دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

مٹّی سے اٹے اُس صندوق کو کھول کر اللہ وسائی نے اُس رات سالوں بعد وہ جوڑا نکالا تھا جو اُس نے موتیا کی شادی کے لئے بنایا تھااور اُسی صندوق میں موتیا کے جہیز کے سارے کپڑے تھے جو اللہ وسائی پتہ نہیں کتنے سالوں سے کاڑھتی اور اکٹھی کرتی آئی تھی۔ اُس نے و ہ لال دوپٹہ نکال کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ ایک بار پھر موتیا کے سر پر ڈالا تھا۔ موتیا ہنسی تھی۔
”امّاں!”
اُس نے کہا تھا اور اللہ وسائی جیسے نہال ہوگئی تھی۔
”ماں صدقے! ماں واری!”
موتیا کی آواز جیسے اُس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ وہ صرف چند ہی لفظ تھے جو موتیا بول رہی تھی مگر وہ چند لفظ بھی اللہ وسائی پر شادیٔ مرگ طاری کرنے کے لئے کافی تھے۔ اُس نے شام ہی کو پورے گاؤں میں میٹھے چاول بنا کر بانٹے تھے۔ گاؤں والے جیسے جوق در جوق اُس کے گھر موتیا کو دوبار ہ باتیں کرتا دیکھنے کے لئے آئے تھے پر اللہ وسائی نے موتیا کو کسی کے سامنے نہیں آنے دیا۔ وہ بُری نظر سے ڈرتی تھی۔پہلے بھی اُسے لگتا تھا موتیا کو کسی کی بُری نظر ہی لگی تھی۔ اور وہ یہ سب دوبارہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اُسے اب بھی مراد کے وعدوں پر یقین نہیں تھا۔ پر وہ پھر بھی اُس صندوق کو کھولنے سے اپنے آپ کو روک نہیں پائی تھی۔
اُس لال دوپٹّے نے آج بھی موتیا کوعجیب ہی روپ دیا تھا۔ اللہ وسائی اُس سے نظریں ہی نہیں ہٹاپائی۔ اُس نے کتنے عرصے بعد موتیا کو ہنستے دیکھا تھا۔اُسے گامو یادآیا تھا، وہ ہوتا تو۔۔۔ اُس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر جیسے اُس آہ کو روکا تھا جو اُس کے خیال پر پتہ نہیں دل کے کس حصّے سے نکلی تھی۔
موتیا اسی ہی طرح دوپٹہ اوڑھے بیٹھی تھی، اللہ وسائی اُٹھ کر چھتی پر سے وہ ڈھولک بھی اُتار لائی جو وہ موتیا کی شادی پر لائی تھی اور پھر اُسے بجا نہیں پائی۔ ڈھولک کی رسی کستے ہوئے اُ س نے موتیا کے سامنے بیٹھ کر ڈھولک بجانا شروع کیا۔
کُنڈا لگ گیا تھالی نوں
ہتھاں وچ مہندی لگ گئی
اک قسمت والی نوں
موتیا چمکتے چہرے کے ساتھ بیٹھی اللہ وسائی کا ٹپہ سنتی رہی اور پھراُس نے اٹک اٹک کر ساتھ گانا شروع کردیا تھا۔ اُس کے گانے پر اللہ وسائی نے ڈھولک کی تھاپ تیز کردی۔
اُس رات اُس گھر سے آنے والی ڈھولک کی آواز اور اللہ وسائی کا گیت آس پاس کے بہت سے گھروں میں لوگوں نے سُنا تھا۔اوراُس دن بہت سے لوگوں نے چوہدری مرادکو اُ ن کی گلی اور گھر میں آتے جاتے بھی دیکھا تھا۔ سرگوشیاں اور چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں پر اُن سرگوشیوں اور چہ مگوئیوں میں بھی موتیا اور اللہ وسائی کے لئے خوشی ہی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ رات حویلی پر بڑی بھاری تھی یا شاید یہ کہنا زیادہ آسان تھا کہ تاجور اور ماہ نور پر بھاری تھی۔ مراد تو اُس سے بھی زیادہ مشکل راتیں گزارچکاتھا۔
چوہدری شجاع نے تاجور کو کمرے میں چکر کاٹتے دیکھ کر بھی اُسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ وہ اُس کی وجہ سے بیٹے کی نظروں میں چور بن گیا تھا اور دُنیا کی نظروں میں ظالم۔تاجور کو لگا تھا موتیا نے اُس کی بساط اُس وقت اُلٹی تھی جب جیت اُس سے بال برابر دور تھی اور تاجور یہ ہضم نہیں کرپارہی تھی۔اس حویلی میں موتیا کے آنے سے بڑا غم یہ تھا کہ اُس کا اپنا باپ اُس کے بیٹے کا نکاح پڑھوا کر یہ کام کرنے والا تھا۔ تاجور نے خواہش کی تھی گامو کے ساتھ ساتھ موتیا بھی مرجاتی تو یہ سارا مسئلہ ہی ختم ہوجاتا۔ بے چین چلتے چلتے اُسے خیال آیا تھا اور اُس خیال نے اُس کے قدم روک لئے تھے۔
” ہاں موتیا بھی مرجائے تو سارا مسئلہ ہی ختم ہوجائے!”
