”تو آئے گا نہیں اپنے بیٹے کو دیکھنے؟” تاجور کو یقین نہیں آیا تھا جب اُس نے فون پر مراد سے یہ سنا تھا کہ وہ پاکستان نہیں آسکتا۔
”امّی پریکٹس شروع کی ہے میں نے۔ میرے بہت سارے اہم کیسز کی سماعت ہے یکے بعد دیگرے۔ ممکن نہیں ہے میرے لئے چھٹی لے کر نکلنا۔” مراد نے وضاحت دی۔
”پہلے بیٹے کی دفعہ بھی تین مہینے کے بعد آیا تھا۔ تو اب چھے مہینے بعد بھی نہیں آسکتا؟” تاجور اب ناراض ہونے لگی تھی۔
”نہیں آسکتا۔” مراد کا جواب دو ٹوک تھا۔
”آپ ماہ نو رکو بھیج دیں دو تین مہینے بعد۔ وہ کچھ دیر رہ کر چلی جائے۔” مراد نے جیسے حل پیش کیا۔
”لوگ کیا کہیں گے مراد؟ تجھے خوشی نہیں ہے اپنے دوسرے بیٹے کی؟ حویلی کے دو دو وارث آگئے ہیں۔ اکلوتے وارث کا سلسلہ ٹوٹا ہے پہلی بار تیسری نسل میں دو وارث آگئے ہیں۔ کیسی قسمت والی بیوی ہے ماہ نور اور تو پھر بھی نہیں آسکتا۔”مراد کو تاجور کے کلمات نے جیسے بُری طرح سُلگایا تھا۔
”لوگوں کی پروا کبھی آپ نے نہیں کی تو میں کیوں کروں؟ مجھے کون سا اُن لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔”
وہ پہلا جملہ تھا جس نے تاجور کو سانپ کی طرح ڈسا تھا۔ وہ کیوں کہہ رہا تھا کہ اُسے اُن لوگوں کے پاس آکر کبھی رہنا ہی نہیں تھا۔ وہ پڑھنے باہر گیا تھا۔پڑھ کر پریکٹس کررہا تھا اور پھر تاجور اور چوہدری شجاع نے ہمیشہ ہی یہ سوچا تھا کہ وہ واپس آئے گا۔ پاس والے شہر میں اپنا لاء چیمبر بنائے گا اور ساتھ زمینیں سنبھالے گا۔ شہر اور گاؤں میں اب فاصلے کم ہونے لگے تھے۔پکّی سڑکیں بن رہی تھیں ۔ تانگوں کے ساتھ ساتھ اُن کے ہاں اب گاڑی بھی آگئی تھی۔ گاؤں میں بجلی بھی آگئی تھی اور گیس آئندہ آنے والے چند سالوں میں آجاتی، پر وہ کہہ رہا تھا کہ اُسے واپس ہی نہیں آناتھا۔
” اور جہاں تک بات ہے ماہ نو رکی، تو میں مداری کا بندر نہیں ہوں کہ ہر وقت ناچ ناچ کر ثابت کروں کہ میں بہت خوش ہوں اور مجھے واقعی بیوی بچوں سے محبت ہے۔”
اُس نے بڑی تلخی سے بات جاری رکھی تھی اور تاجور اُس کی بات کاٹ نہیں سکی۔ وہ اب اُس سے دبتی تھی۔ سوچ سمجھ کر بات کرتی تھی۔ وہ پتہ نہیں کیوں پل بھر میں بھڑک اُٹھتا، پل بھرمیں کڑوا ہوجاتا۔ وقت بھی گزررہا تھااور گزرگیا تھا۔ اگر کوئی زخم تھا تو بھر کیوں نہیں رہا تھا۔ اُس کا اگر کوئی نقصان ہوا تھاتو صبر کیوں نہیں آرہا تھا ابھی بھی اُسے۔
لوگ تو اتنے عرصے میں مرنے والوں کو بھی رو دھو کر بھول جاتے ہیں۔ تاجور سوچتی ہی گئی تھی اور اُسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ لوگ مرنے والوں کو بھولتے ہیں، پر موتیا ابھی زندہ تھی اور مراد ہر بار گاؤں آنے کا تصور کرکے ہل جاتا تھا۔ یہ جیسے اپنے آپ کو دو دھاری تلوار پر چلانے جیسا تھا۔ یادوں کی بے رحم دو دھاری تلوار جو باہر سے نہیں اُس کو اندر سے کاٹتی تھی۔ تہہ و تیغ کردیتی تھی اور وہ اپنے آپ کو بچانا چاہتا تھامگر ماں چاہتی تھی وہ نہ بچے، وہ آتا رہے اور لہولہان ہوتا رہے۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”مراد کے ابّا! آج مراد نے بڑی عجیب بات کی ہے مجھ سے۔”اُس رات تاجور نے چوہدری شجاع کے سونے سے پہلے ذکر چھیڑا تھا، وہ اپنی پگ اُتار کر رکھ رہا تھا۔
