مراد موتیا کے گھر سے حویلی نہیں گیا تھا، وہ دوسرے گاؤں اپنے نانا پیر ابراہیم کے پاس گیا تھا اور اُس نے اُنہیں سب کچھ بتادیا تھا۔ پیر ابراہیم کی جیسے زبان شل ہوگئی تھی۔ تاجور یہ کیسے کرسکتی تھی، اتنا بڑا گناہ کرنے کے لئے اُس نے ہمت کہاں سے لی تھی۔
”نانا جان آپ کی بیٹی نے مجھے اور موتیا کو پیار کرنے کی سزا دی اور وہ سزا اتنی بھاری نہیں ہوسکتی تھی۔ آپ بتائیں میں کیا کروں؟ کس سے جاکر اپنی ماں کی شکایت کروں؟ اللہ کے سوا کس کی عدالت میں لے کر جاؤں انہیں سزا دلوانے کے لئے؟ انہوں نے موتیا پر تہمت لگائی۔ میرا دل اُس سے اُٹھا دیا۔ پھر کیا ضروری تھا کہ میری بارات اُس کے گھر کے سامنے سے گزار کر لاتیں اور اُنہیں یہ غلط فہمی ڈالتیں کہ وہ اُن کے گھر بارات لے کر آرہی ہیں۔”وہ جیسے پھٹ پڑا تھا۔
”آپ باپ ہیں اُن کے، میں آپ کے سامنے شکایت لے کر آیا ہوں اُن کی۔ آپ کی بیٹی بہت بے رحم ہیں نانا جان! بے حد بے رحم ہیں۔”
پیرابراہیم کو لگا تھا جیسے وہ یہ سب کچھ سُن کر زمین میں دھنس رہے تھے۔
” تم اُسے معاف کردو مراد! میں اُس کی طرف سے تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتاہوں۔”
پیرابراہیم نے اُس کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا تھا۔مراد نے اُن کے ہاتھ باندھنے سے پہلے ہی اُ ن کے ہاتھ کھول دیئے تھے۔
” میں معاف کر ہی دوں گا نانا جان! میں تو بیٹا ہوں، میرے پاس تو معاف کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے۔مگر وہ لوگ اُن کو کبھی معاف نہیں کریں گے جن کی بیٹی کی ایسی حالت کردی ہے انہوں نے۔”
” میں نے پہلے بھی موتیا سے معافی مانگی تھی، میں ایک بارپھر اُس کے گھر جاکر معافی مانگوں گا اُس سے مراد۔”
پیرا براہیم نے اُس سے کہا تھا اور اُس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
” نہیں نانا جان! اب معافیوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں موتیا سے شادی کرنے جارہا ہوں اس جمعے کو۔ آپ نکاح پڑھائیں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔نہیں پڑھائیں گے تو بھی میں نہیں رُکوں گا۔”
وہ جیسے اعلان کرنے والے اندازمیں اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ پیر ابراہیم اُسے دیکھتے رہے پھر اُنہوں نے کہا۔
” ٹھیک ہے مراد! جو تمہارا فیصلہ وہی میرا۔ مگر ماہ نور کو کوئی سزا مت دینا۔ اُس کے ساتھ انصاف کرنا۔”
مراد اُنہیں دیکھتا رہا پھر اُس نے کہا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
‘ ‘ میں موتیا کو اپنے پاس لندن میں رکھوں گا۔اُسے ابھی علاج کی ضرورت ہے۔ ماہ نور گاؤں میں ہی رہے گی۔آتا جاتا رہوں گا۔ کوشش کروں گا انصاف کروں، لیکن اگر نہ ہوسکا تو مجھے معاف کردیں۔ آپ لوگ ماہ نور کو میری زندگی میں نہ لاتے تو وہ خوش ہوتی آج کہیں اور۔”