عجیب اندازمیں اُس نے سوچا تھا ۔یہ کوئی اتنا بڑاکام تو نہیں تھا۔ ہاں یہ کوئی اتنا بڑا کام تو نہیں تھا۔ اُس نے سوئے ہوئے چوہدری شجاع کو دیکھا۔ دور کہیں گاؤں میں کتے بھونک رہے تھے اور حویلی کے اندر تاجور اُن کی آواز بغور سنتے ہوئے جیسے اپنا لائحہ عمل طے کررہی تھی۔
…٭…
وہ رات تاجور کی طرح ماہ نور پر بھی بڑی بھاری تھی۔ وہ پچھلے پہر سے شام تک کچھ کھائے پئے بغیر بچوں کو سنبھالتی مراد کا انتظار کرتی رہی جو تاجور سے ہونے والے جھگڑے کے بعد ایک بار پھر باہر چلاگیا تھا اور پھر رات کو دیر سے واپس آیا تھا۔
” کھانا کھائیں گے؟” ماہ نور نے اُس سے پوچھا تھا۔
”نہیں!”
مراد نے جواب دیا اور کپڑے بدلنے چلاگیا تھا۔ماہ نور اُس کی واپسی کا انتظارکرتی رہی۔ جب وہ غسل خانے سے باہر آگیا تو ماہ نور نے اُس سے کہا:
”آپ کے لئے پتہ نہیں کیا کیا بنایا تھا۔ پتہ ہوتا کہ آپ کھانا ہی نہیں کھائیں گے تو میں کچھ بھی نہ بناتی۔”
اُس نے عجیب سے اندازمیں اُس سے کہا تھا۔
” حویلی میں بہت کھانے والے ہیں۔ اور کوئی نہیں تو ملازم کھالیں گے۔”
مراد نے اپنی آستینیں تہہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”میں نے ملازموں کے لئے تو اتنی محنت نہیں کی تھی۔” ماہ نور نے کہا۔
مراد نے اُسے سر اُٹھا کر دیکھا پھر کچھ بھی کہے بغیر اُس کے قریب صوفہ پر آکر بیٹھ گیا۔
”ماہ نور! میں تم سے کوئی چیز نہیں چھینوں گا۔ میری ساری جائیداد تمہارے بچوں کے نام ہی رہے گی۔ میں موتیا کو اس حویلی میں بھی نہیں رکھوں گا۔ میں تمہیں تمہارے کسی حق سے بھی محروم نہیںرکھوں گا۔ میں جانتا ہوں تم سے ایک بڑی قربانی مانگ رہا ہوں لیکن میرے پاس اِس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔اُس کی اور اُس کے خاندان کی زندگی میری وجہ سے برباد ہوئی ہے۔ میرے علاوہ کوئی اور یہ تباہی نہیں روک سکتا۔”
زندگی میں پہلی بار وہ ماہ نور سے دل کی بات کررہا تھا۔ کسی غم خوار، غم گسار کی طرح وہ اُس کی باتیں سنتے ہوئے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ وہ شخص کس دوراہے پراُسے کھڑا کر کے اُس سے دل کی بات کررہا تھا۔ چند دنوں میں وہ اُس کا ہونے جارہا تھا جس کا وہ ہمیشہ سے تھا اور وہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ اس سے یہ سُن رہی تھی کہ وہ دُنیا اُسے دے کر دل کسی اور کو دے دینا چاہتا تھا اوراُس کا خیال تھا وہ دنیا لے کر راضی ہوجائے گی۔
”موتیا میں ایسا کیا ہے مُراد جو مجھ میں نہیں؟جو انگلینڈ کی کسی اور عورت میں بھی نہیں کہ آپ اُس سے وہاں بے وفائی کرلیتے۔”