”مجھ سے تو وہ ہمیشہ ہی عجیب باتیں کرتاہے، تجھے عادت نہیں ہوئی ابھی تک؟”
چوہدری شجاع نے ہنس کرجیسے اُس کا مذاق اُڑایاتھا۔
”وہ کہتاہے اُس نے گاؤں میں نہیں رہنا۔”تاجور نے مزید تمہید باندھے بغیر کہا۔
”ہاں! تو گاؤں میں کیوں رہے گا ؟ شہر والی کوٹھی میں رہے، وہیں کرے اپنی وکالت آتا جاتا رہے گاؤں، پر یہاں بیٹھ کر کیا کرنا ہے اُس نے۔” چوہدر ی شجاع نے نیم دراز ہوتے ہوئے جیسے اُس کی بات پر غور کئے بغیر اُسے ہوا میں اُڑایا تھا۔
”وہ کہتاہے کہ اُس نے پاکستان میں ہی نہیں رہنا۔”تاجور نے جیسے اپنی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے چوہدری شجاع کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ لمحہ بھر کے لئے ساکت ہوا تھا۔
”یہ تجھے کب کہہ دیا اُس نے؟”وہ لیٹتے لیٹتے اضطرابی اندازمیں اُٹھ کر بیٹھا تھا۔
”آج ہی کہا ہے۔”
”تو نے کوئی بحث کی ہوگی، کوئی جھگڑا کیا ہوگا۔ اُس نے غصّہ میں کہہ دیا ہوگا۔”چوہدری شجاع نے جیسے مراد کی بات کی کوئی تاویل، کوئی جوازڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔
”اُس سے بحث اور جھگڑے کرنا چھوڑدیا ہے میں نے اب چوہدری صاحب! اتنا غصّہ کبھی آپ نے پوری زندگی مجھ پر نہیں کیا جتنا وہ کرتاہے۔ پر میں بتارہی ہوں آپ کو،اُس نے اب یہاں نہ رہنے کا دل بنا لیا ہے۔”تاجور نے جیسے اُسے خبردار کیا تھا۔
” میں خود بات کروں گا اُس سے،تو خوامخواہ فکریں پال کر بیٹھ جاتی ہے۔ اور ایسی باتیں فون پر نہیں ہوتیں۔ آنے دے اُسے بیٹے کو دیکھنے، میں کروں گا بات۔”
”وہ نہیں آرہا بیٹے کو دیکھنے، اُس نے کہہ دیا ہے مجھ سے کہ اُس کے پاس وقت نہیں ہے، نہ اب نہ تین مہینے بعد ، نہ چھے مہینے بعد۔” تاجو رنے اُس کی بات کو من و عن چوہدری شجاع کے سامنے دہرادیا تھا۔ وہ چپ کا چپ ہی ہوگیا۔
چوہدری مراد اکلوتا بیٹا تھا او رابھی تو خاندان میں پہلی بار دوسرا وارث آیا تھا، اور وہ کہہ رہا تھا کہ وہ آئے گا ہی نہیں۔
”سو جا تاجور! اس وقت پریشان نہ کر مجھے۔ صبح اُٹھ کر بات کرتے ہیں۔” اُس نے مزید بات کئے بغیر تاجو ر سے کہا تھا۔
تاجور نے بھی لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں تھیں مگراُس رات اُس نے چوہدری شجاع کی نیندیں اُڑادی تھیں۔ایک بارپھر اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ سب کچھ فلم کی طرح چلنے لگا تھا۔ ایک بار پھر اُسے گامو ، اللہ وسائی اور موتیا کا خیال آیا تھا۔ وہ گاؤں کا چوہدری تھا ، گاؤں میں کسی سے بھی بے خبر نہیں رہ سکتا تھا، یہ اور بات تھی کہ وہ کسی کے لئے کچھ کرپاتا یا نہ کرپاتا۔ چوہدری شجاع روز اپنے کھیتوں میں جاتے ہوئے گاموکی بھٹّی سے اُٹھتا دھواں دیکھتا جو کھیتوں کے بیچوں بیچ سے یوں ہوا میں بلند ہورہا ہوتا جیسے وہاں کسی کا دل تھا اور چوہدری شجاع آنکھیں پھیر لیتا۔ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ وقت کبھی بھی اُلٹی چال نہیں چلتا اور چلتابھی تو چوہدری شجاع تب بھی اُتنا ہی بے بس ہوتا۔