وہ جیسے اپنا فیصلہ سُنا کر اُن سے مل کر وہاں سے چلاگیا تھا اور پیر ابراہیم کو سوچوں میں ڈال گیا تھا۔ اُنہیں یوں لگ رہا تھا اُن کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح میں سے آگ نکل رہی تھی۔ وہ دانے اپنی آگ اُن کے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے جیسے اُنہیں آنے والے طوفانوں سے خبردار کررہے تھے۔ کوئی چیز اُن کے دل کو مٹھی میں لے رہی تھی۔ پتہ نہیں وہ کون سی انہونی تھی جس کی خبر اُن تک آرہی تھی۔ پر کیا ہونے والا تھا وہ اُس سے بے خبر تھے۔
…٭…
” یہ تو نے کیا کیا بتول؟”
شکوراں دنگ بیٹی کا چہرہ دیکھ رہی تھی جس نے موتیا کے گھر سے آتے ہی ماں کو سب کچھ بتادیا تھا۔ یوں جیسے اپنے ضمیر سے بوجھ اُتار پھینکنے کی کوشش کی ہو۔
”امّاں سعید! کے لئے کیا جو بھی کیا۔ یہ نہیں پتہ تھا کہ موتیا پاگل ہوجائے گی۔ یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ چوہدرائن یہ سب کریں گی اُس کے ساتھ ورنہ سوچ لیتی۔”
وہ اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ شکوراں نے سینہ پیٹنے والے اندازمیں ہاتھ سینے پر مارتے ہوئے کہا۔
”اتنا بڑا گناہ کمایا! تجھے حوصلہ کیسے ہوا یہ سب کرنے کا؟”
”پیار میں مجبور ہوگئی تھی امّاں! یہ نہ کرتی تو داج نہ ملتا! داج نہ ملتا، تو سعید نہ ملتا۔”
بتول ماں سے نظریں نہیں ملاپارہی تھی۔
” تیری بچپن کی سہیلی تھی بتول! تو نے رول دیا اُسے اپنے پیار میں۔ ہائے ہائے تو نے ماں کو بھی گناہ گار کردیا اپنے ساتھ۔”
شکوراں اب اپنے گال پیٹ رہی تھی۔
”تین سال سے تڑپ رہی ہوں امّاں۔ قسم لے لے جو ایک دن بھی چین کی نیند سوئی ہوں۔ کانٹوں پر لوٹتی ہوں ہر رات ، میں نے سوچا ہی نہیں تھا موتیا اور اُس کا خاندان اِس طرح رُل جائیں گے۔ امّاں جو قسم چاہے لے لے پر میری بات کا یقین کرلے۔ میں نے نہیں سوچا تھا کہ موتیا کا یہ حال ہوجائے گا۔”
وہ روتی جارہی تھی اور کہتی جارہی تھی۔
”تو نے چوہدری مراد کے سامنے کہا ہے یہ سب کچھ۔ چوہدرائن نے کل میری گردن اُتاردینی ہے اور تیری بھی۔ میں تجھے بتارہی ہوں۔”
شکوراں بے حد پریشان تھی۔
”امّاں کاٹ دے اب وہ میری گردن مجھے پروا نہیں۔ یہ اولاد ہونے والی ہے تو مجھے اپنے گناہ کے بوجھ کا احساس ہونے لگا ہے۔ اپنے انجام سے کبھی خوف نہیں آیا، پر اس بات سے خوف آنے لگا ہے کہ کہیں میرا گناہ وبال کی صورت میری اولاد کے گلے نہ پڑجائے۔ کتنی بار میری کوکھ ہری ہوکر اُجڑی ہے۔ہر بار اُجڑنے پر مجھے موتیا یاد آئی۔ تجھے پتہ نہیں آج کتنی سُکھی ہوکر یہاں بیٹھی ہوں۔ اب چاہے کوئی پھانسی لگادے چاہے گردن کاٹ دے، پر بتول نے جھوٹ کا بوجھ نہیں اُٹھانا۔ میری اب بس ہوگئی ہے۔”
