دانہ پانی — قسط نمبر ۷

مراد چند دنوں بعد واپس انگلینڈ چلا گیا تھا۔ اُسے اپنی ڈگری مکمل کرنی تھی۔ واپسی کے سفر میں تانگے میں بیٹھے اُسے اپنے آنے کا سفر یاد آیا تھا جو اُس نے برستی بارش میں تانگے پر ”کسی” کے ساتھ کیا تھا کسی سے بے خبر بیٹھے۔ اُسے موتیا کے بارے میں کچھ خبر نہیں تھی وہ کیسی تھی، کیسی نہیں۔ کیا کررہی تھی کیا نہیں۔ اُس کا خیال تھا وہ واپس شہر چلی گئی ہو گی اپنی میڈیکل کی تعلیم پوری کرنے۔
پر موتیا واپس شہر ڈگری کے لئے نہیں جاسکی تھی۔ گامواور اللہ وسائی اُسے علاج کے لئے شہر ، گاؤں، ہر جگہ لے کر پھرتے رہے۔ کہیں سے شفا مل جاتی، کہیں سے اُس کی زبان کا تالہ کھل جاتا۔ وہ پہلے کی طرح ہنسنے لگتی۔ اُن کی زندگی میں رونق واپس آجاتی۔
کسی ڈاکٹر، حکیم، پیر کو موتیا کی بیماری سمجھ نہیں آئی تھی۔ کوئی موتیا کو شفایاب نہیں کرسکا تھا۔ وہ طوفان گامو اور اللہ وسائی کی پوری زندگی تباہ و برباد کرکے چلا گیا تھا۔
گامو اب نہ گاؤں والوں کو پانی پلاتا تھا نہ چوہدریوں سے دانے لیتا تھا۔ وہ ریلوے اسٹیشن پرقلی کا کام کرنے لگا تھا۔ بوجھ اُٹھانا ،کسی کے رزق کے احسان اٹھانے سے بہتر تھا۔ جو کچھ وہ کما کر لاتا وہ موتیا کے علاج پر خرچ ہوجاتا۔ گامو اب حق باہو کا کلام بھی نہیں پڑھتا تھا۔ وہ جب پڑھنے لگتاتو اُس کے گلے کو پھندہ لگ جاتا تھا۔ وہ زار و زار روتا۔
”یااللہ اولاد نہ دیتا، خالی گود رکھتا یا اس بڑھاپے میں اولاد کا غم نہ دیتا !”
اُس نے اب اپنے گناہوں کی معافی مانگنا بھی چھوڑ دی تھی۔ توبہ کرنی بھی چھوڑ دی تھی۔ اُسے لگتا تھا وہ اب اتنا گناہ گار ہوچکا ہے کہ کچھ بھی کر لیتا اُس کی بخشش نہیں ہونی تھی۔ اُس کو اللہ اگر بخشش اورموتیا کی صحت میں سے کوئی ایک چیز چننے کے لئے کہتا تو گامو آنکھیں بند کرکے موتیا کی صحت چن لیتا۔ پر اُس کو اللہ نے زندگی میں کوئی انتخاب کا حق دیا ہی نہیں تھا یا کم سے کم گامو کو یہی لگتا تھا۔
چوہدریوں کے گھر نئے مہمان کی خوشخبری تھی اور یہ خبر پورے گاؤں کے ساتھ گامو اور اللہ وسائی کے گھر بھی پہنچی تھی اور اس خبر نے گامو اور اللہ وسائی کو اور غمگین کردیا تھا۔
چوہدریوں نے ظلم کیا تھا پھر بھی وہاں سب کچھ ٹھیک تھا اور وہ موتیا کا علاج کراتے کراتے تھک گئے تھے۔ وہ دونوں میاں بیوی اب ایک دوسرے سے بھی بات نہیں کرتے تھے بس وہاں بیٹھے موتیا کو دیکھتے رہے جہاں وہ بیٹھی ہوتی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اُن کے گھر اب خاموشی اور سناٹا گونجتا تھا۔ نہ اللہ وسائی گھر سجاتی تھی نہ فرش لیپتی تھی نہ چادریں کاڑھتی تھی۔ اُس گھر میں صرف موتیا گونگی نہیں ہوئی تھی اُس کے ماں باپ بھی ہوگئے تھے جن کی سانس موتیا کے دم سے چلتی تھیں اور اُس گھر میں جو کچھ ہورہا تھا اس کی خبریں حویلی بھی پہنچتی تھیں۔
