موتیا کا ہاتھ پکڑنا چاہا اور اُس میں پہنا ہوا ہار دیکھا۔ اُن نوٹوں کو موتیا کے ہاتھ میں رکھنے کے لئے اُس نے موتیا کا ہاتھ کھولنا چاہا لیکن وہ نہیں کھول سکی۔ اُس نے ہاتھ مٹھی کی طرح بھینچ لیا تھا۔ تاجور نے موتیا کو دیکھا پھر اُس کی مٹھی کھولنے کے لئے جیسے جدوجہد کی اور ایک بار پھر ناکام رہی۔ وہ مشتعل ہوئی تھی۔
” ہاتھ کھولو موتیا، ہاتھ کھولو!”
اللہ وسائی جیسے تاجور کی مد د کو آئی اور اُس نے بھی موتیا کی مٹھی کھلوانی چاہی وہ بھی ناکام رہی اور اُس نے کچھ شرمندہ ہوکر تاجور کو دیکھا۔
”رہنے دو، تم رکھ لو۔” تاجور نے بے حد سردمہری سے کہا تھا اور وہ نوٹ اللہ وسائی کو پکڑادیئے تھے۔ اللہ وسائی نے ساتھ ہی اُس سے کہا:
” میںشربت لے کر آئی جی بس دو منٹ!”
تاجور کے روکتے روکتے بھی وہ وہاں سے چلی گئی تھی اور اُس کے جانے کے بعد تاجور نے ایک بار پھر موتیا کو دیکھا۔
” تجھے مراد ہی کیوں چاہیے تھا؟ کوئی اور بھی مل سکتا تھا تجھے۔ وہ دو بچوں کا باپ ہے۔ تو نے پتہ نہیں کیا جادو کیا ہے اُس پر۔ کیا پڑھ کر پھونکا ہے کہ اپنے حواس میں ہی نہیں ہے وہ۔”
تاجور یہ سب کہنے وہاں نہیں آئی تھی مگر یہ سب کہے بغیر نہیں رہ سکی۔ اُس کا خیال تھا وہ اُسے جو کچھ کہہ رہی تھی، اُس کا کوئی جواب اُسے نہیں ملے گا نہ ہی وہ اُن باتوں کو دہراپائے گی۔
موتیا اُس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اُس نے تاجور کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ کھول دیئے۔اُس کے ہاتھوں پر مہندی تھی اور مہندی میں مراد کا نام لکھا ہوا تھا۔ تاجور کی آنکھوں میں جیسے خون اُمڈ آیا تھا۔
اُس نے آگے بڑ ھ کر موتیا کا ماتھا چوما اور اُس سے کہا:
” نام ہتھیلی پر لکھ لینے سے نصیب نہیں بدلتا۔”
اندر شربت کا گلاس لاتی ہوئی اللہ وسائی نے اُس کا جملہ نہیں سُنا تھا۔ بس تاجور کو موتیا کا ماتھا چومتے دیکھا تھا اور وہ نہال ہوگئی تھی۔
” میری داڑھ میں درد ہے اللہ وسائی! یہ ٹھنڈا میٹھا شربت نہیں پی سکتی۔ تیاریاں کرنی ہیں، بس چلتی ہوں۔ موتیا کے لئے شگن کی مٹھائی بھیجوں گی اُسے ضرور کھلانا، ہمارے خاندانی لڈّو۔”
اُس نے کہا تھا اور اللہ وسائی کو ایک بار پھر گلے لگا کر وہ باہر نکل گئی تھی۔
چوہدریوں کے گھر سے جانے کے بعد سارے گاؤں کی عورتیں مبارکبادوں کے ساتھ جیسے اللہ وسائی کے گھر اُمڈ آئی تھیں۔ اللہ وسائی نے مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکرے صحن میں رکھ کر جیسے گاؤں والوں کے لئے کھول دیئے تھے۔ گاؤں کی عورتوں نے پھل اور مٹھائی کھاتے ہوئے ڈھولک پر شادی بیاہ کے گیت گانے شروع کردیئے تھے۔ وہاں جیسے عید جیسا سماں ہوگیا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

