دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

اللہ وسائی کو اپنا گھر دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا۔ مراد نے حویلی کے کچھ ملازم بھیجے تھے جنہوں نے دو دن میں اللہ وسائی کے گھر میں ہونے والی ساری مرمتیں کردی تھیں۔ بیرونی دروازہ مرمت ہونے کے بعد اب نئے سرے سے بند ہونے کے قابل ہوگیا تھا۔ فرش لیپا جاچکا تھا اوردر و دیوار پر سفیدی بھی ہوگئی تھی۔ جو چھوٹی موٹی مرمتیں اور ہونے والی تھیں، وہ بھی ہوچکی تھیں اور اب جیسے وہ گھر شادی والا گھر کہلانے کے قابل ہوگیا تھا۔
مراد اُن ہی مرمتوں کو دیکھنے کے لئے اللہ وسائی کے گھر ایک بار پھر آیا تھا اور اللہ وسائی نے جیسے قربان جانے والے اندازمیں اُس کا استقبال کیا تھا۔ اُسے جیسے پہلی بار صحیح معنوں میں یہ یقین آگیا تھا کہ وہ موتیا کی بارات لے کر آئے گا۔
”ابّا رشتہ مانگنے آئیں گے کل اور ساتھ موتیا کے لئے کچھ کپڑے اور زیور بھی لے کر آئیں گے۔”
مراد نے اللہ وسائی کو اطلاع دی تھی، اللہ وسائی کا چہرہ چمکنے لگا تھا۔
” زیور کپڑے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے چھوٹے چوہدری جی، وہ رشتہ مانگنے آجائیں، اتنا ہی کافی ہے۔” اللہ وسائی نے جواباً کہا تھا۔
” وہ آئیں گے اور پورے گاؤں والوں کے سامنے آئیں گے۔”
مراد نے جواباًاُس سے کہا تھا۔
”موتیا کہاں ہے؟” اُس نے اللہ وسائی سے پوچھا تھا۔
” کمرے میں سورہی ہے۔ میں جگاتی ہوں۔” اللہ وسائی نے کہا۔
” نہیں چاچی جگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بس ایک نظر اُسے دیکھنا چاہتا ہوں پھر چلاجاؤں گا۔”
مراد نے اجازت طلب نظروں سے اللہ وسائی کو دیکھا۔ اللہ وسائی نے سر ہلادیا۔
مراد اُٹھ کر اُس کمرے کی طرف چلاگیا جس طرف اللہ وسائی نے اشارہ کیا تھا۔وہ چارپائی پر کروٹ لئے ہوئے سورہی تھی۔ وہ دبے قدموں اُ س کے پاس چلاگیا۔ اُس کے سرہانے کی طر ف زمین پر پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ وہ گہری نیند میں تھی اور یہ چہرہ وہ چہرہ ہی نہیں تھا جس پر وہ پہلی نظر میں مرمٹا تھا۔ اُس چہرے پر نیند میں بھی ہزار داستانیں پڑھی اور لکھی جاسکتی تھیں اور اُن میں سے کوئی بھی داستان آنسوؤں کے بغیر نامکمل ہوتی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ اُس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اتنا قریب سے اُسے وہ چہرہ پہلی بار دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ورنہ اِس سے پہلے تو وہ ہمیشہ اُس کی آنکھوں میں ہی اُلجھ کر رہ جاتا تھا۔وہ آنکھیں اُسے کہیں اور جانے ہی نہیں دیتی تھیں۔اپنی انگلیوں کی نرم پوروں سے اُس نے موتیا کے ماتھے کو چھوا تھا، پھر اُس کے گالوں کر پھر اُس کی ٹھوڑی کو پھر اُن بالوں کو جو اُس کے چہرے کواپنے حصار میں لئے ہوئے تھے۔