بتول عجیب تھکن زدہ اندازمیں چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی اور شکوراں بس دوپٹے کے پلّو سے اپنے آنسو صاف کرتے جارہی تھی۔ وہ اب اس حالت میں اسے اور بُرا بھلا کیا کہتی پر اُس رات شکوراں کو نیند نہیں آئی۔ اللہ وسائی کی بددعائیں اُس کے کانوں میں گونجتی رہیں اور یہ سوچ سوچ کر اُس کا کلیجہ منہ کو آتا رہا کہ یہ خود اُس کی اپنی نسل، اپنی بیٹی بتول تھی جس کے لئے وہ اُجڑجانے کی بددعائیں کررہی تھی اور جس کی اگلی نسل کا وہ خاتمہ دیکھنا چاہتی تھی۔
اُس نے اُس رات اُٹھ اُٹھ کر گھڑے سے پانی پیا تھا،پر پتہ نہیں زبان پر کانٹے بڑھتے ہی کیوں گئے تھے۔ گلا خشک کیوں ہوگیا تھا۔
…٭…
تاجور بے قراری سے حویلی کے برآمدے میں ٹہل رہی تھی۔ چوہدری شجاع اُس سے بھی زیادہ بے چین حویلی کے بڑے دروازے پر کھڑا کھڑا تھک گیا اور کچھ دیر کے لئے واپس اندر آیا۔
”چوہدری صاحب آگیا مراد؟”
چوہدری شجاع کے ساتھ مراد کو نہ دیکھنے کے باوجود تاجور پوچھے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
”نہیں ابھی تک نہیں آیا۔ مجھے تو فکر ہونے لگی ہے۔ گاڑی تو چلالیتاہے شیدا پر پتہ نہیں آج کیوں اتنی دیر کردی ہے۔ گاؤں کی سڑک بھی بڑی کچی پکی ہے۔”
وہ جیسے خود کو خود ہی تسلیاں دے رہاتھا۔
”اس سے جلدی تو وہ تانگے پر آجایا کرتا تھا چوہدری صاحب! آپ کی گاڑی تو تانگے سے بھی گئی گزری نکلی۔”
تاجور نے چوہدری شجاع کی نئے ماڈل کی کرولا کو بھی رگڑ کر رکھ دیا۔
” دیکھتا ہوں میں یا پھر بھیجتا ہوں کسی کو سٹیشن دیکھ کر تو آئے۔ کہیں ٹرین کو تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگیا۔”
چوہدری شجاع کو اچانک فکرہونے لگی اور اِس سے پہلے کہ وہ کچھ اورکہتا، باہر ہارن کی آواز آنے لگی تھی۔ تاجو ر کا چہرہ کِھل اُٹھا۔ چوہدری شجاع باہر کی طرف لپکا تھا۔ تاجور وہیں کھڑی کھڑی ماہ نور کو آوازدے کر بُلانے لگی۔
مراد ٹھیک نہیں تھا۔یہ احساس چوہدری شجاع کو مراد کو گاڑی سے نکلتے دیکھ کر ہی ہوگیا تھا۔ اُس کے چہرے پر کچھ تھا جس نے چوہدری شجاع کو عجیب سے انداز میں ہولایا تھا۔لپکتے ہوئے اُس نے مراد کو سینے سے لگایا تھا۔
”آگیا میرا پتر!تجھے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی تھیں۔”
چوہدری شجاع نے اُسے تھپکا تھا اور اُسے تھپکتے ہوئے اُسے مراد کا وجود لرزتا محسوس ہوا۔ وہ باپ کے سینے سے لپٹا ہوا یکدم رونے لگا تھا۔ اندر سامان لے کر جاتے ہوئے ملازموں نے اُسے گھر آنے کی خوشی سمجھ کر ان آنسوؤں کونظر انداز کیا تھا مگر چوہدری شجاع باپ تھا، اُس نے مراد کو پالا تھا وہ اِ ن سسکیوں میں چھپی آہوں کو سن پارہا تھا۔
”کیا ہوا مراد تو ٹھیک تو ہے پتر؟”
اُس نے اُسے اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
”ابّا میں موتیا سے مل کر آیا ہوں۔ ظلم کیا ہے آپ دونوں نے۔ کوئی کسی جیتے جاگتے انسان کے ساتھ یہ کیسے کرسکتاہے؟”
وہ اب چوہدری شجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہا تھا۔
”تجھے کسی نے غلط بتایا ہے مراد!”