گاؤں کی عورتیں تاجور کو موتیا کی حالت کے بارے میں بتایا کرتی تھیں اور تاجور انہیں توبہ کرنے کے لئے کہا کرتی تھی۔ وہ ببانگِ دہل کہا کرتی کہ یہ سب کے لئے عبرت کا مقام ہے۔ اپنی اوقات سے اونچے خواب دیکھنے کا نتیجہ ۔ عورتیں اس کی ہاں میں ہاں ملاتی تھیں پھر بعد میں اس کی بُرائی بھی کرتیں۔ تاجور کے علاوہ اس گاؤں میں کوئی ایسا نہیں تھا جو موتیا کے ساتھ یہ سب ہونے پر خوش ہوتا۔ گاؤں کے مرد چوہدری شجاع کو بھی گامو کے حالات سے آگاہ کرتے رہتے۔
چوہدری شجاع نے چند بار گامو کو حویلی بلانے کی کوشش کی۔ وہ اُس کی مدد کرنا چاہتا تھا تاکہ موتیا کا علاج ہو سکے مگر گامو اس کے لاکھ بلاووں پر بھی حویلی نہیں آیا۔ وہ رستے میں بھی کہیں چوہدری کو دیکھ لیتا توراستہ بدل لیتا۔
چوہدری شجاع کو گامو اور موتیا کے حوالے سے رنج تھا مگر وہ اب اس کی تلافی کے لئے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ چند بار اُس نے حویلی سے گامو کے لئے اناج بھیجا۔ وہ اناج گامو نے اُسی طرح واپس بھیج دیا۔
چوہدری شجاع بھی پیر ابراہیم کی طرح تاجور کو سمجھانے سے قاصر تھے جو آج بھی موتیا سے شدید نفرت کرتی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ موتیا کی وجہ سے اُس کے گھر میں دراڑیں پڑگئیں تھیں۔ زندگی میں پہلی بار اُس کا باپ اور شوہر اس سے ناراض ہوئے تھے۔ اور انہوں نے اسے بُرا کہا تھا۔
چوہدری مراد کے گھر آنے والے نئے مہمان کی خوشخبری نے یک دم حویلی میں ہر ایک کی توجہ بٹادی تھی۔ موتیا کے حوالے سے ہونے والی وہ بحث جو اکثر اوقات چوہدری شجاع اور تاجور کے درمیان رہتی تھی وہ یک دم بند ہوگئی تھی۔ چوہدری شجاع حویلی کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کروانے لگا تھا کیونکہ یہ چوہدریوں کی اگلی نسل کا استقبال کرنے کی تیاری تھی۔
مراد کو بھی تاجور نے اسی خوشی اور جوش و خروش سے اس خوشخبری کے بارے میں بتایا تھا اور پھر فون ماہ نور کو دے دیا تھا۔ مراد نے ماہ نور کو مبارکباد دی تھی اور اپنا خیال رکھنے کا کہا تھا۔
ماہ نور نے ہمیشہ کی طرح جی کہا تھا اور مراد کو اُس کے بعد اس سے کچھ کہنے کے لئے لفظ نہیں مل رہے تھے۔ اُس کے اور ماہ نور کے درمیان یہ ہمیشہ ہی ہوتا تھا۔ وہ چند دنوں بعد ماں باپ کی خیر خیریت پوچھنے کے لئے فون کرتا اور جب تاجور فون ماہ نور کو تھماتی تو اُسے دوسرے سے تیسرا جملہ نہ آتا ۔ ماہ نور اس سے کچھ بھی سننے کے لئے ترس گئی تھی۔
وہ اتنے فاصلے پر تھا کہ وہ اس سے شکایت بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ بہت مختصر وقت کے لئے فون کرتا تھا۔ پر ماہ نور وہ ساری شکایتیں تاجور سے کرتی تھی جو ہر وقت اُسے یہی کہتی کہ اولاد ہوتے ہی سب ٹھیک ہوجائے گا اور اب اولاد کی خوش خبری بھی مراد کی چپ نہیں توڑ سکی تھی۔
ماہ نور بددل ہوئی تھی۔ کچھ دور بیٹھی اُسے خاموشی سے فون کان سے لگائے دیکھتے ہوئے تاجور نے خوشی خوشی شوہر سے کہا تھا:
”دیکھا اولاد کی خوشخبری سنتے ہی کتنی لمبی باتیں کرنے لگا ہے اُس سے۔ کب سے فون کان سے لگائے بیٹھی ہے۔”