موتیا کے گھر سے حویلی تک واپسی کا سفر جیسے تاجور کے لئے قیامت کا سفر تھا۔ پورے گاؤں کے سامنے سر اور ناک نیچی کر کے موتیا کے گھر رشتے کے لئے جانا تاجورکیسے پل بھر میں بھول جاتی۔
حویلی کے اندر جاتے ہی اُس کا سامنا ماہ نور سے ہوا تھا۔ اُس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ تاجور نے آگے بڑھ کر اُس کو اپنے سینے سے لگالیا۔
”تیرا سہاگ کسی اور کا نہیں ہوگا ماہ نور! تجھے زبان دی ہے تو تاجور زبان سے نہیں پھرے گی۔”
اُس نے مدھم آواز میں ماہ نور کے کانوں میں سرگوشی نہیں کی تھی جیسے امرت گھول دیا تھا۔
” اپنا کمرہ مراد کو دے دے اور اُسے کہہ کہ وہ اُسے سجالے موتیاکے لئے۔ اُسے یقین دلا دے کہ تجھے اور مجھے کوئی اعتراض نہیں رہا اس شادی پر۔ ہم اُس کی خوشی میں راضی ہیں۔”
اُس نے ماہ نور کو الگ کرتے ہوئے اُس ہی دھیمی آواز میں کہا تھا۔ ماہ نور نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سر ہلادیا۔ تاجور اگر اُسے یہ سب کہہ رہی تھی تو یقیناً وہ کچھ ٹھان کر بیٹھی تھی اور جو وہ ٹھان کر بیٹھی تھی اُس کے کامیاب ہونے پر ماہ نور کو اندھا یقین تھا۔
ایک منصوبہ انسان کا ہوتاہے، ایک منصوبہ رحمان کا اور اگر انسان رحمان کے منصوبے کو جان سکتا تو وہ کبھی تباہی کے اُس گڑھے میں نہ گرتا جو اُس کے اپنے منصوبوں کا نتیجہ ہوتاہے۔
…٭…
” یہ تمہارا کمرہ ہے ماہ نور! یہاں موتیا کو نہیں لاؤں گا میں۔تمہاری کوئی چیز تم سے لے کر اُسے نہیں دوں گا۔”
مراد نے دوٹوک اندازمیں ماہ نور کی پیش کش کو ٹھکرادیا تھا۔ وہ کمرے کی چابی اور زیورات کی الماری کی چابی اُسے دینے آئی تھی اور وہ برہم ہوگیا تھا۔
”اس حویلی میں بہت کمرے ہیں۔ میں اُسے چند دنوں کے لئے کہیں بھی رکھ سکتاہوں۔”
”آپ کا کمرہ حویلی کا سب سے اچھا کمرہ ہے۔ آپ اُسے وہاں رکھیں۔ میں بچو ں کے ساتھ کہیں بھی رہ لوں گی۔”
ماہ نور نے اُس سے کہا تھا۔
” میں تم سے اور بچوں سے بہترین کمرہ نہیں چھینوں گا۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ”
مراد نے جواباً کہا تھا۔
” میری ماں نے مجھے موتیا سے چھین کر تمہارابنایا تھا، پر میں تم سے کچھ بھی چھین کر موتیا کو نہیں دوں گا۔”وہ کہہ رہا تھا۔