اُس نے عجیب سے اندازمیں اُس سے کہا تھا۔
” میں نے اُس سے وفا کی کب ہے کہ بے وفائی کا سوچتا؟ میں تو جھوٹا اور کھوٹا ثابت ہوا پیار کے ہر امتحان میں۔”مراد نے اُسے کہا تھا۔
” یہ سب کچھ اُسے دے دیں۔ یہ ساری جائیداد اُس کے نام لگادیں اور مجھے اپنا آپ دے دیں مراد۔”
وہ بلکی تھی۔ مراد اُسے دیکھتا رہا، پھر اُس نے ماہ نور کو تھپکتے ہوئے اپنے سینے سے لگا لیا۔
”میں ایک کا مجرم ہوں۔ تم بھی گناہ گار سمجھ کر بات کروگی مجھ سے تو میں پریشان رہوں گا۔ تم مجھ سے طلاق چاہوگی ، میں تب بھی تیار ہوں۔ ساتھ رہنا چاہوگی تو بھی بڑی عزت سے رکھوں گا۔”
وہ کہتا گیا۔
”صرف عزت سے۔۔۔ محبت سے نہیں؟”
ماہ نور نے اُس کی بات کاٹی تھی، وہ عجیب سے اندازمیں ہنسا۔
” محبت مجھے کرنی نہیں آئی ماہ نور! آتی تو نہ میں موتیا پر شک کرکے اُس کے کردار پر سوال اُٹھاتا نہ تم کو اپنی زندگی میں لاتا۔”
اُس کی آوازمیں عجیب توڑپھوڑ تھی۔ ایک لمحے کے لئے ماہ نور کا دل چاہا کہ وہ اُسے خوشی خوشی موتیا کو اپنی زندگی میں لے آنے کی اجازت دے دے۔ اُسے کہے کہ وہ لے آئے اُس عورت کو اپنی زندگی میں جس سے کی جانے والی بے وفائی نے اُسے یوں توڑپھوڑ دیاتھا۔ پر وہ تاجور کی بھتیجی تھی۔ اتنی آسانی سے اُسے جھکنا اور ہار مان لینا آتا ہی نہیں تھا۔ وہ جنگ اگر اس کے لئے اُس کی پھو پھو لڑرہی تھیں تو اُسے اُن کے ساتھ کھڑے ہونا تھا، اُسے مراد کو اتنی آسانی سے موتیا کا نہیں ہونے دینا تھا کہ اس کمرے کے علاوہ اُس کے وجو د میں سے بھی موتیا کی خوشبو آنے لگے۔ اُس کے سینے سے لگی ہوئی وہ جیسے یہ فیصلہ کررہی تھی کہ اُسے وہ سب کچھ کرنا تھا جو تاجور چاہتی تھی اور جو مراد کو موتیا کا نہ ہونے دیتا۔اُسے یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ ساری عمر اپنے اس فیصلے پر پچھتانے والی تھی۔
…٭…
”اب اُس کے سامنے نہ آنا تاجور! اب اُسے کرلینے دے وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتاہے۔”
پیرابراہیم نے تاجور کے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ وہ ماہ نور کو لئے اُن کے کمرے میں آئی تھی اور سلام کر کے بیٹھی تھی۔ پر اُس کے بات شروع کرنے سے بھی پہلے پیر ابراہیم نے بات ختم کردی تھی۔ وہ اُن کی بیٹی نہ ہوتی تو وہ تاجور کی شکل دیکھنا بھی نہ چاہتے۔
” یہ پوتی ہے آپ کی، اسے دیکھیں بابا جان! اس کا گھر تڑوارہے ہیں آپ۔ اس پر ایک کمی کو بیاہ کر لانے کی اجازت دے رہے ہیں مراد کو۔”