چوہدری شجاع نے مسکراتے ہوئے ایک نظر دور بیٹھی ماہ نور کو دیکھا تھا جو فون کان سے لگائے دوسری طرف کی طویل خاموشی میں کسی لفظ کی آہٹ کھوجنے کی جستجو کررہی تھی، پر مراد چپ تھا۔
اپنے کمرے کی کھڑکی کے باہر ہوتی بارش کو دیکھتے ہوئے اُس کی آنکھوں کے سامنے ایک بار پھر موتیا کی پرچھائیں لہرانے لگی تھی۔ اور یہ دن او ررات میں کئی بار ہوتا تھا۔ وہ یہاں آکر اُسے زیادہ یاد آنے لگی تھی جہاں اُس کے آس پاس نہ اس کے ماں باپ تھے نہ ماہ نور پر وہ ہوتی تھی۔
مراد کو کئی بار لگتا تھا وہ بے غیرت تھا ورنہ کوئی کسی بے وفا کے لئے تویوں نہ تڑپتا۔ وہ بار بار اپنے سامنے وہ رات لاکر کھڑی کرلیتا جب اس نے موتیا کے ساتھ سعید کو دیکھا تھا۔ اور ہر بار غصّے سے پاگل ہوجانے کے بعد اُسے یقین ہوتا کہ ”وہ” اب توکبھی یاد آئے گی ہی نہیں۔ پر وہ پھر آکر سامنے کھڑی ہوجاتی۔ پانی پیتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیتی ۔ کھانا کھاتے ہوئے اس کے منہ میں لقمے ڈالنے لگتی۔ وہ کوئی پھول دیکھتا تو اُسے موتیا یاد آتی، وہ کوئی خوشبو لگاتا تو وہ خوشبو موتیا کی خوشبو میں بدل جاتی۔
”کچھ وقت گزرے گاپھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔” وہ بار بار خود کو تسلی دیتا۔
جو پوری دُنیا کے ساتھ ہوتا تھا اُسے یقین تھا کہ اُس کے ساتھ بھی وہی ہوگا۔ وقت سب کچھ بھلادے گا بس کچھ وقت لگے گا۔ اور دل اس کی ساری تاویلیں اور بہانے سنتے ہوئے بس ایک ہی بات پوچھتا رہتا۔
”کتنا وقت؟ چند ہفتے، مہینے، سال؟”
مراد دل کی بات کا کیا جواب دیتا جو ایک طرف اس کوبھول جانے کی مدت پوچھتا تھا، دوسری طرف اس سے جدائی کی ساعتیں گنتا رہتا تھا۔
…٭…
”بتول اب آئی ہے تو موتیا سے ملنے چلتے ہیں۔” شکوراں نے بتول سے کہا تھا جو اُس کے پاس کئی مہینوں بعد رہنے کے لئے آئی تھی۔
”میں ایک آدھ بار گئی ہوں ان کی طر ف پر مجھ سے تو ملتی ہی نہیں اللہ وسائی۔ مجھے پھر بھی بڑا ترس آتا ہے ان پر۔ جو ان بیٹی پاگل ہوجائے تو اس کا غم بہت بھاری ہوتا ہے اور بیٹی بھی موتیا جیسی۔” بتول شکوراں کی باتیں سن رہی تھی پھر پاگل کے لفظ پر جیسے چونکی تھی۔
”کس نے کہا کہ پاگل ہوگئی؟”
”ڈاکٹروں نے۔ گامو شہر لے کر گیا تھا اُسے پر شہر کے ڈاکٹروں کو سمجھ ہی نہیں آئی اس کی بیماری۔ انہوں نے کہا کہ پاگل ہوگئی ہے اسے اب کچھ یاد نہیں۔ یاداشت ختم ہوگئی ہے اس کی۔” شکوراں نے گاؤں میں سنی سنائی باتیں بیٹی کو بھی سنادی تھیں اور وہ اب بے قراری کے عالم میں اپنی انگلیاں چٹخانے لگی تھی۔
”پاگل کیسے ہوسکتی ہے امّاں؟ موتیا تو۔۔۔” اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ماں کو اُس کے پاگل نہ ہونے کی کیا دلیل دے ۔
”ہو جاتا ہے بندہ پاگل جب کوئی دھوکا دے دے۔ پاگل ہونے کے لئے کون سی لکھت پڑھت کرنی پڑتی ہے۔” شکوراں کا سادہ سے لہجے میں کہا گیا جملہ تیر کی طرح بتول کے دل پر لگا تھا۔