”موتیا اس حالت میں نہ ہوتی تو میں خوش ہوتا۔وہ اگر کسی دوسرے کی ہوجاتی تب بھی اگر وہ اُسے خوش رکھ سکتا۔ نہ میں ضد میں ہوں ، نہ میں محبت کا اتنا مارا ہوں کہ اُس کے بغیر نہ رہ سکوں، لیکن میں کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی ماں اور اپنے گناہ کا کفار ہ ادا کرنا چاہتاہوں۔ اُس کو اِس حال میں میں نے پہنچایا ہے، تو نکالنا بھی مجھے ہے۔”
وہ ایک بار پھر ماہ نور کو جیسے تسلّی دینے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ اُس کا بھی تھا۔
” محبت کے مارے نہیں ہیں اور اُس کے بغیر جی سکتے ہیں تو اُس سے نکاح کئے بغیر بھی اُس کی مدد کرسکتے ہیں۔”
ماہ نور نے عجیب سے لہجہ میںجیسے اُس ہی کا جملہ اُس پر پھینکا تھا۔ وہ ایک لمحے کے لئے خاموش رہا، پھر اُس نے کہا:
” تم میرے اور اُس کے تعلق کو سمجھ ہی نہیں سکتی ماہ نور۔ نہ یہ نکاح کا محتاج ہے، نہ یہ جسم کی طلب ہے۔ وہ میری روح کا حصّہ ہے۔ مرتے وقت بھی میرے ساتھ رہے گی، چاہے کہیں بھی ہو، کسی کے بھی ساتھ ہو۔ یہ تعلق میں توڑسکتا تو اُس دن ہی توڑدیتا جب میں نے اُس پر شک کرکے اُسے چھوڑا تھا پر ماہ نور میں اُس سے تعلق نہیں توڑسکا نہ توڑسکتا ہوں۔ تعلق توڑ نہ سکے انسان توپھر جوڑلینا چاہیے۔”
ماہ نور اُس مرد کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔وہ اُسے جو داستانِ امیر حمزہ سنا رہا تھا، اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ وہ مراد کی موتیا نہیں تھی، ماہ نور تھی۔ حسد کرسکتی تھی، صبر نہیں کرسکتی تھی۔ مگر وہ سامنے بیٹھے ہوئے مرد سے کوئی گِلہ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اُس نے اُسے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔ کبھی بُرا سلوک نہیں کیا تھا۔ بُرا لفظ نہیں کہا تھا۔ کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔ اور وہ اُس سے وعدہ کررہا تھا کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا، پھر بھی صبر نہیں ہورہا تھا۔
مراد نے ایک بار پھر اُسے سینے سے لگایا تھا۔ وہ اُسے تھپک رہا تھا، یقین دلارہا تھا کہ اُس سے کچھ نہیں چھنا۔ نہ تخت ، نہ سلطنت۔ بس بادشاہ اُس کا نہیں رہا۔
…٭…
”زہر لاکر دوں؟پر کس لئے چوہدرائن جی؟”
شکوراں کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ تاجور اُس سے کیا اور کیوں منگوانا چاہ رہی تھی؟
”ساری رات آوارہ کُتے بھونکتے رہتے ہیں حویلی کے اردگرد، اُن کو مارنے کے لئے چاہیے۔ تو نہیں سُنتی ساری ساری رات کتوں کا بھونکنا؟”
تاجور نے جواباً اُسے جھڑکتے ہوئے کہا تھا۔
” حکیم صاحب سے لاکر دینا ایسا زہر کہ تڑپ تڑپ کر مریں یہ سارے کتے۔ بدشگونی کررکھی ہے اُنہوں نے!”