وہ گہری نیند میں تھی، اُس کے لمس سے نہیں جاگی تھی۔ اپنی جیب سے مراد نے موتیا کے پھولوں کا ایک ہار نکالا تھا اور بے حد نرمی سے اُس کی کلائی میں لپیٹ دیا۔ پھر اُسی نرمی سے اُس نے اُس کاہاتھ اپنے ہونٹوں اور ماتھے سے لگایا اور اُس کے سینے پر رکھ دیا۔ وہ جتنی خاموشی سے آیا تھا،اسی خاموشی سے چلاگیا تھا اور شاید وہ اُس وقت جاگی تھی جب وہ کمرے کی دہلیز سے نکل رہا تھا۔ ادھ کھلی آنکھوں سے موتیا نے کوئی سایہ دیکھا تھا جو غائب ہوگیا تھا۔ وہ اسی طرح بستر میں لیٹی رہی۔ اُس نے خواب میں دیکھا تھا۔ مراد اُس کے کمرے میں اُس کے پاس آیا تھا اور پھر وہ اُس کے پاس بیٹھا اور اُس کی کلائی میں موتیا کا ہار پہنانے والا تھا، جب اُس کی آنکھ کھل گئی تھی اور کھلی آنکھوں کے ساتھ دروازے کے سائے کے بعد جو پہلی چیز اُس نے دیکھی تھی وہ اپنی کلائی میں بندھا موتیا کا وہ ہار تھا۔ اُس نے لیٹے لیٹے عجیب حیران نظروں سے اُس ہار کو دیکھا تھا۔
کبھی کبھی خواب اور حقیقت یوں جڑجاتے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ خواب کی زمین کہاں ختم ہوتی ہے او ر حقیقت کی دُنیا کہاں سے شروع۔
اُس نے موتیے کا وہ ہار اپنی ناک کے پاس لاکر اُسے سونگھا، پھر ہاتھوں سے اُس کے پھولوں کو چھوا اور دیکھا۔ وہ پھول موتیا کے تھے اور سفید تھے۔ وہ ہار جو مرادنے اُسے خواب میں پہنانا چاہا تھا، وہ موتیا کے پھولوں کا تھا پر اُن کا رنگ سُرخ تھا۔ خون جیسا سرخ۔
…٭…
حویلی کا برآمدہ مٹھائی کے ٹوکروں اور پھلوں کے کریٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ تاجور نے اُس سامان کو دیکھتے ہوئے اپنے چہرے کا اُڑتا ہوا رنگ چھپایا تھا۔ وہ سب کچھ چوہدری شجاع نے منگوایا تھا۔ اُس سے پوچھے اور اُسے بتائے بغیر۔ وہ برآمدے میں ایک نظر اُس سارے سامان کو دیکھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جہاں چوہدری شجاع تیار ہورہاتھا۔
”اکیلے جائیں گے؟” اپنی پگڑی کا شملہ ٹھیک کرتے ہوئے چوہدری شجاع اُس کے جملے پرحیران ہوا تھا۔
” خواہش تھی کہ تم ساتھ چلتیں۔ یہ کام تو عورتوں کا ہی ہوتاہے مگر۔۔۔”
اُس نے چوہدری شجاع کی بات کاٹ دی۔
” کیا اگر مگر چوہدری صاحب؟ میں نے بڑا سوچا ہے اور مجھے لگتاہے میں نے واقعی غلطی کی تھی۔ اب اُس غلطی کو ٹھیک کرنے کا ایک موقع مل رہا ہے،تو مجھے اُسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔”
اندر آتے ہوئے مراد نے تاجور کے اُس جملے کو اُتنی ہی بے یقینی سے سنا تھا جس بے یقینی سے شجاع نے۔ لیکن جہاں شجاع کھٹکا تھا، وہیں مراد باغ باغ ہوگیا تھا۔ اُس نے جیسے ماں کو اُس کے ایک جملے پر ہی معاف کردیا تھا۔
”امّی کو ساتھ لے کر جائیں ابّا۔”
اُس نے تاجور کو دیکھ کر باپ سے کہا تھااور تاجور نے اُسے ساتھ لگالیا تھا۔
”تیرے لئے میں کچھ بھی کرسکتی ہوں مراد، کچھ بھی!”