”دھوکہ تو اُسی نے دیا تھا اُسے پر اُسے یہ پتا تو نہیں تھا کہ موتیا اس غم کو اس طرح۔۔۔” بتول سوچتی اور انگلیاں چٹخاتی رہی۔
”اور بتول تونے کسی ڈاکٹر کو دکھانا تھا سعید کے ساتھ اتنی بار تو شہر گئی ہے تو۔ کوئی خوشخبری آجاتی تیری بھی۔ اتنے مہینے ہوگئے ہیں۔ اب تو گاؤں والے پوچھتے ہیں مجھ سے۔ تیرے ساتھ ہی شادی ہوئی تھی ماہ نور بی بی کی اور کتنی جلدی گود ہری ہوگئی ہے۔” شکوراں نے اچانک ہی موضوع بدلا اور بتول بُری طرح چڑی۔
”بس کر امّاں !ساس اور سسرال والوں نے بھی جان کھائی ہوئی ہے میری یہی کہہ کہہ کے۔ اب نہیں ہورہا بچہ تو میں کیا کروں۔” وہ بڑے غصّے میں ماں سے کہہ کر صحن سے اُٹھ کر چلی گئی اور جیسے شکوراں کو فکر مند کرگئی۔
…٭…
”پھوپھو مجھے اپنے کمرے میں رات کو موتیا کی خوشبو آتی ہے۔ مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔” ماہ نور کے حمل کے آخری مہینے چل رہے تھے جب ایک صبح اُس نے بڑی پریشانی سے تاجور کو بتایا تھا۔ تاجور پریشان ہوگئی۔
”مجھے کیوں نہیں بتایا تو نے پہلے میں تیرے ساتھ سوجاتی رات کو۔”
”بس ایسے ہی پھوپھو! میں نے سوچا وہم ہوگا میرا پر وہم نہیں ہے۔” ماہ نور نے اُس سے کہا۔
”بیٹا! وہم ہی ہوگا۔ اس حالت میں عورتوں کو عجیب عجیب خوشبوئیں آنے لگتی ہیں پر میں آج سے تمہارے ساتھ سویا کروں گی کمرے میں اور ساتھ پڑھائی بھی کروں گی ۔ تم دیکھنا کچھ نہیں ہوگا وہم ہی نکلے گا تمہارا۔” تاجو رنے اُسے تسلی دی تھی اور ماہ نور نے مطمئن نظر آنے کی کوشش کی تھی۔
تاجور اُس رات اس کے ساتھ سوئی تھی اور آدھی رات کو وہ گہری نیند میں تھی جب ماہ نور نے اُس کا کندھا ہلا کر اُسے جگایا تھا۔ تاجور نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دی تھیں لیکن اُسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ ماہ نور نے اُسے کیوں جگایا تھا۔
”پھوپھو! موتیا کی خوشبو آ رہی ہے۔ آپ کو آرہی ہے؟” تاجور نے کہنے کی کوشش کی تھی کہ وہاں کوئی خوشبو نہیں تھی اور وہ ماہ نور کا وہم تھا پر یہ کہنے کے لئے منہ کھولتے ہی تاجور نے موتیا کی وہی خوشبو محسوس کی تھی۔ ماہ نور ٹھیک کہہ رہی تھی ۔ کمرے میں موتیا کی خوشبو آرہی تھی۔ تاجور اُٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ نیند یک دم کسی بھوت کی طرح غائب ہوگئی تھی۔
”کہاں سے آرہی ہے یہ خوشبو ؟” تاجور نے عجیب بڑبڑانے والے انداز میں کہا تھا اور ماہ نور کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر خوف تھا۔ تاجور نے اُٹھ کر سردی میں بھی کمرے کی کھڑکیاں کھولنے کی کوشش کی تھی۔
”ابھی ہوا بھرے گی تو ٹھیک ہوجائے گا کمرہ ۔” تاجو رنے ماہ نور کو جیسے تسلی دینے والے انداز میں کہا تھا۔ ماہ نور نے جواباً تاجور سے کہا۔
”پھوپھو! خوشبو اوربڑھ گئی ہے۔” تاجور نے ایک گہرا سانس لے کر جیسے ہوا کو سونگھنے کی کوشش کی تھی۔ موتیا کی خوشبو اب واقعی تیز ہوگئی تھی۔ تاجور نے کھڑکیوں کے باہر جھانکنے کی کوشش کی ۔ اُسے لگا شاید وہاں کوئی موتیا کے پودے ہوں گے وہاں کوئی پودا نہیں تھا۔