اُس نے چند نوٹ شکوراں کو دیئے تھے اور چلی گئی تھی۔شکوراں عجیب سی کیفیت میں وہ نوٹ پکڑے کھڑی رہی، اُس کی ساری زندگی میں آج پہلی بار تاجور نے کتے مارنے کے لئے زہر منگوایا تھا، ورنہ گاؤں میں آوارہ کتے تو سالوں سے تھے اور وہ اتنا بھونکتے بھی نہیں تھے جتنا وہ کہہ رہی تھی۔
شکوراں کا جسم یک دم ٹھنڈا ٹھار پڑرہا تھا۔ کہیں یہ زہر موتیا کے لئے تو۔۔۔ وہ آگے کا سوچ ہی نہیں پائی۔ اُس نے تاجور کو زہر حکیم سے لادیا تھا پر لپکتے جھپکتے وہ گھر پہنچی تھی اور اُس نے بتول کو سارا واقعہ سنا دیا تھا اور ساتھ اپنا شک بھی۔
”تو نے کیوں لاکر دیا ہے زہر امّاں! ایک گناہ مجھ سے ہواہے میں پچھتا رہی ہوں۔ اُس سے بڑا گناہ نہ کر بیٹھنا۔”
بتول نے لرزکر اُس سے کہا تھا۔
”ہوسکتاہے بتول تو اور میں خوامخواہ وہم ہی کررہے ہوں اور چوہدرائن نے واقعی کتوں کے لئے ہی منگوایا ہو۔ انسان کو کیسے مارسکتی ہیں وہ؟”
شکوراں نے جیسے خود کو تسلی دینے والے انداز میں کہتے ہوئے بتول کو دیکھا۔
” جو کتوں کو مارسکتا ہے، وہ انسان کو بھی مارسکتا ہے امّاں! تو چوہدرائن کو نہیں جانتی، میں جانتی ہوں۔ اتنے سالوں بعد موتیا کا نصیب کھل رہاہے۔ اُس کے گھر خوشی آرہی ہے، توآنے دے امّاں۔”
بتول نے اُس سے جیسے التجا کرنے والے اندازمیں کہا تھا۔ شکوراں پچھتائی تھی۔
…٭…
ماہ نور ٹھنڈے جسم کے ساتھ تاجور کو دیکھتی ہی رہ گئی۔ جو حل وہ اُس کے سامنے رکھ رہی تھی، اُسے سُن کر ایک لمحہ کے لئے تو ماہ نور کو پسینہ ہی آگیا تھا۔
”اُسے زہر دے کر ماردیں مگر پھو پھو!”
اُس نے کچھ کہنا چاہا اور تاجور نے اُس کی بات کاٹ دی۔
” تیرے پاس اگر مگر کا راستہ ہی نہیں ہے ماہ نور۔ یا تو رحم کھالے یا اپنا گھر تڑوا لے۔”
تاجور نے کہا تھا۔
” اتنے گناہ کئے ہیں زندگی میں ایک گناہ اور سہی۔ بیٹے، شوہر اور باپ کی نظروں سے تو گر ہی گئی ہوں پہلے۔ اب اپنی نظروں میں گر کے جی نہیں سکوں گی۔ اپنی نسل کمّی کمینوں کے ساتھ نہیں ملاسکتی میں۔”
تاجور نے دوٹوک اندازمیں اعلان کیا تھا۔
” تو ساتھ آئے یا نہ آئے، میں موتیا کو زہر دو ں گی۔”
ماہ نور نے یکدم اپنا ہاتھ تاجور کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے کہا۔
” میں آپ کے ساتھ ہوں پھو پھو! ”
تاجور اُسے دیکھ کر مسکرادی تھی۔
…٭…
اپنے بیٹے کی دوسری شادی کبھی کسی ماں نے اتنی دھوم دھام سے نہیں رچائی ہوگی جتنی تاجور نے رچائی تھی۔ماہ نور اور اپنے آپ کو ہر شک سے بچانے کے لئے یہ ضروری تھا۔
تین دن پہلے تاجور نے حویلی میں ڈھولک بھی رکھوادی تھی اور چراغاں بھی کروادیا تھا اور یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے مراد بار بار سوچتا رہا کہ اُس کی ماں اُتنی بری نہیں تھی جتنا اُس نے سمجھ لیا تھا۔وہ آخری ملاقات کے بعد سے موتیا سے نہیں ملا تھا کیونکہ وہ اب مایوں بیٹھی ہوئی تھی۔
لیکن مراد کو یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ موتیا کے ساتھ آخری ملاقات کرچکاتھا۔ وہ دونوں اب دوبار ہ کبھی ملنے والے نہیں تھے۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پاتال — حیا بخاری

Read Next

لالی — شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!