اُس نے مراد سے کہا تھا جو اب جوابی طور پر بڑی گرم جوشی سے ماں سے بغلگیر ہورہا تھا۔
”میں جانتا ہوں امّی! میں جانتا ہوں۔”
مراد نے جیسے ماں کی محبت سے مغلوب ہوکر کہا تھا۔
”وقت گزرگیا ہے۔ بس جلدی جلدی تیار ہوکر باہر آجا۔ میں تب تک مراد کے ساتھ سامان گاڑی میں رکھواتاہوں۔”
چوہدری شجاع نے عجلت میں باہر نکلتے ہوئے کہا۔ اُن کے جانے کے بعدمراد نے ماں سے کہا:
” ماہ نور کو کچھ دنوں کے لئے اُس کے گھر بھیج دیں۔ میں نہیں چاہتا وہ یہ سب دیکھے اور اُسے تکلیف ہو۔”
تاجور نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اُس سے کہا:
” میری بھتیجی کا دل مجھ سے بھی زیادہ بڑا ہے مراد، وہ بھی اُسی طرح ہنستے ہوئے اپنی سوکن کا استقبال کرے گی، جیسے میں کررہی ہوں۔ تُو ماہ نور کی فکر نہ کر اب۔”
تاجور نے جیسے مراد کا منہ بند کردیا تھا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا وہ ماں کی اس بات کا کیا جواب دے۔
” جوڑا نکالتی ہوں اپنا وہی والا جو پہن کر ماہ نور کا رشتہ مانگنے گئی تھی۔”
وہ بولتے ہوئے جاکر اپنی الماری کھولنے لگی تھی اور مراد کچھ نہ سمجھتے ہوئے کمرے سے نکل آیا تھا۔
…٭…
” چوہدرائن تو چھوٹے چوہدری کا رشتہ لے کر موتیا کے گھر جارہی ہیں چھوٹی چوہدرائن جی!”
ماہ نور کی ایک ملازمہ نے تقریباً تڑپتے ہوئے اُسے خبر سُنا ئی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے ماہ نور کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ پھر اُس نے اپنا چہرہ بے تاثر رکھتے ہوئے اُس سے کہا:
” جو بڑوں کی مرضی!”
ملازمہ دنگ اُس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو کھلارہی تھی اور مکمل طور پر اُس کی طرف متوجہ تھی۔
” تو جاکر کپڑے دھو بچّوں کے۔”
اُسے وہاں سے ہٹانے کے لئے اُس نے کہا تھا۔
ملازمہ وہاں سے سیدھی باورچی خانے گئی تھی جہاں شکوراں موجود تھی اور اُس نے بلند آوازمیں اُسے یہ اطلاع دی تھی۔ لہسن چھیلتی شکوراں وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔
” خبریں تو گاؤں میں بھی پھیلی ہوئی ہیں مگر چوہدرائن جی نے تو مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔”
اُس نے ماہ نور کی ملازمہ شیلو سے کہا۔
” کس منہ سے بتاتیں وہ، چوہدرائن جی تو چاہتی ہی نہیں ایسا ہو پر پتہ نہیں اب کیسے مان گئیں۔ مجھے تو چھوٹی چوہدرائن کے لئے دکھ ہورہاہے۔اُن پر ظلم ہورہاہے۔”
شیلو نے آہ بھر کر کہا اور شکوراں کے ساتھ لہسن چھیلنے بیٹھ گئی۔
” پتہ نہیں ظلم کس پر ہوا اور کس نے کیا؟ بس اللہ سب کو ہدایت دے اور سب کو معاف کردے۔”
شیلو نے شکوراں کے جملے پر جیسے بے حد حیران ہوکر اُسے دیکھا تھا۔
…٭…
تاجور نے موتیا کے گھر کے دروازے کو دیکھا تو اُسے یاد آیا تھا وہ کتنے تکبر سے مراد کی بارات اُس کے گھر کے دروازے کے باہر سے لے گئی تھی اور آج وہ وہاں کھڑی تھی، دروازہ کھلا تھا اور اللہ وسائی اُن کے استقبال کے لئے کھڑی تھی۔ پوری گلی کے دروازوں سے گاؤں کی عورتیں اور بچے باہر جھانک جھانک کر دیکھ رہے تھے۔ چوہدری کمیوں کے گھر رشتہ لینے آئے تھے۔ یہ منظر شاید وہ پہلی اور آخری بار ہی دیکھ رہے تھے۔
اللہ وسائی سے گلے ملتے ہوئے تاجور نے سوچا کہ اُس نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا کہ اُسے یہ دن دیکھنا پڑرہا تھا۔ یہ عورتیں اُس کے پیروں میں بیٹھی ہوتی تھیں اور آج وہ اُسے دنیا دکھاوے کے لئے گلے لگانے پر مجبور تھی۔
” جی آیاں نوں!”