”پھوپھو! موتیا کے پھول اس موسم میں نہیں نکلتے۔” اس نے عقب میں ماہ نور کی آواز سنی تھی اور پلٹ کر اس کو دیکھا تھا۔ ہاں وہ تو یہ بھول ہی گئی تھی۔
”لوگ کہتے ہیں موتیا پاگل ہوگئی ہے مگر مجھے پورا یقین ہے یہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بیٹھی جادو ٹونہ کررہی ہے ہم پر۔” تاجور نے طیش کے عالم میں کہا تھا ۔ اُس کے ذہن میں جادو ٹونے کے علاوہ کسی چیز کا خیال ہی نہیں آسکتا تھا۔
”تو آج سے مراد کے کمرے میں نہیں سوئے گی ماہ نور! میں تیرے لئے دوسرا کمرہ تیار کرواتی ہوں ۔ اللہ ایسے حاسد اوربد فطرت لوگوں کو تباہ کرے جو میری اگلی نسل پر نظر یں گاڑے بیٹھے ہیں۔” تاجور غضب کے عالم میں ماہ نور کا ہاتھ پکڑے مراد کے کمرے سے نکل گئی تھی۔ کمرہ اب بھی موتیا کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ سردیوں میں بھی وہاں موتیا کا راج تھا۔
…٭…
تاجور کو وہ خوشبو یاد رہی تھی اور جادو ٹونے کے حوالے سے اپنا وہم بھی۔ اُس نے مراد کا بیٹا پیدا ہونے پر گاؤں میں ڈھول والوں کے ساتھ مٹھائی کے ٹوکرے بھیج کر پورے گاؤں میں پھرنے کا کہا تھا اور اُنہیں خاص طور پر گامو کی گلی سے گزرنے کا کہا تھا۔
گامو کی گلی میں تقریباً ایک سال بعد وہ تماشا پھر دُہرایا گیا تھا۔ ڈھولوں کی تھاپ پر گھنگھرو باندھ کر ناچتے خواجہ سرا گاؤں والوں کو پکڑ پکڑ کر مٹھائیاں کھلاتے اور گانے گاتے رہے جس میں چوہدریوں کی اگلی نسل کی لمبی زندگی اور عروج کی دُعائیں تھیں۔
گامو اللہ وسائی اور موتیا کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے بند کرکے بیٹھا باہر سے آنے والی اُن آوازوں اور ڈھول تاشوں کو سنتا ہوا موتیا کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ شور بڑی دیر تک اُن کے گھر کے باہر برپا رہا۔
”اللہ کے گھر انصاف نہیں ہے اللہ وسائی!”
اس رات اس نے زندگی میں پہلی بار اللہ وسائی سے ”کفر” کی بات کہی تھی اور اللہ وسائی اُسے جواباً یہ بھی نہیں کہہ سکی کہ گامو کفر نہ بول۔
”ہاں گامو! یا پھر ہم بھی اتنے گناہ گار ہیں کہ اللہ کا انصاف ہمارے لئے یہی ہے۔” اُس نے جواباً گامو سے کہا تھا۔
”تو گناہ گاروں کو تو مرجانا چاہیے۔ چل اللہ وسائی ہم مرجاتے ہیں۔” اللہ وسائی نے بے یقینی سے اُسے دیکھا تھا۔
”تو اور میں؟” اُس نے اب بھی شوہر سے یہ نہیں کہا تھا کہ تو کیسی باتیں کررہا ہے۔
”نہیں موتیا بھی۔”
اللہ وسائی اور وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے پھر اللہ وسائی نے اُس سے کہا:
”موتیا کوکون مارے گا؟” گامو اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اُس نے کہا۔
”تُو!”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تحفۂ محبت — لعل خان

Read Next

مستانی — منظر امام

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!