چوہدری شجاع نے جیسے تاجور پر پردہ ڈالنا چاہا۔
”مجھے کسی نے کچھ غلط نہیں بتایا ابّا۔ مجھے اُس نے سب کچھ سچ سچ بتادیا ہے جس کو استعمال کر کے میری اپنی ماں نے میری نظروں میں موتیا کو بدکردار ثابت کیا تھا۔”
چوہدری شجاع کچھ نہیں سمجھا تھا۔
” تو کیا کہہ رہاہے مراد؟ تیری ماں کیوں کرے گی ایسی سازش؟”
اُس نے بیوی کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔
” انہوں نے کی ہے سازش۔ اگر آپ اس میں شریک نہیں ہیں تو جاکر پوچھیں اُن سے۔ اُنہوں نے اُس رات بتو ل کو کہہ کر اُس کے منگیتر اور موتیا کو کنویں پر اکٹھا کیوں کیا تھا اور پھر مجھے جگا کر اُن دونوں کو اکٹھا دیکھنے کیوں بھیجا تھا؟”
وہ اب قمیص کی آستین سے اپنے آنسو پونچھنے لگا تھا۔ چوہدری شجاع کو کوئی جواب نہیں سوجھا تھا۔ وہ تاجور کی طرفدار ی کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ اُس پر پردہ ڈالتے ڈالتے بھی تھک گیا تھا۔ وہ خامیوں اور عیبوں پر پردہ ڈال سکتا تھا پر اُس کے گناہوں پر کیسے پردہ ڈال سکتا تھا۔ وہ تو اللہ اور بندے کا معاملہ تھا۔
مراد رُکے بغیر اندر آیا تھا اور اُس نے تاجور اور تاجور کے پیچھے کھڑی ماہ نور کو بہ یک وقت دیکھا تھا۔ تاجور بازو پھیلائے آگے بڑھی تھی پر مراد اُس کے بازوؤں میں آنے کے بجائے چند قدم پیچھے ہٹ گیا تھا۔ تاجور کو جیسے ٹھوکر لگی اور وہ رُک گئی، وہ اُسے جس طرح دیکھ رہا تھا اُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تاجور اُس سے نظریں نہیں ملاسکی۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب وحشت تھی۔ تاجور نے عقب میں آتے چوہدری شجاع کو دیکھا۔ اُس کی آنکھیں بھی اتنی ہی کٹھور تھیں۔
”میں تیرا انتظار کررہی تھی۔ تو کدھر رہ گیا تھا؟”
تاجور نے جیسے اپنے ان احساسات کو وہم سمجھنے کی کوشش کی تھی۔
”میں اُس جہنم سے ہوکرآیا ہوں جس میں آپ نے موتیا اور اس کے گھر والوں کو پھینکا تھا امّی!”
اُس کے جملے نے تاجور کو کسی رسّی سے باندھ دیا۔ وہم کبھی کبھی بلاؤں میں بدل جاتے ہیں۔ تاجور کو بھی اس لمحے ایسا ہی لگا تھا ۔و ہ اتنے مہینے بعد آکر اُس کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور ماں کے بجائے موتیا کی بات کررہا تھا۔ ایک بار پھر موتیا! ایک بار پھر وہی۔
” یوں مت دیکھ مجھے مراد! ماں ہوں میں تیری۔”
تاجور تڑپی تھی۔ اُس کی آنکھیں برچھی بن کر اُسے کاٹ رہی تھیں۔
” اس ہی لئے تو دیکھ رہا ہوں آخر ماں ہوکر اتنا زہر کیسے اکٹھا کرلیا آپ نے اپنے اندر۔”
مراد نے کہا تھا۔ تاجور کو اپنے عقب میں کھڑی ماہ نور کے سامنے عجیب سی ہتک محسوس ہوئی جو اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔
” میں نے جو بھی کیا، تیری اور اس خاندان کی بھلائی کے لئے کیا۔”
تاجور نے لمحے لگائے تھے یہ فیصلہ کرنے میں کہ وہ کسی بات سے اب نہیں مکرے گی، کیونکہ اُن کو جو پتہ چلنا تھا چل چکا تھا۔
”کسی کو زندہ درگور کر کے کسی کو پھانسی پر چڑھادینے کو آپ بھلائی کہتی ہیں؟”
مراد نے بے حد طیش میں ماں سے کہا تھا۔ تاجور کی ڈھٹائی اور خودغرضی اُس کے بیٹے کو برہم کررہی تھی۔ کہیں نہ کہیں اُسے یہ توقع تھی کہ ماں شرمسار ہوجائے گی یہ سب کچھ سامنے آجانے پر، لیکن وہ تاجور کو نہیں جانتا تھا۔
”اتنی اونچی آواز میں بات نہ کر مجھ سے مراد! تو حویلی کے نوکروں کے سامنے میرا تماشا بنارہاہے۔”