اللہ وسائی نے اُنہیں کہا تھا ، اُس کی زبان پر کوئی گلہ آیا تھا نہ اُس کے چہرے اور آنکھوں میں نفرت چھلکی تھی۔ وہ بڑا دل کر کے چوہدریوں سے مل رہی تھی۔ جو موتیا پر ہوا تھا، وہ بھی معاف کر کے۔ جو گامو پر گزری تھی ، وہ بھی بُھلا کر۔
صحن میں پڑی چارپائیوں پر رنگدار کھیس ڈال کر اُن کے بٹھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔تاجور اور چوہدری شجاع دونوں بیٹھ گئے تھے۔
” اپنی بیٹی کو ہماری بیٹی بنادیں بہن جی!”
چوہدری شجاع نے کسی تمہید کے بغیر بیٹھتے ہی کہا تھا۔
” اس گھر میں موتیا کے لئے ہمیں بہت پہلے آنا تھا۔ یہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم نہیں آئے۔ جو بھی ہم سے ہوا، ہمیں معاف کردیں پر موتیا کو ہماری بیٹی بنادیں۔”
چوہدری شجاع کہہ رہا تھا اور تاجور کو اُس کے برابر بیٹھے لگ رہا تھا جیسے کوئی اُس کے سر پر جوتے ماررہا ہو۔ چوہدری شجاع کے الفاظ نے جیسے اُسے مجرم بنا کر وہاں بٹھادیا تھا۔
”بس چوہدری جی! اور کچھ نہ کہنا اب۔آپ دونوں خود چل کر آگئے ہمارے گھر، ہم نے سب معاف کیا۔ موتیا آپ کی بیٹی ہے۔ جب چاہے لے جائیں۔”
اللہ وسائی نے تاجور کو جیسے مزید شرمندگی سے بچالیا۔
” جاؤ تاجور! یہ زیور اور کپڑے موتیا کو دے کر آؤ۔”
چوہدری شجاع نے تاجور سے کہا اور ساتھ اُن ڈبوں کی طرف اشارہ کیا جو مراد شہر سے لے کر آیا تھا۔ تاجور نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ وسائی کو دیکھا اور پھر وہ ڈبے اٹھاتی ہوئی اندر چلی گئی۔ اللہ وسائی اُس کے پیچھے آئی تھی۔
کمرے میں موتیا اچھے سے کپڑے پہن کر بیٹھی ہوئی تھی اور تاجور کے قدموں کی آواز پر اُس نے سر اُٹھا کر اُس کو دیکھا تھا۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں اور پھر بہت دیر تک وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔ پھر تاجور نے آگے بڑھ کر وہ ڈبے اُسی چارپائی پر رکھ دیئے تھے جس پر موتیا بیٹھی ہوئی تھی اور وہ خود بھی وہیں بیٹھ گئی تھی۔
” یہ مجھے پہچانتی ہے؟”
تاجور نے موتیا کی نظروں سے جیسے گھبرا کر اللہ وسائی سے پوچھا تھا۔
” ہاں جی! سب کو پہچانتی ہے۔ اب تو بولتی بھی ہے، پر بہت تھوڑا۔ مجھے پکا یقین ہے جس رب سوہنے نے زبان لوٹائی ہے،وہ موتیا کو پہلے جیسا کردے گا۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پاتال — حیا بخاری

Read Next

لالی — شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!