…٭…
”موتیا کیسی ہے امّاں؟”
شکوراں نے حیران ہوکر بتول کی شکل دیکھی تھی۔ وہ کئی مہینوں کے بعد اُس کے پاس رہنے آئی تھی اور شکوراں کو اُس کا رنگ روپ پہلے جیسا نہیں لگا تھا۔ کُریدنے پر بھی وہ کچھ نہیں بولی تھی او ر اُس نے یکدم موتیاکے بارے میں پوچھنا شروع کردیا تھا۔
” موتیا کیسے یاد آگئی تجھے؟ تُو تو بڑی دیر ہوگئی کبھی اُس کا پوچھتی ہی نہیں ۔ میں تو کئی دفعہ سوچتی ہوں کہ تو کیسی سہیلی ہے تجھے کبھی اُس کا خیال ہی نہیں آیا۔”شکوراں بھی آج کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
” امّاں! تجھے لگتا ہے مجھے اُس کا خیال نہیں آتا ہوگا؟ دن رات اُس کا خیال آتا ہے۔” وہ عجیب انداز میں بڑبڑانے لگی تھی۔
”ویسی ہی ہے موتیا! نہ کچھ بولتی ہے، نہ کچھ کرتی ہے۔ بس بیٹھی رہتی ہے۔ جھولی میں کچھ سکّے لے کر۔ اُنہیں رگڑتی رہتی ہے زمین پر۔ اللہ وسائی زبردستی کھانا کھلادے تو کھالیتی ہے، ورنہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں۔ کوئی ڈاکٹر، حکیم، پیر نہیں چھوڑا اُن دونوں نے جہاں لے لے کر نہیں پھرے۔ کہیں سے کوئی فائدہ نہیںہوا۔ پتہ نہیں دل کو کتنا روگ لگا ہے کہ دماغ کا یہ حال ہوگیا ہے۔ میں تو کہتی ہوں نظر ہی لگ گئی ہے موتیا کو تو۔ایسا روپ تو سات گاؤں میں کسی کا نہیں تھا۔ اس پورے علاقے میں پہلی لڑکی تھی جو ڈاکٹر بن رہی تھی۔ بس چوہدرائن نے بڑا ظلم کیا۔ اللہ وسائی تو منہ بھر بھر کر بددعا دیتی ہے اُسے اُجڑنے او ر برباد ہونے کی جس نے موتیا کے ساتھ یہ ظلم کیا۔”
شکوراں اپنی بیٹی کے تاثرات سے بے خبر اُسے موتیا کے بارے میں اطلاع دے رہی تھی اور بتول کا رنگ اُڑرہا تھا۔
” اللہ وسائی تتلاتی ہے اور زبان کالی ہے اُس کی۔ بڑ ے بوڑھے بڑا ڈرتے ہیں اِن لوگوں کی آہ لینے سے۔ وہ جب کہتی ہے نا کہ جو کچھ موتیا کے ساتھ ہوا، وہ اُس کے ساتھ بُرا کرنے والوں کی اولادوں کے ساتھ ہو، اُن کی بیٹیاں اُجڑیں، روئیں، بیٹے مریں، نسل ہی ختم ہوجائے۔”
بتول کے کلیجے پر جیسے کسی نے ہاتھ ہی ڈال دیا تھا۔
” بس کر امّاں! نہ سُنا مجھے یہ ساری باتیں۔” وہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی او ر عجیب بے چینی کے عالم میں ادھر سے اُدھر پھرنے لگی تھی۔
”لے تجھے کیا ہوا بتول؟تو کیوں پریشان ہورہی ہے؟ یہ سب کچھ تو چوہدرائن او راُس کے بیٹے کی اولادوں کے لئے کہہ رہی ہے وہ تجھے تھوڑی کچھ کہہ رہی ہے۔”شکوراں نے کچھ حیران ہوکر بیٹی کو دیکھا تھا جو اُسے ہی دیکھتی جارہی تھی۔