تاجور ماہ نور کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کھینچ کر اُن کے سامنے لے کر کھڑی ہوگئی تھی۔ پیر ابراہیم نے ماہ نور کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا اور تاجور سے کہا:
” ہر بار تیری زبان سے کمّی کا لفظ تجھے میری نظروں میں چھوٹا کردیتا ہے تو سوچ تاجور تو رب کی نظروں سے کتنا گرجاتی ہوگی۔”
تاجور ایک لمحہ کے لئے ساکت ہوئی۔ بہو کے سامنے اُسے اپنے باپ کے منہ سے یہ جملہ تیر کی طرح لگا تھا۔
”رب نے اُن سے برتر بنا کر اُتارا ہے ہمیں۔ اُن کا حاکم بنایا، دانے والا بنایا۔”
وہ بے حد ناراضی سے کہتی گئی۔
”دکھا مجھے وہ کتاب جس میں لکھا ہے کہ رب نے تجھے برتر بنا کر اُتارا ہے۔ تجھے حاکم بنادیا تو تُو نے سب کو غلام سمجھ لیا۔ دانے والا بنایا ہے ناتو ایک دانہ اُگاکر دکھا جھوک جیون کے کھیتوں میں۔ ترس رہی ہے نا تو پانی کے لئے۔ شجاع کہتاہے سمجھ نہیں آتی نہر سے بھی پانی فصلوں تک نہیں پہنچتا، زمین پہلے ہی نہر کا پانی پی جاتی ہے۔ جس زمین پر لوگوں کے ساتھ دانے والے ظلم کرنا شروع کردیں، وہ بستیاں اُجڑجاتی ہیں۔ تو اب توبہ کیا کر صرف توبہ تاجور۔ تو بڑا ظلم کربیٹھی ہے اپنے آپ پر۔”
پیر ابراہیم کو تاجور نے زندگی میں پہلی بار اتنے غصّہ میں دیکھا تھا اور وہ بلند آوازمیں بات کرنا شروع ہوئے تھے تو تاجور بولنا ہی بھول گئی۔
” بس اب تو چلی جا یہاں سے، صرف شادی کی تیاری کر۔ جاکر موتیا کو کپڑے اور زیور دے کر آ۔ اُس کا قدم حویلی میں پڑے گا تو سوکھا ختم ہوجائے گا۔”
تاجور کو لگا پیر ابراہیم نے یہ سب کہہ کراُسے ماہ نور کے سامنے دو کوڑی کا کردیا تھا اور ماہ نور کو لگا تھا اُس کے دادا نے اُس کی پروا ہی نہیں کی۔ اتنی آسانی سے کسی اور کو مراد کی زندگی میں اُس کے برابر جگہ دے دی۔
وہ دونوں خاموشی سے سینے کے اندر بھانبھڑ لے کر نکلی تھیں۔
”پھو پھو! دیکھ لیا آپ نے؟ کچھ بھی نہیں کیا دادا جان نے اور اگر وہ یہ سب کہہ رہے ہیں تو میرے ابّو اور امّی نے کچھ نہیں کرنا میرے لئے۔ میں کیا کروں؟”
تاجور نے کمرے سے باہر آکر روتی ہوئی ماہ نور سے کہا:
” جب تک میں ہوں نا تیری آنکھوں میں آنسو نہ آئیں ماہ نور! نہیں آئے گی موتیا حویلی میں۔”
تاجور نے بے حد عجیب لہجہ میں جیسے دو ٹوک اندازمیں اُس سے کہا:
” بس تجھے ساتھ دینا ہے میرا۔ ”
”پھوپھو میں سب کچھ کرنے کوتیار ہوں۔ آپ بتائیں کیا کرناہے؟”
ماہ نور نے جیسے سارے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پاتال — حیا بخاری

Read Next

لالی — شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!