تاجور کو اُس کے لب و لہجہ سے اب ہتک کا احساس ہونے لگا تھا۔
”آپ نے پورے گاؤں کے سامنے موتیا اور اُس کے ماں باپ کا تماشا بنایا، تب آپ کو احساس نہیں ہوا تھا کہ اُن کی بھی عزت تھی۔”
مراد نے آواز نیچی کئے بغیر کہا تھا۔ تاجور نے سُرخ چہرے کے ساتھ شوہر کو دیکھا جس کے تاثرات نے اُسے بتادیا تھا کہ وہ بیٹے کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
”کیا چاہتاہے تو یہ سب کچھ مجھے کو بتاکر؟ تو چاہتا ہے کہ میں موتیا کے گھرمعافی مانگنے جاؤں؟”
وہ بالآخر برہم اندازمیں اُس سے مخاطب ہوئی تھی۔
” نہیں! اب آپ معافی مانگنے نہیں جائیں گی۔ اب آپ وہاں میری بارات لے کر جائیں گی۔ معافی کا وقت تو کب کا گزرگیا۔”
مراد نے کہا تھا اور تاجور اور ماہ نور پر جیسے بجلی گراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔
”آپ نے سُنا چوہدری صاحب یہ کیا کہہ کر گیا ہے؟میری بھتیجی پر سوکن لائے گا۔”
تاجور چوہدری شجاع پراُلٹ پڑی تھی۔
”پیر صاحب سے اجازت لے کر آیا ہے وہ۔ وہی نکاح پڑھائیں گے موتیا اور اُس کا ۔”
چوہدری شجاع نے بے حد مختصر جواب دیا تھا اور وہ بھی رُکے بغیر وہاں سے چلاگیا تھا۔ تاجور کو جیسے اس کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اُس نے پلٹ کر جاتے ہوئے شوہر کو بے یقینی سے دیکھا تھا اور پھر برآمدے میں کھڑی زرد ہوتی ہوئی ماہ نور کو جو یوں لگتا تھا کہ اب گری کہ تب گری۔
”پھوپھو دادا ابّو یہ کیسے کرسکتے ہیں؟”
تاجور نے ماہ نور کو کہتے سنا تھا۔
”اس گھر میں تیرے علاوہ کسی کی ڈولی نہیں آئے گی ماہ نور۔ میں دیکھوں گی بابا جان بھی کیسے اُسے یہ کام کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ چوہدریوں کاشملہ اب کمیوں کی ڈوری سے بندھے گا؟”
وہ بے حد رعونت سے کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی۔
ماہ نور برآمدے کی دیوار کے ساتھ پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی تھی۔ اُس نے آج کے دن کے لئے خاص طور پر جوڑا سلوایا تھا۔ کئی گھنٹے لگاکر خود کو ایک بار پھرسجایا تھا کہ شاید آج اُس کو دیکھ کر وہ موتیا کو بھول جائے، اُس کے بچے اُسے موتیا کو بُھلا دیں۔ پر مراد نے اُسے دیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ موتیا کا نام لیتے ہوئے آیا تھا، اور موتیا کا نام لیتے ہوئے ہی چلاگیا تھا۔ اُس کی زندگی میں جیسے ماہ نور تھی ہی نہیں۔
”مجھے پتہ ہوتا پھوپھو کہ مراد کا نام ساتھ لگانے کی خواہش مجھے یہاں لے آئے گی تو میں کبھی مراد کی زندگی میں نہ آتی۔ وہ موتیا کاہوتا یا نہ ہوتا، پر کم از کم میں تو کسی قدر کرنے والے کی ساتھی ہوتی۔ آپ کی ضد نے اُن دونوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی خوار کردیا۔”
وہ جو کچھ وہاں کھڑے کھڑے سوچ رہی تھی، وہ تاجور سے کہنے کی ہمت اُس میں کبھی نہیں آسکتی تھی۔ تاجور نے کون سی سازش کی تھی؟ کیسے موتیا کو مراد سے الگ کیا تھا؟ کیسے اُسے گاؤں میں ذلیل کیا تھا؟ ماہ نور اب بھی ان ساری چیزوں کے مکمل حقائق نہیں جانتی تھی۔ اور وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اُس کی زندگی کا گڑھا اتنا گہرا ہوتا جارہا تھا کہ اُسے یہ پروا ہی نہیں تھی کہ کوئی دوسرا کتنے گہرے گڑھے میں جاگرا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});