اولاد اپنے بعض گناہ اللہ کوبتاسکتی ہے، ماں باپ کو نہیں بتاسکتی کیونکہ وہ یہ یقین ہی نہیں کرسکتے کہ اُس خودغرضی اور بے رحمی کے خالق وہ ہوسکتے ہیں۔
بتول کا دل چاہا تھا، وہ ماں کو اُس لمحے بتادے کہ وہ ایک دوسرے انسان کے ساتھ کیا کربیٹھی تھی، پر اُسے خوف تھا اُس کی ماں اُسے جانور او رشیطان نہ سمجھ لے۔ پر ماں کی زبان سے اللہ وسائی کی دی گئی بددعائیں بتول کے رونگٹے کھڑے کررہی تھی۔ شادی کو دو سال سے اوپر ہوگئے تھے اور وہ اب تک بچہ پیدا نہیں کرسکی تھی۔ ہر بار وہ چند ماہ بعد اُمید سے ہوتی اور بغیر کسی وجہ کے بچہ ضائع ہوجاتا۔ کوئی احتیاط، کوئی دُعا، کوئی تدبیر کام نہ آتی اور ہر بار جب وہ اِس کرب سے گزرتی تو اُسے موتیا یاد آتی۔ اُسے اللہ وسائی اور گامو کا و ہ حال بھی یاد آتا جو وہ گاؤں والوں کی زبان سے کہیں نہ کہیں سنتی رہتی تھی۔
پورے گاؤں کو پتہ تھا وہ موتیا کی بچپن کی سہیلی تھی ، یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کہیں اللہ وسائی او رگامو کا ذکر ہوتا اور عورتوں کی نظریں بتول پر نہ اُٹھتیںِ، اُن کی زبانوں پر اُس کے لئے سوال نہ ہوتے او ر وہ اُن نظروں، اُن سوالوں سے بدک بدک کر اُٹھتی تھی، بھاگتی تھی۔ اس سوال کا وہ کسی کو کیا جواب دے سکتی تھی کہ موتیا او رچوہدری مراد کے درمیان کیا ہوا تھا۔ اُن کا پیار اور رشتہ توڑ کیوں نہیں چڑھا۔
گاؤں کی عورتوں نے تاجور سے موتیا کے کردار کے بارے میں الزامات بھی سنے تھے۔ گاؤں کے مردوں نے چوہدری شجاع کے منہ سے یہ بھی سنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کا رشتہ گامو کی بیٹی سے کرنے جارہا تھا۔ تو پھر کیا ہوا تھا؟ کون آیا تھا اُن کے بیچ؟
چار دن گاؤں کے لوگ اندھے بہرے گونگے ہوئے تھے۔ زبانوں سے چٹخارے دار باتیں کی تھیں۔ چار دن کے بعد لوگوں کی عقلیں کام کرنے لگی تھیں۔ جانتے وہ اللہ وسائی او ر گامو کو بھی تھے اور موتیا کو بھی ۔ یہ دل سے ماننے پر کوئی تیار نہیں ہورہا تھا کہ موتیا آوارہ تھی۔ پورا گاؤں اللہ وسائی اور گامو کی شرافت کے گُن گاسکتا تھا۔ پورا گاؤں موتیا کی پارسائی کی قسم بھی اُٹھا سکتا تھا، پر اُن میں سے کسی نے وقت پڑنے پر نہ اس شرافت کی گواہی دی تھی نہ اُس پارسائی کی قسم اُٹھائی تھی۔
اور اب جب وقت گزرگیا تھا تو چٹخارے لینے والی زبانوں کا مصالحہ ختم ہونے لگا تھا اور اب اُن پر کھرے کھرے سوال اور باتیں آنے لگی تھیں اور اُن کھرے سوالوں اور باتوں کے سامنے بتول کا ضمیر ٹھہر نہیں پارہا تھا۔ یا شاید ضمیر سے بڑھ کر وہ اذیت اور محرومی تھی جو اُسے بار بار کچوکے دیتے ہوئے یہ یاد دلاتی تھی کہ اُس کے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا، وہ اُس کے ”گناہ” کی ”سزا” تھی اور وہ ”سزا” دائمی بھی ہوسکتی تھی۔ سسرال والے اب اُسے طعنے دینے لگے تھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});